میں یہ امر فراموش نہیں کر سکتا کہ غیرت بریگیڈ کے اخلاقی جہاد کے نتیجے میں ہم کس خوف کے ساتھ یونیورسٹی میں اپنی جوانی کے بہترین سال برباد کر کے نکلے۔
یہ فروری 2007 کی ایک سہ پہر کا ذکر ہے جب پہلی مرتبہ مجھے تعلیمی اداروں کی غیرت بریگیڈ کے ہاتھوں تذلیل کا سامنا کرنا پڑا۔ میں اپنی ایک ہم جماعت کے ساتھ اسلامیہ یونویرسٹی نیوکمیپس میں اکٹھے بیٹھ کر چائے پینے جیسی “مخرب الاخلاق” حرکت کا مرتکب ہوا تھا جس کی پاداش میں انجمن طلبہ اسلام کے مجاہدین نے سرعام ہمیں نہ صرف بے عزت کیا بلکہ گالم گلوچ بھی کی۔ میں اس لمحے اپنی ہم جماعت کے چہرے پر در آنے والے احساس ذلت اور گھر پہنچ کر بھیجے گئے اس کے ایس ایم ایس کو کبھی فراموش نہیں کر سکوں گا۔ میں یہ امر بھی فراموش نہیں کر سکتا کہ ڈگری کے آغاز پر ہی سرعام تذلیل کا جو طوق ہمارے گلے میں ڈالا گیا اس سے نکلنے میں ہمیں کتنا وقت اور دقت پیش آئی اور غیرت بریگیڈ کے اخلاقی جہاد کے نتیجے میں ہم کس خوف کے ساتھ یونیورسٹی میں اپنی جوانی کے بہترین سال برباد کر کے نکلے۔
ایسا ہی معاملہ تب بھی درپیش آیا جب جامعہ پنجاب میں میری بہن نے اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لیا اور اسے اس کے چند ہم جماعت طلبا و طالبات کو ایس ٹی سی (سٹوڈنٹ ٹیچر سنٹر) کے راستے میں روک کر سڑک پر دو مختلف سمتوں میں جانے پر مجبور کیا گیا، میری بہن کا احساس ذلت میری ہم جماعت سے مختلف نہیں تھا۔ ان دونوں کو غیرت بریگیڈ نے یہ پیغام دیا تھا کہ تمہارا عورت ہونا تمہیں اچھوت بناتا ہے اور مردوں کے ساتھ تمہارا اٹھنا بیٹھنا تمہارا کردار مشکوک بناتا ہے۔ اسی سمیسٹر میں محض اس بناء پر انہیں تفریحی دورے کو ملتوی کرنا پڑا کیوں کہ اسلامی جمعیت طلبہ “مخلوط” دورے کی “اجازت” دینے کو تیار نہیں تھی۔ اس کے بقول اسے اور اس کے ہم جماعتوں کو ایک کینٹین، ایک راستے، ایک بس اور ایک سبزہ زار میں بیٹھنے کی اجازت نہیں حتیٰ کہ بہت سے مقامات پر تو وہ ایک دکان سے فوٹو کاپی تک نہیں کرا سکتے۔ کچھ عرصہ پہلے یہ جان کر حیرت اور افسوس ہوا کہ ہیلی کالج میں بعض کورسز میں مخلوط تعلیم نہیں دی جاتی اور وہاں کی انتظامیہ اور اساتذہ اس امر پر فخر کرتے رہے ہیں۔
اساتذہ کا یہ رویہ صرف سرکاری یا مخلوط تعلیمی اداروں تک محدود نہیں، ہم نے تو بوائز سکول میں بھی اساتذہ کو لڑکوں کے “پف” کاٹتے دیکھا ہے اور گرلز سکول میں رنگین جرابوں یا مہندی لگے ہاتھوں پر جرمانے سنے ہیں۔
جامعہ پنجاب سمیت ملک کی چند سرکاری جامعات کے بعض تعلمی شعبے تو ایسے ہیں جہاں ایک لائبریری میں بھی طلبا و طالبات کا اکٹھے بیٹھنا منع ہے۔ یہ خبر بھی سنی کہ شعبہ ابلاغی علوم جامعہ پنجاب میں ایک عرصے تک کینٹین اس لیے نہیں بنائی گئی کہ وہاں لڑکے لڑکیاں اکٹھے بیٹھ کر کھانے جیسی “غیر اخلاقی” حرکت کر سکتے ہیں۔ کینٹین بننے کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ کے مجاہدین نے اس میں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے الگ جگہ کا مطالبہ شروع کیا۔ اور یہ تو نسبتاً حال کا ہی واقعہ ہے کہ کراچی میں طلبا و طالبات کے اکٹھے کرکٹ کھیلنے پر جامعہ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی غیرت بریگیڈ نے طالبات کو ہراساں کیا اور بعض طلبہ کو زدوکوب بھی کیا۔ گزشتہ دنوں موسیقی سننے پر اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے بلوچ طلبہ پر تشدد بھی غیرت بریگیڈ کی مسرت مخالف جہادی سرگرمیوں کا حصہ ہی ہے۔
ویلنٹائن ڈے پر یوم حیاء کا زبردستی انعقاد بھی اسی غیرت بریگیڈ کی اختراع ہے جو نہایت بے شرمی سے راہ چلتے لڑکے لڑکیوں کو باربار یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا جوان ہونا، کسی سے دوستی کرنا، بات چیت کرنا، اکٹھے بیٹھنا اٹھنا، اچھے کپڑے پہننا اور کھل کر سانس لینا سب جرم ہے۔ بدقسمتی سے تعلیمی اداروں کی یہ غیرت بریگیڈ مذہبی طلبہ جماعتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس غیرت بریگیڈ کی صفوں میں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور اساتذہ بھی شامل ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی کے ایک بزرگ استاد ریسرچ کی کلاس میں طالبات کو دوپٹہ لینے اور طلباوطالبات کو الگ الگ قطاروں میں بیٹھنے کا باقاعدہ درس دیا کرتے تھے۔ ہماری ایک خوش شکل خاتون لیکچرر اور ساتھی طالبات کے لباس اور حلیے کو جس طرح وہ تنقید کانشانہ بناتے رہے وہ نہایت تکلیف دہ تجربہ تھا۔ جینز پہننے والی طالبات کے حوالے سے ہمارے اساتذہ اور انتظامیہ کا رویہ جس قدر واہیات ہے وہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہم نے اپنے تعلیمی اداروں میں ایسے دروس ہائے قرآن بھی سنے ہیں جن میں خواتین کے لباس، خوشبو اور چال ڈھال کی بناء پر انہیں خدا کے ہان معتوب قرار دلانے کے سوا کوئی بات نہیں کی جاتی تھی۔ اساتذہ کا یہ رویہ صرف سرکاری یا مخلوط تعلیمی اداروں تک محدود نہیں، ہم نے تو بوائز سکول میں بھی اساتذہ کو لڑکوں کے “پف” کاٹتے دیکھا ہے اور گرلز سکول میں رنگین جرابوں یا مہندی لگے ہاتھوں پر جرمانے سنے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ والدین اور معاشرہ بھی ایسی تنظیموں کی جانب سے “اخلاقیات” کے نفاذ کی حمایت کرتے ہیں۔ میں نے خود کئی احباب کو غیرت بریگیڈ کے حق میں اس قسم کے لغو دلائل دیتے سنا ہے کہ “اگر جمعیت نہ ہوتی تو پنجاب یونیورسٹی میں کسی کی بہن بیٹی کی عزت محفوظ نہ ہوتی۔”
ہماری بعض سرکاری جامعات کا ماحول اس قدر حبس زدہ ہے کہ وہاں تحقیق اور جستجو کی بجائے ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں صنف مخالف سے آپ کا درمیانی فاصلہ “قابل اعتراض” حد تک کم نہ ہو جائے۔
یہ درست ہے کہ تعلیمی اداروں میں تدریسی سرگرمیاں ہی طلبہ کی زندگی کا محور ہونی چاہیئں لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ انہیں ایک ایسے ماحول میں رکھ کر پڑھایا جائے جہاں ایک غیرت بریگیڈ ہمہ وقت آپ کے میل جول، آمدورفت اور لباس کے حوالےسے آپ پر نظر رکھے ہوئے ہو؟ کیا ہمارے والدین، معاشرہ اور تعلیمی ادارہ ہماری سوجھ بوجھ پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں کہ ہم بالغ ہونے کے ناطے اپنا اچھا برا سمجھتے ہیں اور لوگوں سے میل جول رکھنے کی اخلاقیات سے واقف ہیں؟
ہماری بعض سرکاری جامعات کا ماحول اس قدر حبس زدہ ہے کہ وہاں تحقیق اور جستجو کی بجائے ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں صنف مخالف سے آپ کا درمیانی فاصلہ “قابل اعتراض” حد تک کم نہ ہو جائے۔ نوٹس کے تبادلے کے دوران کہیں کسی کی نظر آپ پر نہ پڑ جائے اور کہیں سالانہ تقریبات کے دوران موسیقی کا اہتمام کسی کو ناگوار نہ گزرے۔ عین ممکن ہے کہ مخلوط ماحول میں پڑھنے والے طلبا وطالبات آپس میں ایک دوسرے کے لیے کشش محسوس کریں، ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہو جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے چند ایک سماجی طور پر ناقابل قبول سرگرمیوں میں بھی ملوث ہو جائیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں ہمہ وقت اسلامی جمعیتوں، انجمنوں، امامیہ سٹوڈنٹ آرگنائزیشنوں اور استادوں کی نگرانی میں ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ جب تک کوئی تفریحی یا سماجی سرگرمی کسی طالب کی انفرادی تعلیمی کارکردگی یا دیگر طلبہ کی تعلیمی سرگرمیوں میں مداخلت کا باعث نہیں بنتی اس پر پابندی عائد کرنا غلط ہے بلکہ ایسی پابندیاں نوجونوں کے فکری ارتقاء میں سب سے بڑی روکاوٹ ہیں۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کلاس چھوڑ کر کیفے ٹیریا میں بیٹھنا غلط ہے لیکن یہ ضابطہ جاری کرنا کہ کیفے ٹیریا میں لڑکے لڑکیوں کا اکٹھے بیٹھنا منع ہے کسی طرح درست نہیں ہو سکتا، آپ یہ حکم نامہ جاری کر سکتے ہیں کہ سپیکر کی ایک خاص حد سے اونچی آواز ممنوع ہے لیکن موسیقی سننے سے منع کرنا ہر طرح سے غلط ہے۔ آپ یہ تاکید کر سکتے ہیں کہ طلبہ کو اپنا زیادہ تر وقت تدریسی اور علمی سرگرمیوں میں صرف کرنا چاہیئے لیکن یہ کہنا کہ انہیں ایک ساتھ بس میں، کینٹین میں یا کمرہ جماعت میں بیٹھنے کی اجازت نہیں سراسر شخصی آزادی کی نفی ہے۔ آپ طالب علموں کے لیے باقاعدہ وردی کے حق میں دلائل دے سکتے ہیں مگر جینز پہننے پر ممانعت کس طرح درست ہو سکتی ہے؟ آپ ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کر سکتے ہیں، حیا ڈے منا سکتے ہیں لیکن راہ چلتے لڑکے لڑکیوں کو مذہب، اخلاقیات اور حیاء کے نام پر زبردستی علیحدہ کرنے اور ہراساں کرنے کا جواز کیا ہے
One Response
very good