Laaltain

طالبات اور شدت پسندی، آمنے سامنے

3 نومبر, 2015
Picture of حمزہ بن طارق

حمزہ بن طارق

جمعیت کے غنڈوں کی جانب سے ایک خاتون کا حجاب کهینچنا اور تین طالبات کو طمانچے اور ڈنڈے مارنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ بھی طالبان یا داعش سے کم شدت پسند نہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ خواتین کو چار دیواری میں محدود کردیا جائے اور انہیں ہراساں کر کے قابو میں رکها جائے۔
“جمعیت کے غنڈوں کی جانب سے ایک خاتون کا حجاب کهینچنا اور تین طالبات کو طمانچے اور ڈنڈے مارنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ بھی طالبان یا داعش سے کم شدت پسند نہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ خواتین کو چار دیواری میں محدود کردیا جائے اور انہیں ہراساں کر کے قابو میں رکها جائے۔” 29 اکتوبر کو کرکٹ کھیلنے والی طالبات پر اسلامی جمعیت طلبہ کے حملے خلاف احتجاجاً کرکٹ کھیلنے والی طالبات نے لالٹین سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا۔ جمعیت کے اس حملے کے نتیجے میں ایک طالب علم ثاقب زخمی ہوا تھا جبکہ تین طالبات کے ساتھ مار پیٹ کی گئی تھی۔ حملے کے ردعمل میں مختلف تدریسی شعبوں سے تعلق رکھنے والی یہ طالبات2 نومبرکو جامعہ کراچی کے ایڈمن بلاک کے سامنے احتجاجی کرکٹ میچ کھیلنے کو جمع ہوئیں ۔ طالبات نے اس موقع پر کرکٹ کھیلنے کے ساتھ ساتھ اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف احتجاج بھی کیا اور اپنی آزادی برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔

تصویر نمبر 1

جمعیت اراکین کی جانب سے ہنگامہ آرائی کے بعد ‘دباو میں آ کر’ انتظامیہ نے طالبات کے کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگا دی ہے جس پر طلبہ کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا ہے۔

 

‘شدت پسندی کے خلاف ڈٹ جانے والی یہ طالبات’ اپنی مرضی سے جینے اور فیصلے کرنے کے حق کے لیے اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ کرکٹ کھیل کر اسلامی جمعیت طلبہ کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ وہ آزاد ہیں اور ان کی آزادی چند مذہبی شدت پسند سلب نہیں کر سکتے۔ ماہرین سماجیات کے مطابق اس کی بڑی وجہ مردانہ برتری کے فرسودہ تصورات اور آزادی نسواں سے متعلق پائے جانے والی عدم برداشت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشرہ خاص کر مردجب تک عورت کو مساوی، فعال اور آزاد حیثیت میں تسلیم نہیں کریں گے تب تک تعلیمی اداروں میں بھی صورت حال بہتر نہیں ہو گی۔ تاہم کراچی یونیورسٹی کے سب مرد طلبہ قدامت پسند نہیں، کرکٹ کھیلنے والی طالبات کے ہمراہ اظہار یکجہتی کے لیے بہت سی طلبا بھی شریک ہوئے اور انہوں نے طالبات کے تحفظ کے لیے بھی اقدامات کیے۔ جمعیت اراکین کی جانب سے ہنگامہ آرائی کے بعد ‘دباو میں آ کر’ انتظامیہ نے طالبات کے کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگا دی ہے جس پر طلبہ کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے تاحال اس پابندی کےحوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

تصویر نمبر 2

 

اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو جمعیت کی جانب سے مزید دباوکا سامنا بھی کرنا پڑا۔ احتجاجی کرکٹ میچ کے دوران جمعیت کے اراکین نے ایک مرتبہ پھر طالبات کو کھلے عام کھیلنے سے زبردستی روکنے کی کوشش کی تاہم انہیں طلبہ کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کرکٹ کھیلتی طالبات کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے والے ایک رکن جمعیت کو طالبہ نے تھپڑ بھی رسید کیا۔ طلبہ نے جمعیت پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا۔

تصویر نمبر 3

 

جمعیت کی جانب سے طلبہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کے دوران انتظامیہ کا رویہ جانبدارانہ رہا۔موقع پر موجود طلبہ کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے جامعہ کے تمام داخلی دروازے بند کر دیئے، کرکٹ میچ رکوا دیا اور صحافیوں کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی۔ طلبہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ رینجرز کا رویہ خاموش تماشائی کا رہا ہے انہوں نے جمعیت کی ‘غنڈہ گردی’ سے طلبہ کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ لالٹین سے گفتگو کرنے والے طلبہ کے مطابق انتظامیہ اور یونیورسٹی میں تعینات رینجرز انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں،”جامعہ میں رینجرز کی بهاری نفری تعینات ہے مگر اسٹاف کالونی کے مکانات پر قبضے کے علاوہ وہ کچھ نہیں کر رہے اور انتظامیہ بهی مجرمانہ طور پر خاموش ہے”۔
طالبات کا کہنا تها کہ ہم نے اپنا ہدف حاصل کر لیا ہے، ہم یہ باور کرانے میں کامیاب رہے ہیں کہ اسلامی جمعیت طلبہ ہماری آزادی ہم سے نہیں چھین سکتی۔

 

اسلامی جمعیت طلبہ کے ذرائع نے جمعیت اراکین کی جانب سے کسی طالبہ کے ساتھ بدتمیزی یا مارپیٹ کی تردید کی ہے تاہم انہوں نے تعلیمی اداروں میں ‘مخرب الاخلاق’ سرگرمیوں کی روک تھام کے عزم کا اظہار کیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے سیکرٹری اطلاعات ساجد خان نے طالبات کو ہراساں کرنے کی اطلاعات کی تردید کی اور کہا کہ اس حوالے سے الزمات بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے طالبات کو کرکٹ کھیلنے سے منع کرنے کی خبر کو بھی غلط قرار دیا۔
کراچی یونیورسٹی میں اسلامی جمیعت طلباء کے ناظم قاضی عبدالحسیب نے اس پورے معاملے ہی کو رد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جمیعت ہر سال اسپورٹس ڈے مناتی ہے جس میں طالبات بھرپور انداز میں شرکت کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں نہ تو طالبات کے کرکٹ کھیلنے پر اعتراض ہے اور نہ ہی اس کے کسی کارکن نے کسی پر کوئی تشدد کیا ہے۔ دوسری جانب طالبات کا کہنا تها کہ ہم نے اپنا ہدف حاصل کر لیا ہے، ہم یہ باور کرانے میں کامیاب رہے ہیں کہ اسلامی جمعیت طلبہ ہماری آزادی ہم سے نہیں چھین سکتی۔ تاہم طالبات نے انتظامیہ کی جانب سے خواتین کے کرکٹ کھیلنے پر پابندی کی اطلاع کو مایوس کن قرار دیا ہے ۔ بہت سے طلبہ کے مطابق وہ اس فیصلے کے خلاف احتجاج کریں گے۔کرکٹ کھیلنے کے بعد طالبات کی ایک بڑی تعداد نے جامعہ میں موجود ڈهابوں کا رخ کیا اور اپنی آزادی کا جشن منایا۔ ان طالبات کے مطابق اب وہ خود کو زیادہ پراعتماد محسوس کر رہی ہیں۔

ہمارے لیے لکھیں۔