Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

تحریک انصاف میں موروثی سیاست

test-ghori

test-ghori

03 ستمبر, 2015
لاکھوں نوجوانوں کے ہردلعزیز رہنما عمران خان نے 2013کے عام انتخابات کی مہم کے دوران جلسوں اور جلوسوں سمیت پاکستانی روایتی سیاست کا انداز مکمل طور پر تبدیل کر دیاتھا۔ لاہور، کراچی، فیصل آباد، پشاور اور مردان سمیت ملک کے جس کونے میں خان صاحب مہم کے سلسلے میں گئے لاکھوں کا مجمع جمع کیا ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے جلسوں نے کسی حد تک زلفی بھٹو کی یاد تازہ کی تھی۔ جب بھٹو مرحوم روایتی سیاست اور سیاسی جادوگروں کے خلاف پنجہ آزمائی کررہے تھے اور اسلامی اشتراکیت کے نام پر لوگوں کو اکٹھا کررہے تھے تو ان کے جلسوں میں بھی ایسا ہی جوش و خروش دیکھنے کو ملتا تھا۔ مغربی پاکستان کے عوام جو ایک فوجی جرنیل اور اس کے کاسہ لیسوں کے طرز حکم رانی سے عاجز آ گئے تھے بھٹو کے پیچھے دیوانہ وار بھاگنے لگے۔ اگرچہ روٹی ،کپڑا اور مکان بھی بعد میں سراب ثابت ہوا لیکن بھٹو کا طرزسیاست عوامی سیاست کی بنیاد ڈال گیا۔ شکر ہے کہ ہمارے عوام ہر ناکامی کی ذمہ داری خدا کی مرضی پر ڈال دیتے ہیں ورنہ ہو سکتا ہے کہ نہ بھٹو اب تک زندہ ہوتا اور نہ عمران خان صاحب کے جلسوں میں رونق ہوتی۔
اگرچہ تحریک انصاف کے متوالوں کا جنون اور دیوانہ پن ابھی تک جوان ہے لیکن مجھے خدشہ ہے کہ کم از کم خیبر پختونخوا میں یہ چکا چوند ماند پڑنے کو ہے۔
تبدیلی اور مورثی سیاست کا خاتمہ پی ٹی آئی کا منشور اور نعرہ ہوا کر تا تھا اور اب بھی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ وعدے بھی محض ڈھکوسلے ہی ثابت ہوئے۔ خان صاحب کے آمرانہ رویے اور جماعت میں شامل ہوجانے والے لوٹوں نے اس جماعت کو بھی روایتی اور موروثی سیاست کی راہ پر گامزن کردیاہے۔ اگرچہ تحریک انصاف کے متوالوں کا جنون اور دیوانہ پن ابھی تک جوان ہے لیکن مجھے خدشہ ہے کہ کم از کم خیبر پختونخوا میں یہ چکا چوند ماند پڑنے کو ہے۔ اس کی بنیادی وجہ پی ٹی آئی کااپنے نظریات سے روگردانی کرنا ہے۔مورثی سیاست کی بدترین مخالف جماعت نے حال ہی میں بلدیاتی انتخابات کے دوران وہ سب کچھ کیا جو پاکستان کی دوسری کرپٹ اور بدعنوان سیاسی جماعتوں کا خاصہ ہے۔ نوے روز میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا وعدہ کرنے والی جماعت نے اس وعدے کی تکمیل میں ڈھائی برس لگا دیئے۔ انتخابات کے دوران اقربا پروری عروج پرتھی۔
موروثی سیاست بتدریج تحریک انصاف میں سرایت کرتی جارہی ہے۔ ضلع اور تحصیل ناظمین کے چناو کے دوران خیبر پختونخواکے وزیر اعلیٰ نے اپنے بھائی کو اپنے آبائی ضلع کا ناظم نامزد کیا کیوں کہ خٹک صاحب نے مستقبل میں بھی سیاست کرنی ہے اور اس کے لیے ضلعی انتظامیہ کو اپنے ہاتھ میں رکھنا ضروری ہے۔صوبائی وزیر علی امین گنڈا پور کے بھائی ڈی آئی خان کے تحصیل ناظم، صوبائی وزیر امتیاز قریشی کے بھائی کوہاٹ کے ضلعی ناظم ، ٹانک سے ممبر قومی اسمبلی کے بھائی مصطفیٰ کنڈی ناظم، ایم پی اے احتشام اکبر کے چچا تحصیل ناظم، ایم پی اے سمیع اللہ علیزئی کے کزن عزیز اللہ ضلع ناظم اورپی ٹی آئی چارسدہ کے عہدیدار اور صوبائی نشست کے امیدوارطارق اعظم کابھتیجا اپنے حلقے ناظم منتخب ہوا ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے دوران ٹکٹوں کی تقسیم منصفانہ نہیں تھی بلکہ تحریک انصاف کے عہدیداروں نے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر لوگوں کو ٹکٹ دلوائے
بلدیاتی انتخابات کے دوران ٹکٹوں کی تقسیم منصفانہ نہیں تھی بلکہ تحریک انصاف کے عہدیداروں نے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر لوگوں کو ٹکٹ دلوائے۔بنی گالہ میں خصوصی اثرورسوخ کے حامل وزیر تعلیم عاطف خان نے دو مرتبہ عام انتخابات ہارنے والے صاحب کومردان کا ناظم اعلیٰ بنانے کی تجویز دی تھی ۔ انتخابات کے دوران تحریک انصاف میں موجود دھڑے بندی بھی کھل کر سامنے آئی۔ مردان سمیت بیشتر اضلاع میں اراکین اسمبلی اور عام کارکنان ناظمین کے چناؤ کے سلسلے میں ایک صفحے پر نہیں تھے۔ سرکردہ رہنماوں کے مابین بھی اختلافات نظر آئے جو وقت گزرنے کے ساتھ شدید ہونے کا اندیشہ ہے۔
پاکستانی سیاست 2013سے پہلے جہاں تھی وہیں واپس لوٹ آئی ہے۔ مجھ جیسے احمق جو یہ سوچ رہے تھے کہ عمران خان نے سیاست کو ڈرائنگ رومز سے نکال کر عام لوگوں کو شعور دیاہے ان کی آنکھیں بھی کھل گئی ہیں۔ بنی گالہ کے غلط فیصلوں نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ بلاول ہاؤس، مسلم لیگ ہاؤس اور پختونخوا ہاؤس والوں کی طرح پی ٹی آئی کا بھی ایک کیمپ ڈیوڈ ہے جہاں پر سادہ لوح عوام کو ماموں بنایا جاتا ہے۔
مزے کی خبر تو یہ ہے کہ عمران خان نے ناظمین کے انٹرویو خود کیے تھے لیکن ہوا وہی جو ہوتا آیا ہے یعنی کارکن نظر انداز کر دیئے گئے اور سفارشیوں کو نوازدیا گیا۔ پشاور سے تحریک انصاف کے فعال کارکن بیرسٹر یونس ظہیر کے ساتھ ایسا ہی ‘ہتھ’ ہوا ہے۔ یونس کے ساتھ پی کے 2 کا ٹکٹ دینے کا کا وعدہ کیا گیا لیکن پھر این اے 1کے ضمنی انتخاب پر ٹرخا دیاگیا۔ اور بالآخر اعلیٰ تعلیم یافتہ یونس ظہیر کو باؤنڈری کے اس پار بارہواں کھلاڑی بنا کر دھکیل دیاگیا ۔ ڈرون حملوں کے خلاف پشاور میں کئی ماہ جاری رہنے والا دھرنا یونس ظہیر نے کامیا ب کرایا تھا لیکن اسے اس کی کارکردگی کا خاطر خواہ صلہ نہیں دیا گیا۔
ان حالات میں لگتا ہے کہ واحد تبدیلی جو تحریک انصاف کی وجہ سے آئی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے جلسوں میں ڈھول بجتے تھے اور اب ڈی جے سسٹم چلایا جائے گا
تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ چکی ہے۔ یہ نعرہ بھی سراب ثابت ہوا ہے صحت اور تعلیم میں تبدیلی کےبلند بانگ وعدےمحض انتخآبی شور ثابت ہوئے ہیں۔ میں نے بنی گالہ تک رسائی رکھنے والے ایک صاحب سے پوچھا کہ تعلیم کے شعبے میں پی ٹی آئی کس قسم کی تبدیلی لائے گی تو جناب گویا ہوئے کہ “ہیلی کاپٹر والے صاحب” نے اس کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کی ہے جو پہلے سہ ماہی میں لاگو ہوگی۔ تحریک انصاف کے عودوں کے برعکس ڈھائی سالوں میں یکساں نظام تعلیم کا مسئلہ جو ں کا توں ہے۔خیبرپختونخواہ میں اسد قیصرکے قائد اعظم سکول سسٹم اورخورشید قصوری صاحب کے بیکن ہاوس سکول سسٹم کے ہوتے ہوئے یکساں نظام تعلیم کا خواب ہمیشہ خواب ہی رہے گا۔ صحت کی وزارت صوابی کے ایک صنعت کار کے بیٹے کے پاس ہے جو کبھی معائنے کی غرض سے کسی سرکاری ہسپتال نہیں گئے۔ ان حالات میں لگتا ہے کہ واحد تبدیلی جو تحریک انصاف کی وجہ سے آئی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے جلسوں میں ڈھول بجتے تھے اور اب ڈی جے سسٹم چلایا جائے گا۔