قبائلی علاقوں کے افراد پاکستان کی اس تذویراتی حکمت علمی کے متاثرین ہیں جو افغانستان میں پاکستان دوست حکومت لانے کے لیے اپنائی گئی تھی۔
ایک خبر کے مطابق آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں افغانستان میں پناہ لینے والے ساڑھے سات ہزار پاکستانی خاندانوں میں سے محض اڑھائی ہزار نے وطن واپسی پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ یہی صورت حال پاکستان کے اندر پناہ حاصل کرنے والوں کی واپسی کے ضمن میں بھی نظر آتی ہے۔ وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سے بے گھر افراد کی ایک بہت بڑی تعداد ابھی بھی پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہے۔ قبائلی افراد کو واپسی کے لیے اپنائے گئے طریق کار پر تحفظات ہیں۔ اپریل 2016 میں فوج کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق محض 36 فیصد خاندان شمالی وزیرستان واپس جا سکے ہیں۔ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کر کے پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں رہائش اختیار کرنے والے افراد گھر واپسی کے خواہش مند ہونے کے باوجود واپسی کے عمل سے ناخوش ہیں۔ فوجی کارروائی کے بعد وزیرستان کے مختلف علاقوں میں واپس لوٹنے والوں کی تعداد اندازوں سے کم ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں واقع اپنے گھروں سے دوبرس تک دور رہنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد آپریشن کے کامیاب ہو جانے کے باوجود بھی واپس لوٹنے کو تیار کیوں نہیں؟
قبائلی علاقوں میں رہنے والے پاکستانیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک اور اس علاقے کو سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے دیکھا جانا اس تذبذب کی اہم وجوہ ہیں۔ قبائلی علاقوں کے افراد پاکستان کی اس تذویراتی حکمت علمی کے متاثرین ہیں جو افغانستان میں پاکستان دوست حکومت لانے کے لیے اپنائی گئی تھی۔ قبائلی علاقوں میں رہنے والے افراد کو ایک ایسی جنگ کا ایندھن بنایا گیا ہے جس کے نہ تو وہ متحارب فریق ہیں اور نہ ہی انہوں نے اس جنگ کا انتخاب کیا تھا لیکن اس کے باوجود اس جنگ کے متحارب ہر دودھڑوں کی جانب سے مسلسل انہیں ہی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ایک جانب جہاں ماضی میں ان کے علاقوں کو ریاستی سرپرستی میں افغان جنگ کے لیے مجاہدین کا مستقر بنایا گیا تو دوسری جانب افغانستان، مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر سے آنے والے مجاہدین نے ان علاقوں میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ ایک طرف جہاں انہیں ڈرون حملوں اور پاک فوج کی کارروائیوں کے دوران شہری نقصان (collateral damage) بننا پڑا تو دوسری جانب انہیں عسکریت پسندوں کی انتقامی کارروائیوں کا شکار بھی ہونا پڑا۔
رحقیقت ریاست قبائلی علاقوں کے باشندوں کو اپنا شہری بعد میں اور پہلے قومی سلامتی کے لیے ایک ممکنہ خطرہ تصور کرتی ہے،
درحقیقت ریاست قبائلی علاقوں کے باشندوں کو اپنا شہری بعد میں اور قومی سلامتی کے لیے ایک ممکنہ خطرہ پہلے تصور کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فاٹا اور یہاں کے رہنے والوں کو ہمیشہ سیکیورٹی کے نقطہ نظرسے عسکری بنیادوں پر دیکھا اور سمجھا گیا ہے۔ فاٹا اور یہاں رہنے والوں کے لیے اختیار کی گئی سیاسی اور انتظامی حکمت عملی بھی مقامی ترقی اور خوشحالی کی بجائے ہمیشہ ملکی سلامتی اور سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے مرتب کی گئی ہے۔ مقامی آبادی مساوی شہری حیثیت کے حصول کے لیے متعدد مرتبہ ایف سی آر کے خاتمے اور فاٹا کی آئینی حیثیت کے تعین کا مطالبہ کر چکی ہے۔ لیکن ایک متنازع اور غیر متعین سرحد سے متصل ہونے کے باعث پاکستانی ریاست ان علاقوں کے لوگوں کے لیے قانونی اصلاحات نہیں لا سکی۔ ان علاقوں کا انتظام اب بھی نوآبادیاتی دور کے ضابطہ قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے تحت چلایا جاتا ہے۔
پاکستانی ریاست، حکومت، سیکیورٹی اداروں، سیاسی جماعتوں اور عام شہریوں کی جانب سے قبائلی باشندوں کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ یہ امتیازی سلوک انہیں مساوی شہری تسلیم نہ کرنے کا مظہر ہے۔ فاٹا کا رہائشی ہونے کا مطلب پورے ملک میں ہر ناکے، ہر چوکی اور ہر جگہ شک کی نگاہ سے دیکھا جانا ہے۔ بلاشبہ آپریشن ضربِ عضب پاکستانی بقا اور سلامتی کا معاملہ ہے مگر آپریشن ضرب عضب کے متاثرین کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست ان کی فلاح و بہبود اور بحالی کی بجائے ان کی جانچ پڑتال میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ بعض دہشت گرد بھی بے گھر ہونے والے افراد کے ساتھ بندوبستہ علاقوں میں آ چکے ہوں لیکن اس خدشے کے پیشِ نظر حکومت کی جانب سے آئی ڈی پیز کی رجسٹریشن سے لے کر آباد کاری تک کے معاملات عملاً فوج اور سیکیورٹی اداروں کے سپرد کر دینے سے ان افراد کی مشکلات میں مزیداضافہ ہوا ہے۔ اسی شک کی بنیاد پر سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کی جانب سے بے گھر افراد کے آنے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا، سرکاری سطح پر قائم کیمپوں میں رہنے والوں کو تلاشی اور جانچ پڑتال کے بے جا عمل سے گزرنا پڑا اور بدترین حالات میں سیکیورٹی ترجیحات کے تحت رہنا پڑا۔ امداد کے حصول، پناہ گزین کیمپوں میں رہائش حاصل کرنے اور شہری سہولیات تک رسائی کے لیے نہایت سخت شرائط اور طریق ہائے کار مرتب کیے گئے اوریہی صورت حال ان افراد کی گھر واپسی کے عمل کی بھی ہے۔
فاٹا کے بے گھر افراد کے مصائب میں مزید اضافے کی وجہ ان لوگوں کی دیکھ بھال اور بحالی کا عمل سیکیورٹی اداروں کے سپرد کر دینا ہے۔ گھر واپسی کا عمل ایسی یقین دہانیوں کے تحت ہو رہا ہے جن پر عملدرآمد قبائلی افراد کے لیے ناممکن ہے۔ قبائلی فراد کو اپنے علاقوں میں ایک بار پھر ایف سی آر قانون کے تحت دھکیلا جا رہا ہے۔ دو برس کی فوجی کارروائی کے باوجود شدت پسندوں کی نشاندہی کی ذمہ داری قبائل پر عائد کی گئی ہے، اور اس میں ناکامی پر انہیں سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔ جون 2016 کے اواخرمیں پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں پولیٹکل انتظامیہ نے اجتماعی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے اور شدت پسندوں کی نشاندہی نہ کرنے پر دو قبیلوں کی تمام مراعات بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ تحصیل یکہ غنڈ میں قاسم خیل قبیلے کی دو ذیلی شاخوں کڈو کور اور بھائی کور قبائل کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنانے اور فصلوں کی کاشت اور کٹائی پر بھی پابندی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ کیا سیکیورٹی اداروں سے یہ پوچھا نہیں جانا چاہیئے کہ دو برس کی فوجی کارروائی کے بعد بھی شدت پسندوں ی نشاندہی کی ذمہ داری قبائل پر کیوں عائد کی گئی ہے؟ ریاست سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ریاست دیشت گردوں کے خلاف کارروائی کی ریاستی ذمہ داری اپنے ہی تباہ حال اور جنگ زدہ شہریوں پر عائد کر رہی ہے؟
فاٹا میں رہنے والوں کو اگر اصلاحات کے ذریعے جلد مساوی آئینی اور شہری حیثیت نہ دی گئی تو حالات بہت جلد دوبارہ تشویش ناک ہو سکتے ہیں اور آپریشن ضرب عضب سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کے اثرات زائل ہوسکتے ہیں۔
قبائلی علاقوں کے لوگ خوفزدہ ہیں اور وہ انتظامیہ پر پھروسہ کرنے کو تیار نہیں، انہیں خدشہ ہے کہ طالبان واپس آ سکتے ہیں یا انتقامی کارروائی کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس برس عیدالاضحیٰ کے میلوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ فاٹا کے موجود مسائل کی ذمہ داری اگر چہ سویلین حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے تاہم ان حالات کی خرابی کی اصل ذمہ داری عسکری اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ عسکری اداروں کی جانب سے سول حکومت اور اداروں کو انتظامی معاملات سے بے دخل رکھنے کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں تاحال خود کو اس علاقے کو اپنی عملداری میں لینے کا اہل نہیں بناسکیں۔ سرکاری سطح پر اس صورت حال کا کسی قدر ادراک نظر آتا ہے مگر اصلاحات کا عمل سست رفتار بھی ہے اور قبائلی علاقوں کی نمائندگی کے بغیر سرانجام دیا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے فاٹا کے علاقوں میں رہنے والوں پر بداعتمادی اس قدر زیادہ ہے کہ فاٹا اصلاحات کی کمیٹی میں مقامی افراد کو نمائندگی نہیں دی گئی۔
افغانستان کے غیر یقینی حالات اور پاک افغان کشیدگی کے باعث بھی قبائلی علاقوں میں سیاسی اصلاحات کا عمل تاخیر کا شکار ہے۔ مقامی افراد کی جانب سے اصلاحاتی کمیٹی پر متعدد بار تحفظات کا اظہار کیا جا چکا ہے اور مقامی آبادی میں سیاسی تنہائی خوفناک شرح سے بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ اڑسٹھ برس سے قبائلی علاقوں میں بسنے والے پاکستانی شہریوں کو دوسرے درجے کے شہری بنا کر رکھا گیا ہے، انہیں ملک کے اندر اور باہر ملازمتوں کے حصول، سیاسی نمائندگی، شناختی اور سفری دستاویزات کے حصول اور اعلیٰ عدلیہ تک رسائی کے محدود حقوق حاصل ہیں، یہ کم تر شہری حیثیت ان کی بے چینی کا ایک بڑا سبب ہے۔ ریاست کو جلد از جلد ان علاقوں کے افراد کے خواہشات کو سامنے رکھتے ہوئے اصلاحات کا آغاز کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں قانونی پیچیدگیوں کو دور کر کےعلیحدہ صوبے کے قیام، خیبرپختونخوا میں انضمام یا ان علاقوں کا نظم و نسق وفاق کی بجائے خیبرپختونخوا حکومت کے سپرد کرنے (فاٹا کی بجائے پاٹا بنانے) پر ایک ریفرنڈم بھی کرایا جا سکتا ہے۔ فاٹا میں رہنے والوں کو اگر اصلاحات کے ذریعے جلد مساوی آئینی اور شہری حیثیت نہ دی گئی تو حالات بہت جلد دوبارہ تشویش ناک ہو سکتے ہیں اور آپریشن ضرب عضب سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کے اثرات زائل ہوسکتے ہیں۔
Image: Salim-ur-Rehman Afridi