[blockquote style=”3″]
رفعت ناہید کی یہ نظم معروف ادبی جریدے ‘تسطیر’ میں شائع ہو چکی ہے، لالٹین قارئین کے لیے اسے مدیر تسطیر نصیر احمد ناصر کی اجازت سے شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
تسطیر میں شائع ہونے والی مزید تخلیقات پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
شاعرہ: رفعت ناہید
یہ تب کی بات ہے
جب بڑا دریا یہاں سے گزرتا تھا
اور دریا کے کنارے رس کے بھرے، ملائم اور چکنے تھے
درختوں میں ہوائیں عام تھیں
اور جنوبی چٹانیں ابھی سمندر میں نہیں ڈوبی تھیں
تب تم نے دریا میں بہتے ہوئے پھولوں میں سے
ایک گلابی اور نارنجی پھول اٹھا کر میری ہتھیلی پر رکھا تھا
اور میرے ماتھے پر ویسا ہی
(گلابی اور نارنجی) بوسہ دیا تھا
شاید وہ دنیا کا پہلا بوسہ تھا
اب جبکہ
بڑا دریا اپنا راستہ بدل چکا ہے
ہواؤں نے رہنے کے لیے کوئی
اور درخت منتخب کر لیے ہیں
اور دریا کے کناروں پر بڑی بڑی دراڑوں میں
زہریلی بوٹیاں اگ آئی ہیں
جنوبی چٹانیں بھی سمندر میں ڈوب گئی ہیں
صرف سورج ہے
جو اب بھی مغرب میں ڈوبتا ہے
یا یہ پھول جو میری ہتھیلی پر مہک رہا ہے
اور یہ بوسہ
جو میری پیشانی پر ارغوانی تپش دے رہا ہے!
جب بڑا دریا یہاں سے گزرتا تھا
اور دریا کے کنارے رس کے بھرے، ملائم اور چکنے تھے
درختوں میں ہوائیں عام تھیں
اور جنوبی چٹانیں ابھی سمندر میں نہیں ڈوبی تھیں
تب تم نے دریا میں بہتے ہوئے پھولوں میں سے
ایک گلابی اور نارنجی پھول اٹھا کر میری ہتھیلی پر رکھا تھا
اور میرے ماتھے پر ویسا ہی
(گلابی اور نارنجی) بوسہ دیا تھا
شاید وہ دنیا کا پہلا بوسہ تھا
اب جبکہ
بڑا دریا اپنا راستہ بدل چکا ہے
ہواؤں نے رہنے کے لیے کوئی
اور درخت منتخب کر لیے ہیں
اور دریا کے کناروں پر بڑی بڑی دراڑوں میں
زہریلی بوٹیاں اگ آئی ہیں
جنوبی چٹانیں بھی سمندر میں ڈوب گئی ہیں
صرف سورج ہے
جو اب بھی مغرب میں ڈوبتا ہے
یا یہ پھول جو میری ہتھیلی پر مہک رہا ہے
اور یہ بوسہ
جو میری پیشانی پر ارغوانی تپش دے رہا ہے!
Image: Chalermphol Harnchakkham