Dai Seiji کے ناول “Balzac and the Little Chinese Seamstress”کا تجزیاتی مطالعہ
مترجم : عاصم بخشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالزاک اور پری پیکر چینی درزن، یقیناً یہ نام کسی بھی فکشن پڑھنے والے کو اس ناول کی جانب کھینچنے کے لیے کافی ہے،کیوں کہ کسی چینی پری پیکر درزن اور ایک مشہور فرانسسی ناول نگار کے درمیان کس رشتے کی کہانی پر یہ ناول آدھارت ہے؟ یہ سوال ایک طرح کا تجسس پیدا کرتا ہے،لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کہانی کو کوئی پڑھنے والاناول کوصرف ان دونوں کے درمیان قید کرتا ہے تو وہ ناول میں پائی جانے والی عجیب و غیریب وسیع دنیا کو بہت محدود کردےگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بالزاک اس ناول کا بنیادی کردار ہے۔ میں تو یہ ہی سمجھتا ہوں کیوں کہ بالزاک کے اس کہانی میں موجود نہ ہونے کے باوجود اس کے کہانی میں ہونے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اسی طرح چینی درزن جو اس ناول کے چاربنیادی کرداروں میں سے ایک ہے،ان کا قصہ بس ناول کے ایک حصے تک محدود ہے۔ اصل میں یہ ناول ایک ملک کی سیاسی صورت حال، وہاں کے جابرانہ فیصلوں، حماقتوں،الھڑ تہذیبی حرکتوں، جہالتوں، مذہبی شکایتوں، عدم مساوات، بھید بھاؤ، ظلم، عشق، خیانت، جھوٹ، چوری، دوستی، ایماندارانہ رویوں اور نسائی الجھنوں وغیرہ جیسےبے شمار معاملات پر مشتمل ہے۔ کوئی ایک خیال پورے ناول میں گردش کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس میں زندگی کے بدلتے رنگوں کی طرح واقعات کا بے ہنگم بہاؤ ہے۔ جو ناول کے چار کرداروں لیو، پری پیکر، چہار چشم اور اس شخص (جو کہانی بیان کر رہا ہے) کے ارد گرد گھومتا رہتا ہے۔
دائی سیجی کا یہ پہلا تخلیقی کارنامہ جسے انہوں نے سن2000میں لکھا تھا۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ چین میں سیاسی حالات کے پیش نظر عوام کس طرح کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وہاں آواز بلند کرنے کا کوئی قانون نہیں ہے، جہاں صرف حکم ماننے والوں اور انقلابی صورت حال سے دور رہنے والوں کو ہی سکون کی زندگی گزارنے کا موقع نصیب ہو پاتا ہے۔ میں اسے دائی سیجی کی بصیرت ہی کہوں گا کہ انہوں نے اس ناول کی ابتدا ایک المیہ کی طرح کی تھی، مگر اس ناول کا زیادہ تر حصہ مجرموں کے تلخ تجربات کو بیان کرنے میں برباد نہیں کیا، بلکہ ان تین نوجوان لڑکوں جن کی زندگیاں ان کی بورژوائی حالت کے باعث ایک عذاب کا شکار ہو گئی ہیں ان کے دلچسپ اور متحرک سفر کو بیان کرنے پر توجہ صرف کی۔
اس ناول کی کہانی میں بے شمار موڑ ہیں۔ بہت سے حیرات ناک لمحے، کئی دلچسپ جملے،عجیب و غریب واقعات، متاثر کن قصے اور نئی دنیاوں کی حکایتیں۔ میں اسے ایک ناول نہیں، بلکہ کئی ناولوں کے اشتراک سے وجود میں آنے والی ایک چھوٹی داستان کہنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں۔ جس نے بھی داستان الف لیلہ، داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوش ربا کی مسحور کن دنیا کا نظارہ کیا ہے وہ اگر پہاڑی زندگی کی زمینی حقیقتوں کا جادو دیکھنا چاہتا ہے یا ملک چین کی انوکھی سیاسی صورت حال میں پھنسی عوامی زندگی کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے تو دائی سیجی کا یہ ناول ضرور پڑھے۔
بالزاک اور پری پیکر چینی درزن کا قصہ:
بیانیہ انداز تحریر پر مشتمل دائی سیجی کے ناول بالزاک اور پر پیکر چینی درزن کا قصہ تین حصوں میں منقسم ہے، مگر ان تین حصوں میں مزید مختلف حصے شامل ہیں۔جن میں سے زیادہ تر کو کسی سرخی سے واضح نہیں کیا گیا ہے۔ ناول کی شروعات ایک گاؤں سے ہوتی ہے جہاں لیو اور اس کا دوست( جو کہانی بیان کر رہا ہے یعنی راوی) تعلیم نو کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ یہ تعلیم نو زراعت، گلہ بانی، کان کنی اور دیگر مزدوری کےفرائض پر مشتمل ہے۔ یہ دو طالب علم جن کے والدین باغی قرار دیئے گئے ہیں اور انہیں حکومت کی طرف سے سزا دی گئی ہے بورژوا طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ڈاکٹر ہیں۔ ان بچوں کو سینئر سکنڈری کی تعلیم سے برخاست کر کے ایک چھوٹے سے پہاڑی گاؤں میں ایک کمیونسٹ ماؤ معتقد مکھیا کے دیکھ ریکھ میں بھیج دیا گیا ہے۔ یہ حالت صرف لیو اور راوی کی ہی نہیں ہے، بلکہ ان کی طرح ہزاروں نوجوان طالب علموں کے ساتھ انقلاب چین کے عظیم نا خدا چیئر مین ماؤنے یہ ہی سلوک کیا ہے۔
جس گاؤں میں لیو اور راوی کو بھیجا گیا ہے اسی سے لگے ایک اورگاؤں میں ان کا ایک دوست چہار چشم بھی اسی تعلیم نو کی سزا کاٹ رہا ہے۔ اس کانا م چہار چشم کیوں ہے، یہ راز ناول میں کہیں بیان نہیں کیا گیا ہے، بس ایک مقام پر راوی کے ایک جملے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کی آنکھیں بہت کمزور ہیں اورعینک کے استعمال کے بنا اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا، اس لیے اسے چہار چشم کہا گیا ہے۔
یہ 1971 کا زمانہ ہے اور چین میں ہر ذی روح پر ماؤ کا حکم چلتا ہے۔ جس گاؤں میں یہ دونوں نوجوان پہنچے ہیں وہ علاقہ کوہِ ققنس کہلاتا ہے۔ جہاں پہاڑیوں کا دور تک پھیلا ہوا ایک سلسلہ ہے۔ کوہ ِققنس میں کئی گاؤں آباد ہیں اور تمام گاؤوں میں ملا جلا کر دس لاکھ لوگ آباد ہیں۔لیو اور روای جلد ہی ان مصیبتوں کاحصہ بن جاتے ہیں جن مسائل میں گاؤں کے لوگ زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں رہنے کے لیے کوئی ڈھنگ کا مکان بھی نہیں دیا جاتا ہے اور وہاں کھانے پینے کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔
راوی ایک اچھا موسیقار ہے جس کے پاس ایک وائلن ہے اور لیو داستان گوئی میں ماہر ہے۔دونوں نوجوان لڑکے اپنے اپنے فن کی بنیاد پر جلد ہی گاؤں میں نمایاں حیثیت حاصل کر لیتے ہیں۔ کوہِ ققنس میں دلچسپی اور بہلاوے کے لیے کوئی موثر ذریعہ موجود نہیں ہے۔ لہذا ایسے میں لیو کا داستان گوئی کا فن اپنا خوب رنگ جماتا ہے، جس میں راوی بھی اس کا شریک ہے۔ان کا جادو بستی والوں پر اس حد تک چڑھ جاتا ہے کہ گاؤں کا مکھیا ان کو گاؤں کے نزدیک ترین واقع چھوٹی سی شہری آبادی میں فلمیں دیکھنے جانے کی اجازت عطا کر دیتا ہے، لیکن صرف اس شرط پہ کہ وہ واپسی پر پورے گاؤں کو فلم کا پورا قصہ اسی طرح سنائیں گے جس طرح فلم میں دکھایا گیا ہے۔لیو اورراوی اپنے اس کرشمے سے بہت خوش ہیں اور ان کی شہرت آس پاس کے گاؤوں میں بھی پھیل جاتی ہے۔
ان کے برابر والے گاؤں میں ایک مشہور درزی رہتا ہے، جس کی شہرت بہت زیادہ ہے، وہ جہاں جاتا ہے وہاں میلا لگ جاتا ہے اور ہر گاؤں میں لوگ اس کی بہت عزت کرتے ہیں۔ اس درزی کی ایک نہایت خوبصورت بیٹی ہے، جسے ناول میں پری پیکر چینی درزن کہا گیا ہے۔ اسے لیو اور راوی کے اس فن کا علم ہوتا ہے تو وہ بھی ان سے قصے سنے کی مشتاق ہو جاتی ہے۔ لیو کی زبانی قصہ سن کر وہ بہت متاثر ہوتی ہے اور لیو سے اس کا معاشقہ شروع ہو جاتا ہے۔ راوی بھی پری پیکر سے محبت کرتا ہے، مگر وہ اس حقیقت سے جلد ہی آشنا ہو جاتا ہے کہ لیو اس کا محبوب ہے۔ خود درزی بھی لیو اور راوی کے قصہ گوئی کے فن کا عاشق ہے اور وہ ان سے قصہ سننے کے لیے خاص طور پر ان کے گاوں آتا ہے۔
کہانی میں ایک دلچسپ کردار چہار چشم کا ہے جو لیو اور راوی کا دوست ہے اور ان کے قریبی گاؤں میں تعلیم نو حاصل کر رہا ہے۔ اس کے پاس مغربی ناولوں، قصے کہانیوں کی بہت سی کتابیں ہیں۔ جو اسے اس کی والدہ نے اسے دی ہیں اور وہ انہیں خفیہ طور پر اپنے پاس رکھتا ہے۔ماؤ کی حکومت میں کسی طرح کی مغربی کتاب رکھنا ایک بڑے جرم کے متردف ہے۔ اس کے راج میں سوائے ماؤ کے انقلابی قصوں اور کمیونسٹ مواقف کتابوں کے ہر طرح کے لٹریچر پر پانبدی ہے۔
ایک روز راوی کو کسی طرح اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ چہار چشم کے پاس ایسا کوئی بستہ ہے جس میں اس نے مغربی کتابیں چھپائی ہیں۔ وہ اس کا تذکرہ چہار چشم سے کرتے ہیں تو چہار چشم اس بات سے صاف انکار کر دیتا ہے، مگر ایک موقع پر جب لیو اور راوی اس کی مدد کرتے ہیں تو وہ انعام کے طور پر انہیں بالزاک کے ایک ناول” ارسولے میرو” کا چینی ترجمہ دیتا ہے۔ تعلیم نو کی تھکا دینے اور تاریک زندگی میں یہ رومانی ناول ان کے لیے نئی روشنی بن کر آتا ہے۔ لیو اور راوی اس کر پڑھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ لیو اس کی کہانی اپنی محبوبہ پری پیکر درزن کو بھی سناتا ہے۔ جس سے وہ بہت متاثر ہوتی ہے۔ وہ ناول واپس کرتے ہوئے لیو اور راوی،چہار چشم سے جب دوسرے ناول کا مطالبہ کرتے ہیں تو چہار چشم انہیں صاف انکار کر دیتا ہے۔ اس پر لیو کو بہت غصہ آتا ہے۔ اس کے بعد کئی مواقع پر لیو اور راوی دوسری کتابیں حاصل کرنے کوشش کرتے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں۔ اسی دوران چہار چشم کو اپنی آزادی کا ایک موقع نصیب ہوتا ہے۔اس کے لیے اسے پہاڑی گیت جمع کرنے کےلیے کہا جاتا ہے۔ مگر وہ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی اس میں ناکام رہتا ہے، جب وہ لیو اور راوی سے اس بات کا ذکر کرتا ہے تو وہ اس کے لیے پہاڑی گیت جمع کرنے میں مدد کرنے کا وعدہ کرتے ہیں، مگر بدلے میں چہار چشم سے مزید کتابیں حاصل کرنے کا قصد لیتے ہیں۔انہیں پہاڑوں پر ایک بہت بوڑھا شخص ہوتا ہے جس سے لیو اور راوی کو وہ پہاڑی گیت حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ وہ اس بوڑھے کے پاس جاتے ہیں۔ بوڑھا ناول کا ایک دلچسپ کردار ہے۔ بے انتہا کوششوں اور اداکاریوں سے وہ پہاڑی بوڑھے سے گیت حاصل کر لیتے ہیں اور چہار چشم کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس کے باوجود چہار چشم انہیں مزید کتابیں دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ جس پر راوی اس کی پٹائی کرتا ہے۔ لیو اور راوی بہت مایوس ہوتے ہیں، مگر پری پیکر انہیں مشورہ دیتی ہے کہ چہار چشم کی کتابوں کا بستہ انہیں چرا لینا چاہیے۔
اس کے فوراً بعد ناول میں چہار چشم کی والدہ کی انٹری ہوتی ہے، جو چہار چشم کو تعلیم نو کے ختم ہوجانے پر گھر لے جانے آئی ہے۔ تعلیم نو کے اختتام کا مسئلہ بھی نہایت دلچسپ ہے۔ یہ خوش قسمتی صرف ہزار میں تین طالب علموں کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ جب راوی کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ چہار چشم ان میں سے ایک ہے تو اسے بہت غصہ آتا ہے۔ دوسری طرف لیو اور پری پیکر کا عشق اپنی حدیں پار کرنے لگتا ہے۔ وہ ہم بستری کی منزلوں تک آ جاتے ہیں اور برہنہ پہاڑ کی جھیلوں میں نہاتے، فلمیں دیکھتے اور قصے کہانیاںسنتے، سناتے وقت گزارنے لگتے ہیں۔
چہار چشم کی واپسی کا وقت جب بالکل قریب آجاتا ہے تو لیو اور راوی آخری دعوت کی رات اس کے گھر میں گھس کر وہ کتابوں کا بستہ چرا لیتے ہیں۔ یہ چوری پورے ناول میں سب سے زیادہ متجسس واقعات پر مشتمل ہے۔ اس بستے سے ان دونوں کو بالزاک کی کئی کتابیں ملتی ہیں ساتھ ہی وکٹر ہیو گو، ستاں دال،فلو بیر، بودلیر،رو میں رولاں،روسو، ٹالسٹائی، گوگول، دستو وسکی، ڈکنز کپلنگ، اور ایملی بروٹنے وغیرہ کی کتابیں بھی ہاتھ آتی ہیں۔ لیو اور راوی اسے پا کر ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے ان کے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہو۔ چہار چشم اور اس کی والدہ اس چوری کی کسی کو خبر دیئے بنا گاؤں سے چلے جاتے ہیں اور لیو اور راوی اپنے مکھیا کے گاؤں سے غیر حاضر ہونے کافائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ماہ تک اپنے کمرے میں بند ان کتابوں کے مطالعے کا لطف لیتے رہتے ہیں۔ لیواپنی معشوقہ کو بھی ان میں سے ہر کتاب کی کہانیاں سناتا ہے اور اسے ایک سیدھی سادی پہاڑن سے ایک سوجھ بوجھ رکھنے والی عورت بنا دیتا ہے۔ جس کا علم کہانی کے اختتام پر ہوتا ہے۔
یہیں مصنف نے رو میں رولاں پر ایک مفصل حصہ لکھا ہے۔ ساتھ ہی یہاں ناول میں بہت سے ناول نگاروں کے کرداروں کے استعارے بھی شامل ہوتے نظر آتے ہیں۔ جب میں بالزاک کے کردار سب سے زیادہ ہیں اس کے علاوہ کرسٹو فر، مادام بواری اور فرانسسی جہاز راں وغیرہ کرداروں کا ذکر بھی گاہے بہ گاہےآتا رہتا ہے۔ ناول اب اختتام پر ہے اور کہانی میں مکھیا کی واپسی ہوتی ہے، جو دانت کے درد میں مبتلا ہے اور لیو سے مدد چاہتا ہے، کیوں کہ اس کے والد ایک مشہور دانتوں کے ڈاکٹر ہیں اور اس کا یقین ہے کہ لیو کو بھی اس معاملے میں مہارت حاصل ہوگی۔ مکھیا اور لیو کے مسئلے میں راوی پر بھی کچھ مصیبتیں آجاتی ہیں۔ جن کا لیو اور راوی مل کر مقابلہ کرتے ہیں۔
مکھیا کی کہانی کے فوراً بعد ایک بالکل غیر متعلق قصہ بوڑھے پن چکی والے کا ہے۔ جس کی کہانی سے نسبت اس سے اگلے قصے یعنی پری پیکر درزن کے ایک خاص حصےمیں سمجھ میں آتی ہے۔لیو اس حصے کے بعد اپنی ماں کی بیماری کی خبر ملتے ہی گاؤں سے ایک ماہ کے لیے چلا جاتا ہے اور پری پیکر درزن کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے دوست راوی کو سونپ دیتا ہے۔ یہاں سےناول ایک نیا موڑ لیتا ہے اور راوی جس کی دیرینہ خواہش ہے کہ اسے پری پیکر کا قرب نصیب ہو وہ پوری ہو جاتی ہے۔ مگر اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ درزن اسے بتاتی ہے کہ وہ پیٹ سے ہے۔ جس کا جلد ہی ظہور ہونے والا ہے۔ یہ بات درزن اور راوی کو بہت پریشان کرتی ہے، کیوں کہ پچیس برس سے قبل کسی لڑکی کاماں بننا وہ بھی غیر شادی شدہ لڑکی کا،یہ چیئر مین ماؤ کی حکومت میں ایک سنگین جرم ہے۔جس کی سزا موت ہے۔ راوی یہاں سے محبت اور رحم کے نئے جذبے کے تحت پری پیکر کی مدد کرتا ہے اور اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ترکیبوں سے اس کا اسقاطِ حمل کرواتا ہے۔اسی حصے میں ایک اور بوڑھے کی کہانی ہے۔
یہاں ناول کا اختتام ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد راوی نے کچھ باتوں کی مزید وضاحت کی ہے جس میں لیو کی واپسی اور پری پیکر کااسے اور گھر چھوڑ کر نئی دنیا کی تلاش میں نکل جانے کا واقعہ ہے ساتھ ہی راوی اور لیو کا مل کر تمام کتابوں کو جلا کر راکھ کرنے کا منظر۔ اختتام ایک نہایت جذباتی اور متاثر کن جملے پر ہوتا ہے جس میں لیو راوی کو بتا رہا ہے کہ پری پیکر نے جاتے جاتے اس سے کہا کہ اس نے بالزاک سے ایک چیز سیکھ لی ہے کہ عورت کا حسن ایک انمول خزانہ ہے۔
کہانی کا تجزیہ:
کسی بھر پورکہانی کی خصوصیات کیا ہوسکتی ہیں ؟ اگر میں اس سوال پر غور کروں تو مجھے جواباً خود سے یہ کہنا پڑے گا کہ کسی کہانی میں اس وقت تک تکمیلیت کا احساس جذب نہیں ہوتا جب تک اس میں زندگی کے بے شمار رویوں کا جزو شامل نہ ہو۔ یہ زندگی کے بے شمار رویہ کیا ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں خوشی، غم، حیرانی، یقین، بے یقینی، اعتدال، بے اعتدالی، جنون، دیوانگی، خرد مندی، ڈر، تفکر، ترشی، لطافت اور کثافت جیسے بے شمار جذبوں کی جھلکیاں ہوں۔ یقیناً ایسی کہانیاں کم ہوتی ہیں۔ میں یہ فیصلہ نہیں سناؤ گا کہ کسی کہانی میں اگر یہ سب نہیں ہے تو وہ کہانی ہی نہیں، بس یہ کہوں گا کہ ایسی کہانیوں کو زندگی کا مکمل استعارہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔دائی سیجی کا ناول ایسی ہی مکمل کہانیوں میں سے ایک ہے جس میں فلسفہ، جمالیات، الف لیلوی رنگ،منظر کشی، مزاح، جذبات، ہیجانی کیفیات،جنس،مطالعے کا شوق،خاکہ نگاری،کریہہ مناظر، تجسس،انتقام،حکایتیں، خواب،ہنگامی صورت حال، تخیل، المیہ،تہذیبی استفسار،جہالت، انوکھی خواہشات، بے ہنگم قوانین،حیران کن احساسات اور مذہبی کشمکش وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ عین ممکن ہے کہ آپ نے اس ناول کو نہ پڑھا ہو اور اس پر بنی ہوئی فلم دیکھی ہو اور میرے دعوے کا انکار کریں۔ ایسی صورت میں میں آپ کو اس ناول کا متن پڑھنے کی دعوت دوں گا۔ اس ناول نے مجھے زندگی کی بہت سی ان دیکھی حقیقتوں سے آگاہ کیا ہے۔ لہذا مجھے ہر حال میں اس کی تکمیلیت کا احساس ہوتا ہے۔ جن حالات کا بیان اس ناول میں کیا گیا ہے، میں ان حالات میں زندگی نہیں گزار رہا ہوں، یعنی میرے پاس بے شمار مواقع ہیں کہ میں انگنت کتابوں کے مطالعے کا شرف حاصل کر سکتا ہوں، میں کسی بھی لڑکی سے بنا شادی کیے عشق کر سکتا ہوں، حکومت کو گالیاں دے سکتا ہوں، روشنی کے جھماکوں کا مظاہرہ کر سکتا ہوں، لوگوں سے اپنی مرضی کے مطابق تبادلہ خیال کر سکتا ہوں اور گھنٹوں کا سفر بنا کسی خطرے کے منٹوں میں طے کر سکتا ہوں۔ اس کے باوجود یہ ناول میری روح کو جھنجھوڑ کر یہ کہتا ہے کہ اصل میں میں بھی ایک ایسی ہی حالت کا شکار ہوں جس حالت میں لیو، راوی،چہار چشم اور پری پیکر زندگی گزار رہیں ہیں۔ میرے مسائل بظاہر کچھ نظر آتے ہیں مگر واقعتاً وہی ہیں۔ کیوں کہ میں نہ اپنی مرضی سے کچھ بول سکتا ہوں، نہ پڑھ سکتا ہوں، نہ عشق کرسکتا ہوں، نہ جی سکتا ہوں اور نہ ہی کسی سے تبادلہ خیال کر سکتا ہوں۔ آج کوئی چیئرمین ماؤ مجھ پر نگاہیں نہیں گاڑے ہے۔ مگر معاشرے کا سب سے بڑا ماؤ یعنی سیاست مجھے اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ اس ناول میں ہر اس مقام پر جہاں مجھے متذکرہ بالا کوئی بھی جذبہ، احساس یا تاثر نظر آیا اسے میں نے حقیقی بنیادو ں پر خود کے قریب محسوس کیا۔ مثلاً وہ مقام جہاں دائی سیجی نے فلسفیانہ طرز بیان اختیار کیا ہے یا ہیجانی کیفیات بیان کی ہیں،جذباتی کشمکش کا اظہار کیا ہے یا مذہبی آزادی کا تذکرہ کیا ہے،ہنگامی حالات بیان کیے ہیں یا تہذیبی استفسارات قائم کیے ہیں یہ سب مجھے اپنے عہد اور ماحول کی زندہ حقیقتیں معلوم ہوتی ہیں۔
ناول کے کرداروں سے مصنف نے عالمی سطح پہ ہونے والی طبقاتی کشمکش کو علاقائی کہانی میں بیان کر دیا ہے۔ لیو اور پری پیکر کے کردار کا تجزیہ کرو تو احساس ہوتا ہے کہ یہ چھوٹی سی عشقیہ داستان کتنی سچائیوں کا اظہار کر رہی ہے۔ ایک مصنوعی عشق جس میں خوشی اور غم کے بنتے،بگڑتے دھارے مرد اور عورت کی نفسیاتی حالتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ جدید دنیا کے تہذیبی المیوں کا اظہار کرتے ہیں اور لیو جیسے کردار سے فن کی اہمیت کو ظاہر کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ مکھیا جو ایک سخت دل اور جابر شخص ہے اس کا کردار ہمیں مصیبتوں میں پھنسے سفاک حاکموں کی کمزوریوں سے روشنا کرواتا ہے کہ کس طرح بر سر اقتدار سفاک حکمراں عام انسانوں کو چھوٹی چھوٹی لالچوں سے ٹھگتے ہیں۔پہاڑی بوڑھے کا کردار بتاتا ہے کہ کیسے وہ بوڑھے، مجبور فن کار جن کے باطن میں روایتوں کی وراثت پوشیدہ ہے وہ معاشرہ کی حقارتوں کا شکار ہوتے ہیں۔راوی کا کیرکٹر یہ منظرپیش کرتا ہےکہ کس طرح لوگ حسد، لالچ، ایمانداری اور محبت کے جذبوں کے درمیان اپنی حقیر خواہشوں میں زندگی گزارتے رہتے ہیں اور اسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ درزی کے کردار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح ہم شہرت اور تعظیم سے اپنی تسکین کا سامان تلاش کرتے رہتے ہیں اورچہار چشم کا کردار بتاتا ہےکہ ہم کتنے خود غرض ہیں اور زندگی کے ہر ہر قدم پرا پنی خود غرضی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ناول کے مختلف کردار ہمیں زندگی کی مختلف حالتوں اور صورتوں سے واقف کراتےہوئے انسانی برادری کے مشترکہ مسائل کی جانب ہماری توجہ مبذول کراتے ہیں۔
کہانی کی زبان:
کہانی کی زبان سادہ اور سلیس ہے۔ اصل متن میں بھی غالباً اسی نوع کا اسلوب ہوگا، کیوں کہ مترجم نے جہاں جہاں قصوں کو روانی سے بیان کیا ہے اس سے احساس ہوتا ہےکہ چینی زبان میں بھی یہ قصے اتنے ہی سادہ اور رواں دواں ہوں گے۔ کچھ مقامات ناول میں مبہم زبان میں ہیں ایسے میں مترجم کا کام مشکل ہوجاتا ہے۔ ترجمہ شدہ متن میں تو ایسے مبہم حصوں کو عاصم صاحب نے اتنا دلکش بنا دیا ہے کے پڑھنے والاابہام میں بھی شاعرانہ لطف محسوس کرتا ہے۔ جن واقعات کی ترسیل کہانی کے ایک حصے تک نہیں ہوتی وہ کچھ آگے چل کر ہو جاتی ہے۔ اس لیے ترسیل کی الجھن سے زیادہ سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ غیر مانوس الفاظ ناول میں بہت زیادہ ہیں،جن میں سے سیاق کے ذریعے کچھ سمجھ میں بھی آ جاتے ہیں، لیکن اصل معنی تک رسائی نہیں ہوپاتی۔ ایسے الفاظ میں صوت دانوں، تانت، مزارعوں، موزارٹ، سوناٹا، پاکینہ، ققنس،سہارتے،کروی، برامز،بیتھوون،یاآن،جڑن،چوپ سٹک،بید مجنوں،اودیاتی، جام شکستہ،برقانے،ریگھاریاں،پھالے،سموں،جنگور،منبت،توبنا، بلسم، سحلب، مارسائی، برقشوں، کگرے، یشم، بدرقے، نوڈل اور کلو طنجوی شامل ہیں۔ دو،چار مقامات پہ چھپائی کی اغلاط سے بھی لفظ ادھورے رہ گئے ہیں یا بگڑ گئے ہیں۔
دلچسپ جملے:
ناول میں موجود دلچسپ جملوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔اس سے ایک اچھی صورت یہ نکلتی ہے کہ پڑھنے والا قدم قدم پر چونک جاتا ہے، یہ چونکنا تجسس والا نہیں، بلکہ متاثر کن جملوں کی غیر متوقع آمد پہ حیران، پر مسرت اور مضطرب ہونے والا ہے۔میں یہاں کچھ جملے نقل کر رہا ہوں، مگر یہ بتا دوں کہ یہ جملے صرف اس وجہ سے یہاں رقم کئے دے رہاں ہوں کیوں کہ طویل نہیں ہیں، بعض بعض اقتباسات جو خاصے لمبے لمبے ہیں ان میں اسی طرح کی دلکشی اور تاثیر بھری ہوئی ہے۔ صرف طوالت کے خوف سے انہیں یہاں لکھنا ممکن نہ ہو سکا ورنہ آدھے کے قریب ناول یوں ہی اتر جاتا۔
• وہ اپنے ابا کا پانچواں بیٹا اور اماں کی واحد اولاد تھا۔
• اوپر اپنے ارد گرد چکر دار ڈھلوانوں کو دیکھتے ہوئے مجھے چٹان کے اندر سایہ دار دراڑوں میں سے ایک پگڈنڈی کے خدو خال نظر آتے تھے جو آسمان کی جانب کہر آلود ہوا میں پگھلتی محسوس ہوتی تھی۔
• اپنے اپنے پچھواڑے اٹھانے کا وقت ہو گیا ہے۔ سست الوجود مسخرو، سانڈ کی اولاد ! تم کس چیز کے منتظر ہو؟
• اپنا سگریٹ تیار کر کے لیمپ بجھا دیتا اور اندھیرے میں رات کے سکون سے کان لگائے سگریٹ پیتا رہتا، ایک ایسا سکوت جو صرف نیچے سے آتی دبی دبی غراہٹ سے ہی ٹوٹتا جہاں سؤرنی اپنی تھوتھنی سے کیچڑ کو کرید نے میں مصروف رہتی۔
• جدید انسان الف لیلہ کے زمانے سے آگے نکل چکا ہے اور جدید معاشرے، چاہے وہ اشتراکی ہوں یا سرمایہ دارانہ، اپنے اپنے کہانیاں سنانے والوں کو فارغ کر چکے تھے۔
• منظر سے غائب ہونے سے ذرا پہلے وہ مڑا اور ایک بار پھر چیخا:”وائے-او-لن!”
• اس کی آنکھوں میں نا تراشیدہ ہیروں اور خام دھاتوں کی سی چمک تھی جو پلکوں کی لمبائی اور لطیف خم کے باعث مزید بڑھ گئی تھی۔
• چہار چشم کی نظر واپس لوٹی تو وہ لیو کی حالت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ “تم تو کسی کتے کی طرح بیمار لگتے ہو!” وہ بولا۔
• “یہ جنگو درخت کے پتے ہیں،” لیو نے اکھڑتےسانس کے ساتھ کہا۔ “ایک شاندار اونچا درخت جو پری پیکر درزن کے گاؤں کے مشرق میں ایک خفیہ وادی میں اگتا ہے۔ ہم نے وہاں درخت کے ساتھ لگ کر محبت کی۔ کھڑے کھڑے۔ وہ کنواری تھی اور اس کا خون نیچے بکھرے ہوئے پتوں پر گر پڑا۔”
• “یہ شخص بالزاک کوئی ساحر ہے۔” اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔” اس نے کسی نادیدہ انگلی سے اس پہاڑی لڑکی کے سر کو چھوا اور وہ جیسے کسی خواب میں منتقل ہو گئی۔
• “ایک جام آپ کے نا قابل یقین پیٹ کے نام ہو جائے،” لیو نے تجویز دی۔
• ہمیں بس اپنی محنتوں کے صلے میں ایک دو کتابیں ہی در کار تھیں۔
• اس کی کھکھلاہٹ میں مجھے جنگلی گل سحاب کی مشک بار خوشبو محسوس ہوئی جو اس کے قدموں میں پڑے پھولوں سے بھی تیز تھی۔
• شاعرہ کہیں بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ اگر وہ ہمارے ساتھ وہاں موجود ہوتی تو اپنے بیٹے کو پیالہ بنے ہاتھوں میں منہ چھپائے بھینسے کا جما ہوا خون پیتے دیکھ کر کیا سوچتی، جیسے کوئی سؤر کیچڑ میں تھوتھنی مار رہا ہو؟
• سب سےاوپر ہمارا دوست بالزاک اپنے پانچ،چھے ناولوں کے ساتھ موجود تھا۔
• لا محالہ اس فرانسسی کہانی سے اخذ کی گئی کچھ تفصیلات کا خفیف سا اثر اس کے سلے کپڑوں میں بھی نظر آنے لگا۔
• مکھیا کے دانت کسی اونچے نیچے پہاڑی سلسلے کی طرح تھے۔سوجے ہوئے مسوڑھوں میں سے تین سامنے والے واطع دانت ماقبل تاریخ کے سنگ سیاہ کے آتش فشانی تودوں کی طرح تھے، جبکہ جبڑوں کے دونوں طرف تمباکو سے داغدار کچلے دانت جا بجا بکھری ہوئی قبل نوح کلسی تف چٹانوں کی طرح معلوم ہوتے تھے۔
• ایک ایسا بوڑھا جسم جو اس جگہ سے بالکل ڈھیلا تھا جہاں ہڈی نہیں تھی۔
• “مت بھولنا،” اس نے تنبیہہ کی،” کہ کووہ کوہ ققنس آسمان کا حسین ترین ستارہ ہے۔”
• اپاہج اب میراراستہ روکے کھڑا تھا۔ اس نے اپنی پتلون نیچے سرکادی، پھر اپنا زیر جامہ نیچے کیا اور بالوں بھرے لچکیلے اعضا ظاہر کر دیے۔”یہ لو، پکڑ و۔تم میرا بھی دھو سکتے ہو!”
• کہتے ہیں کہ ایک دفع عورت جب اپنی ماہواریاں چھوٹنے پر رونا شروع کردے تو اسے چپ کرانا نا ممکن ہو تا ہے۔
• اس نے کہا کہ اس نے بالزاک سے ایک چیز سیکھ لی ہے: کہ عورت کا حسن ایک انمول خزانہ ہے۔
مترجم کا فن:
عاصم بخشی نے اس ناول کا اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ مبارک باد کے مستحق ہیں، بلکہ ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ ناول کے ترجمے میں انہیں مہارت حاصل ہے۔ وہ کسی بھی صورت حال کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں کہ زبان اور ماحول کی اجنبیت بالکل ختم ہو جاتی ہے، آپ اس ناول کو پڑھتے ہوئے کئی مقامات پر یہ محسوس بھی نہیں کر پاتے کہ ایک ایسا ناول پڑھ رہے ہیں، جو آپ کی اپنی زبان میں نہیں ہے۔ اس طرح کا کام عالمی سطح کا کارنامہ کہا جا سکتا ہے، جس سے دو بالکل مختلف تہذیبوں، زبانوں،قوموں اور جماعتوں میں یکسانیت پیدا ہو جاتی ہے۔کہیں کہیں ترجمے میں کچھ کمی بھی محسوس ہوتی ہے یا یوں لگتا ہے کہ متن کی وہ روانی جو بیش تر ناول کا حصہ ہے وہ یہاں قائم نہیں رہ سکی، لیکن مترجم کی مجبوریوں کا خیال بھی ہمیں اپنے تئیں کرنا چاہیے۔ بہت سے الفاظ اور خیالات ایسے ہوتے ہیں جن کی ترجمانی ممکن ہی نہیں ہوتی، ایسی حالت میں بھی اگر عاصم بخشی جیسے ماہر ین فن ہمیں اصل حالت کے قریب بھی لے جائیں تو ہمیں ان کا ممنون ہونا چاہیے۔ جن مقامات پر مجھے لگا کہ یہاں ترجمے کا تسلسل مجروح ہوا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
• لیو اور میں، یعنی اس پہاڑی گاؤں والوں کی نظر میں ہم دو شہری لڑکوں کے سامان۔۔(اس جملے میں “یعنی” اضافی ہے۔)
• تعلیم نو کا کچھ ذکر کروں تو 1948 کے اواخر میں انقلاب چین کے عظیم ناخداچیئر مین ماو۔(عبارت میں تصنع پیدا ہو گیاہے۔)
• لیو کی الارم گھڑی کے خاک آلود سے کانچ کے ڈھکنے کے تلے اسے تیز آبنوسی چونچ سے نادیدہ زمین پر ٹھونگیں مارتے دیکھاجا سکتا تھا۔(عبارت بہت گنجلک ہو گئی ہے۔)
• سگرٹ کے تکڑے تلاش کرنے لگ جاتا۔(کرنے لگ جاتا جملے کی روانی کو متاثر کرتا ہے۔)
• گھر واپس لوٹنے کے امکانا ت لامتناہی طور پر محدود تھے۔(یہاں محدوددرست معلوم نہیں ہوتا۔)
• مذاق نے اس وقت وحشیانہ شدت اختیار کر لی جب ان میں سے ایک نے مجھے انگلی لگا کر گندی گالی نکالی۔(گالی نکالنا غلط ہے۔)