صاف گھروں کے باہر کس نے
کُوڑے کا یہ ڈھیر لگایا؟
اور اُس ڈھیر میں پیدا ہوئے پھر
فوج، حکومت اور ہتھیار
کس نے دیا ان کو اختیار!
کُوڑے پر کتوں کے پِلے دن کی دھوپ میں کھیلتے ہیں
اور کُتیا کے گندے تھنوں سے کڑوی خشکی چوستے ہیں
بے چینی میں پھدک پھدک کر اپنی دم کو نوچتے ہیں
ایک رسیلی ہڈی کی خاطرچاؤں چاؤں بولتے ہیں
صاف گھروں کی جانب اپنے بزدل جبڑے کھولتے ہیں
صبح چماروں کے بچے کچرے میں قسمت چننے آتے ہیں
پلّے اُن کے قدموں میں
امن کے جھنڈے کی ماننداپنی دُمیں ہلاتے ہیں
جب بچا ہوا روٹی کا ٹکڑا بچے کے ہاتھ میں آتا ہے
کتوں کے پیٹ میں بھوک کا پودا اُگنے لگتا ہے
آنکھوں میں بے صبری بھونکنے لگتی ہے
بھاگتے بچوں کا رستہ روکنے لگتی ہے
جب اس ہنگامے کا شور
ہماری نیند آلودہ کرتا ہے
ہم کروٹ کروٹ کڑھتے ہیں
اور اونگھتے اونگھتے سوچتے ہیں
صاف گھروں کے باہر ہم نے
کیوں کوڑے کا ڈھیر لگایا؟
اور اس ڈھیر میں پیدا ہوئے پھر
فوج، حکومت اور ہتھیار
کس نے دیا اِن کو اختیار!
Image: Ibrahim El-Salahi