Laaltain

پستان- چھٹی قسط

26 اکتوبر، 2016

[blockquote style=”3″]

ایروٹیکا ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں بڑے فنکارانہ انداز کوئی جنسی کہانی یا قصہ تحریر کیا جاتا ہے، دوسری بعض بڑی اصناف کے ساتھ یہ بھی مغرب سے ہمارے یہاں درآمد ہوئی۔ اس صنف میں لیکن بدقسمتی سے سنجیدگی کے ساتھ کچھ زیاده نہیں لکھا گیا جبکہ اردو میں پھوہڑ اور غیر دلچسپ جنسی کہانیوں کی بہتات ہے، پہلی سنجیده اور قابل ﺫکر ایروٹیکا اردو کے اہم افسانہ نگار بلراج مین را نے لکھی جس کا عنوان تھا، ‘جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے’، اس کے بعد ابھی تک ایسی کوئی سنجیده کوشش نہیں دیکھی جا سکی ہے۔ تصنیف حیدر نے اسی صنف میں ایک ناولٹ لکھنے کا اراده کیا ہے جسے قسط وار لالٹین پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے

[/blockquote]

باب-5
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

انتباہ: اس تحریر کے مندرجات صرف بالغ افراد کے لیے ہیں۔

 

بادلوں کی آنکھیں جیسے چھل گئی تھیں، بھل بھل کرتا پانی ہر طرف نظر آرہا تھا۔رات کو ایسا سفید منظر اس علاقے میں عام سی بات تھی۔ہر چیز پانی پانی ہوئی جارہی تھی۔آج صدر کو کسی آواز یا روشنی پر محض اندازہ نہیں لگانا تھا، بلکہ اس دھاڑتی ہوئی حقیقت کا سینہ چیر کر کچ کو تلاش کرنے کے لیے نکلنا تھا۔اس نے ایک ہلکا شرٹ پہنا اور نیکر ڈال کرٹارچ لیے ہوئے سیڑھیوں سے نیچے اترتا چلا گیا۔سیڑھیاں بدنیت زبانوں کی طرح چکنی تھیں، ایک جگہ اس کا پاؤں ہلکا سا پھسل گیا اور وہ سامنے کی دیوار سے ٹکرایا۔یہ پہلی مشکل تھی، دوسرے زینے پر اس کے پاؤں پر کسی کیڑے نے ڈنک مار دیا، وہ بلبلا کر پیر سے چمٹے ہوئے کیڑے کو ہٹانے لگا،بھری برسات میں درد کی شدت سے آنکھوں میں ابھر آنے والےمہین قطروں کی کیا اوقات تھی۔صدر نیچے آیا، ونگ کے باہر بالکل سناٹا تھا، نہ کسی جگنو کی چمک تھی، نہ کسی جھینگر کی آواز بس ایک شائیں شائیں کرتا ہوا تیز دھار دار منظر تھا، جو کنوئیں کی طرح منہ پھاڑ کر صدر کو اپنے اندر اترنے کی دعوت دے رہا تھا۔بالآخر اس نے ٹارچ روشن کی اور اس اندھیرے کنویں میں چھلانگ لگادی،پنڈلی پر ابھرآنے والی ہلکی سی سوجن کا درد غائب ہوگیا تھا، وہ جہاں جہاں سے گزرتا، روشنی ڈال کر ایک ایک چیز کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کرتا، حالانکہ اتنی برسات میں آنکھ تو کیا سانس کا آزاد رہنا بھی مشکل ہوا جارہا تھا، دو تین بار ہوا نے گویا گلا ہی گھونٹ دیا تھا، اس نے پوری شدت سے منہ کھول کر سانسیں بھریں اور پھر آگے کی جانب بڑھتا گیا،وہ اس درخت کے پاس بھی پہنچا جہاں کچ اسے پہلی مرتبہ نظر آئی تھی، مگر آج وہاں وہ ننگی لڑکی نہیں تھی، بس ننگی شاخیں جھول رہی تھیں۔اسے روشنی میں زمین پر پڑی ہوئی ایک بھوری اور موٹی لکیر نظر آئی،یہ اسی درخت کی ایک شاخ تھی۔پانی سیں سیں کرکے اب اس کے نتھنوں اور کانوں میں گھسنے لگا تھا، اس نے سوچا کہ کچھ دیر کے لیے درخت کے نیچے کھڑا ہوجائے، اس نے بہت سے پتوں سے ڈھکی ہوئی چھت کے نیچے سہارا تو لیا، مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا، پتوں کی پیٹھ تربتر ہوچکی تھی اور اب ان کے سینے بھی پانی ٹپکار ہے تھے،برسات کا زور البتہ کچھ کم معلوم ہوتا تھا، مگر ہوائیں اور جھولتی ہوئی شاخیں کسی آسیب زدہ عورت کی طرح ہوں ہوں کرتی آنکھیں پھاڑے اور سر زمین پر دیئے وحشت زدہ کرنے کے لیے کافی تھیں۔

 

صدر نے وہیں سے کئی دفعہ چیخ چیخ کر کچ کو آوازیں دیں۔وہ اسے کہیں بھی دکھائی نہ دی،اس نے درخت کے چاروں طرف گھوم کر دیکھا، مایوسی سے تنے پر ہاتھ رکھا تو پاؤں کا زخم اچانک پھر بول اٹھا، اس نے ٹٹول کر پنڈلی پر ہاتھ لگایا تو سوجن کافی بڑھ گئی تھی، درد بھی تھا، ایسا تیزابی اور گہرا دردسہنے کے لیے کچھ دیرٹھہراؤ کی ضرورت تھی، مگر اس کے پاس وقت نہیں تھا، وہ کچ کو دیوانہ وار ڈھونڈ رہا تھا۔اچانک ایسا کیا ہوگیا تھا کہ وہ کہیں غائب ہوگئی تھی، پھر یکدم اسے ایک خیال آیا کہ کہیں وہ بلڈنگ کی چھت پر تو نہیں چلی گئی، اس نے دونوں ہاتھوں کی آستینوں کو بازؤوں پر کافی دور تک موڑ کر پھر اس بھیانک ، سرد اور سیاہ برسات کے جگر میں چاک لگانے کا ارادہ کیا۔ وہ کچھ دور ہی چلا تھا کہ سینے کا سانس اکھڑنے لگا، سامنے سے اڑتی ہوئی کوئی چیز اس کی آنکھ میں پڑ گئی،اس نے بے اختیار آنکھ پر ہاتھ مارا تو ٹارچ چھوٹ کر زمین پر گری اور لائٹ بجھ گئی۔سخت اندھیرا اور آنکھ میں پناہ لینے والے کیڑے کی پھڑپھڑاہٹ ، پنڈلی کی سوجن اور اکھڑتا ہوا سانس۔صدر نے ہلکی آنکھ کھولی اور کچھ قدم پیچھے کی جانب چلنے لگا،آنکھ سے کیڑا نکل چکا تھا، مگر کھٹک باقی تھی،سانس بحال کرنے کے لیے اس نے زمین پر بیٹھ کر اپنے منہ کو زانوؤں کی چادر میں لپیٹ لیا، پانی اور ہوا کی یلغار کچھ پلوں کے لیے کم ہوئی تو حالت بحال ہوئی مگر پنڈلی جیسے بار بار زہریلے ڈنک کا احساس دلارہی تھی۔وہ کچھ دیر یونہی بیٹھا رہا، پھر اسے اچانک کچ کا خیال آیا۔ کچ کا خیال آتے ہی ٹارچ کی یاد بھی روشن ہوئی، لیکن دور تک اندھیرا تھا، وہ زمین پر لیٹ گیا اور ہلکے ہلکے اندھوں کی طرح زمین پر ہاتھ مارتے ہوئے آگے بڑھنے لگا، مگر کافی دیر محنت کرنے کے باوجود اس کے ہاتھ کچھ نہ لگا، ایسی سیاہی تھی ،گویا کسی نے پورے منظر پر کالا جادو کررکھا ہو، اس پر ہلتے اور جھومتے درختوں کی لہریں، ہواؤں کا ایک عجیب عفریت زدہ رقص، منظر دور تک بدلنے کے لیے تیار نہیں تھا، اسے لگا جیسے وہ کسی صندوق میں بند کردیا گیا ہے، ہوا اور پانی کے ساتھ، اب کچھ دیر میں اس کی سانس گھٹنے والی ہے، دم نکلنے والا ہے اور چابی کہیں گم ہوچکی ہے۔

 

کچ تو ہاتھ کیا آتی، زندگی ہی ہاتھ سے نکلتی نظر آرہی تھی۔اس خیال کا آنا تھا کہ اس پر ہیجان طاری ہوگیا، وہ زور زور سے کچ کا نام پکارنے لگا، رونے اور دہاڑنے کی آوازیں پانیوں کی دیوار سے سر پٹکنے لگیں مگر کہیں ہلکا سا بھی شگاف پڑتا ہو ا نظر نہ آتا تھا۔پھیپھڑے پھول پھول کر تنگ آرہے تھے، بارش گویا آج کسی سمندر کو بادلوں کی ٹنکیوں میں بھر کر لائی تھی۔کچی، ہلکی اور بالکل بے مزہ سرد بوندیں بدن پر یوں پڑتی تھیں جیسے اپنے بے روح ملبے کے نیچے دفن کرلینا چاہتی ہوں۔صدر پریشان تھا، بدحال تھا اور تقریباً مدہوش بھی، مگر کچ کے خیال کا دامن اس نے ابھی تک اپنے ہاتھوں سے نہیں چھوڑا تھا، وہ اندھیرے میں سرپٹ بھاگنے لگا،اچانک کسی چیز سے اس پیر ٹکرایا اور وہ دھاڑ سے زمین پر گرپڑا۔ یہ کوئی لجلجی سی چیز تھی، اس کے سر پر گہری چوٹ آئی تھی، مگر اس وقت اسے اس بات کا بالکل اندازہ نہ ہوا، اس نے ٹٹول کر اس لجلجی چیز کو دیکھنا چاہا، وہ کوئی مردہ پڑا ہوا جانور تھا جس کے دانتوں پر صدر کی انگلیاں پڑتے ہی اسے اس بات کا اندازہ ہوگیا، اس کی جلد برسات میں بھیگتے بھیگتے گویا گلنے لگی تھی، صدر کا پاؤں اس کے پچکے ہوئے پیٹ سے ٹکرایا تھا،غالباً وہ کوئی کتا ہوگا،مگر اس وقت صدر جانور کی ہیت پر دھیان دینے سے قاصر تھا۔ مشکل یہ تھی کہ اسے اب سمت کا اندازہ نہیں ہورہا تھا، جس بلڈنگ کی جانب سے وہ آیا تھا، وہاں دور تک کوئی سٹریٹ لائٹ بھی آج نہیں جل رہی تھی۔اس کے اپنے گھر کی لائٹ بھی اتنی ڈم تھی کہ اس کا دور سے دکھائی دے پانا شاید ناممکن سی ہی بات ہوتی۔وہ ایک دفعہ پھر اٹھا، اب کے اس کی ٹانگ بالکل جواب دینے لگی تھی، جب اس نے پنجہ زمین پررکھ کر خود کو اوپر اٹھایا تو اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ پنڈلی کی چپکی ہوئی کھال کو زمین کی کھردری سطح سے الگ کررہا ہو۔وہ پوری شدت سے چیخ پڑا، مگر ہواؤں کو اس کی چیخ سے زیادہ اپنی مستانہ وار آوازوں، اچھل کود اور رقص سے مطلب تھا۔درد سے اس کا پیشاب چھوٹ گیا۔نیکر سے بہتی ہوئی ایک ہلکی گرم دھار زمین پر گررہی تھی ، اس نے دوبارہ خود کو اٹھانا چاہا، مگر وہ ایسا نہ کرسکا۔ اس نے اپنا شرٹ اتارا اور پنڈلی پر کس کے باندھ لیا۔ آنکھوں کے سامنے اب ایک عجیب سی روشنی کتھک کرتی ہوئی محسوس ہورہی تھی، اسے لگا کہ کچھ دور پر کھڑی ہوئی کچ اپنی دو ننگی بانہیں پھیلائے اسے بلا رہی ہے۔اس کے کانپتے ہوئے، کف اگلتے اور کپوئے ہوئے سرد ہونٹوں پر ایک گرم مسکراہٹ آگئی۔ مگر اب صرف کچ نظر آرہی تھی، وہ بالکل عریاں تھی۔

 

دماغ میں عجیب و غریب قسم کی لہریں جگاتی ہوئی نیند دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی، ایک سانپ تھا جو بدن میں ادھر یا ادھر لہراتا ہوا محسوس ہوتا تھا، اٹھنے کی ہمت نہ تھی، چھلے ہوئے گھٹنوں سے ہلکا پھلکا خون چھلک رہا تھا۔پنجے ٹیڑھے ہوئے جارہے تھے اور گلا دبتا ہوا محسوس ہورہا تھا، مگر خوشی کی بات یہ تھی کہ کچ سامنے تھی، بالکل سامنے، اتنی کہ گویا ابھی آگے بڑھ کر اسے چھولے گی۔ وہ بے چارگی سے مسکراتا ہوا کچھ دیر تک اسے دیکھتا رہا، اس نے رینگتے ہوئے خود کو کچ کی جانب دھکیلا،کچ زمین پر بیٹھ گئی، آگے آکر اس نے اپنی بھیگی ہوئی زلفوں سے اس کا چہرہ ڈھانپ دیا، صدر کو محسوس ہوا کہ آج اس کی زلفیں اس عجیب و غریب برساتی اور سیاہ لمحے کی طرح طویل ہوگئی تھیں۔کچ نے اپنی زلفوں کو صدر کے گلے میں لپیٹ دیا اور اس کے پیٹ پر بیٹھ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا منہ اٹھا کر ٹھنڈے ہونٹوں پر اپنی گرم زبان پھیرنے لگی، صدر کا دبا ہوا پیٹ اور آگے کی جانب اٹھا ہوا سینہ ، دونوں پر نہ جانے کیسے ہتڑ برس رہے تھے،وہ کچھ دیر میں دھام سے اس پر ہلہ بولتے اور ایک پل میں آگے نکل جاتے، ساری رگوں میں جیسے سیسہ بھر دیا گیا تھا، ایک دہکتی ہوئی سلاخ اس کے پورے شریر پر پھرائی جارہی تھی۔کچ کی زلفوں کا گھیرا بھی تنگ ہوتا جارہا تھا، ایک موقع پر تو صدر نے چھٹپٹا کر خود کو زلفوں کے اس گھیرے سے الگ کرنے کی کوشش کی، مگر کچھ نہ ہوا، وہ بے بسی میں زمین پر ہاتھ مارنے لگا، کچ اس کی زبان کو ہلکے ہلکے کتر رہی تھی، جیسے لعاب کے ریشوں کو اپنے حلق کی کترنوں میں سونکنے کا عمل انجام دے رہی ہو۔زمین پر اس کا ہاتھ پڑتا، بوندیں اچھل کر اس کے کرب ناک احتجاج میں شامل ہوتیں مگر زلفوں کے دائرے کی تنگی میں کوئی کمی نہ آتی۔کچ دھیرے دھیرے اپنی نیلی آنکھوں میں بڑھتی ہوئی روشنی کے ساتھ وحشی انداز میں اس کے اندر کی ساری ہوا اور پانی کو اپنے جسم میں اتاررہی تھی۔صدر کا سینہ کانپنے لگا، وہ ہق ہق کی سی آوازیں نکالنے پر مجبور ہوگیا، اس کے گھٹنے اینٹھنے لگے، رانوں کے پٹھوں پر عجیب سی چپک ابھرنے لگی،صدر اس پورے منظر کو دیکھنے کے لیے اپنی وحشت زدہ آنکھوں کو اور پھاڑنے لگا، اس کی آنکھوں میں درد بھی تھا اور حیرت بھی۔کچ اس کے ساتھ کیا کررہی تھی،اچانک کچ اپنے جسم سے باہر نکل آئی، اب وہ ایک نہیں تھی، اس کے تین پیکر تھے، وہ تینوں پیکر صدر کی ٹانگوں، ہونٹوں اور گلے سے چمٹے ہوئے تھے۔صدر کا بدن ہلکا ہوتا جارہا تھا۔یکایک اس کی نگاہوں میں وہ سارے منظر گونجنے لگے، جب اسے جنسی عمل کے دوران کچ کی سانس روکنے اور اسے بھینچنے میں بڑا لطف آتا تھا، جتنی زور سے وہ کچ کی سانس کو اپنے نتھنوں کی مٹھی میں جکڑتا، کچ کی گرفت بستر کی شکن کو اتنی ہی سختی سے بڑھا دیتی، دھیرے دھیرے، بدن کے کپڑے اور بستر کی چادر مٹھیوں، پنجوں، آنکھوں اور نتھنوں کے اس کھیل میں کہیں غائب ہوجاتے۔

 

آوازیں جب گہری ہوتی ہیں تو آس پاس کے سارے منظر ان آوازوں کےسامنے بہت حقیر ہوجاتے ہیں، چیختا ہوا یا سانسیں بھرتا ہوا آدمی کچھ نہیں دیکھ سکتااور وہاں تو ویسے بھی اندھیرا تھا۔صدر بڑا زور لگا کر کچ سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ ایسی موت نہیں مرنا چاہتا۔تلاش کی آندھی نے لگورچے کے اس عجیب و غریب کھیل میں صدر کو نشانہ بنالیا تھا۔ وہ تو اپنی کچ کی تلاش میں نکلا تھا، وہ گودے سے بھرے ہوئے ننھے پستانوں والی لڑکی، جس کا چھوٹا سا سینہ اس کے نام کی طرح معصوم اور سنسکرت آمیز تھا۔ایسے شبدوں، حرفوں کی طرح جن کی خوبصورت شبیہیں آنکھوں کے آگے رقص کرتی رہتی ہیں، انجان عورتوں کی طرح، اپنی کمر اور گول، قاب دار پیٹوں پر چپکے ہوئے تلوں سمیت۔کچ لگ بھگ اس کے بدن کا سارا پانی پی چکی تھی، اس بھیگتے ہوئے منظر میں حلق کی کلائیاں رگوں کی گھانس نچوڑ نچوڑ کر پانی کے قطرے تلاش کررہی تھیں۔دہلتا ہوا، ڈولتا ہوا سینہ اچھل اچھل کر خلاؤں سے اپنے حصے کی آخری ہوائیں مانگ رہا تھا، روتا بسورتا، گڑگڑاتا ہوا، مگر آنکھیں پھٹی جارہی تھیں، غلے لگتا تھا کناروں سے بس چھلک ہی پڑیں گے۔اس وقت جنس کی ہلکی سی بھی لذت اس کے بدن پر زندگی کا نشان نہیں پیدا کرسکتی تھی۔وہ مررہا تھا، ڈوب رہا تھا، اداسی کی اس شام کی طرح، جس میں سمندر یا پہاڑوں کی دلدل میں پھنستے ہوئے سورج کو کوئی نہیں بچا سکتا۔خواہ ڈوبتے ڈوبتے اس کی آنکھیں کتنی ہی لال کیوں نہ ہوجائیں، اس کا وجود سن کیوں نہ پڑنے لگے، دائرہ چٹخنے ہی کیوں نہ لگے، شعاعیں ماند کیوں نہ ہونے لگیں۔لیکن صدر سورج کی طرح زمین پر بکھری ہوئی ہواؤں کو کرنوں کو ڈوبتے وقت اپنے بدن میں نہیں بلا سکتا تھا، اس کے وجود سے تو بچی کھچی ہواؤں کے سائے کسی غار سے پھڑپھڑا کر نکلنے والے چمگادڑوں کی طرح بھاگ رہے تھے۔اس نے موت کی پہلی ہچکی بلند کی،وہ ننھی سی آواز جو شکست کی اولین دھمک کی طرح شورمچاتے ہوئے منظر پر غالب آگئی، کچ نے اپنے نکیلے ناخن کو صدر کی ٹانگ میں اگ آنے والے زخم میں گھسا دیا، پلپلی کھال میں ہلکی نیلی اور پیلی روشنی کے ہالوں سے بنا ہوا زخم گندھے ہوئے آٹے کے رنگ کا مواد اگلنے لگا۔جلتی ہوئی کترنوں کی تیز بو اس زخم سے نکلی اور صدر کے بے جان، سرد نتھنوں میں گھس کر یوں منڈرانے لگی، جیسے کھلنڈرے بچے، حویلیوں کی جھڑی ہوئی دیواروں سے سجے دائرے میں گشت لگاتے ہیں۔

 

بارش رفتہ رفتہ کم ہونے لگی، صدر کو دوسری ہچکی آئی، پھر تیسری، اس نے آخری بار جو نظارہ دیکھا تھا، وہ کچ کی روشن اور بڑی بڑی آنکھوں سے جھانکتے ہوئے ایک دبیز قہقہے کی روشنی تھی، جس کی تپتی ہوئی زمین پر صدر کا وجود بے جان ہوکر دھاڑ سے گرپڑا۔
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *