تصنیف حیدر: اس بحث نے این پر یہ بات روشن کردی تھی کہ صدر پستانوں کے بارے میں ایک اساطیری قسم کی منطق کا شکار ہوگیا ہے۔وہ اس دنیا میں نہیں رہ رہا ہے، جہاں پستانوں کا جنون دھیرے دھیرے ختم ہورہا ہے، عورت کو عورت تسلیم کیا جارہا ہے۔
تصنیف حیدر: جب این کی زبان صدر کے تالو سے چپکتی، اس کی زبان پر پھانکے گئے سفوف کا نیلا افسوں پھونکتی تو وہ بھی لڑکھڑانے لگتا، اس کی سنجیدہ سانسوں کے غار سے آوازوں کی چیاؤ چیاؤں کرتی چمگاڈریں نکل کر ہوائوں میں رقص کرنے لگتیں۔
تصنیف حیدر: کمرے کی لائٹ آن تھی، بارش کے شور کی گرج ہولے ہولے مدھم پڑرہی تھی، وہ کمفرٹر میں گھس گئی اور ابھرتے ہوئے سورج کی گرد میں نہ جانے کب اس کے بھاری اور گہرے سرخ پپوٹوں کا آفتاب غروب ہوگیا۔
تصنیف حیدر: وہ کہا کرتی تھی کہ دنیا اس کمرے کی طرح ہے، جس میں ہمیں بند کرکے لاک کردیا گیا ہے، اس لیے رونے دھونے سے بہتر ہے کہ ہم اپنی ضرورت اور پسند کی چیزیں حاصل کریں یا چھین لیں۔
تصنیف حیدر: این جب صدر سے بچھڑی تھی تو وہ وجہ اس قدر معمولی تھی کہ کوئی سوچ بھی نہ سکے۔ لیکن ان کا ملنا ایک عالیشان محل کے پھاٹک کی طرح ہمیشہ شاندار اور جاذب نظر معلوم ہوتا تھا۔
تصنیف حیدر: دھوپ زخموں اور چھالوں پر مرہم لگانے لگی۔آخری منظر جو میں نے دیکھا وہ سلائڈنگ میں اڑتی ہوئی ایک بھنبھیری تھی۔ہرے رنگ کی، پھرپھر کرتی، تیز اور آزاد، بالکل کچ اور صدر کی طرح۔
تصنیف حیدر: بارش رفتہ رفتہ کم ہونے لگی، صدر کو دوسری ہچکی آئی، پھر تیسری، اس نے آخری بار جو نظارہ دیکھا تھا، وہ کچ کی روشن اور بڑی بڑی آنکھوں سے جھانکتے ہوئے ایک دبیز قہقہے کی روشنی تھی، جس کی تپتی ہوئی زمین پر صدر کا وجود بے جان ہوکر دھاڑ سے گرپڑا۔
تصنیف حیدر: مجھ میں اور تم میں ایک عجیب و غریب فرق شاید یہی پایا جاتا ہو، کہ تمہیں کسی نے زبردستی چھوا، نوچا کھروچا تب بھی تمہیں خوشی حاصل ہوئی۔لیکن میں ایسا محسوس نہیں کرپاتی۔مجھے صرف اور صرف ایک تمہارے جسم کی دستک پر اپنے بدن کے دروازے کھولنے کی خواہش ہوئی ہے ۔
مجھے اپنے بندھے ہوئے ہاتھ پاوں سے سن ہوتے ہوئے بدن اور کانٹے چبھوتی ہوئی شریانوں کے باوجود ایسا محسوس ہوا جیسے میرا پورا بدن گوشت کی دلدل میں دھنسا ہواہو، ایک نرم ، ہوا ابلتے ہوئے، گرم گوشت کی دلدل میں۔
انسان کو اس طرح کبھی خودکشی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ پہلے بے ہوش ہو اور پھر دھیرے دھیرے اس کی جان جائے۔ اس لیے نہیں کہ یہ کوئی بہت تکلیف دہ عمل ہے، مگر ایسا اس لیے ہے کہ اس میں بچا لیے جانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں