Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

پاکستان کی سیکولرتشکیل ضروری ہے(حصہ دوم)۔

test-ghori

test-ghori

19 فروری, 2014


نو آبادیاتی نظام کے تحت مسلم بادشاہت کے خاتمے اور جمہوری نظام کے محدود نفاذ کے بعد مسلم ریاستوں میں پہلی بار مذہب اور ریاست علیحدہ ہوئے اور نوآبادیاتی قابضین کی حکومتوں کے خاتمے کے لئے برصغیر میں قومیت کی بنیاد پر ریاست اور سیاسی اختیار حاصل کرنے کا عمل شروع ہوا۔ ہندوستان میں یورپی استعمار کے تحت واضح نظریاتی تقسیم ہوئی۔ ایک محدود طبقہ اشرافیہ جدید یورپی افکار کا حامی بنا تاکہ نئے حکمرانوں کے ساتھ اقتدار میں شریک رہے ،ایک واضح متوسط طبقہ اور اکثریت پر مبنی معاشی پسماندگی کا شکار طبقہ وجود میں آیے جومعاشی دباو کے تحت جدید علوم کے حصول کے لئے آمادہ تو تھے مگر مذہب میں قدامت پرست رہنا چاہتے تھے۔اس نظریاتی اور معاشی تقسیم کے نتیجے میں اصلاحات کا عمل صرف ایک محدود طبقے تک رہا ۔ ہندوستان کے برعکس عرب علاقے اور ایشیا اور افریقہ کے دیگر ممالک میں یورپی قبضے کے باوجود اصلاحات کا عمل سست رفتا رہا اور اس کے اثرات عوامی سطح تک پہنچ نہیں پائے۔ اور آج بھی زیادہ تر مسلم ریاستوں میں جدید جمہوری اور سیکولر سیاسی نظام کی بجائے مذہب کی بنیاد پر قانون سازی کا رحجا ن موجود ہے۔

عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد بننے والی ریاستوں میں سے صرف ترکی میں جمہوریت کی بنیاد سیکولر قومیت پر رکھی گئ۔ مصنف اور فلسفی راجر سکروٹن کے مطابق نوآبادیاتی نظام سے آباد ہونے والی ان ریاستوں میں جمہوری حکومتوں کی بجائے مخصوص قبائل ، خاندانوں یا فرقوں کی حکومتیں بیرونی حمایت کے تحت قائم ہوئیں، جن کے خلاف بغاوت اور مزاحمت کی کوششوں کو سختی سے ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بیسویں صدی میں بننے والی مسلم ریاستوں میں جمہوریت کو امت کے اس تصور نے بھی نقصان پہنچایا ہے جو جمال الدین افغانی، سید قطب، اقبال اور مودودی جیسے مفکرین نے جمہوریت کے جدید تصور کے خلاف پان اسلامک حکومت یا خلافت کے قیام کی صورت میں دیا تھا۔ مسلم ممالک میں سے اکثریت میں شریعت کے نفاذ اور مسلم برتری کے لئے جمہوریت کی نسبت خلافت کے قیام کی خواہش زیادہ عوامی اور پسندیدہ ہے۔ اس مقصد کے لئے اخوان المسلمین، حزب التحریر اور جماعت اسلامی جیسی سیاسی اور فکری تحریکوں کے ساتھ ساتھ القاعدہ جیسی عسکری تنطیمیں بھی کام کر رہی ہیں۔
عوامی سطح پر مذہب کی تشریح کا اختیار ہمیشہ سے مذہبی علما کے پاس ہی ہے،تاہم قانون سازی کے اختیارات برطانوی دور سے ہی انگریز حکمرانوں یا اصلاحات کے نتیجے میں محدود انداز میں عومی نمائندوں کے پاس چلے گئے مگر بد قسمتی سے مذہب کے نام پر منظور کی گئی قرارداد مقاصد اور73کے آئین میں شامل اسلامی دفعات کے تحت ریاست کا اقتتدار اعلیٰ اور قانون سازی کا اختیار عوام اور عوام کے منتخب نمائندوں کی بجائے اللہ اور قرآن و سنت کو دے دیا گیا ہے اور اللہ اور قرآن اور سنت کی نمائندگی کا فریضہ غیر رسمی طور پر علماء کے پاس ہونے کی وجہ سے عوامی نمائندے قانون سازی کے جمہوری حق سے کسی حد تک محروم ہیں۔
ہندوستان کی تقسیم سے پہلے اور بعد میں مسلم اکثریتی علاقوں میں مقبولیت اور سیاسی کامیابی حاصل کرنے کے لئے مسلم لیگ اور دیگر مسلم سیاسی جماعتوں کی طرف سے مذہب کے سیاسی استعمال کی وجہ سے پاکستان بنانے کے سماجی اور سیاسی عوامل پس پشت چلے گئے ہیں ۔ سیاسی مقاصد کے لئے اسلام کا استعمال ہندوستان کے زیادہ ترمسلمان سیاسی رہنماوں نے کیا ہے، جس کی وجہ سے موجودہ پاکستان میں اسلام کو ریاستی مذہب قرار دے کر قرآن اور سنت کو قانون سازی کی بنیاد بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے پارلیمان کی بجائے مذہب اور مذہب کی تشریح کرنے والوں کی تقلید کو کسی حد تک غیر رسمی آئنی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔
پاکستان میں مذہبی علماء کو قانون سازی میں عمل دخل بتدریج حاصل ہوا ہے، اور اس وقت عملاً معاشرہ اطاعت کے کئی مراکز میں بٹا ہوا ہے۔ لوگ اپنے معاملات طے کرنے، مسائل کا حل تلاش کرنے اور جھگڑے نپٹانے کے لئے ریاستی اداروں اور قوانین سے زیادہ بھروسہ محلے کی مسجد کے خطیب اور امام پر کرتے ہیں۔ مذہبی جماعتیں سیاسی عمل میں سوائے آمروں کے ادوار کے کبھی بھی عوامی حمایت حاصل نہیں کر سکیں لیکن سماجی سطح پر اور قانون سازی میں رہنمائی کے لئے علما کے مرتبہ اور کردار میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ بھٹو دور میں پاکستانی ریاست کی مذہبی تشکیل آئین سازی کے ذریعے کی گئی۔ 1973 کے بعد بالخصوص ضیا دور میں اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام اور اس کے اختیارا میں اضافے ، آئین میں اسلامی دفعات کی شمولیت ، مذہبی تعلیم کو ریاست کی ذمہ داری قرار دینے اور وفاقی شرعی عدالت کے قیام کی وجہ سے مذہب اور علماء کو قانون سازی او ر قانون کی تشریح کے بالواسطہ اختیارات حاصل ہو گئے۔
عوامی سطح پر مذہب کی تشریح کا اختیار ہمیشہ سے مذہبی علما کے پاس ہی ہے،تاہم قانون سازی کے اختیارات برطانوی دور سے ہی انگریز حکمرانوں یا اصلاحات کے نتیجے میں محدود انداز میں عومی نمائندوں کے پاس چلے گئے مگر بد قسمتی سے مذہب کے نام پر منظور کی گئی قرارداد مقاصد اور73کے آئین میں شامل اسلامی دفعات کے تحت ریاست کا اقتتدار اعلیٰ اور قانون سازی کا اختیار عوام اور عوام کے منتخب نمائندوں کی بجائے اللہ اور قرآن و سنت کو دے دیا گیا ہے اور اللہ اور قرآن اور سنت کی نمائندگی کا فریضہ غیر رسمی طور پر علماء کے پاس ہونے کی وجہ سے عوامی نمائندے قانون سازی کے جمہوری حق سے کسی حد تک محروم ہیں۔اس تضاد کے باعث پاکستان کی ریاست میں قانون سازی کا کوئی ایک مرکز عملی طور پر نہیں ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے قانون سازی مذہبی حدود کے اندر رہتے ہوئے کرنے کے پابند ہیں، اور مذہب کیا ہے، اس کی حدود اور اس کی تشریح کا اختیار ان علما کے پاس ہے جنہیں عوام نے کبھی سیاسی پذیرائی نہیں دی۔ ایسی صورت میں حکومت کی زرعی اصلاحات، حدود قوانین اور توہین رسالت کے قوانین میں تبدیلی، بھارت اور امریکہ سے تعلقات، دہشت گردی کے خلاف جنگ، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور نصاب میں جدت جیسے حساس معاملات پر کسی قسم کی قانون سازی عملی طور پر ممکن نہیں رہی۔ کیوں کہ ان معاملات پر مذہب کی رہنمائی لئے بغیر کسی قسم کی قانون سازی ممکن نہیں اور مذہب کیا ہے اس کا فیصلہ مذہبی علما کرتے ہیں۔اس کی ایک واضح مثال ڈی-این-اے کو مرکزی شہادت کے طور پر استعمال کرنے سے انکار اور 2006میں منظور ہونے والے تحفظِ نسواں بل کو مسترد کرنا ہے۔ حدود اور توہین مذہب اور رسالت کے قانون میں ترمیم کی راہ میں رُکاوٹ کی بڑی وجہ بھی مذہبی حلقوں کی طرف سے حمایت نہ ملنا ہے۔ پاکستان میں سماجی سطح پر مذہبی تبلیغی جماعتوں کی وجہ سے معاشرے میں قدامت پرستی اور شدت پسندی بڑھی ہے جس کی وجہ سے لوگ ابھی تک جمہوریت کو بطور نظام تسلیم کرنے اور پارلیمان کو قانون سازی کے مکمل اختیارات دینے پر تیار نہیں ہیں اور روزمرہ امور میں رہنمائی کے لئے منبر اور محراب سے رجوع کرتے ہیں۔
قرآن اور سنت کو آئین اور تعزیرات کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یہ بات نظر انداز کر دی گئی ہے کہ قرآن اور سنت میں ریاست چلانے کے لئے بنیادی سیاسی ڈھانچے کے خدوخال اور رہنما اصول موجود نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں بنیادی انسانی حقوق، ریاست کے رہنما اصول ، سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچے میں اختیارات کی تقسیم اور حکومت کے انتخاب کا کوئی نظام موجود ہے۔ مذہبی بنیاد پر ریاست کی تشکیل کے دوران فقہی اور مسلکی اختلافات کے سنگین مسئلہ کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔اسلام سمیت تمام الہامی مذاہب جس زمانے میں ظہور پذیر ہوئے اس زمانے میں ریاست جمہوری اور قومی نہیں تھی، یہی وجہ ہے کہ الہامی مذاہب سیاست، معیشت اورشہریت سے متعلق اخلاقی ہدایات کے سوا کوئی ضوابط موجود نہیں ہیں۔ موجودہ مسلم ریاستوں کو مذہبی افکار کے تحت چلانے کی یہ کوشش قدیم تھیوکریٹک ریاستوں ہی کی ایک تجدید ہے جہاں ماضی میں فرقوں کی بنیاد پر ریاستی طاقت کے تحت رعایا اور دیگر ریاستوں کو مطیع بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
پاکستان میں جمہوری عمل کی کامیابی، انفرادی آزادی کو یقینی بنانے اور انسانی حقوق کی صورتِ حال میں بہتری کے لئے ضروری ہے کہ ریاست کی تشکیل مذہبی بنیادوں پر کرنے کی بجائے ریاست اور مذہب کو الگ کیا جائے۔ لیکن ایسا تبھی ممکن ہے جب مذہب کی تشریح کو مذہبی علما کی بجائے افراد کی ذاتی سمجھ بوجھ پر چھوڑ دیا جائے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ مذہب کی حیثیت کا تعین کیا جائے۔ اسلام کیا ہے اور کون مسلمان ہے اور کون نہیں اس کا فیصلہ چند مذہبی علما یا ریاست کا استحقاق نہیں ہے بلکہ اپنی مذہبی شناخت اور عقیدے کا فیصلہ ہر فرد کا اپنی ذاتی اور انفرادی حیثیت میں کرنے کا موقع دینا ہوگا۔ اب ہر فرد کو اپنے طور پر اپنے مذہب کو سماجی دباو اور مذہبی علما کی نگرانی کے بغیر اپنانے اور اسے رد کرنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لینا ہو گا۔ریاست کو ارتداد کی سزاوں اور مذہبی تعلیم دینے کی ذمہ داری کو چھوڑ کر افراد کی خوشحالی اور بہبود کے فرائض سر انجام دینا ہوں گے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور شریعت کورٹ جیسے متوازی اور غیر جمہوری نظام ہائے انصاف اور قانون ساز اداروں کو تحلیل کر کے قانون سازی کا اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کو نہ دیا گیا تو ہر فرقہ اپنے لئے الگ شرعی نظام کا تقاضہ کرے گا اور ریاستی سطح پر اموی اور عباسی دور کی طرح ہی دیگر فرقوں کو مرتد قرار دے کر قتل کرنے کی حمایت کرتا رہے گا۔ اسلام کے ابتدائی دنوں کا سا غیر جمہوری رویہ اور استعماری رویہ موجودہ دنیا میں کسی طرح سے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ خلافت جیسی مذہبی آمریت کی کا احیاء کسی بھی طرح موجودہ زمانے کے متمدن اور انفرادی و اجتمااعی فلاح کی بنیاد پر کھڑے معاشروں کے ترقی یافتہ سیاسی اور سماجی نظام کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ فرد واحد کو خلیفہ کے طور پر مذہبی، عسکری، سیاسی اور سماجی قیادت سونپ دینا انسانی تہذیب کو قرون وسطیٰ میں لے جانے کے مترادف ہو گا جہاں غیر مسلموں کو ذلت کا شکار کر کے جزیہ دینے پر مجبور کرنا، مذہب قبول کرنے یا قتال کے انتخاب کی آزادی دینے کے لئے مسلح جدوجہد ریاست کی بنیادی ذمہ داری تھی۔
مسلم ممالک میں عقیدے کو ریاست پر مقدم کرنے سے ریاست عوامی فلاح کے بنیادی مقصد سے دور ہو چکی ہے اور مذہبی فرائض اور ضوابط ریاست کے بنائے قوانین سے برتر سمجھے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ریاست کی بجائے پاکستانی شہری اپنے عقیدے کے لئے زیادہ سرگرم ہیں۔ ریاستی طاقت اور سیاسی اختیار کو مرتدین کے تدارک، مذہب کے تحفظ اور مذہبی اخلاقیات کے نفاذ کے لئے استعمال کرنے کی کوشش ریاست میں فرقہ وارانہ تقسیم کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔پاکستان میں مذہبی علماء کا فتوی ریاستی قانون پر فوقیت رکھتا ہے، شہری حقوق اور فرائض سے زیادہ پرچار مذہب کے احکامات کا کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں لوگ ریاست کے احکامات کی بجائے مذہبی علماء کی فقہ کے تحت زندگی گزارتے ہیں اور مذہب کی خاطر ریاست کو توڑنے یا دیگر ریاستوں میں مداخلت کو جائز سمجھتے ہوئے پوری دنیا میں اپنے عقیدے کے غلبے کی سیاسی اور عسکری کوششیں شروع کر دیتے ہیں، جو انسانیت اور امن کے لئے کسی طرح سود مند نہیں۔