وہ میرے دل کو ایسے بھر دیتا ہے
جیسے سناٹا خالی کمرے کو
ربط اور ضبط کی ساری گرہیں ان آنکھوں کی دلچسپی سے کھلتی ہیں
جن آنکھوں کی حیرانی سے باغ عدن کے تالے کھلیں گے

بھر دیتی ہیں
وہ آنکھیں مجھ کو بھر دیتی ہیں
خوف اور لذت سے
اک مصنوعی وصل کی وحشت سے
رک جاتا ہوں
میں بھرا بھرایا رک جاتا ہوں
ان رستوں پر
جن رستوں کی بھول بھلیاں مجھ کو ایسے سیدھی ہیں
جیسے مقناطیس کو لوہا
جیسے مقتول کو قبر کی مٹی

ہنستے ہنستے رہ جاتا ہوں
اپنے دل کی ویرانی پہ
اور ان آنکھوں کی حیرانی پہ
جب وہ میرے دل کو ایسے بھر دیتی ہیں
جیسے آخری ہچکی بھر دیتی ہے
کمرہ موت کی خوشبو سے

Leave a Reply