Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

سائنس،مذہب اور ہمارا رویہ

test-ghori

test-ghori

24 فروری, 2015
ایک سوال بہت سے ذی شعور لوگ خود سے اور اہل علم سے پوچھتے ہیں کہ آخر مسلمان علمی میدان میں اتنے پسماندہ کیوں ہیں، آخر تمام علمی وسائنسی حقائق مغرب کی طرف سے ہی کیوں آتے ہیں،کیوں ہم صدیوں سے جہالت کے اندھیروں میں ڈ وبے ہوئے ہیں، ہمارے ہاں علمی ترقی کے بجائے مردہ تقلید اور اپنے اپنے مکتبہ فکر کی اسیری کیوں ہے۔ تقلید اور قدامت پسندی صرف دنیاوی علوم تک ہی محدود نہیں بلکہ مذہبی و روحانی علوم کے معاملے میں بھی مسلمانوں کا دامن خالی ہے۔ حسین بن منصور حلاج ہماری روحانی تاریخ کا اہم ترین نام ہے، ان کی زندگی اور تصانیف پر واحد تنقیدی اور علمی کام فرانس میں ہوا ہےاور ایک ضخیم کتاب کی شکل میں چھپ چکا ہے اس کے برعکس ہمارے ہاں ان کی زندگی پر ” دشت سوس” جیسے جذباتی ناول لکھے گئے ہیں۔ مسلمانوں کا اپنی مذہبی کتاب قرآن کی جانب رویہ بھی غیر علمی ہے، مسلم دنیا میں اسلام کے معاخذپر کام تابعین کے بعد سے رک چکا ہےلیکن امریکہ کی میک گل یونیورسٹی کے شعبہ دینیات میں ایسے غیر مسلم سکالر موجود ہیں جو پچھلے تیس سال سے قرآن کی زبان پر علمی کام کررہے ہیں اور ان کی تحقیق گاہے گاہے شائع ہوتی رہتی ہے۔اسی طرح فقہ، اور حدیث کے علم کو بھی محض روایات کی ذہن نشینی تک محدود کر دیا گیا ہے۔
ہمارے ہاں جو شخص بھی سائنسی مضامین پڑھتا یا پڑھاتا ہے اس کی دلی کوشش ہوتی ہے کہ یہ ثابت کرے کہ ساری سائنس قرآن سے ہی نکلی ہے اور مغربی سائنس دان صرف قرآن میں بیان کردہ سائنسی حقائق کی تصدیق کررہے ہیں۔
مسلمانوں کی علمی پسماندگی کی تازہ ترین مثال معروف سعودی عالم دین شیخ الخیباری کا زمین کو ساکن قرار دینا ہے،یہ عالم دین اکیلے نہیں ہیں ان سے پہلےسعودیہ کے معروف مفتی اعظم شیخ ابن باز ایک مکمل کتاب اس موضوع پر لکھ چکے ہیں جس میں انھوں نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ زمین گول نہیں بلکہ چپٹی ہے اور سورج زمین کے گرد گھومتا ہے( 1)۔اسی طرح ترکی کے مشہور عالم دین ہارون یحیٰ نے حال ہی میں نظریہ ارتقاء کے رد میں ایک پوری کتاب لکھی ہے(2)۔ ہمارے ہاں جو شخص بھی سائنسی مضامین پڑھتا یا پڑھاتا ہے اس کی دلی کوشش ہوتی ہے کہ یہ ثابت کرے کہ ساری سائنس قرآن سے ہی نکلی ہے اور مغربی سائنس دان صرف قرآن میں بیان کردہ سائنسی حقائق کی تصدیق کررہے ہیں۔ یہ کوششیں اگرچہ بہت خلوص اور مذہبی جذبے سے کی جاتی ہیں لیکن اس کوشش کے پیچھے ایک طرح کا علمی کمتری اور محرومی کا احساس موجود ہے جسے چھپانے کے لیے قرآن کا سہارا لیا جاتا ہے اور ایک سطحی اور مصنوعی احساس برتری پیدا کیا جاتا ہے۔ ایسی کوششوں سے نہ تو اسلام کو فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی سائنس کو، کیونکہ یہ کوششیں سائنسی رویے اور تحقیق کی نفی کرتی ہیں، اور ہمارے ایسے ہی غیر عقلی رویے ہمیں سائنسی علوم میں پسماندہ رکھے ہوئے ہیں۔
مذہبی کتابوں سے سائنس کو ثابت کرنے کےعمل میں ہم اکیلے نہیں ہیں ، مسلمانوں سے قبل ہندو، عیسائی، اور یہودی بھی ایسی کوششیں کرچکے ہیں اور کررہے ہیں۔پچھلے دنوں بھارتی وزیراعظم نے ایک تقریر میں کہا کہ انڈیا میں ہزاروں سال پہلے پلاسٹک سرجری کی ٹیکنالوجی موجود تھی جس کی ایک مثال ہندو بھگوان گنیش کو انسان کے بجائے ہاتھی کا سر لگایا جانا ہے۔ انڈین سائنس کانفرنس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ انڈیا میں جیٹ ٹیکنالوجی ہزاروں سال پہلے بھی موجود تھی اور اسی جیٹ پر بیٹھ کر رام نے لنکا پر حملہ کیا تھا، کانفرنس کے دوران ان قدیمی علوم سے استفادہ کرنےپربھی زور دیا گیا۔ اس سے پہلے عیسائی علماء بھی بائبل سے سائنسی حقائق ثابت کرتے رہے ہیں۔ ایک زمانے تک چرچ کے دباو پر زمین کی عمر سوا چار ہزار سال قرار دی جاتی رہی ہے اور زمین کی تخلیق پہلے اتوار کو صبح نو بجے ثابت کی جاتی رہی ہے۔ چرچ بائبل کی رو سے سورج کا زمین کے گرد گھومنا اور زمین کامرکزِ کائنات ہونا ثابت کرتارہاہے۔ مسلم علماء بھی ایک عرصے تک ایسے ہی نظریات کی ترویج کرتے رہے ہیں، حق تو یہ ہے کہ عقل دشمنی میں تمام مذہبی علماء ایک جتنے شدت پسند ہیں۔
ہود بھائی لکھتے ہیں کہ کانفرنس میں ایک صاحب نے یہ تجویز کیا کہ توانائی کہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے “جنوں” سے بجلی پیدا کرنی چاہیے کیونکہ وہ آگ سے بنے ہوتے ہیں
پرویز ہود بھائی کی کتاب “مسلمان اور سائنس”(3) میں پاکستان میں ہونے والی ایک یادگار کانفرنس ” اسلامی سائنس کانفرنس” کا ذکر کرتے ہیں ۔ 1983 میں ہونے والی کانفرنس میں قرآن پر تحقیق کے ذریعےکائنات کی رفتار معلوم کی گئی جو روشنی کی رفتار کے برابر نکلی ۔ہود بھائی لکھتے ہیں کہ کانفرنس میں ایک صاحب نے یہ تجویز کیا کہ توانائی کہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے “جنوں” سے بجلی پیدا کرنی چاہیے کیونکہ وہ آگ سے بنے ہوتے ہیں، اسی طرح باجماعت نماز کے ثواب کا تخمینہ لگانے کا طریقہ بھی بیان کیا گیا ۔ مارکیٹ میں متفرق کتابیں موجود ہیں جن میں ہندو ازم اور سائنس، اسلام اور سائنس، بائبل اور سائنس وغیرہ کو موضوع بنایا گیا ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ کتابیں سائنسدانوں کے بجائے مذہبی لوگوں کی لکھی ہوئی ہیں اور ٹھوس تحقیق کے بغیر لکھی گئی ہیں۔ سائنس کے بنیادی اصولوں سے عدم شناسائی کے باعث ان کتابوں کو سائنسی نہیں مذہبی سائنسی کتابیں کہنا چاہئے جن کی کوئی علمی وقعت نہیں ہے۔ زیادہ تشویش ناک امر پاکستان میں پڑھائے جانے والے نصاب میں سائنس کی تدریس کے لیے مذہب کا استعمال ہے۔
1
مذہب اور سائنس کے تعلق اور موازنے سے قبل یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سائنس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ،یہ صرف حقائق کی کھوج اور آگہی کا علم ہے۔سائنس صرف یہ بتاتی ہے کہ کوئی بھی عمل ، یاواقعہ کیسے ہوا۔ اس کا کام کسی بھی نظریے یا عقیدے کی بنیاد پر تحقیق نہیں اور نہ ہی یہ کسی شے کے ہونے کا مقصد واضح کرتی ہے۔ ایسے وجودی سوالوں کا جواب سائنس کے دائرہ کار میں نہیں آتا یہ فلسفہ اور مذہب کا میدان ہے، مثال کے طور سائنس یہ بتاسکتی ہے کہ کائنات کیسے بنی، انسان کیسے وجود میں آیا ،لیکن اس کائنات کا مقصد کیا ہے اور انسان کیوں پیدا کیا گیا، یا اخلاقیات پر کیوں عمل کیا جائے وغیرہ سائنس کا موضوع نہیں ہیں۔ ان سوالات کے جواب کے لیے ہمیں مذہب اور فلسفہ کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ سائنس کو مذہب کی آنکھ سے پڑھنے کی کوشش کا مقصد حقائق جاننا نہیں بلکہ مذہبی عقائد کی تصدیق کے لیے سائنسی تشریح ڈھونڈنا ہے۔ مذہب کو سائنس کی مدد سے ثابت کرنے سے دلی تسلی تو مل جاتی ہے لیکن علمی ترقی نہیں ہوتی۔
سائنس اور مذہب کے تعلق پر کتب لکھنے والے مذہبی علماء مذہب کو سائنس پر مقدم اور برتر خیال کرتے ہیں حالانکہ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی مذہبی کتاب نے کوئی سائنسی پیش گوئی کی ہو اور سائنس نے اس پر عمل کرکے نئی تحقیق کی ہو، اس کے برعکس سائنسدانوں کی تحقیق مذہبی لوگ اپنے عقائد کے ثبوت کے لیے پیش کرتے آئے ہیں۔ اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ انیسویں صدی تک مسلمان یہ مانتے رہے کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے تاوقتیکہ جدید فلکیات نے ٹالمی کے تصور کائنات کو رد کردیا(یہ تحقیق ٹالمی نے یونان میں کی تھی اور اس تحقیق کو ساری دنیا دو ہ ہزار سال تک مانتی رہی)۔ ماضی کے علماء کے برعکس آج ہارون یحی جیسے لوگ سورہ یٰس کی آیات کے ذریعے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہر چیز اپنے مدار میں گھوم رہی ہے، یعنی 1300 سال تک مسلمانوں نے اپنا قرآن ہی غور سے نہیں پڑھا ۔
مذہبی کتابوں کے ساتھ معاملہ یہ بھی ہے کہ ان کی کسی ایک تشریح پر کبھی اتفاق نہیں ہوسکا، اب کس لفظ کا کیا مطلب لیا جائے اور مطلب کو کس پیرائے میں سمجھا جائے یہ ایک نہایت مشکل کام ہے ،اس لیے اکثر لوگ سائنسی حقائق کو ثابت کرنے کے لیے متعددمفاہیم میں سے اپنی مرضی کا مفہوم استعمال کرلیتے ہیں جس سے ان کا مقصد پورا ہوجائے۔
اس عمل میں ایک قباحت یہ بھی ہے کہ سائنسی تحقیقات تو روز ہوتی ہیں اور نت نئے نظریات سامنے آتے رہتے ہیں جو قدیم سائنسی تصورات کا ابطال کرتے ہیں۔ آج کسی سائنسی نظریے کو قرآن سے ثابت کرنے والے بعدازاں اس نظریہ کے غلط ثابت ہونے پر خود کو کسی جوابدہی کا مستوجب خیال نہیں کرتے۔ مذہبی کتابوں کے ساتھ معاملہ یہ بھی ہے کہ ان کی کسی ایک تشریح پر کبھی اتفاق نہیں ہوسکا، اب کس لفظ کا کیا مطلب لیا جائے اور مطلب کو کس پیرائے میں سمجھا جائے یہ ایک نہایت مشکل کام ہے ،اس لیے اکثر لوگ سائنسی حقائق کو ثابت کرنے کے لیے متعددمفاہیم میں سے اپنی مرضی کا مفہوم استعمال کرلیتے ہیں جس سے ان کا مقصد پورا ہوجائے۔
ایک نہایت اہم بات جو مذہبی کتب خصوصا قرآن کے بارے میں سمجھ لینی چاہیے کہ یہ اپنے اصل مفہوم اور مقصد میں سائنس کی کتاب نہیں ہے اور اسی لیے اکثر شارحین نے اس کا اخلاقی اور مابعد الطبیعاتی مفہوم ہی لیا ہے۔ جاوید احمد غامدی کے خیال میں بھی قرآن سائنس سکھانے کے لیے نازل نہیں کیا گیا تھا بلکہ انسانی کی اخلاقی اور روحانی رہنمائی کے لیے اتارا گیا تھا(4) ۔تاہم بہت سے مذہبی علماء قران سے سائنس اخذ کرنے میں کوشاں ہیں۔ بعض لوگوں کے خیال میں عباسی دور کے مسلم سائنسدانوں کی کامیابی بھی قرآن ہی کی بدولت ہے تاہم عظیم مسلم سائنسدانوں کے حالات زندگی ایسی کوئی شہادت پیش نہیں کرتے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سائنس کبھی بھی مسلمانوں کی علمی سرگرمیوں کا محور نہیں رہی ۔ مسلمانوں کی علمی سرگرمیاں فلسفہ اور مابعد الطبیعات تک محدود تھیں اور جو چند نام ہم فخر سے پیش کرتے ہیں ان کو کبھی بھی عوام میں مقبولیت نہیں ملی ۔زیادہ تر مسلم سائنسدانوں کا تعلق معتزلہ سے تھا اور ان میں سے اکثر کو زندگی میں یا بعد میں کافر قرار دیا گیا،کئی کو جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی کتابیں جلائی گئیں۔ امام غزالی کی تحافتہ الفلاسفہ ان معروف سائنسدانوں اور فلسفیوں کی سوچ اور تعلیمات کو کفر قرار دیتی ہے کیونکہ ان سائنسدانوں کی تحقیقات قرآن سے نہیں تھیں بلکہ یونانی فلسفہ اور عقلی استدلال کی مرہون منت تھیں۔ ان مسلم سائنسدانوں میں سے بعض شاہی دربار سے بھی وابستہ رہے تاہم عام مسلمان ان تحقیقات سے لاتعلق ہی رہے۔ ابن رشد کے ذریعے اہل مغرب یونانی فلسفہ پر مسلم تحقیق سے واقف ہوئے اور انہوں نے مسلم سائنس دانوں کے کام سے فائدہ اٹھایا لیکن ہم نے اپنی غلطیوں کا ادراک نہیں کیا اور ایک جھوٹے احساس تفاخر میں مبتلا ہوگئے کہ سارا علم ہمارے ہی پاس تھا اور ہے۔
تاریخ اور باقی قوموں سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ مذہب اور سائنس کو اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنے اپنے اصولوں کے مطابق کام کرنا ہوگا اور ان دونوں کے بیچ کوئی پل قائم کرنے کی کوشش سود مند نہیں کیونکہ یہ پل نہ تو مذہب کی کوئی خدمت کرتا ہے اور نہ ہی سائنس کی ۔مذہب کو سائنس کے ذریعے ثابت کرنے اور سائنس کو مذہبی عقائد کی مدد سے پرکھنے سے ہمارے اندر سائنسی رویہ کبھی پنپ نہیں پائے گا اور جہالت کا یہ دور طویل ہوتا جائے گا۔

[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]
 
Refrence:
1. “Al-adilla al-naqliyya wa al-ḥissiyya ʿala imkān al-ṣuʾūd ila al-kawākib wa ʾala jarayān al-shams wa al-qamar wa sukūn al-arḍ (“Treatise on the textual and rational proofs of the rotation of the sun and the motionlessness of the earth and the possibility of ascension to other planets”) by Ibn-e –Baaz
2. “The Evolution Deciet” By Haroon Yahya
3. Musalman aur Science By Prof Pervez Amirali Hoodbhoy
4. Javed Ahmed Ghamdi
 
Books that were helpful in writing this article:
1. Closing of muslim mind by Robert R Reilly
2. Musalman aur Science By Prof Pervez Amir Ali Hoodbhoy