<
div class=”urdutext”>لیوس نکوسی (Lewis Nkosi) کا تعلق جنوبی افریقہ سے تھا۔ تحریر و تقریر پر عائد پابندیوں کے باعث آپ نے 30 سال جلاوطنی میں کاٹے۔ ادبی تنقید، شاعری، ناول نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نویسی سمیت ادب کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی۔ آپ صحافت کے پیشے سے بھی وابستہ رہے۔ ان کی اس کہانی کا کا ترجمہ عطا صدیقی نے کیا ہے جو آج کے شمارہ نمبر 9 میں شامل ہے۔
عطا صدیقی (پورا نام عطاء الرحمٰن صدیقی) 13 نومبر 1931 میں لکھنؤ میں پیدا ہوے، تقسیم کے بعد کراچی منتقل ہوے۔ کراچی یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بندر روڈ پر واقع ایک سکول میں پڑھانا شروع کیا اور وہیں سے ہیڈماسٹر کے طور پر ریٹائر ہوے۔ ایک پڑھنے والے اور ترجمہ کار کے طور پر ان کی ادب سے عمربھر گہری وابستگی رہی۔ ان کے کیے ہوے بہت سی عالمی کہانیوں کے ترجمے آج کراچی اور دیگر رسالوں میں شائع ہوتے رہے۔ انھوں نے امرتا پریتم کی کتاب ’’ایک تھی سارا‘‘ کا ہندی سے ترجمہ کیا۔ عطا صدیقی کی ترجمہ کی ہوئی کہانیوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہے۔ 13 اگست 2018 کو کراچی میں وفات پائی۔
عطا صدیقی کے تراجم لالٹین پر اجمل کمال کے تعاون سے پیش کیے جا رہے ہیں۔ اجمل کمال کراچی پاکستان سے شائع ہونے والے سہ ماہی ادبی جریدے "آج” کے بانی اور مدیر ہیں۔ آج کا پہلا شمارہ 1981 میں شائع ہو تھا۔ آج نے اردو قارئین کو تراجم کے ذریعے دیگر زبانوں کے معیاری ادب سے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اردو میں لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کے کام سے بھی متعارف کرایا۔ سہ ماہی آج کو سبسکرائب کرنے اور آج میں شائع ہونے والی تخلیقات کو کتابی صورت میں خریدنے کے لیے سٹی پریس بک شاپ یا عامر انصاری سے رابطہ کیا جا سکتا ہے:
عامر انصاری: 03003451649
احمد مبارک کی آواز میں یہ کہانی اب آج کے یوٹیوب چینل پر بھی اپ لوڈ کر دی گئی ہے۔ آج کا یوٹیوب چینل سبسکرائب کیجیے اور گھنٹی کے نشان پر کلک کیجیے تاکہ نئی ویڈیوز اپ لوڈ ہونے کا نوٹیفیکیشن بروقت مل سکے۔
تحریر: لیوس نکوسی (5 دسمبر 1936 تا 5 ستمبر 2010)
انگریزی سے ترجمہ: عطا صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1
قیدی سب کے سب بنیادی طور پر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں، اپنے جیلروں کی طرح۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی جلد کی رنگت کیا ہے، جب ان سے گفتگو کی جاتی ہے تو وہ بےغیرتی سے روتے جھینکتے ہیں۔ ان کے بولنے کے ڈھنگ میں کوئی بات ایسی ہوتی ہے جو مجھے شدت سے بےچین کر دیتی ہے۔ اس کی نشان دہی کرنا اتنا آسان نہیں۔ اگر میں جواب دینے پر مجبور ہی کر دیا جاؤں تو میں کہوں گا کہ وہ ناگواری اور حیرانی کا آمیزہ ہوتا ہے، احتجاج اور خوشامد کا ملغوبہ جو کہ پرلے درجے کی نامردی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے قیدی کو اپنے رول سے محبت بھی ہو اور نفرت بھی۔ جیسے وہ اپنے جیلر کو ناپسند بھی کرتا ہو اور اس کا احترام بھی کرتا ہو۔ سوچتا ہوں تو یکسر حیران ہو جاتا ہوں کہ تقدیر انسان کو اس نوعیت کے رول میں بھی دھکیل سکتی ہے۔
میں اِدھر جارج کو دیکھتا ہوں۔ پھٹے حالوں، میلا چِیکٹ، بھوک کا مارا، اور دھوپ کی کمی کے باعث جلد بھی تھوڑی بہت پھیکی پھیکی۔ تو میرے آنسو نکل آتے ہیں۔ آخر کو جارج کبھی میرا آقا اور جیلر تھا، حالانکہ آپ اب اس بات کو جان نہیں پائیں گے۔ اس گورے آدمی کے ہاتھ میں بارہ ملین کالوں کی قسمت تھی اور بدنصیبی دیکھیے کہ اس تعداد میں سے بندہ خاص قیدی کی حیثیت سے جارج کے پلّے پڑ گیا۔ جس طرح جارج اپنے پاس آنے والے مہمان سیاستدانوں سے کہا کرتا تھا، یہ اس کے لیے ’’سب سے سخت بےرحمانہ چرکا‘‘ تھا۔ مگر جس وقت وہ یہ شکایت کرتا تو میں اس کے لہجے سے جھانکتے فخر کو تاڑ جاتا۔ وہ مجھ جیسے قیدی کو پا کر خوش تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس کو کوئی مجھ جیسا قیدی نہ ملتا، جس پر وہ اپنی مخصوص چھاپ کی عنایات کر سکے، تو وہ کسی حد تک خود کو گھٹا گھٹا محسوس کرتا، اس لیے جب بھی وہ اپنی قسمت کو اس بات پر کوستا کہ ا س کو مجھ ایسے کا آقا بنا دیا گیا تو میں جان جاتا کہ اس کا کیا مطلب نکالوں۔
ان دنوں تمام ’وارے‘ جنوبی افریقیوں کی طرح وہ بھی لمباچوڑا اور دھوپ کھایا ہوا تھا۔ ان دنوں میں سوچا کرتا تھا کہ جارج کے اندر سے ایک نرالی قوت پھوٹتی ہے۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے تیور کسی ایسے شخص کے سے تھے جو حکم چلانے کے لیے پیدا ہوا ہو۔ اس کے اشارے سادہ ہوتے، اس کی آواز حقارت سے پُر ہوتی اور اس کی آنکھوں میں استہزا کی ایک ایسی چمک ہوتی جو بےحد کشش انگیز تھی۔ میں دبے پاؤں باورچی خانے میں گھوم پھر کر جارج کے لیے طرح طرح کے عمدہ کھانے اور لذیذ مٹھائیاں تیار کرنے کے انتظامات میں مشغول رہتا۔ اس کی شخصیت اتنی بات منوا لینے والی تھی۔ اب تو آپ کو اس شخص کا خالی پھوک نظر آتا ہے جس میں کبھی حکم چلانے کا سخت گیر جذبہ جاری و ساری تھا۔ وہ نیلی آنکھیں اب مٹیالی ہو چکی ہیں اور ہاتھ پاؤں ناقابل شناخت حد تک جھَر چکے ہیں۔ خیر، قسمت کے دھنی لوگوں کا تقدیر یہی حشر کرتی ہے۔ جارج کو میں اس وقت اسی قسم کے آدمیوں میں شمار کرتا تھا۔
میں دیکھتا ہوں کہ آپ منھ بنا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے آپ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ اس میں تقدیر کا کچھ دخل ہے۔ شاید آپ تقدیر کو بالکل مانتے ہی نہیں۔ آپ کی مرضی۔ کسی کا کسی بات پر یقین کرنا ضروری نہیں۔ تاہم بعض وقت آپ سوچتے تو ہیں کہ خدا کا کرم شامل حال نہ ہو تو کسی بھی گھڑی کایا پلٹ سکتی ہے، آپ بہ آسانی خود کو زنجیروں میں اس طرح جکڑا ہوا پا سکتے ہیں کہ روٹی، شراب اورحسین عورت کا جسم آپ کے لیے حرام کر دیا گیا ہو۔ بالکل اس اپنے جارج کی طرح۔
جب ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی تب آپ نے جارج کی بیوی کودیکھا ہوتا۔ اب بھی جب وہ یہاں آتی ہے تو اسے دیکھ کر میرے خون کی گردش تیز ہو جاتی ہے۔ خدایا! کیا خوب انعامی گائے ہے۔ چالیس برس کی ہو کر بھی وہ اپنی نتھری گلابی جلد میں خوب گھٹی گھٹائی اور بھری بھری ہے۔ اس کا ننگا پیٹ سونے کا ایک کٹورا ہے۔ یہ نہ پوچھیے کہ میں یہ سب کیسے جانتا ہوں۔ میں کالا ہوا کروں مگر عورتیں تو عورتیں ہوتی ہیں اور وہ صاحبِ اختیار مردوں کو پسند کرتی ہیں۔ انصاف سے، بعض وقت مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ یہاں جارج کے بجاے مجھ سے ملنے آتی ہے۔ اُدھر پیچھے کی جانب ہمارے پاس سفیدی کی ہوئی ننگی دیواروں اور بُنے ہوے پلنگ پوشوں والا ایک کمرہ ہے۔ میں آپ کو ان بہت سی راتوں کے بارے میں بتا سکتا ہوں جب وہاں لیٹ کر میں اور فرانسِسکا دنیا میں جارج کی حیثیت کے متعلق پریشان ہوا کرتے ہیں۔
فرانسسکا، جس کی آواز بانسری کی سی ہے، آخر میں ہمیشہ آنسو بہانے لگتی ہے۔ ’’قسمت اس کے ساتھ اتنی سفاک کیسے ہو سکتی ہے، مولیلا؟‘‘ وہ اور زیادہ قریب لپٹتے ہوے سوال کرتی ہے۔ جارج کی بیوی کے ساتھ سونا، جب کہ وہ، چیتھڑوں سے ڈھکا اورجوؤں سے اَٹا، اپنی کوٹھڑی میں پڑا پچھلے بارہ برس سے ناآسودہ خواہشات کی ٹیسوں سے تڑپ رہا ہو،عجیب سی بات ہے۔ بسااوقات صرف اس کا تصور کرتے ہی میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ ایسے موقعے آئے ہیں جب میں بھی رو دیا ہوں۔ پرائی پِیڑ…..چاہے گورے، کالے، پیلے کسی کی بھی ہو …. تماشے کے لیے بھلی چیز نہیں، کم سے کم اُس فرد کے لیے جو کبھی اس دُکھیا کا ملازم، غلام اور قیدی رہ چکا ہو۔ فرانسسکا کا شہد کا کٹورا بھی اس احساسِ الم کو کم کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ میں آپ کو بتاؤں کہ ترس کے اُمڈتے ہوے ریلے کو روکنے کے لیے وہ واقعی ناکافی ہے (گو مدد ضرور کرتا ہے)۔ پھربھی خود کو برتر گرداننے کی کوئی ضرورت نہیں، اور نہ ہی جارج پر ترس کھانے کی ضرورت ہے! کیوںکہ کون ایسا جیوَٹ ہے جو یہاں کھڑے ہو کر زمانے بھر کے سامنے یہ اعلان کر سکے کہ اس کو کسی کی رحم دلی نہیں چاہیے؟ میں آپ سے پوچھتا ہوں، بتائیے، ہے کوئی؟ ایسا کوئی بھی نہیں۔ ہم سبھی کو رحم درکار ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ گرماگرم، متناسب ہاتھ پاؤں والی، اصیل انعامی گائے فرانسِسکا کو بھی۔
کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ فی زمانہ ہم خود کو محبوب محسوس کیے بغیر محبت کرتے ہیں؟ ہم خدا کے لطف و کرم کا تجربہ تو کرتے ہیں، مگر نجات کا احساس کیے بغیر۔ کبھی کبھار ہم مسرت کا تجربہ بغیر یہ جانے ہوے کر لیتے ہیں کہ حقیقی سرخوشی ہے کیا۔ جتنے بھی جسم درکار ہوں، وافر مقدار میں دستیاب ہونے کے باوجود ہم ہر وقت نااسودہ رہتے ہیں، اور اَور زیادہ کی طلب کرتے رہتے ہیں۔ اگر بیٹی باپ کے ساتھ اور ماں بیٹے کے ساتھ سو جاتی ہے تو کون سی تعجب کی بات ہے؟ میرے خیال میں حقیقت تو یہ ہے کہ ہم لوگ اس جارج کے زنداں سے زیادہ سنگین قیدخانے میں بند ہیں۔ مقابلتاً جارج کا قیدخانہ تو چھوٹی موٹی جنت ہے۔ ایک ایسے جسم کے ساتھ جو سوکھ چکا ہے، اس کی جنسی خواہش اب اپنے اُتار کی حالت میں ہے۔ بعض اوقات مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک کھلا رسیلا سینہ اس کے لیے اب کوئی مسئلہ نہیں ہے، نہ کسی ران کی دہکتی ہوئی جھلکی اس کی راتوں کی نیند حرام کرتی ہے، نہ شہوت کا وہ سیلاب اپنے نکاس کے لیے اس کے جسم کے بند کو توڑتا ہے جو ہم سب کو ہر وقت تباہی و بربادی سے دہلاتا رہتا ہے۔
آپ کو ایک بات بتاؤں۔ افریقہ کی بابت میں سوچا کرتا تھا کہ رہنے بسنے کے لیے اچھی جگہ ہے۔ میں سوچا کرتا تھا کہ یہاں یہ ممکن ہے کہ ہم بس دھوپ میں بیٹھے رہیں، آم کھائیں، اور جب طلب زور کرے تو کسی عورت کو لے پڑیں۔ ایک قسم کا باغِ عدن۔ آپ سمجھ گئے نا؟ لیکن اب صرف اتنا کچھ ہونے سے تسلی نہیں ہوتی۔ اب ہم جوکچھ مانگتے ہیں وہ جسم سے بڑھ کر کچھ اور ہے۔ ہم کو اب خوشنما بھڑکیلے غلاف درکار ہیں۔ بازارمیں کام کرنے والی عورت کے کھلے تھل تھل کرتے سینے کی بہ نسبت اب ریشم سے ڈھکی، الاسٹک کے تاروں اور جالی سے سہارا دی ہوئی گات زیادہ خواہش انگیز ثابت ہوتی ہے۔ کیپ سے لے کر قاہرہ تک اور مڈگاسکر سے لے کر موزمبیق تک، ہم سب اپاہج ہو چکے ہیں، بےچارگی کی حد تک ہماری عادتیں بگڑ چکی ہیں، اور ہم میں بھرپور حقیقی روحانیت کا فقدان ہے۔ تو میرے دوست، آپ ہی مجھے بتائیے کہ قیدی جارج پر ترس کھانے والے ہم کون؟ گو اب میں جارج کا جیلر ہوں لیکن میں بھی سراسر حالات کا اسیر ہوں! میں اپنے بدن کی کال کوٹھڑی میں پھڑپھڑاتا رہتا ہوں، مگر مجھ کو کون آزاد کرائے گا؟
میں جانتا ہوں آپ اسے قریب جا کر دیکھنے کے لیے بیتاب ہو رہے ہوں گے۔ آپ بہ تمام و کمال تفصیل سے اس کی جسمانی حالت کا معائنہ کرنا چاہتے ہیں، جو کہ اس کا جائز حق ہے۔ میں اس بات کی قدر کرتا ہوں۔ بقول آپ کے، سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کو اس کی حالت کی طرف سے تشویش ہے، ان تمام بےہودہ افواہوں کی وجہ سے جو تشدد اور دیگر ناقابلِ بیان سفاکیوں کے بارے میں اُڑتی ہیں۔ ویسے مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آپ کے محکمے والے، آپ جیسے پس منظر اور تربیت رکھنے والے لوگ بھی اخباروں میں چھپنے والی ان جھوٹی اور بےبنیاد رپورٹوں سے بالکل گمراہ ہو جاتے ہیں۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ اخبارات کیسے ہوتے ہیں، افواہوں اور رسواکن مواد کے کوڑے دان، جن کو المیوں اور سنسنی خیز باتوں کی نہ مٹنے والی چاٹ ہوتی ہے۔ ان کے کالم پڑھ کر آپ کو یوں لگتا ہے کہ ان میں کام کرنے والے لوگ اخلاق میں اتنے پست ہیں کہ زنانہ پچھائے کا خفیف سا بھپکا ان پر وجد طاری کر دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
بہرصورت، میرا خیال ہے کہ میں بالکل صاف صاف آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ بجز کبھی کبھار چابک پھٹکار دینے کے، کہ جیل کے ضابطے میں اس کی اجازت ہے، جارج کو کبھی اذیت نہیں دی گئی۔ یہ درست ہے کہ ایک دو بار مجھے مجبور ہو کر اس وقت اس کا انگوٹھا شکنجے میں دابنا پڑا جب وہ مجھے آداب کے مطابق ’’آقا‘‘ کہنا بھول گیا۔ مگر میں کہتا ہوں یہ کوئی تشویشناک بات نہیں۔ علاوہ ازیں، جدید زمانے میں ہم نے اس طرح کی ناخوشگوار باتوں کو ایک قسم کی ضرورت مان کر ان کے ساتھ گزارہ کرنا سیکھ لیا ہے۔ جارج نے چند ہولناک چیخیں ماری تھیں، مگر جارج تو تھا ہی ہمیشہ کا مار سے ڈرنے والا۔ جن دنوں وہ آقا اور جیلر تھا، اور گوری چمڑی کی حفاظت میں تھا، آپ کو اس بات کی خبر نہیں لگ سکتی تھی۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ اس حقیقت کا بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ جب جارج اس جگہ آقا تھا تب اس کو مخاطب کرتے وقت ’’بوانا‘‘ یا ’’باس‘‘ یا اسی قبیل کا کوئی اور بےکیف لقب بھول جانا پرلے درجے کی حماقت ہوتی۔ جارج میں جو کچھ بھی حسِ مزاح تھی، ان القاب کے معاملے میں اس کا ساتھ چھوڑ جاتی تھی۔ وہ ان مجلسی آداب کو بہت سنجیدگی سے اہمیت دیتا تھا۔ اس لیے اب ہم بھی اس کی کسی فروگزاشت پر درگزر نہیں کرتے! ہم کو اصرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ بھی انھی سماجی فرائض کو پورا کرے۔ ایسے موقعے بھی آئے ہیں جب میں نے اس کو بجلی کے جھٹکے لگانے کی ضرورت محسوس کی تاکہ اس میں اس چیز کا تدارک کر دیا جائے جو بادداشت کی مہلک بھول نظر آتی ہے۔
بےشک، جیل میں ایسے واقعات ہوتے ہیں، میں اس سے انکار کرنا پسند نہیں کروں گا۔ اگر مجھے صحیح یاد ہے تو دراصل اس قسم کا ایک ناخوشگوار واقعہ پچھلی کرسمس پر ہوا تھا۔ ہم نے جارج کو خوب ساری شراب مہیا کر دی تھی تاکہ وہ اپنے خداوند اور نجات دہندہ کا جشنِ مولود منا سکے۔ مگر یہ دیکھ کر ہم دنگ رہ گئے کہ جارج بےطرح بدمست ہو گیا۔ کچھ وقت نہ گزرا تھا کہ وہ ہذیان زدہ جنونی بن گیا۔ جیسا کہ آپ کہہ سکتے ہیں، وہ اُن بیتے دنوں کی نفرت انگیز ہُڑک میں مبتلا تھا جب وہ اِس جگہ کا مالک اور آقا ہوا کرتا تھا۔ جوش میں آپے سے باہر ہو کر وہ کبھی آگے، کبھی پیچھے مارچ کرنے لگا، چیخنے چلّانے لگا، اور منھ سے کف اڑانے لگا۔ ا س کا پورا چہرہ پسینے سے تربتر تھا، آنکھیں باہر کو اُبل کر ہولناک ہو گئی تھیں، اور اس کے جھانگڑ پاؤں چھڑی کی طرح فرش کے تختوں پر کھٹ کھٹ کر رہے تھے۔ میں نے ایسا تماشا کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ شخص اپنی اس پست حیثیت کو بالکل فراموش کر چکا تھا جس پر تقدیر نے اسے پچھلے برسوں میں پہنچا دیا تھا۔ اس نے کوڑا پھِٹکارنا شروع کر دیا۔ حکم چلانے لگا (وہ بھی پھٹی آواز میں) اور مجموعی طور پر اس نے خود کو تماشا بنا ڈالا۔
جیسا کہ آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں، یہ سب کچھ سخت تکلیف دہ بدمذاقی تھی۔ جارج کو اس کی بدلی ہوئی حیثیت یاد دلانے کے لیے مجھے فی الفور عمل کرنا پڑا۔ اس کی یادداشت بحال کرنے کے لیے بجلی کے چند جھٹکے کافی تھے۔ ان چھوٹے موٹے واقعات کے علاوہ جارج کے ساتھ کبھی بُرا برتاؤ نہیں کیا گیا۔ درحقیقت مجھے ذاتی طور پر فخر ہے کہ میں نے ہمیشہ جارج کے ساتھ بہت شرافت کا برتاؤ کیا۔ خصوصاً اس حقیقت کے پیش نظر کہ کبھی وہ میرا جیلر تھا۔
2
اوہ! یہ میں جانتا تھا۔ مجھے قطعی یقین تھا کہ آپ اس بات پر آئیں گے۔ مجھے معلوم تھا کہ آپ یہ جاننا چاہیں گے کہ آخر جارج نے اور میں نے اپنے رول کس طرح تبدیل کر لیے۔ سوال دلچسپ ہے، بہت دلچسپ۔ میں صرف اس سوال پر دفتر کے دفتر لکھ سکتا ہوں۔ تاہم، میراخیال ہے کہ اس کا کوئی ایک جواب ممکن نہیں۔
کچھ ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بس کایاکلپ کا وقت آ گیا تھا، جو کہ میری نظر میں ہر طرح سے بودی دلیل ہے، کیونکہ حقائق اس قسم کی رائے کی تائید بالکل نہیں کرتے۔ اسی طرح کچھ دوسرے سمجھتے ہیں کہ کامیابی… یعنی دولت، طاقت اور وقار… کا سر آخر نیچا ہو کر رہتا ہے۔ میں اس نوع کی لچر جذباتیت کو بھی قابلِ اعتنا نہیں سجھتا، کہ اس کو تسلیم کر لینا گویا ایک طرح سے یہ اعتراف کر لینا ہے کہ میری نظر میں وہ وقت ہے جب میں خود بھی اپنی اس جیلر کی ڈیوٹی سے سبکدوش کر دیا جاؤں گا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جسے میں بےبنیاد خوش فہمی ہی سمجھتا ہوں۔
تاہم، میں سمجھتا ہوں کہ جارج کی بربادی کے بیج خود اس کی اپنی فطرت کے اندر موجود تھے! خود اس کے اس نظام میں موجود تھے جس کو قائم و دائم کرنے کے لیے وہ جان لڑائے ہوے تھا: خود ان مابعد الطبیعاتی مفروضوں میں پوشیدہ تھے جنھیں وہ بڑے استقلال سے تھامے ہوے تھا۔ لازماً پوری عمارت جلد یا بدیر دھڑام سے گرنا بھی تھی۔ دیکھیے نا کہ جارج کی اپنی تہذیب کے باطن میں ایک سوچی سمجھی دیوانگی موجود تھی۔
یہ بات سبھی کے علم میں ہے کہ ہم افریقی لوگوں نے ایسا مابعدالطبیعاتی نظام کبھی نہیں بنایا جس نے مادّے کو روح سے جدا کر دیا ہو۔ اسی لیے ہم نے جسم کو روح سے کبھی گھٹیا نہیں سمجھا۔ اسی لیے ہم نے ناقابلِ قبول چیز جان کر کبھی بھی اس نام نہاد ’ناشائستہ طلب‘ سے نفرت نہیں کی جو کہ میری دانست میں جارج اور اس کے بھائی بندوں کی اپنے آپ سے نفرت بلکہ گھن کا اصل سبب ہے۔ وہ ہمیشہ روح یا عقل کو جسم پر فوقیت دیتے ہیں۔ آپ نے کبھی ان کو رقص کرتے دیکھا ہے؟ ان کے بیشتر رقص علامتی زبان میں جسمانی حرکات کی تجرید ہوتے ہیں۔ واہ! موتسارت، واگنر! میں سمجھتا ہوں اس قسم کی موسیقی کی توصیف میں بس یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ’بلند پرواز‘ ہے! یہ ایسے افراد کی تخلیق ہے جو اپنے جسم سے بلند ہو چکے ہوں، جو اپنے مساموں سے نکلتی بساند سے گھن کھاتے ہوں۔
مثلاً میں سوچتا ہوں کہ جس وقت جارج نے اپنی افریقی ملازمہ زازا پر پہلی نظرڈالی تھی اسی وقت اس نے خود کو آقا بنائے رکھنے اورحکم چلانے اور حکومت کرنے کے ارادے کو تج دیا تھا۔ وہ مغرور آقا بالکل نہیں رہا تھا، بلکہ تب ہی ایک ایسے معذور کے رتبے کو پہنچ چکا تھا جس کو کچھ ایسی نگہداشت اور گرمجوشی درکار تھی جو صرف وہ سیاہ ہنگامہ خیز جسم ہی مہیا کرتا نظر آتا تھا۔ تب وہ ایک ایسے جعلی غم میں مبتلا ہو گیا جس کوغلط کرنے میں ہر ڈھارس بےاثر تھی۔ اس نے اپنے آپ سے نفرت کرنا شروع کر دی، اور ساتھ ہی ہر اس شے سے جو کبھی اس کو عزیز تھی۔ سب سے زیادہ تو وہ اپنی بیوی فرانسسکا کے لیے ناقابل برداشت اور جابر بن گیا۔ بلانوشی اتنی کرنے لگا کہ سِڑی ہو گیا۔ وہ جھگڑالو اوردھونسیانے والا بن گیا۔ میں سمجھتا ہوں یوں اس نے خود کو لوگوں کی ملامت کا ہدف بنا کر چاہا کہ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرے اور اس طرح اپنے نفس کو سزا دے جس نے اس کو بھٹکا دیا تھا۔
بس وہ ایک بات بھو ل گیا، جنوبی افریقہ میں نسلی میل جول کے خلاف قوانین بہت سخت ہیں۔ آدمی کو ہرخطا معاف کی جا سکتی ہے سواے اس خون میں ملاوٹ کرنے کے جس کی بابت مقبولِ عام تصور یہ ہے کہ وہ خالص نسلی خصوصیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس لیے جارج نے زازا سے کھلے بندوں جس طرح کا ربط جاری رکھا اس سے میں نے تو یہی نتیجہ اخذ کیا کہ یہ سب اس کی اس لاشعوری خواہش کی وجہ سے تھا کہ وہ گرفتار کر لیا جائے اور اسے سزا دی جائے۔ یہ تھا اس کا طریقِ کار اپنے جسم سے بدلہ لینے کا جس کو نہ تو وہ تج سکتا تھا نہ صلیب پر چڑھا سکتا تھا۔ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، یہ تھا وہ پہلا موقع جو خود اس نے اپنی ذات پر غالب آنے کے لیے مجھ کو فراہم کیا۔
شاید آپ کہیں کہ زازا اور میں نے اس کے لیے جو پھندا تیار کیا وہ خوب سوچاسمجھا بلکہ ذہانت کا شاہکار تھا، مگر مجھے اس پر یقین نہیں۔ یہ تو اتنا ہی آسان تھا جتنا انڈا توڑنا۔ دوسری طرف، میں کہوں گا کہ اس سلسلے میں فقط ایک اور بالادستی جو میں قبول کرنے کو تیار ہوں وہ ان لوگوں کے بارے میں واقفیت حاصل کر لینے کا موقع ہے جو جارج اور اس کی قبیل کے لوگوں نے میرے لیے مہیا کیا۔ پورا نظام تعلیم جو انھوں نے وضع کیا اس کی بناوٹ بھی ایسی تھی کہ اس نے مجھ کو جارج کے بارے میں اتنا کچھ سکھا دیا کہ جارج شاید میرے بارے میں اس کا عشرِعشیر بھی نہ جان سکتا ہو گا۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ میں جارج کی شہزوری اور کمزوری دونوں کے ایک ایک نکتے سے واقف ہو گیا۔ چنانچہ میرے لیے جارج کوئی بند کتاب نہیں تھا بلکہ ایک ایسی نشان زدہ کتاب تھا جس کی ورق گردانی کوئی شخص مستقل کرتا رہا ہو۔
بائبل کے مفہوم میں آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ہبوطِ جارج واقع ہوا۔ اس نے ایک سیاہ فام عورت کو دیکھا جس کی اسے چاہ تھی۔ اپنی قوم کے لازمی مگر غلط تصور پر کہ وہ ارفع و اعلیٰ ہے، قائم رہنے کے بجاے وہ قطعی شرمناک طور پر جسم کی کمزوریوں کا شکار ہو گیا۔ یہی اس کا زوال تھا۔
آپ ضرور دریافت کر سکتے ہیں کہ اس قصے میں میں کہاں آتا ہوں۔ میں کس طرح جارج کا قیدی بنا، یہ بالکل عام سی بات ہے۔ اس کی تفصیلات، جیسی کچھ بھی وہ ہیں، درحقیقت بہتوں کو غیراہم نظر آئیں گی۔ پھر بھی آپ جیسے لوگوں کو میں خوب جانتا ہوں، وہ نسل جو حقائق چٹا کر پروان چڑھائی گئی ہے۔ اجازت ہو تو آپ کو آگاہ کر دوں کہ جارج کا شوق بھی یہی تھا، یعنی حقائق۔ بہرحال، میں آپ کو حقائق سے بے کم و کاست آگاہ کرنے کا پابند ہوں۔ جس سال میں جارج کی خدمت پر مامور کیا گیا، مجھ کو’آوارہ گردی‘ جیسے مہمل الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اُن دنوں سزا کی مدت قیدخانے میں گزروانے کے بجاے وہ لوگ قیدیوں کو اشراف کے پاس’ارزاں سزا یافتہ مزدور‘ کی حیثیت سے ٹھیکے پر بھیج دیتے تھے۔ یقیناً یہ دوسرے نام سے ایک طرح کی غلامی ہی تھی۔ بہرحال، یوں میں جارج کی تحویل میں آیا اور وہ میرا آقا اور نگراں بن گیا، تاآنکہ تبدیلی کا وہ ناخوشگوار لمحہ آ پہنچا۔
اُس وقت جیسا کہ میں تھا، ذرا تصور کیجیے، زندہ دل، کوچہ گرد، نوجوان، مہذب اور ذہنِ رسا کا مالک تھا۔ اس وقت میں وہ ہوا کرتا تھا جس کو انفلکس کنٹرول ڈپارٹمنٹ کی اصطلاح میں ’بےخانماں مقامی‘ کہتے ہیں۔ کسی حد تک درست اس تعریف کے ساتھ انھوں نے ایک ذرا سی تفصیل اور شامل کر لی کہ بظاہر میرا کوئی روزی کا سہارا بھی نہ تھا۔
واقعتاً اس سرکاری اندراج پر میں تو کسی قدر نازاں تھا، کہ ان الفاظ سے مجموعی طورپر ایک مکمل لااُبالی پن کی زندگی کا اظہار ہوتا تھا، جو کہ جارج کی باسلیقہ زندگی سے قطعاً مختلف تھی، اور نظروں کے سامنے ایک ایسے فرد کی تصویرآ جاتی تھی جس کا کوئی مقرر پتا نہ ہو، جس کے اپنوں میں آگے پیچھے کوئی نہ ہو، جس کے پیر میں ہر آن ایک چکر ہو، ایک موسمی پرندے کی طرح، یا بقول کسے ایک ملاح کی طرح۔ اس تصویر کو مکمل کرنے کے لیے مجھے ہر بندرگاہ میں فقط ایک چھوکری کی ضرورت تھی۔ اگر جارج کے زوال کا سبب اس کے جسم کی کمزوری تھی تو میرے زوال کا سبب غالباً میرا متلوّن تخیل اورایک ناقابل اعتبار حسِ مزاح تھی۔
یوں میں ایک طرح سے خوش قسمت تھا کہ مجھے تھوڑی بہت کام چلاؤ تعلیم میسر آ گئی تھی۔ فورٹ ہیر یونیورسٹی کالج میں جو تھوڑابہت وقت میں نے گزارا وہ میری دانست میں کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا۔ ان دنوں ایک انٹلکچوئل کی حیثیت سے میری بڑی شہرت تھی۔ ایک ایسا مفکر جو دور کی کوڑی لائے۔ میرے ان گورے دوستوں کے لیے جو مجھے ایک کتابی کیڑے اور کتابوں پر بھوکے کی طرح گرنے والے کی حیثیت سے جانتے تھے، جن میں سے بہتیروں نے جوہانسبرگ کی ’وائٹ اونلی‘ لائبریری سے اپنے کارڈوں پر میرے لیے کتابیں نکلوائی تھیں، اس حقیقت کو حلق سے اتارنا مشکل تھا کہ میرا کوئی ظاہری ذریعۂ آمدنی نہیں۔ یہ دیکھ کر ان کا دل بجھ جاتا تھا کہ مجھ کو اکثر انفلکس کنٹرول اسکواڈ سے جان بچانی پڑتی تھی، جو جوہانسبرگ کی سڑکوں پر بےروزگار، آوارہ افریقیوں کی پکڑدھکڑ کیا کرتا تھا۔
عام طور پر میں وان ویلف اسٹریٹ کے بیئر ہال کے باہر اپنے سودمند کاروبار سے لگے دوستوں کے انتظار میں منڈلایا کرتا کہ وہ آئیں اور اپنے داموں مجھے ’مکومبوتھی‘ پلائیں۔ میں انھیں دروازے پر ہی چھاپ لیتا اور اس امید پر کہ ان کو میری قلّاشی پر شرم آ جائے گی، میں اپنے کوٹ کی جیبیں باہر کو نکال دیتا۔ شام ہوتے ہی آن پیگی کے اڈے پر جا نکلتا جہاں مجھے بلانوشوں کی اس سے بہتر قبیل میسر آ جاتی، اونچے داموں والی شو گرلز، استاد، سیاستدان اور بیوپاری۔
3
متعدد بار ہیلن مجھ سے کہتی،’’مولیلا، میں تمھاری منّت کرتی ہوں، بس اتنا بتا دو کہ یہ جو تم کو اتنا عمدہ موقع ملا ہے اپنے لوگوں کی مدد کرنے کا، بھلا اس کو کیوں گنوا رہے ہو؟ تم جیسے ذہین آدمی کو تو یورپین لوگوں کو کاک ٹیل پارٹیوں کے مسخرے سے کچھ بڑھ کر ہونا چاہیے۔ ہاں، ڈھونگ ہی تو ہوتا ہے جو تم رچاتے ہو اور اس طرح پیٹی بورژوا لوگوں کی انا کو گدگدا کر خوش کرتے ہو۔‘‘
یہ تسلیم کرتے ہوے مجھے شرم آتی ہے کہ ایسے موقعوں پر میرے پاس بس یہ دیکھنے کا وقت ہوتا تھا کہ ہیلن کی گردن کتنی عمدہ اور چکنی ہے۔ مجھ کو جتنی بھی عورتوں کو ملاحظہ کرنے کا موقع نصیب ہوا، کیا گوری اور کیا کالی، ان میں ہیلن کی کاٹھی سب سے زیادہ عمدہ تھی۔ کاش اس کا دہانہ اتنا تنگ اور حقارت لیے ہوے نہ ہوتا۔ گو اس کی نیلگوں، گمبھیر، چھوٹی چھوٹی آنکھیں ہر اس مرد کے لیے دلربائی کا سامان تھیں جو اس سے دوچار ہو چکا ہو، مگر مجھ سے باتیں کرتے ہوے وہ ہمیشہ انھیں غیرضروری طور پر سخت کر لیتی تھی۔ میں سوچتا ہوں کہ ہیلن مجھ کو بچانا چاہتی تھی، بس اگر میں بچائے جانے پر رضامند ہو جاتا۔ ہر ضائع شدہ موقعے کے خلاف اس کی دودھیا رانیں سختی سے مستعد رہتی تھیں۔
گوروں کی دعوتوں کو میں مجموعی طور پر ناپسند کرتا تھا۔ کافی رات گزر جانے کے بعد تو کہیں جا کر ان میں جان پڑتی تھی۔ اس وقت تک ہر شخص پی پلا کر اتنا غیں ہو چکا ہوتا تھا کہ کیا لطف اٹھاتا۔ شروع شروع میں یوں لگتا جیسے یہ دعوتیں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہوں، بناوٹی گفتگو کے مرغولوں میں لڑکھڑاتی، ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہوں۔ دیواروں سے پیٹھ لگائے کھڑی لڑکیاں اپنے اپنے جام سختی اور مضبوطی سے اپنے مغرور اور خطرناک حد تک کسے بندھے سینوں پر ٹکائے، یا ان کے درمیان پھنسائے، گیلے کپکپاتے ہونٹوں سے ان نوجوانوں سے محوِ گفتگو ہوتیں جو ان سے رسی تڑانے کے لیے بےچین رہتے کہ کسی طرح جان چھڑا کر کامیابی سے اپنی امّاؤں کی گود میں، اپنے پالنے میں پہنچ جائیں۔ تو یہ تھے وہ لوگ جو، بقول خود ان کے، یہ جاننا چاہتے تھے کہ ان کی شاندار جوان زندگیوں کے ساتھ کیا ماجرا ہوا۔
مجھے لااُبالی، ادھیڑعمر، بےنکاحی عورتیں بھی یاد ہیں، جامعہ والیاں بھی اور سنجیدگی سے پرسش کرنے والی میزبان خواتین بھی جو یہ معلوم کرنا چاہتی تھیں کہ آیا وہ سب کچھ سچ ہے جو انھوں نے ’’جوہانسبرگ کے آس پاس کی کالی بستیوں میں ہونے والی ہیجان خیز کارستانیوں‘‘ کے بارے میں پڑھ رکھا ہے۔ عجیب بات تھی کہ وہ یہ پہلے ہی سے باور کر لیتیں کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ’’کارستانیوں‘‘ سے ان کی کیا مراد ہے۔ جب بھی میں پلٹ کر پوچھتا کہ بھلا کون سی کارستانیاں؟ تو میرے اس انجانےپن پر وہ بےیقینی سے صرف مسکرا دیتی تھیں۔ آپ شاید یقین نہ کریں کہ ایک مرتبہ لوئر ہاؤٹن کی ایک پارٹی میں ایک بدھو سا نوجوان میرے پیچھے پیچھے غسلخانے تک آیا اور میرے کان میں شرماتے ہوے بدبدایا، ’’ایک بات بتاؤ…‘‘ اس نے کہا، ’’ایک رات میں کتنی بار ممکن ہے؟‘‘ پھر اس کی سانس یا اعصاب۔۔ پتا نہیں کون۔۔ جواب دے گئے۔
میں آپ سے بتاتا ہوں کہ وہ دعوتیں بالکل بور ہوتی تھیں۔ لڑکیاں جب مجھ کو کسی ایسے فرد سے جو واقعی مجھے پسند ہوتا، باتیں کرتے دیکھ لیتیں تو میرے گرد اپنے لجیلے بےڈول جسموں کی بھینٹ پیش کرنے کے انداز میں جمگھٹا لگا دیتیں، حالانکہ یہ صاف ظاہر تھا کہ اتنے جگمگاتے روشن لاؤنج میں کون ان کی اس نوازش سے فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ میں ان کی آوازیں خوشگوار دھنکی ہوئی رات میں گھنٹیوں کی جھنکار کی مانند اب بھی سن سکتا ہوں۔
’’چلو آؤ مولیلا،‘‘ وہ اپنے لچکدار پیٹ مجھ سے سٹا کر کہتیں، ’’ہمیں اپنا کویل رقص دکھاؤ۔ اوہ، تمھارارقص کتنا شاندار ہے۔‘‘
یا پھر،’’مولیلا، بس کرو، خدا کے لیے، لوگ کیا کہیں گے مولیلا۔دروازے میں سے وہ یقیناً ہم کو دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
یا ’’مولیلا، امید ہے تم اسے ذاتی بات نہیں سمجھو گے، میرا مطلب ہے کہ ایمان سے، جو تمھارے بارے میں ویسی نیت رکھتی تو کہہ دیتی، ٹھیک ہے، چلو ابھی گھر چلیں۔ مگر دراصل تمھارے لیے اس طرح محسوس نہیں کرتی۔ بس تم سے باتیں کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
یا ’’مولیلا، تم مجھے انگ لگا لو، ابھی، اسی وقت۔ خراب کر ڈالو مجھے۔ مجھے معلوم ہے کہ تمھاری نیت ہے۔ اوہ، تم کتنے ظالم ہو۔‘‘ یہ عام طور پر رات تین بجے کا وقت ہوتا تھا، جب پارٹی اپنی آخری سانسوں پر ہوتی اور سفید آدمی کی ذمےداری کا بوجھ ان کے ناتواں کاندھوں کے لیے کچھ زیادہ ہی بوجھل ہو جاتا تھا۔
نہیں جی، مجموعی طورپر میں کالوں کی بزم آرائیوں کو ترجیح دیتا تھا۔ بیشتر گھٹیا شراب خانوں کی کاک ٹیلز کو، جن میں روز کا ٹھیا جمانے والے بھانت بھانت کے لوگ، ہائی فائی لونڈے، تنخواہ دار ڈکیت، چمک چاننیاں اور بددیانت سیاستدان شریک ہوتے۔ اُن دنوں جب مجھے بالکل پتا نہ ہوتا تھا کہ اگلا پیسہ کہاں سے ہاتھ آئے گا، افریقی سیاستدان میرے لیے نعمت تھے۔ تھوڑابہت جیب خرچ کمانے کی خاطر، میں ان کے لیے تقریریں لکھا کرتا تھا، جو وہ سٹی ہال کے سامنے چوک میں کھڑے ہو کر کیا کرتے تھے جہاں سینکڑوں ہکابکا گورے بہت تحسین کے انداز میں کھڑے رہ کر ان کو سنتے، حالانکہ میں یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ اگر کہیں انھیں اس نری لفّاظی کے دوران غور کرنے کا موقع ملتا تو وہ ان تقریروں میں بیان کردہ احساسات پر بہت ناخوش ہوتے۔
میں نے خاصا مشاہدہ کر رکھا تھا کہ افریقی سیاستدان پیچیدہ فقروں، لچھےدار جملوں اور مسجّع سُریلے محاوروں کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ مجمعے کو اپنے زورِبیاں میں بہا لے جائیں۔ وہ ایسی تقریروں کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے جن میں ٹھوس اور عملی باتیں کہی گئی ہوں۔ سب سے بڑھ کر افریقی سیاستدان عمل کے ذکر پر اعتبار نہیں کرتے تھے۔ بس واضح فقروں کو ناپسند کرنے کا سبب بھی یہی تھا۔ پھربھی، انصاف کی خاطر میں یہ واضح کرتا چلوں کہ تقریر کے لچھے باندھنے کی یہ رغبت افریقیوں میں دراصل شاعری کی روایتی پسندیدگی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ افریقہ کے لوگ زبان کے بڑے دلدادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے سٹی ہال کے سامنے ہفتے کی شام کو ہونے والے جلسے نسلی امتیاز کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے کے ساتھ ساتھ شاعری کا ہَسکا مٹانے کی ضرورت بھی پوری کر دیتے تھے۔
میں گھنٹوں بیٹھا ایسے الفاظ سوچتا رہتا جن میں کافی پھونک بھری ہو، رنگین زیادہ سے زیادہ ہوں تو کیا کہنے۔ میں تلےاوپر ذیلی فقروں کی تھپّیاں جما دیتا یہاں تک کہ کمرتوڑ اصل فقرے کا نقطۂ عروج آ جاتا، جہاں پہنچ کر مقرّر ایک طمانیت بھری شان سے کچھ دیر کے لیے، عموماً ہجوم کی تالیوں کی خاطر، رک جاتا۔
نتیجتاً میں سیاستدانوں میں مقبول ہو گیا اور اس کام کے سہارے تھوڑی بہت رقم پیدا کرنے لگا۔ میں نے تو تقریرنویسی کا باقاعدہ کاروبار جمانے کے بارے میں بھی سوچا۔ حکومت جتنے زیادہ نسلی امتیاز کے قوانین بناتی اُتنے ہی زیادہ احتجاجی جلسے ہوتے اور اُتنی ہی تقریروں کی مانگ بڑھتی۔ میں خود کو تھوڑابہت فنکار سمجھنے لگا تھا، سچ مچ ایک الفاظ گر، اس قسم کی نثر گڑھنے والا جس میں حقیقی ادبی خوبی کے ساتھ ساتھ ہجوم کے لیے ڈرامائی اپیل بھی ہو۔
بعض اوقات بڑی دلچسپ صورت حال ہوتی کہ خام کار افریقی کمیونسٹوں کے ساتھ ہی سیاستدان بن جانے والے ’قزاق‘ بیوپاریوں کی جانب سے بھی تقریر لکھنے کو کہا جاتا۔ بسااوقات مجھ کو دونوں تقریریں بیک وقت لکھنا پڑتیں۔ ایسے لمحات میں معاملہ گویا دائیں ہاتھ کو بائیں کی خبر نہ ہو والا ہوتا تھا۔ کمیونسٹوں کی تقریروں کے لیے میرے پاس گھڑی گھڑائی گالیاں موجود تھیں، مثلاً ’’استعماری قوتوں کے آلۂ کار‘‘، ’’جنگ پرست سامراجی‘‘، ’’دوسروں کی محنت پر پلنے والے سرمایہ دار‘‘۔ مگھم باتوں والے کالے اعتدال پسندوں کی تقریریں چٹپٹی بنانے کے لیے میں اس قسم کی بےمعنی بےضرر باتیں بُرکتا جیسے، ’’خدا وہ وقت نہ لائے کہ ہمارے بچے ہم سے کہیں…‘‘ یا پھر زیادہ قابلِ اعتماد: ’’تاکہ سب بلا تفریقِ رنگ و نسل و مذہب، امن آشتی سے رہ سکیں۔‘‘ اس پرتو ہمیشہ ہی تعریف کے ڈونگرے برستے۔
فقط ایک بار مجھ سے بھیانک گڑبڑ ہو گئی۔ میں دو تقریروں پر محنت کر رہا تھا۔ ایک تو بَبالالا نامی نوجوان کمیونسٹ کے لیے تھی اور دوسری ایک ایسے میانہ رو افریقی سیاستدان کے لیے جو حکومت سے زیادہ الجھنا پسند نہیں کرتا تھا، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ گوروں کے علاقوں میں قیمتی تجارتی رعایتوں کو قربان کر دے۔ آخرالذکر وہ شخص تھا جس کی تقریریں لکھنے میں مجھے مزہ آتا تھا۔ انقلابی صورت حال میں غیرجانبدار رہنا میری نظر میں نہایت خطرناک کام تھا، مگر نئے زمانے کا آدمی ہونے کی وجہ سے مجھے بھی ستم ظریفی اور ابہام کا بہت چاؤ تھا۔ چونکہ ان افریقی سیاستدانوں کو بڑی احتیاط کرنا پڑتی تھی کہ حکومت کو ناراض بھی نہ کریں اور ساتھ ہی عوام میں اتنے مقبول بھی بنے رہیں کہ گوروں کی کونسل میں سودے بازی کی قوت ان کے پاس رہے۔ مجھ کو اکثر ایسی طویل بوجھل تقریریں لکھنا پڑتیں جو وزنی بھی ہوں اور ایک ایسی مبہم انقلابیت کی شان بھی رکھتی ہوں جس میں حقیقی کاٹ بالکل نہ ہو۔
بہرطور، ہوا یہ کہ اس تقریر کےمتن کی تیاری کے دوران کسی مضحک سبب سے میں نے اسے نوجوان کمیونسٹ ببالالا کی تقریر کے ساتھ گڈمڈ کر دیا اور اس میں اس قسم کے مارکسی فقروں سے جان ڈالی جیسے: ’’سرمایہ دارانہ نظام کے اندر چھپے تضادات جو بالآخر منتج ہوں گے اس کی مکمل تباہی پر…‘‘ یہ تقریر اس محترم سیاستدان نے بھونچکا ڈائریکٹروں کے اجلاس میں کر دی، جو غصے سے تلملا کر چیخنے چلّانے لگے اور اس بیچارے کو عملاً جوہانسبرگ سکیورٹی پولیس کے حوالے کر دیا۔
تقریرنویسی کا یہ میرا آخری کام تھا، کیونکہ اس کے بعد جلد ہی میں بھی ’’آوارہ گرد اور مشکوک‘‘ ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور، بحیثیت ایک سزایافتہ مزدور کے، جارج ہالنگ ورتھ ایسکوائر کے حوالے کر دیا گیا۔
تو یہ ہے جارج ہالنگ ورتھ ایسکوائر، ایک ایسا شخص جو اب رسوائی اور پستی کی خاک بن چکا ہے۔ اُس وقت جارج ایک باسلیقہ محنتی آدمی تھا، اور ایک الیکٹرونک فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ اگر وہ خوش نہیں بھی تھا تو اس نے اس بات کو خوش اسلوبی سے چھپا رکھا تھا۔ یعنی کہ زازا کے ورود تک۔ جارج جیسے خوش باش شادی شدہ مرد پر، ایک ایسے شخص پر جس کی خواہشات بھی معقول ہوں اور جو کالے جسم سے خاطرخواہ نفرت بھی کرتا ہو، زازا نے کس قسم کا اثر ڈالا، یہ جاننے کے لیے آپ کو زازا کو دیکھنا ہو گا۔ درحقیقت یہ بات کو گھٹا کر بیان کرنا ہے اگر یہ کہا جائے کہ زازا وہاں آئی۔ اس نے تو دھاوا بول دیا۔ چوبیس برس کی، بوٹا سی، سیاہ فام زندہ دل عورت، نفاست سے گھٹی گھٹائی، بانس کی شاخ کی طرح نازک اندام، خوب اچھی طرح پروان چڑھائے تاکستان کی بوباس لیے اور دوسوتی کے سادہ سے اسکرٹ اور سویٹر میں وہ ایک ایسا بدن چھپائے ہوے تھی جو بہت ہی سیاہ، تقریباً نیلاہٹ مائل، اور جنسی ہول سے چھلکتا نظر آتا تھا۔
جی ہاں، مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جس دن زازا آئی تھی۔ جارج حسب معمول اپنی پسندیدہ کرسی میں بیٹھا باورچی خانے میں کام کرتی فرانسسکا سے باتیں کرتے ہوے شام کے اخبار پڑھ رہا تھا، جبکہ میں آگے کے پورچ میں پھولوں کی دیکھ بھال میں لگا ہوا تھا۔ جس وقت زازا جارج ہالنگ ورتھ کے دیوان خانے میں داخل ہوئی، وہ کاک ٹیل نوشی کا ایسا ملائم کہربائی وقت تھا جب دنیا بہت ہی دلکش لگتی ہے۔ اس ٹھہری ہوئی نیم استوائی فضا میں اس کاعیّار، بےنیاز جسم آفت ڈھا رہا تھا۔ اس کا غم زدہ تنگ دہانہ، بن کمائی تحقیر کے باعث، تقریباً سِرکے کے رنگ کا ہو رہا تھا۔
جارج کھڑا ہو گیا۔ اس نے خود کو سنبھالا اور پھر بیٹھ گیا۔ وہ چلّایا، ’’اندر آنے سے پہلے تم نے کھٹکھٹایا کیوں نہیں؟ آخر تم ہو کون؟ کیا چاہتی ہو؟‘‘
’’میرا نام زازا ہے،‘‘ ہماری آبنوسی وینس نے جواب دیا اور اس کا منھ زمانے بھر کی الجھی ہوئی فکروں سے پٹ گیا۔ ’’یہ مسٹر ہالنگ ورتھ کا دولت خانہ ہےنا؟‘‘
اس گھڑی یوں لگا کہ وہ جگہ ایسے سوالات سے بہت پُرشور ہو گئی ہے جو تادیر حل نہ کیے جا سکیں گے۔ ’’مجھ کو آپ کی خادمہ بننا ہے،‘‘ زازا نے کہا۔ ’’مجھے بیورو نے بھیجا ہے۔‘‘ اور جیساکہ میں نے عرض کیا، یہ ان تمام مصیبتوں کی ابتدا تھی جو گانے کے بولوں کے بموجب، جارج کے اوپر بارش کی طرح برسنے والی تھیں۔
4
اب ہم اندر چل کر جارج کو دیکھیں گے۔ مجھے امید ہے کہ آپ نازک مزاج نہیں ہوں گے۔ اس کا جسم اب قابلِ دید نہیں رہا۔ اس میں ہولناک تبدیلیاں پیدا ہو چکی ہیں، جو ہم سب کے لیے افسوس کی بات ہے۔
یقیناً آپ اس داستان کا انجام بھی جاننا چاہیں گے۔ میں جانتا تھا کہ آپ اسے سننا چاہیں گے۔ مان لیجیے کہ ہم سب ہی گِدھ ہیں۔ ہم سب غیروں کی بدنصیبیاں سننا پسند کرتے ہیں۔ اور اس میں جاتا بھی کیا ہے! تو قصہ مختصر، اس جارج میں جو غیرمعمولی صاف ستھرا، محنتی آدمی تھا، جو بروقت اپنی فیکٹری میں حاضر ہو جانے کے لیے ہمیشہ علی الصبح اٹھ جاتا تھا، پریشان کن تبدیلیاں نمودار ہونے لگیں۔ علامتیں مانوس تھیں: بھوک مر جانے کی شکایت، گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ ہو جانے کا چکر، کھویا کھویا حلیہ اور مکمل ذہنی غفلت۔ اس نے اپنے کام میں دلچسپی لینا چھوڑ دی۔ اکثر وہ اپنے گھر پر ہی پایا جاتا، غالباً طبیعت ناساز ہونے کے بہانے، گو اس کی یہ بیماری باورچی خانے میں کام کرتی زازا کے گرد منڈلاتے رہنے میں رکاوٹ نہ بنتی۔ ہر وقت کسی نہ کسی کام کے لیے اس کو زازا کی ضرورت پڑتی، جس کی وجہ سے وہ لڑکی دن بھر جارج کے کمرے کے اندر آتی جاتی رہتی۔ جیساکہ ہمیں توقع ہو چکی تھی، جارج جلد ہی زازا کو تحفے دینے لگا۔ وہ اس کے لیے لباس خریدتا، ملائم ریشمی زیرجامے، محرم اور نائیلون کی جرابیں۔ وہ اس کے لیے زیورات اور طرح طرح کے گہنے خریدتا۔ مجھ پر تو بات آشکار تھی کہ چند دنوں بعد افریقہ کی عورت ذات کے لیے سب سے بڑا تحفہ خود جارج کی ذات ہو گی، یعنی وہ شاندار یورپین مردانگی جو اس کی قبیل کے لوگوں کی دانست میں دولت، قوت اور وقار کے سحر سے مالامال ہوتی ہے۔ اس وقت تک زازا نے اور میں نے ایک منصوبہ، یعنی بہت چالاکی سے بچھایا ہوا ایک جال، تیار کر لیا تھا۔ وقت آ گیا تھا کہ میں قیدخانے سے باہر آؤں اور اپنے بجاے ایک نئے باسی کو، یعنی جارج ہالنگ ورتھ ایسکوائر کو، اس میں مقیم کروں۔
میں نے اکثر سوچا ہے کہ جارج کے زوال، یعنی اس تیزرو انتشار کی اصل وجہ۔۔ جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جس وقت اس کی قبیل کے لوگ کسی شے کی شدید خواہش کرتے ہیں اور حصول میں مزاحمت کا احساس کرتے ہیں۔۔ ان کا وہ خیالِ خام ہے جو وہ دل کے بہلانے کے لیے اپنائے رہتے ہیں: یعنی چاہے کتنا ہی بُرا سلوک اس کے ساتھ کیا جائے، ان کا غلام نہ صرف یہ کہ ان پر جان چھڑکتا ہے بلکہ ان کی حکومت کو قائم و دائم رکھنے میں مدد بھی دیتا رہے گا۔ ننھے بچوں کی مانند وہ چاہتے ہیں کہ ان سے پیار کیا جائے، کیونکہ وہ خود کو ناقابلِ بیان حد تک حسین اور دلکش تصور کرتے ہیں۔ چاہے کتنی بھی بدعنوانیوں کے مرتکب ہوں، مگر وہ ایسے میٹھے خوابوں میں مگن رہتے ہیں کہ اپنی غلام عورتوں کی آغوش میں ہمیشہ ہی بسے رہیں گے، اس ہستی کی آغوش میں جو بیک وقت کلوٹی گنگناتی آیا، داشتہ اور ماں، سبھی کچھ ہے، جو اپنے سدا جوان لاڈلے کے لیے ہمہ وقت لوریاں گاتی رہے گی۔
قبل اس کے کہ زازا اس کو شب بسری کا موقع دیتی، ہم نے پہلے ہی سے ایک بیان تیار کر لیا تھا جو اقرارِ جرم کرنے کے ساتھ ہی ساتھ اس معاہدے پر دستخط ہونے کے لیے پڑا تھا کہ جارج اپنا مکان اور سارا ساز و سامان ہمارے نام کر دے گا۔ یہ انتقالِ جائیداد افریقی وکیلوں کی ایک فرم کے ذریعے ہونا تھا۔ ہم نے پورا اطمینان کر لیا تھا کہ تصویریں بہت ہی صاف آئیں تاکہ باندھ لینے کے لیے ثبوت بالکل پکّا ہو۔ آپ کہیں گے کہ یہ تو صاف بلیک میل کا کیس ہوا۔ تو بھائی، رہنے کے لیے دنیا کوئی اچھی جگہ تو ہے نہیں۔۔ یا ہے؟ یہی تو ہم نے سختیاں جھیل کر سیکھا، جبکہ جارج اس خوش فہمی میں مبتلا رہا کہ دنیا بڑی پیاری جگہ ہے اور اس کو زیر کیا جا سکتا ہے۔
ڈرتا ہوں کہ مجھے اب جارج کو یہیں قید رکھنا پڑے گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بھی اسے ترجیح دیتا ہے۔ یہاں سے کہیں جانے کے لیے اب اس کے پاس کوئی ٹھکانہ بھی تو نہیں۔ اپنوں کی نگاہ میں اس کے گناہ ناقابلِ معافی ہوں گے، اس کی وراثت بھی جاتی رہی۔ رہی فرانسسکا، تو فرانسسکا کو میں سراہتا ہوں۔ اس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ عورتیں کس قدر خود کو حالات کے مطابق ڈھال لینے والی اور باتدبیر ہوتی ہیں۔ مجھے تو یہ نظر آتا ہے کہ عورتیں سلطنتوں کے خاتمے پر بھی ہمیشہ باقی رہیں گی۔ وہ صرف اپنی جبلتوں کے زور پر صاف بچ نکلتی ہیں۔
قبل اس کے کہ آپ جارج کے معائنے کے لیے اندر جائیں، میں آپ سے ایک ایسی بات دریافت کرنا چاہتا ہوں جس نے مجھ کو ہمیشہ الجھن میں ڈالا ہے۔ آپ کے خیال میں مَیں خود کب تک جارج کا جیلر رہ سکوں گا؟ اوہ، جانے دیجیے۔ میں سمجھتا ہوں میری حیثیت نہایت مستحکم ہے۔ جی ہاں، بالکل ناقابلِ تسخیر۔ میں نے ہر طرح سے پیش بندی کر رکھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے ان تمام پوشیدہ خطروں اور پھندوں سے بچنے کا پورا انتظام کر رکھا ہے جو جارج ہالنگ ورتھ کو لے ڈوبے۔
اوہ، وہ دیکھیے، جارج کی زوجہ، فرانسسکا! ان ہرنی جیسی ٹانگوں کو، اس کی رانوں کی قوت کو ذرا ملاحظہ کیجیے۔ کیا خوب انعامی گائے ہے!
Art work:Gabisile Nkosi
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Leave a Reply