Laaltain

اُداس ماسی نیک بخت (محمد جمیل اختر)

3 فروری، 2019
Picture of محمد جمیل اختر

محمد جمیل اختر

وہ اتنی اداس تھیں کہ اتنا اداس میں نے پھر کسی کو نہیں دیکھا۔۔۔۔

میں نے پہلی بار ماسی نیک بخت کو اپنے بچپن میں دیکھا تھا، اُس وقت وہ بہت ضعیف تھیں۔ بعض لوگوں کو دیکھ کہ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ بچپن میں یا جوانی میں وہ کیسے رہے ہوں گے، سو میں کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ بچپن میں یا جوانی میں کیسی رہی ہوں گی میں نے انہیں جب دیکھا اُداس دیکھا شاید وہ بچپن میں بھی اُداس ہی رہتی ہوں۔

وہ پرانے محلے میں ایک کمرے کے مکان میں رہتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ تقسیم سے پہلے ہمارے چھوٹے سے شہر کا پرانا محلہ ہی اصل میں آباد محلہ تھا اور یہاں بڑی رونق تھی یہاں سارے گھر پرانی طرز پر بنے ہوئے تھے تقسیم کے بعد بھی یہاں کافی آبادی تھی لیکن پھر لوگ پرانے مکانوں سے اُکتا نے لگے یا شاید چھوٹے مکانوں میں ان کا دم گھٹنے لگا تھا اور انسان ویسے بھی ایک جگہ پر زیادہ عرصہ رہ نہیں سکتاسو لوگ اب اس محلے سے نکل کر ارد گرد مکان بنانے لگے تھے لیکن ماسی نیک بخت کہاں جاتیں اور کیسے جاتیں اُن کا اِس دنیا میں اب تھا ہی کون۔

اُن کے شوہر کو پانچ سال پہلے ٹی بی ہوئی اور وہ چل بسا، کوئی اولاد تھی نہیں کہ بوڑھی نیک بخت کا سہارا بنتی سو زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے انہوں نے گھر ہی میں بچوں کی ٹافیاں اور کھلونے بیچنے شروع کردیئے۔ جب پرانے محلے میں آبادی تھی تو ان کی دُکان پر بچوں کا کافی رش رہتااور پھر ہر سال جب لوگ زکوۃٰ دیتے تو کسی نہ کسی کو بوڑھی نیک بخت کاخیا ل آجاتا کہ اِدھر محلے میں ایک بوڑھی بیوہ بھی رہتی ہے جس کو زکوۃٰ دی جا سکتی ہے۔

ماسی نیک بخت کے سارے گھر میں بس ایک کمرہ تھا جس میں دو چارپائیاں پڑی رہتی تھیں پہلے ایک چارپائی پر خیردین (ماسی کا شوہر)سارا دن پڑا کھانستا رہتا پھر جب وہ چل بسا تو ماسی نے اُس چارپائی پربچوں کی ٹافیوں اور کھلونوں کی دکان کھول لی، غریب کی کوئی بھی چیز بیکار نہیں جاتی۔

خیردین کے فوت ہونے کے بعد کسی نے بھی ماسی نیک بخت کو ہنستے ہوئے نہ دیکھا وہ ہمیشہ ہی اُداس رہتیں اتنی اُداس کہ ایسا اُداس میں نے پھر کسی کو نہیں دیکھا۔

جوں جوں محلے کی آبادی کم ہوتی جارہی تھی اداسی بڑھتی جارہی تھی مجھے ابھی بھی یاد ہے اُن دنوں جب ہم ماسی کی دکان پر جاتے تو وہ روز ہم سے یہی سوال پوچھتیں

’’مسجد گئے تھے؟ــ‘‘

’’جی ماسی‘‘

’’کتنی صفیں تھیں؟‘‘

’’ماسی تین‘‘

اور وہ ایک آہِ سرد کھینچتیں اور کہتیں

’’خیر دین تمہارے ہوتے پانچ صفیں بنتی تھیں۔‘‘

سارا محلہ ویران ہوتا جارہا تھا لوگ باغوں کے پاس بننے والی نئی ہاوسنگ سوسائیٹی میں جانے لگے تھے۔

پھر ہوتے ہوتے ایک صف بننے لگی، اُداسی اور بڑھ گئی۔

ان کے پڑوسی اشرف چچا ابھی بھی ساتھ والے مکان میں آباد تھے، جس سے ماسی کو بڑی ڈھارس ہوتی کہ چلو دیوار کے اُس پار کوئی تو ہے۔لیکن اب اشرف چچا کو بیٹھے بٹھائے پرانے محلے میں سو عیب نظر آنے لگے تھے’’ یہاں گلیاں تنگ ہیں، صفائی کا کوئی نظام نہیں ہے، نیا محلہ باغو ں کے پاس بنا ہے اس میں خوبیاں ہی خوبیا ں ہیں ‘‘۔

سوآخر وہ بھی پرانے محلے سے اُکتا گئے اور انہوں نے نئے محلے میں مکان بنواناشروع کردیا۔

اُن دنوں اشرف چچا کا بیٹا ناصر اور میں جب ماسی کے گھر جاتے تو ماسی برآمدے کی دیوار سے ٹیک لگائے پتہ نہیں کس سے باتیں کر رہی ہوتی تھیں۔

’’بن گیا تمہارا مکان؟‘‘ماسی ناصر سے پوچھتیں ۔

’’ بس ماسی کچھ دنوں میں بن جائے گا‘‘ ناصر جواب دیتا۔

’’اتنا پیارا مکان چھوڑ کر جارہے ہو میں کہتی ہوں پھر یہ محلہ اور ایسے لوگ نہیں ملیں گے تمہیں۔ اور یہ تم لوگوں کے پودے سارے کے سارے برباد ہوجائیں گے اور یہ آم کا درخت یہ بھی سوکھ جائے گا‘‘۔

’’ماسی ابا کہتا ہے اُدھر سکون ہی سکون ہے۔‘‘

’’ابا کو کہو جگہیں بدلنے سے سکون نہیں ملتا ‘‘۔

’’نہیں ماسی اِدھر بڑے مسئلے ہیں یہاں گلیاں تنگ ہیں وہ جو گاڑی چلاتے ہیں نا وہ ہماری گلی میں نہیں آسکتی اور ماسی اُدھر باغ بھی ہیں ‘‘۔

’’باغ ہیں تو کیا ہواتم نہیں جاو ٔگے تو باغ اکیلے ہوجائیں گے، اداس ہوں گے، روئیں گے کیا؟‘‘

’’نہیں ماسی وہ تو درخت ہیں۔۔۔۔وہ بھلا کیوں روئیں گے‘‘۔

’’یہی تو میں کہہ رہی ہوں کہ وہ درخت ہیں اکیلا تو بندہ ہوتا ہے۔۔۔‘‘

ماسی جو بھی چیزیں بیچتی تھیں وہ سارا سامان گلی کے نکڑ پر بنی امام بخش کی دکان سے آتا تھا، جوں جوں آبادی کم ہوتی جارہی تھی امام بخش کی بِکری بھی کم ہوتی جارہی تھی اور ایک دن وہ بھی پرانے محلے سے اکتا گیا اور اس نے بھی نئے محلے میں ایک دکان کرائے پر لے لی اور وہیں چلا گیا، ا ب ماسی کو سامان کون لاکر دیتا، بوڑھی ہڈیوں میں اب اتنی طاقت نہیں تھی کہ بازار تک جا کر سامان خریدیں سو اس پریشانی میں بیمار ہوگئیں، پڑوسی تیمارداری کو آئے تو ماسی نے اپنی پریشانی بتائی کہ اب کھاؤں گی کہاں سے، تو اُس وقت اشرف چچانے بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ ’’ ماسی تو پریشان نہ ہو کھانا میرے گھر سے آئے گا‘۔‘

ماسی جو کئی روز سے اپنی دکان کے بند ہونے کے غم کو سینے سے لگائے پریشان تھیں ان کا کچھ بوجھ کم ہوا، اُٹھ کے اشرف پتر کی پیشانی چومی اور ڈھیروں دعائیں دیں۔

اور پھر کچھ دن بعد اشرف صاحب کا مکان بن گیا اور جس روز سامان منتقل ہورہا تھا اس دن ماسی بہت اداس تھیں، بار بار گلی کے دروازے سے دیکھتیں کہ یہ لوگ چلے تونہیں گئے اتنا غم شاید اشرف چچا کو اپنے پرکھوں کا گھر چھوڑنے پر نہیں ہوگا جتنا ماسی کو ان کے جانے کا تھا۔ اب تو دیوار کے اُس پار بھی کوئی نہیں ہوگا ا ور اب تو دکان بھی نہیں چلتی۔

شام تک سار ا سامان منتقل ہوگیا تھا سو اشرف چچا اپنے بیوی بچوں سمیت ماسی کو ملنے آئے۔

’’اچھا ماسی اجازت، بڑا اچھا وقت گزرا پتہ نہیں اب وہاں آپ جیسے اچھے پڑوسی ملیں نہ ملیں، آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو کوئی بھی کام ہو، آپ کا بیٹا حاضر ہے ‘‘۔

’’جیتے رہو بچو، جیتے رہو، سدا سکھی رہو، رونقیں لگی رہیں ــ‘‘ ماسی کی آنکھیں نم تھیں او ر لب دعاگو تھے۔

اشرف صاحب اور ان کی فیملی جب گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے تو ماسی اپنے گھر کے دروازے کا پردہ ہٹاکر انہیں دیکھ رہی تھیں اس وقت میں نے جو آنکھیں دیکھیں تھیں وہ اتنی اداس تھیں کہ اتنی اُداس آنکھیں میں نے پھر کسی کی نہیں دیکھیں۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *