’’یاد کیا رہتا ہے مجھ کو؟ آپ نے پوچھا تھا اک دن
اور میں کوئی تسّلی بخش اُتّر دے نہیں پایا تھا اس کا !‘‘
دھیان میں ڈوبے ہوئے بیٹھے تھے، جب آنند نے اس گفتگو کو
پھر سے چھیڑا جو کبھی آدھی ادھوری رہ گئی تھی۔

’’ہاں بتاؤ، یاد کیا کچھ ہے تمہیں بچپن، لڑکپن
کا، تمہارے سَنگھ میں آنے سے پہلے
زندگی کا؟‘‘

’’جی تتھا گت!
پیڑ سے اک بار گرنا اور ہفتوں تک مُڑی ایڑی پہ چلنا یاد ہے
شہد کے چھتّے پر پتھر مار کر اس کو گرانا یاد ہے
مکھّیوں نے جو مری دُرگت بنائی تھی
مجھے ڈنکوں سے اپنے چھید کر!
وہ درد، سُوجن۔۔۔بھولنا تو جیسے نا ممکن ہے اب تک!
باپ کا مرنا بھی مجھ کو یاد ہے جیسے کہ کل کی بات ہو
بان کی ایک چارپائی پر پڑی وہ لاش اُن کی
تیرتی رہتی ہے یادوں میں، تتھا گت!

بُدھّ آنکھیں میچ کر سنتے ہوئے بولے
’’کہو، کچھ اور بھی یادیں تو ہوں گی!‘‘

’’ہاں، تتھا گت، پر یہ سب یادیں ادھوری رہ گئی ہیں!‘‘

’’اس لیے شاید کہ ان یادوں میں کوئی درد یا افسوس
کا عنصر نہیں ہے!‘‘ بُدھّ بولے

’یہ بھی ممکن ہے، تتھا گت!‘‘ سر جھکا کر دھیرے سے آنند بولا

’’سوچنا، یادوں کو اپنی سوچ کا حصہ بنانا
اور ان یادوں کو اپنے ذہن میں ساکار کرنا
اور ان سب لمحوں کو پھر اک بار جینا
اک یہی تو بات حیوانوں سے ہم کو مختلف رکھتی ہے، بھکشو!‘‘

’’جانور؟ کیسے تتھا گت؟‘‘

’’جانور کب سوچتے ہیں؟
اُن کے عادات و خصائل اُن کو ورثے میں ملے ہیں
گھاس چرنا، پتے کھانا
نسل کو آگے بڑھانے کے لیے سمبھوگ کرنا
یہ سبھی باتیں تو ان کی نسل یا شجرے میں ہیں، آنند بھکشو!‘‘

چُپ رہے کچھ دیر گوتم بُدھّ۔۔۔کہا پھر سوچ کرکچھ
’’یہ سبھی یادیں تو بھکشو، صرف سوچوں کا ثمر ہیں
اور یہ تحفہ فقط اک نسل ِ آدم کو ہی ملا ہے
اور پھر آنند بھکشو
’آدی مانو‘ سے چلیں تو آج تک
سوچوں کی اس زنجیر میں لاکھوں نئی کڑیا ں جُڑی ہیں
فاصلوں کو پاٹنے کے واسطے پہیّہ بہت لازم ہے، بھکشو
پہیئے کی ایجاد سب سے اہم تھی اپنے زمانے میں
اسی نے راستے کم کر دیے ہیں
ہر نئی پِیڑھی بڑھاتی جا رہی ہے
نت نئی ایجاد کے یہ سلسلے ۔۔۔
آنند بھکشو، کون جانے
کل کلاں انسان بھی اُڑنے لگے
اپنی کسی ایجاد کے بُوتے پہ۔۔۔۔لیکن۔۔۔‘‘

سادہ دل آنند ایسا منہمک تھا
بُدھّ جب چُپ ہو گئے تو جیسے اس کو یاد آیا
’’ہاں، تتھا گت
ساری پورانِک کتھائوں میں تو اکثر
دیوتا اُڑتے دکھائے ہی گئے ہیں!‘‘

بُدھّ جیسے مسکرائے
یا لگا آنند کو ۔۔۔ وہ مسکرئے
اور بولے، ’’میرا منشا یہ نہیں تھا
میں تو ایجادوں کی بابت کہہ رہا تھا
۔۔۔اور اب اک بات جو بے حد ضروری ہے
سنو، آنند بھکشو!‘‘

’’جی تتھا گت!‘‘

’’اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لو
ماپ کر دیکھو تو شاید
چھہ گرہ سے کچھ زیادہ
اس کی اونچائی تمہیں محسوس ہو گی
اب تمہیں میں یہ بتانے جا رہا ہوں
گول گنبد کی طرح گردن پہ رکھے
چھہ گرہ اونچے تمہارے سر میں، بھکشو
سوچ کا محور ہے جو، وہ گوشت کا اک لوتھڑا ہے
یہ تمہارا مغز ہے آنند بھکشو، جس میں
ساری یادیں، پہلے دن سے آج تک کی
گیان اور وگیان، درشن
وہ سبھی کچھ
جو تمہاری یاد کی بنیاد ہے ، موجود بھی ، بیدار بھی ہے۔
وہ جسے تم کام میں لاتے ہو، لیکن ۔۔۔۔‘‘

پھر ذرا سی دیر کو جب رک گئے تو کچھ جھجک کر
دھیمے سُر میں کہنے ہی والا تھا کچھ آنند، لیکن
بُدھّ بولے

’’گوشت کے اس لوتھڑے کا ایک حصہ وہ بھی ہے، جو
نوّے فی صد تک کلیتاً بیکار
خوابیدہ پڑ ا ہے ، جیسے گہری نیند میں ڈوبا ہوا ہو
آج تک شاید کسی انسان نے اس کو ۔۔۔یا اس کے
ایک معمولی سے حصے کو جگایا ہو تو ہو
لیکن یہ حصہ، مغز کا
جو ابتدا سے آج تک سویا ہوا ہے
جانے کب جاگے گا، اپنی بے پناہ طاقت کو اپنے ساتھ لے کر!
اور جب یہ جاگ جائے گا، تو بھکشو
سارے انساں
مغز کی اُن بھولی بسری طاقتوں سے لیس ہوں گے
آج جن کا علم بھی ہم کو نہیں ہے
یاد رکھو، تین چوتھائی ہمار مغز پوشیدہ ہے ہم سے!‘‘

’’ہاں، تتھا گت، بات تو سچی ہے، لیکن
جب یہ حصہ جاگ جائے گا، تو کیا ہم
ایسے بدلیں گے کہ آدم جات سے ہم
اور اونچے، اور اونچے، اور اونچے ۔۔۔۔
ہوتے جائیں گے، تو پھرکیا
دیوتا بن جائیں گے ہم ؟‘‘

’’دیوتا بننا ضروری تو نہیں ہے
ہم اگر خوابیدہ حصے کو کبھی بیدار کر لیں
اور پھر اُن شکتیوں سے جو ہمیں اُس سے ملیں گی
اچھے کاموں کے بجائے
ہم بُرے کاموں سے اپنا کام رکھیں
تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے، تب
آج کے انسان کی پدوی سے بھی گر جائیں گے ہم!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُتر۔ (اُت ت ر) بمعنی جواب
دھیان ۔ بدھ مت کا خصوصی معنی۔ ـاستغراق
سا کار ۔ بمعنی متصور
سمبھوگ۔ بمعنی جنسی فعل
’آدی مانو‘ : بمعنی بن مانس
پورانِک۔ بمعنی پرانی
پدوی۔بمعنی حیثیت
(گیان۔ (علم) ؍ وگیان ۔( سائنس) ؍ درشن ۔( فلسفہ)

Leave a Reply