پشتے کے پار پانی دیکھ کر اس کے اندر کچھ مچلنے لگا۔ ساون کی حبس آلود دوپہر میں پانی کی سطح گُھوک سوئی ہوئی تھی۔ پانی کسی افیمی کی طرح لیٹا تھا گویا دوپہر کی رُکی رُکی ہوا کے لمس سے پینک میں آ گیا ہو۔ اس کا جی چاہا کہ فوراً چھلانگ لگا کر بطخ کی طرح تیرنے لگے۔ نالے کے پانی کے ساتھ اس کا رشتہ بہت لاڈ کا تھا۔ جس طرح زمین ساون کی بارش سے نگھر آتی ہے، وہ بھی نالے میں پہنچتاتو خود کو ہراہرا محسوس کرتا۔ ہلکا، نرم اور ٹھنڈا۔۔۔نالے میں اترتا تو پانی اسے ماں کی طرح گود میں لے لیتا اور پھر وہ شلوار میں پھُوک بھرے، ٹانگ پہ ٹانگ دھرے، اس کی خاموش سطح پرسیدھا لیٹا کچھ ایسے جھلکورے لیتا رہتا جیسے ماں کی لوری سنائی دے رہی ہو۔
پانی اب بھی اسے اپنی طرف بلا رہا تھا مگر اس کے اندرجمے ہوئے خوف نے اسے محتا ط کر رکھا تھا۔ ’کیا مجھے نہانا چاہیے؟‘ اس نے سوچا۔ جواب حتمی طور پر ’ہاں‘ میں تھا۔ ’لیکن گھرمیں سب کو پتا چل جائے گا۔ ‘ ’کیسے پتا چلے گا‘۔ ’جب مٹیالہ پانی شلوار کا رنگ بدل دے گا، کوئی اندھا بھی جان لے گا کہ میں کہاں سے آرہا ہوں۔ ‘اس نے اپنے اجلے سفید کپڑوں کو دیکھا۔ شلوار پہنے نالے میں نہانے سے شلوار کی یہ سفیدی گدلی ہو جانی تھی۔ ’کیسے پتاچلے گا، اگر کپڑے اتار کر نہایا جائے تو کپڑوں پر کہاں سے داغ آئے گا؟ ‘
’کپڑے اتار کر؟‘
’ہاں! بالکل ننگا!
’مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ میں تو نہ کبھی ننگا نہایا، نہ نہا سکتا ہوں۔ ‘
’کیوں نہیں نہا سکتے؟کیا فرق پڑتا ہے اس سے؟ آخر باقی لڑکے بھی تو ننگے نہاتے ہیں، انہیں کبھی کچھ ہوا کیا؟ اورشرم کی کیا بات؟یہاں اکیلے تم ہو۔ دوپہر ڈھلنے تک کوئی دوسراآئے گا بھی نہیں۔ ‘
اس نے پشتے پر کھڑے ہو کر دورگاؤں کی طرف دیکھا۔ ہر طرف سنسانی، بورائی ہوئی دھوپ اورپچھلی بارش کی نمی سے نکلتی بھڑاس کا راج تھا۔ اس گرمی میں واقعی یہاں کوئی نہیں آنے والا تھا۔ ’مگر پھر بھی۔۔۔ننگا ہونا انسان کے لیے کتنی شرم کی بات ہے؟‘
’اتنی بھی نہیں،جب کوئی دیکھنے والا نہ ہو۔۔۔ اور اگر تمہیں اتنی گھبراہٹ ہوتی ہے تو یہاں آئے ہی کیوں ؟ چھوڑو نہانے کو،چلو واپس پلٹ جاؤ۔ ‘
یہ ملامت اس کے لیے مہمیز تھی۔
’اور اگر نہانا ہے تو پھر یہی طریقہ ہے، سارے کپڑے اتارپھینکو اور لگادو چھلانگ۔ ‘
گھر میں غسل خانہ تو تھا ہی نہیں،صحن میں بنے کھُرے پر نہانا پڑتا تھا۔ بچپن میں جب خالہ یا اماں اسے سب کے سامنے ننگا کر کے نہلاتیں توا سے کچھ خاص اوپرا محسوس نہ ہوتا تھا۔ لیکن جب ایک دن اس کی خالہ نے اسے نہلاتے وقت اس کی رانوں کے درمیان سے میل اتارتے ہوئے جھڑکا تھا:’’شرم نہیں آتی، اتنے بڑے ہو گئے ہو اور ابھی تک خود نہیں نہا سکتے۔ ننگے ہو کر ماؤں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہو۔ ‘‘ تو اسے بڑی شرم محسوس ہوئی تھی۔ اسے لگا تھا کہ ننگا ہوناکوئی بری بات ہے۔ اس کے بعداس نے خود نہانا شروع کر دیاتھا اور پوری طرح ننگا نہ ہوتا تھا۔ قمیص اتارتا اور شلوار پہنے ہوئے نلکے کے نیچے جا بیٹھتا۔ کھُرے پر بہنوں اور ماں کے سامنے نہاتے ہوئے پردہ قائم رہتا اور اسے بھی شرم محسوس نہ ہوتی۔ بعد میں اماں نے اسے گھٹنوں تک لمبا ایک کچھا سی دیاتھا جس میں شلوار کی طرح ناڑا ہی بندھتا تھا۔ پچھلے تین برسوں سے نہاتے وقت وہ اسی کچھے سے اپنی شرم چھپاتا تھا۔
برساتی نالوں میں نہانے کا شوق اسے ذرا بڑے ہونے کے بعد چمٹا تھا۔ دراصل یہ اُس جنون کی توسیع تھی جو بارش کی پہلی بوند دیکھتے ہی اس کے اندرجاگنے لگتا۔ وہ کچھا پہنے گھر سے نکل آتا اور گلی میں بارش کا مزہ لیا کرتا۔ کبھی کسی پرنالے کے نیچے، کبھی گلی میں سے بہتے پانی میں چھلاپیاں مارتے ہوئے۔ جب اس کی بانہوں اور ٹانگوں میں طاقت آنے لگی تو یہ اُتھلا اُتھلا پانی اسے کم لگنے لگا اور زیادہ کُھلے کی طلب ہونے لگی۔ یہی طلب اسے ایک دن برساتی نالے میں لے گئی تھی۔ بارش ہو رہی تھی، جب وہ گھر سے نکلا تھا۔ گلی میں کچھ بڑی عمر کے لڑکے تھے جو نالے کی طرف جانے لگے تھے۔ یہ بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ گاؤں سے باہر دور نالے کی طرف جاتے ہوئے اس کا دل اُمڈا جا رہا تھا۔ نالے کے قریب پہنچ کر باقی سب لڑکوں نے تو نالے میں چھلانگ لگا دی مگروہ اپنے سارے جوش کے باوجود درندوں کی طرح لپکتی لہروں کو دیکھ کر ٹھٹک گیا اور کنارے پر سہما کھڑاکافی دیر تک انہیں نہاتے دیکھتا رہا۔ پھر جھجکتے جھجکتے اس نے غرّاتے جھپٹتے پانی میں ایک پاؤں لٹکاکر دیکھا۔ بہائو کی تیزی سے اسے ایک جھٹکا سا لگا لیکن پانی کی مہربان ٹھنڈک سے لطف کی ایک لہر اس کے پورے بدن میں دوڑ گئی تھی۔ ساتھ آئے ہوئے لڑکوں نے اس کا حوصلہ بڑھایا اور وہ ہمت کر کے نالے میں اترگیا۔ پانی رانوں تک ہی پہنچتا تھا لیکن پھر بھی اس کے اندر اندھی طاقت تھی۔ وہ جب ایک ہی جگہ پاؤں جما تھوڑی دیرتک کھڑارہا تو ریت اس کے پاؤں تلے سے نکلتی محسوس ہوئی اور یوں لگا جیسے وہ نیچے دھنستا جا رہا ہے۔ چلنے کی کوشش کی تو پانی اسے اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ پانی زیادہ نہ تھا، اس لیے تھوڑی دیر میں وہ سنبھل گیا اور وصال کی اِس انوکھی لذت کا لطف لیتا رہا۔ وہ نہیں جانتا کہ اُس دن اُس کے حلق سے حیر ت اور مسرت کی چہکار بھری کتنی چیخیں نکلتی رہی تھیں۔
نالے کے ساتھ اس کا یارانہ پکا ہو گیا۔ بارش آتی تو وہ نالے میں جا پہنچتا۔ پہاڑوں پر سے شرکاٹے مارتا پانی منٹوں میں اس کے گاؤں کی سرحدتک پہنچ آتا تھا۔ وہ پانی کے پہلے ریلے سے لے کر آخری لہر تک پانی میں رہنے کی کوشش کرتا۔ بس جس دن بارش شام یا رات کو ہوتی، اس دن اسے بڑی مایوسی ہوتی کہ تازہ پانی اور اتنا پانی ضائع گیا۔ خیر یہی نہیں کہ وہ اور اس کے دوست صرف نالے کے بہتے پانی میں نہاتے تھے بلکہ بارش کے بعد بھی کافی دنوں تک اس پانی کا لطف لیتے رہتے۔ نالہ جہاں سے موڑ لیتا تھا وہاں ریت کے مسلسل سرکاؤ سے ایک گڑھا بن گیاتھا جسے ’ڈھن‘ کہتے تھے۔ نالے کا پانی اِس ڈھن میں ہفتوں تک کھڑا رہتا۔ یہ پانی کافی گہرا ہوتا تھا۔ بعض اوقات تو اونٹ ڈباؤ۔ دوبارہ بارش نہ ہو، تب بھی وہ ہفتوں تک اس پانی میں نہاتے رہتے تھے۔ حتیٰ کہ پانی لیس دار اورگاڑھا ہوکر بدن سے چپکنے لگتا۔ تب یہ اندر نہ اترتے مگر حسرت سے دیکھنے ضرور جاتے۔
نالے اور ڈھن کے پانی سے ان کے کئی جذبے وابستہ تھے۔ گاؤں کی عام سی زندگی میں یہی ان کی خاص تفریح تھی۔ خود وہ اپنے بارے میں جانتا تھا کہ اس کی نوخیزی کی پہلی محبت یہ نالہ ہی تھا۔ یہیں اس نے اپنے اندرپہلی بار اس میٹھی لہر کو ہلکورے لیتے محسوس کیا تھاجو جوانی کی مچلن سے آدمی کی رگوں میں رواں ہوتی ہے۔ یہیں پہلی دفعہ اس کے جوان ہوتے دل نے اپنی دھڑکنوں کو بے قابو محسوس کیا تھا۔ ایک نشہ تھا جو پہاڑوں سے بہہ کر آتا تھااور اسے ساتھ بہالے جاتا تھا۔ ساون، بھادوں کے دو مہینے جب اُدھر سکول سے بھی چھٹیاں ہوتی تھیں، وہ زیادہ وقت نالے میں ہی گزارتا۔ نالے کا پانی ہو اور وہ اس میں نہ ہو، یہ تصور ایسے ہی تھا، جیسے کہانی ہو اور اس میں کوئی کردار نہ ہو۔
چودہ سال کی عمر تک وہ اچھا خاصا تیراک بن چکا تھا۔ ہر قسم کی قلابازی، چھلانگ وہ لگا لیتا تھا۔ بلکہ جب وہ نالے کے پشتے سے، جہاں پانی کا کنارہ دو میٹر دور بنتا تھا، قلابازی کھا کر نالے میں آ کودتا تو اس کے ساتھی دیکھتے رہ جاتے۔ اتنی ماہرانہ چھلانگ کوئی نہیں لگا سکتاتھا۔ پانی کے اندر دو دو منٹ تک غائب رہتا اور بیسیوں فٹ دور جا اُبھرتا تھا۔ سب کرتب جو اس کے ساتھی دکھا سکتے تھے، وہ ان سے بڑھ کر دکھا لیتا تھا۔
تیراکی کی یہ سب مہارتیں اپنی جگہ، نہانے کا شوق الگ لیکن ایک کام وہ کبھی نہیں کر پایا تھا۔ وہ تھاننگا ہو کر نہانے کا۔ اس کے اکثر دوست گھر والوں کے خوف سے اپنے کپڑے اتار کر نہاتے۔ باہر نکل کر آرام سے منھ، سر پر ہاتھ پھیرتے، بدن سُکھا،کپڑے پہن کر چل دیتے لیکن اس کے دل میں کبھی یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ ایسے نہا سکے۔ دوسروں کے ننگے بدن دیکھ کر اسے بڑی شرم آتی اور وہ سوچتا کہ وہ خود عریاں ہو کر کیسا دکھائی دے گا۔ ننگی پیٹھ، ننگی نونو کا سوچ کر ہی وہ مُر مُرا سا جاتا۔ نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ اس کو یہ موج ضرور تھی کہ گھر سے اتنی روک ٹوک نہ تھی۔ ابا بیرونِ ملک تھے، اماں کچھ کہتی نہ تھیں، اس لیے اسے کپڑے گدلے ہونے سے کسی قسم کی پریشانی نہ اٹھانی پڑتی۔ وہ آرام سے اپنا کچھا پہنے نہاتا رہتا اور دوسروں کا ننگ دیکھ دیکھ کر منھ پھیرتا رہتا۔ دوسرے بھی اس کی شرم پر اس کا مذاق اڑاتے مگر وہ ان کے کہنے میں نہ آتا تھا۔ ایک دفعہ،باقی دوستوں کا اشارہ پا کر ساجی پانی کے اندر ڈبکی لگا ئے ہوئے،اس کا کچھا کھینچ لے گیا تھا۔ اس دن وہ اپنے دوستوں کے سامنے بہت گھگھیایا تھا۔ کچھے کے بغیر نکلنے کا سوچ کر اس کی ٹانگیں بے جان ہورہی تھیں۔ پہر بھر پانی میں دبکا رہا مگر انہوں نے اس کا کچھا واپس نہ کیا تھا۔ شام کو جب گھر جانے کا وقت ہوا،تب انہیں اس پر رحم آیا تھا۔ کچھادوبارہ واپس ملنے تک وہ عہد کر چکا تھا کہ آئندہ زندگی میں کبھی بھی ساجی کو منھ نہیں لگائے گا اور آج تک وہ اپنے اس عہد پر قائم تھا۔
آج کل ساون کا مہینہ تھا۔ نہانے کے دن زوروں پر تھے مگر پرسوں اس کی نانی کی اچانک وفات نے لطف خراب کر دیا تھا۔ نانی کی وفات پر سارے ننھیالی رشتہ دار ماموں، خالائیں جو بیرونِ ملک تھے، پاکستان آگئے تھے۔ اس کے ننھیالی گھر میں ایک بھیڑ سی جمع ہو گئی تھی۔ اماں کے آٹھ بہن بھائی تھے اور ان سب کی اولاد ملا کر کوئی تیس کے قریب پہنچتی تھی جن میں سے آٹھ دس لڑکے اس کے ہم عمر تھے۔ ان میں سے بیشترملیر اور مسیر رہتے تو پاکستان میں ہی تھے لیکن اس طرح اکٹھے کم ہوپاتے تھے۔ ان کے لیے تو جشن کا سماں تھا۔ انہیں اور جو باہر سے آئے تھے، سب کو نالے میں نہانے کاچسکا تھا۔ جس دن وہ نانی کو دفنا کر واپس آئے، اس رات مسلسل تیز بارش ہوئی تھی۔ تمام رات بارش کی ٹپا ٹپ سنتے ہوئے اس کا دِل تازہ پانی کے لمس کے لیے مسوستا رہا اور وہ دل ہی دل میں صبح نالے میں نہانے کے منصوبے بناتا رہا۔’ صبح تک نالہ تو بہہ چکا ہو گا۔ چلو ڈھن میں ہی نہا کر لطف لے لیا جائے گا۔‘ اسی فکر میں رات کو اسے بہت دیر سے نیند آئی۔ صبح جب وہ جاگا تو سورج کافی اوپر آ چکا تھا۔ بارش کے بعد دھوپ دھل کر مزید تیکھی ہو گئی تھی۔ جلدی جلدی ہاتھ منھ دھو کر اس نے ناشتہ کیا، اس دوران وہ جان گیا تھا کہ سبھی ملیروں، مسیروں میں سے کوئی بھی گھر میں نہیں ہے۔ اسے اندازہ ہو گیا کہ سب نہانے کو نکل گئے ہیں۔ گھر کی سب عورتیں ایک طرف برآمدے میں پھوہڑی پہ بیٹھی تھیں۔ مرد فاتحہ کی طرف تھے۔ وہ سب سے آنکھ بچا کے باہر نکل آیا۔ اس کا یہ ننھیالی گھر، جسے و ہ سب ’ڈیرہ‘ کہتے تھے، گاؤں کے بالکل بیرونی سرے پر تھا۔ جہاں سے ڈھن کا پشتہ دورصاف نظر آتا تھا۔ ابھی وہ چند قدم ہی چلا ہو گا کہ اسے کافی سارے لوگ پشتے سے نیچے اترتے اور ڈیرے کی طرف آتے دکھائی دیے۔ وہ ٹھٹک گیا۔ ذراسی دیر میں اس نے اپنے بڑے ماموں کوجو سب سے پیچھے تھے،ان کے لمبے قد کی وجہ سے پہچا ن لیا۔ وہ سمجھ گیا کہ ماموں ان سب کو وہاں سے کھینچ کر گھر کی طرف ہانک رہے ہیں۔ وہ فوراًڈیرے کی طرف پلٹ آیا اور ادھر ادھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں لگ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ماموں ان سب کو لیے آن پہنچے۔ سا ری پلٹن کو ایک طرف کڑی دھوپ میں مرغا بنایا گیا اور سب کو ایک ایک جوتا عین تشریف پر رسید کیا گیا۔ وہ ان کی حالت دیکھ دیکھ اپنی خوش بختی پر ہنستا رہا ورنہ اگر ماموں تھوڑی دیر بعد جاتے تو اب دھوپ میں اس کا بھی عرق نکل رہا ہوتا۔
عصر کے بعدجب پھوہڑی اٹھا دی گئی اور سب رشتہ دار اکٹھے بیٹھے تو بڑے ماموں نے اُن سب کو طعنہ دیااوراِس کی تعریف کی کہ یہ واحد لڑکا ہے جسے گندے کاموں کا شوق نہیں۔ شاباش کے ساتھ ماموں نے اسے دو روپے انعام بھی دیاجس پر اسے کافی فخر اور ملیروں او ر مسیروں کو بہت جلن ہوئی تھی۔
اُس دن سارا وقت اس کا دل نہانے کومچلتا رہا تھا۔ اب تو سارا نالہ بہہ گیا ہو گا۔ وہ جو تازہ پانی میں مزہ آتا ہے، وہ نہیں ملے گا۔ اتنا۔۔۔گھنٹوں پانی ضائع گیا۔ جس میں بندہ نہا نہ سکے، وہ پانی ضائع ہی سمجھو۔ اب دوبارہ بارش ہونے تک ڈھن میں ہی نہانا پڑے گا۔
اگلے دن وہ صبح سے ہی بے تاب تھا لیکن قل کی وجہ سے ان سب ملیروں، مسیروں کو کام بھی بہت تھے، وہ جلدی نہ نکل پایا۔ قل خوانی کے بعد مرد حضرات کھانا کھا کر چلے گئے اور فاتحہ کی دریاں لپیٹ لی گئیں توگھر کے سب مرد اُلسانے لگے۔ ایک ماموں اِدھر پڑ رہے، دوسرے اُدھر۔ بڑے ماموں نے چارپائی توت کے نیچے بچھائی اور خراٹنے لگے۔
موقع مناسب دیکھ کر وہ کھسک لیا تھا لیکن اب ڈھن پر پہنچ کر ایک نئے مسئلے نے اسے الجھا لیا تھا۔ نہانے کا واحد طریقہ جس سے پکڑے جانے کا امکان نہ رہتا، یہی تھا کہ وہ ننگا ہو کر نہائے لیکن اِس میں شرم آڑے آتی تھی۔ وہ پشتے سے اتر کر ڈھن کے قریب گیا۔ پانی اسے بلا رہا تھا۔ اُس وقت کوئی آدمی دیکھنے والا نہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے دوست دوپہر ڈھلنے کے بعد نہانے کوآئیں گے اور پھر شام گہرانے تک ڈھن پر قابض رہیں گے۔ اس کے پاس،اگر وہ ننگا ہو کر نہانا چاہے اور دوسروں کی نگاہوں سے بچنے کی خواہش بھی رکھتاہو تو یہی مناسب وقت تھا۔ اس نے کنارے پر بیٹھ کر ڈھن کے پانی میں ہاتھ پھیرا۔ سطح کا پانی تپا ہوا تھا مگر تھوڑی دیر ہاتھ ہلانے سے نیچے کا ٹھنڈا پانی اوپر آ کر چَس دینے لگا۔ نالے کے پانی سے اسے جو خمار چڑھتا تھا، جڑ پکڑنے لگا۔ وہ کافی دیر تک کنارے پر بیٹھا ایک ہاتھ پانی میں ڈبوئے دائیں بائیں لہراتا رہا۔ دوپہرکی گونجیلی خاموشی میں ہاتھ کے ہلنے کی ہلکی سی شپ شپ بھی خاصا ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔
’اب اس پانی سے کیسے دور رہ سکتے ہو تم؟‘
اس نے ہاتھ باہر نکالا اور واپس پشتے پر جا کر دور گاؤں کی طرف دیکھا۔ اس بوجھل دوپہر میں سارا گاؤں سویا سا لگتا تھا۔ تمام ماحول حرکت اور زندگی سے محروم تھا جیسے کسی ساحر نے کوئی سحر پھونک کر صدیوں کے لیے اسے ساکت کر دیا ہو۔ کوئی ذی روح باہر کھیتوں میں نظر نہ آ رہا تھا، سوائے تین چار گایوں کے جو دور ایک بیری کے نیچے بیٹھی،جگالی کر رہی تھیں۔ درختوں کی پمپوچھلیاں بھی بھاری ہوا تلے دبی ساکت پڑی تھیں۔ ڈیرے کے قریب جامن کا درخت اپنی تنہائی پہ ملول کھڑا تھا ورنہ ان دنوں تو ہر وقت اُس پر لڑکوں کی فوج دندنا رہی ہوتی تھی۔ جتنے بھی گھر نظر آ رہے تھے سبھی کی منڈیر وں پر سکوت سنسنا رہا تھا۔ اس نے غور سے ڈیرے کے دروازے کو دیکھا۔ نیلے رنگ کا بڑا سا دروازہ کبھی کھلنے والا نہیں لگتا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھاجیسے اس کے اندر رہنے والوں کو جادوگر نے ہمیشہ کے لیے قید کر دیا ہو۔ اس نے پلٹ کر پانی کی طرف دیکھا، پانی نے مسکرا کر آنکھیں جھپکیں اور ہولے سے ہاتھ ہلا کر اسے اپنی طرف بلایا۔ وہ بے اختیار کھنچتا چلا گیا۔ شلوارکھولتے وقت پھر شرم نے اسے پکڑ لیا۔
’نہیں، یہ مجھ سے نہیں ہو گا ‘
’واہ! کیا ہو جائے گا تمہیں، کون دیکھ رہا ہے یہاں؟ خواہ مخواہ وقت ضائع کر رہے ہو۔ ‘
’اتنی کھلی جگہ پر ننگا ہونے سے زیادہ بے شرمی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ساری دنیا مجھے دیکھ رہی ہے۔ ‘
’ساری دنیا !۔ تم بچے ہی رہو گے یا کبھی عقل سے بھی کام لو گے؟ پہلے شلوار اتارو،قمیص کے دامن سے اپنا آپ چھپاؤ،پھر پانی میں اترو، اور اپنا ننگ پانی میں چھپانے کے بعد قمیص بھی اتار کرباہر پھینک دینا، آرام سے پانی کے اندرنہاتے رہنا۔ آخر پر الٹی ترتیب سے پہن لینا۔ ‘
و ہ پھر جھجک گیا۔ خیال تو اچھا تھا، مگر۔۔۔اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ دوبارہ پشتے پر گیا اور گاؤں کی جانب دیکھا۔ سحر ابھی تک قائم تھا۔ وہ واپس کنارے پر پہنچااور پانی کو دیکھ کر دھیرے سے مسکرا دیا۔
آرام سے شلوار اتار کر کنارے پر رکھی اور قمیص کوہاتھوں سے سنبھالتا ہوانیچے پانی میں اترنے لگا۔ پانی جیسا کہ ڈھن میں ہوتاہے، پہلے ہی قدم پر رانوں تک آگیا۔ اس نے قمیص کو اوپر پشت کی جانب اٹھایا اور جلدی سے دوسرا قدم بھی آگے رکھ دیا۔ پانی اس کی کمر تک آگیا۔ وہ اپنی شرم کی طرف سے مطمئن ہو گیا۔ آرام سے کھڑے ہو کر اپنی قمیص اتاری اور ہاتھ آگے بڑھا کر کنارے پر پھینک دی۔ پھر اگلے قدم پر پانی اس کی ناک سے بھی اوپر تھا۔ اوپری سطح کے پانی نے اول تو اسے تھوڑی ناخوشگوار حرارت دی مگر تھوڑی دیر بعدجب و ہ دو تین غوطے لگا چکا تھا اور سارا پانی اوپر نیچے ہو گیا تو ٹھنڈ ک اس کے اندر تک رسائی حاصل کرنے لگی۔ سرور سے اس کی آنکھیں مندنے لگیں اور وہ لطف لیتا ہوا مختلف طریقوں سے پانی پر تیرتا رہا۔ الٹی تاری، کتا تاری،بطخ تاری، بھینس تاری۔ اِدھر سے چلتا اُدھر نکل جاتا، اُدھر سے ڈبکی لگاتا اِدھرآ نمودار ہوتا۔ جیسے پیٹ بھر کر کھانا کھانے کے بعد خمار چڑھنے لگتا ہے، وہ بھی خمارنے لگا۔ سکون،آرام، چین،قرار، سکھ سب جیسے پانی میں گھُلے ہوئے تھے اور اب اس کے ساتھ آلپٹے تھے۔
پانی کے بہت ہلکے ٹھار اور دوپہر کے سکوت نے اسے یوں دھیماکر دیا تھا جیسے من چاہی عورت کے ساتھ گرم جوش ملاپ کے بعد آدمی محسوس کرتا ہے۔ وہ سست پڑنے لگا۔ تیرتاتو ہولے ہولے، ڈبکی لگاتا تو بڑے آرام سے۔ ایک دفعہ جو اس نے ڈبکی لگائی تو کافی دیر اس کا باہر نکلنے کو جی ہی نہ چاہا۔ جانے کب تک وہ مزہ لیتا رہا۔ بہت دیر بعد اس نے سر اٹھایا۔بدن میں تازگی کی لہریں ہلارے لے رہی تھیں۔اس ٹھنڈے لمس نے اس پر نشہ طاری کر دیا تھا۔۔۔آہ! کتنا سواد ہے زندگی میں۔۔۔ ایں۔۔۔وہ چونک پڑا۔ کہیں قریب سے کچھ ملی جلی انسانی آوازیں آنے لگی تھیں۔ وہ ٹھٹک گیا اور کان اُدھر کر لیے۔ کچھ لوگ پشتے کی طرف سے اِدھر آرہے تھے…کون ہو سکتے ہیں یہ۔۔۔ شاید اُس کے دوست ہیں۔ ماموں تو ہو ہی نہیں سکتے۔ وہ تو سوئے ہوئے تھے۔ یقینا اس کے دوست ہی ہوں گے۔ اب مزا آئے گا۔۔۔ لیکن اگر ساجی بھی ان میں ہوا تو ۔۔۔ساجی نے یوں دیکھ لیا توساری عزت کا حلوہ بنا دے گا۔ اس نے اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا۔ کافی دور کنارے پرپڑے تھے۔ وہ تیزی سے ادھر لپکا۔ اُن کے پہنچنے سے پہلے اسے کم از کم شلوار پہننی ہے۔ ابھی وہ کنارے سے خاصا دور تھا کہ ایک آواز نے اسے چونکا دیا۔۔۔یہ اس کے مسیر کی آواز تھی: ’’ماموں اسے خوب پھینٹی لگانی ہے۔ کل بڑا میسنا بن رہا تھا۔ ‘‘
وہ کانپ گیا۔ یہ تو ماموں ہی نکلے۔ ضرور ان حرامیوں نے کل کی جلن اتارنے کو چغلی کھائی ہو گی۔ اب کیا ہو گا۔
وہ کپڑوں کی طرف بڑھتا بڑھتا رک گیا۔ آگے آگے ماموں کا سر اور کندھے نمودار ہوئے، پیچھے ساری پلٹن ابھرنے لگی۔ وہ سُن کھڑا اُنہیں دیکھتا رہا۔ اگر اب باہر نکلا تو ننگا ان کے ہاتھ آ جائے گا۔ کپڑوںتک پہنچنے کا وقت بالکل نہ رہا تھا۔ کھڑا رہا تو بھی یہ بدمعاش اسے پانی میں آ دبوچیں گے۔ اب توبس بھاگ نکلنے میں عافیت تھی۔ اس کی ساری نِندتا غائب ہو گئی۔ وہ پلٹا اور تیزی سے دوسرے کنار ے کی طرف لپکا۔
’ ماموں یا دوسرے لوگ اتنی چوڑی ڈھن فوراً عبور تو نہ کر سکتے تھے۔ ‘
اس نے سوچا اور ڈھن سے پار نکل کر دونوں ہاتھ پیچھے رکھے دوڑ پڑا۔ اسے قطعاً علم نہ تھا کہ بھاگ کے جانا کہاں ہے، ابھی تو ماموں کے ہتھوڑا ہاتھوں سے بچنے کا سوال تھا۔ وہ دوڑتا رہا۔۔۔ پیچھے ماموں اور ملیروں، مسیروں کے للکارے اس کا تعاقب کرتے رہے مگر اس نے پلٹ کر نہ دیکھا اور پوری رفتار سے بھاگتا رہا۔ بھاگتا چلا گیا۔۔۔