[blockquote style=”3″]
[/blockquote]
آپ بری ہو گئیں، میری جانب سے مبارکباد قبول کیجیے۔ مگر انصاف ہونے میں ابھی دیر ہے۔ آپ جلد اپنے اہل خانہ سے ملاقات کریں گی ،اس سے بڑھ کر خوشی کا لمحہ کوئی نہیں ہو گالیکن سب ابھی تک محفوظ نہیں۔
عدالت نے آپ کو بری کیا ہے مگر ابھی بھی اپ ہی جیسے بے شمار قیدی پاکستانی جیلوں میں اس کالے قانون کے باعث قید ہیں۔ آپ اپنے اہل خانہ سے ملاقات کرنے والی ہیں لیکن جنید حفیظ ابھی بھی اپنے اہل خانہ سے دور ہیں۔ آپ کو نئی زندگی ملی ہے لیکن مشعال خان اور راشد رحمان کو یہ نعمت میسر نہیں۔ پاکستانی کال کوٹھڑیوں میں کتنے ہی چہرے، کتنے ہی نام، کتنے ہی خوب صورت لوگ اس کالے قانون کے شکنجے میں کسے سسک رہے ہیں، وہ نہ جی سکتے ہیں نہ مر سکتے ہیں۔ نہ وہ قید میں محفوط ہیں نہ رہائی میں۔
آپ کے بچے آپ کی جدائی کے غم میں جوان ہوئے ہیں اور میرے بچے میری جدائی کے غم کے ساتھ بوڑھے ہوں گے۔ آپ کے بچے اب آپ کو دیکھ سکیں گے، چھو سکیں گے، بات کر سکیں گے اور ایک زندگی آپ کے ساتھ شروع کر سکیں گے اور میرے بچے۔۔۔ یقیناً آپ کے بچوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوں گے کہ ان کے باپ سلمان تاثیر کا نام ایک ایسی عورت کی زندگی کا ضامن بنا ہے جو بدقسمتی کے طویل اندھیرے سے خوش نصیبی کی روشنی کے ساتھ طلوع ہوئی ہے۔
میں نہیں جانتا کہ اپ میرے بارے میں قید کے ان دنوں میں کیا سوچتی رہیں، لیکن میں ایک روز بھی اپنی شہادت کے بعد سے آپ کو فراموش نہیں کر پایا، میں ہر روز کئی آوازوں کو خاموش ہوتے دیکھتا ہوں جو اپ کے حق میں اٹھنی چاہیئں تھیں، مگر مشعال خان کا انجام ان کے منہ بند کر دیتا ہے۔ میں ہر روز سینکڑوں قانون دانوں کو اندر ہی اندر گھٹتے ہوئے دیکھتا ہوں لیکن راشد رحمان کی شہادت انہیں سر جھکائے اپنے چیمبروں میں مقید رہنے پر مجبور کردیتی ہے۔ کئی لکھنے والے ہیں جو اپنے قلم کی نوک پر تمہارا اور تمہارے جیسے مظلوموں کانام روکے ہوئے سانس لیتے ہوئے بھی ڈر رہے ہیں ان کے سامنے مشتعل جتھوں کے ہجوم ہیں۔
مگر یہ سب تمہاری بریت کی خوشی کے سامنے کچھ نہیں۔ میں اور تم جس سرزمین سے ہیں وہاں ایسے فیصلوں کی نظیر کم ہی ہے جب ججوں نے بوٹوں، جتھوں اور سیاسی عزائم سے بالا تر ہو کر صرف قانون کی بات کی ہو۔ جب ججوں نے اپنی جان کے خطرے سے ماورا اصول کو ترجیح دی ہو۔
تمہاری رہائی یقیناً امید ہے۔ ان سب کے لیے جو سمجھتے ہیں کہ مذہبی وابستگی کو ریاستی معاملات اور قانون وانصاف کے تقاضوں پر حاوی نہیں ہونا چاہیئے۔ جن کے خیال میں ہر فرد کو عقیدے اور مذہب کے امتیاز کے بغیر زندگی گزارنے کا حق ہے اور سب سے بڑھ کر ان کے لیے جو چاہتے ہیں کہ مقدس شخصیات کا تقدس خون آشام نہ ہو۔
معلوم نہیں میں نے کیسی زندگی گزاری، کیا صحیح کیا کیا غلط، مگر مجھے بس ایک بات کا اطمینان ہے کہ میری زندگی کا حاصل یہی ہے کہ میں نے تمہاری زندگی کے لیے آواز اٹھائی، آج مجھے اپنی موت کا کلک نہیں تمہاری زندگی کی خوشی ہے۔ کوئی تو ہے جس کے نام کی وجہ سے میرا نام احترام سے لیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے تمہاری زندگی کے صدقے ہی میری خطائیں اور کوتاہیاں نظر انداز کر دی جائیں۔
ہو سکتا ہے تمہیں یہ جان کر اطمینان ہو کہ خدا کے نزدیک میرا یہی ایک عمل پسندیدہ ترین اور محبوب ترین ہے۔ تمہارے لیے آواز اٹھاتے ہوئے میں نہیں جانتا تھا کہ یہ لمحہ میری زندگی کا فیصلہ کن ترین لمحہ ہو گا۔ مجھے خوشی ہے کہ ظلم کے سامنے میں تمہاری حمایت میں کھڑا ہوا ۔ تمہیں تنہاری رہائی مبار ک ہو مگر یاد رکھنا کہ میں ان لوگوں کی صفوں میں تھا جو تمہاری بے گناہی کے وکیل تھے، جو تمہارے ساتھ ہونے والے ظلم کے گواہ تھے اور جنہوں نے کلمہ حق کو سرگوشی پر تر جیح دی تھی۔