اس طویل کہانی کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آوازوں والا کردار:حصہ دوم
اس کار خانے میں اس کے علاوہ بارہ لڑکے اور کام کرتے تھے، کچھ اس سے عمر میں بڑے تھے اور کچھ چھوٹے۔ اس نے کسی سے جان پہچان بڑھانے کی کوشش نہیں کی تھی، لیکن اتنا ضرور محسوس کیا تھا کہ زیادہ تر لڑکے ایک دوسرے سے انجان ہیں۔ شائد سب صرف شام کے اس لمحے کے لیے اپنا اپنا کام سر جھکا کر کرتے رہتے تھے جب مالک انہیں مزدوری عطا کرے۔ جب کئی دن کام کرتے ہوئے ہو گئے تو ایک نئے لڑکے نے جو اس کے بعد کار خانے میں داخل ہوا تھا اس سے پوچھا تھا کہ "مالک روز پیسے کیوں دیتا ہے۔” جس کے جواب میں وہ خاموش رہا۔ نہ اس نے کوئی جواب دیا اور نہ پوچھنے والے لڑکے نے دوبارہ پوچھا۔
اس کی توجہ کار خانے میں کام کرنے والے تمام لڑکوں کے مقابے میں مالک پر زیادہ تھی، نہ جانے کیوں وہ اپنے مالک میں ایک خاص کشش محسوس کرتا تھا۔ اسے لگتا کہ یہ شخص جو روز شام کو ہم لوگوں میں روپیہ بانٹتا ہے خود کتنے عالی شان طریقے سے زندگی گزارتا ہوگا۔ وہ جب اپنے ساٹھ رپیہ کے شاہانہ خرچ کے متعلق سوچتا جس میں اس کی مزدوری، سگریٹ، بیڑی، الم غلم سمیت سب آ جاتا تھا تو مالک کا کردار اسے اور زیادہ متاثر کن لگتا۔ جو شخص روز کے ہزار دو ہزار بانٹ دے وہ کم سے کم پانچ ہزار روزانہ تو کماتا ہی ہوگا۔ یہ خیال اسے مالک کا دیوانہ بنا دیتا۔وہ کوشش کرتا کہ اور محنت سے کام کرےتاکہ مالک کی خوشنودی حاصل ہو سکے، مگر مستقل کئی روز کی محنت کے باوجود اسے محسوس ہوا کہ مالک کا اپنے لڑکوں سے صرف اتنا رشتہ ہے کہ وہ صبح میں ان کے داخلے کا وقت لکھے سب پر ایک نظر ڈالے کون آیا اور کون نہیں اسے نوٹ کرے اور شام کو تنخواہ دے کر رخصت کر دے۔ کبھی جب وہ کام پر نہ جاتا تو دوسرے روز مالک صرف اتنا اور پوچھتا کہ ” کل کیوں نہیں آیا تھا۔” وہ بتاتا اور مالک مطمئن ہو جاتا۔پھر شام کو پیسے دیتا اور روز والا سوال دہراتا "کل کتنے بجے آئے گا۔” وہ جواب دیتا اور مالک اگلے کی طرف متوجہ ہو جاتا۔
ہفتے میں ایک دن جب اس کی چھٹی ہوتی تو وہ اپنی جیب میں تین چار سگرٹیں بھر کر ٹیلے پر چلا جاتا۔ شفاف سڑک کو گھور کر دیکھتا رہتا اور سگرٹوں کے کش لے لے کر مالک کے متعلق سوچنے لگتا۔ اس نے کام کے دوران کئی مرتبہ دیکھا تھا کہ اس کا ما لک جو گورے رنگ کا ایک گگدے بدن والا چھوٹے قد کا شخص تھا وہ رنگین شرٹ اور نیلی جینز میں کتنا خوب رو معلوم ہوتا تھا۔ وہ اپنے احباب سے بھی خوب ہنس ہنس کر باتیں کرتا، اس کے دوست جو اس چمنی کے قریب واقع کار خانوں کے مالکان تھے اکثر دو پہر میں کھانے کے وقت اس کے پاس آ جاتے اوروہ ان سے ہنس ہنس کر باتیں کرتا۔ کسی لڑکے کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر نہیں دیکھا۔ اسے یہ بات بہت ناگوار گزرتی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا ملک جس طرح اپنے احباب سے بات کرتا ہے اس سے بھی کرے اور وہ بھی بتائے کہ وہ شہر کے کس حصے سے یہاں آتا ہے اور وہاں کیسی کیسی عجیب و غریب چیزیں پائی جاتی ہیں۔ مگرایسا ہوا نہیں تھا اس نے ایک آدھ مرتبہ اپنی روز کی مقررہ رقم کو لینے سے انکار بھی کیا تھا تا کہ اس کا مالک اسے اپنے بقیہ لڑکوں سے مختلف سمجھے،مگر اس نے ڈانٹ کر اس کے ہاتھ پر پیسے رکھے اور روز کا سوال داغ دیا۔ اس نے وقت بتا یا اور چل دیا۔
جب سے اس چمنی میں اس کی نوکری لگی تھی وہ شہر کو کچھ بدلا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ حالاں کہ اس دوران چمنی تک جاتے ہوئے اسے دو بار سڑک کے کنارے وردی والوں نے روکا تھا اوراس کی تلاشی بھی لی تھی۔ مگر اسے یہ ایک معمولی واقعہ لگا تھا۔ اسے محسوس ہورہا تھا کہ اس نے دھیرے دھیرے چمنی میں کام کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس قابل بنا لیا ہے کہ اس کارخانے والی گلے سے آگے بڑ ھ سکے۔ چمنی کی ملازمت کے دوران چھٹی کے روز وہ شہر کے جنوبی علاقے سے سواری کر کے خربوزے والی گلی تک بھی گیا تھا جہاں۔ شہر کا سب سے بڑا بازار لگتا تھا۔ یہ شہر کا ایسا واحد بازار تھا جہاں امیر و غریب ہر طرح کے لوگوں کے آنے کی اجازت تھی۔ ورنہ شہر میں جب سے وردی والوں کا قبضہ ہوا تھا انہوں نے غریبوں اور امیروں کے بازار الگ کروا دیے تھے تاکہ انہیں یہ شناخت کرنے میں آسانی ہو کہ شہر میں کن لوگوں کے پاس روپیہ ہے۔ غریبوں کے بازار کی اشیا نہایت خراب کوالٹی کی ہوتیں، جو متوسط طبقے کے لوگ بھی استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ کپڑے سے لے کر کھانے تک ہر چیز تیسرے درجے کی تھی جو شہر والوں کے استعمال سے خارج ہو چکی تھی وہ یہاں پائی جاتی تھی۔ خربوزے والی گلی تک جانے والے غریب اس فرق سے اچھی طرح واقف تھے کہ شہر کے اصلی مالکوں سے کس طرح پیش آنا ہے۔
(4)
یہ گلی شہر کے شمال مغربی حصے میں تھی۔ اسے خربوزے والی گلی کیوں کہا جاتا تھا اس کا راز گلی کے اتیت میں کہیں دفن تھا اور لوگوں کو اتنی فرصت نہیں تھی کہ وہ ماضی کے پنّے پلٹ کر اس کی وجہ تسمیہ جاننے کی کوشش کرتے، یوں بھی گلی محلے کے ناموں کی تاریخ پہ اب لوگ کم ہی غور کرتے تھے۔ ان ناموں پہ زیادہ غور کیا جاتا تھا جو کسی طرح کا سیاسی فائدہ پہنچا سکتے ہوں۔ شہر کے اس حصے کو خربوزے والی گلی کہا ضرور جاتا تھا، لیکن یہ کوئی گلی نہ تھی بلکہ اسی سے سو فٹ چوڑا راستہ تھا جہاں مختلف اشیا کی دکانیں قطار اند قطار سجی ہوئی تھیں۔ خربوزہ یہاں صرف پھلوں کی دکانوں پر پایا جاتا تھا۔ یہ علاقہ وردی والوں کی نظر میں اس لیے بھی مشکوک نہ تھا کیوں کہ یہاں کی زیادہ تر دکانیں اس ملک کے مالکوں کی تھیں جن کے حکم سے شہر میں وردی والے داخل ہوئے تھے۔ وردی والوں کا رعب اس گلی کی سرحد کے اندر داخل ہوتے ہی کمزور پڑ جاتا تھا۔ یہ بازار خاصہ پرانا تھا تین طرف سے شہر کی شاہراہوں سے متصل اور ایک طرف شہر کا بیرونی راستہ۔ شہر کا ہرنیا تہذیبی رواج یہیں سے عام ہوتا تھا۔ کوئی بھی چیز جو مہنگے سے مہنگے اور سستے سے سستے داموں پر دوسرے شہروں سے یہاں آتی تھی بنا کسی مول بھاو کے بیچی جاتی۔ ہر شخص کو اپنی استطاعت کے مطابق اشیا خریدنے کی آزادی تھی۔ اس بازار کا سب سے بڑا عجوبہ یہاں کی رومال والوں کی دکانیں تھیں جہاں انسانی شکل کے رومالوں کی بھر مار تھی۔ کسی بھی شخص کی شکل کا کڑھا ہوا رومال یہاں دستیاب تھا۔ لوگ اپنی پسندیدہ شخصیات کے کڑھے ہوئے رومال درجنوں کی تعداد میں یہاں سے لے جایا کرتے تھے۔ یہ رومال نہ صرف اس شہر میں بلکہ دنیا کے مختلف شہروں میں یہاں سے منگوائے جاتے تھے۔ کسی شخص کو اگر اپنی شکل کا رومال کڑھوانا ہوتا تو وہ دس منٹ میں رومال کڑھوا لیتا۔ رومال کڑھائی کے درجنوں کار ی گر صبح سے شام تک رومال کی دکانوں کے درمیان لوگوں کی شکلوں والے رومال کاڑھتے اور بیس روپیہ فی رومال مزدوری لے کر خوشی سے جھوم اٹھتے۔ وردی والے بھی رومال کڑھائی کاریگروں سے اپنی شکلوں کے رومال کڑھواتے اور انہیں پوری قیمت ادا کرتے۔ اگر یہ کڑھائی والے شہر کے کسی اور علاقے میں پائے جاتے تو یقیناً انہیں وردی والوں کے لیے مفت میں یہ خدمت انجام دینا ہوتی، لیکن یہاں وہ وردی والوں سے پوری قیمت وصولتے تھے۔ رومال کے علاوہ اس بازار کا چاندی کازیور بھی پورے شہر میں مشہور تھا۔ چاندی کا اصلی زیور جس پہ چاہو تو سونے کے پانی کی قلعی بھی کروائی جا سکتی تھی۔ اس کام کے لیے دوسرے شہر سے لوگوں نے آ کر یہاں اپنا ڈیرہ جمایا تھا۔ مشرقی علاقوں کے شہر والے اس کام میں ماہر تھے جو اب خربوزے والی گلی کے سنار کہلاتے تھے۔
اس کا اس بازار میں آنے کا مقصد اپنی شکل کارومال کڑھوانا تھا اور ساتھ ہی وہ یہ جائزہ بھی لینا چاہتا تھا کہ اگر اس نے کارخانوں میں کام مانگنے والی ترکیب یہاں آزمائی تو اسے کس حد تک کامیابی مل سکتی ہے۔ بازار میں داخل ہونے کا شہر والا دروازہ بہت چوڑا تھا جہاں اندر داخل ہونے والوں کو اپنی اور اپنے سامان کی تلاشی کروانی ہوتی۔ اگر کسی کے پاس کوئی دھار دار چیز پائی جاتی خواہ وہ گلے میں لٹکی ہوئی چین سے جڑا ہوا چھوٹا دکھاوے کا خنجر ہی کیوں نہ ہو تو اسے جمع کروا لیا جاتا اور انہیں ایک ٹوکن دے دیا جاتا کہ واپسی پہ وہ ٹوکن دے کر اپنی چیز حاصل کر لیں۔ اس کے پاس ایسی کوئی چیز نہ تھی، وہ خالی ہاتھ آیا تھا۔ داخلے کے وقت جب اس کی تلاشی لی جا رہی تھی تو اس نے محسوس کیا کہ گذشتہ جتنی مرتبہ شہر میں اس کی تلاشی لی گئی ہے اس میں جو جبریہ رویہ پایا جاتا تھا وہ یہاں کے تلاشی لینے والوں میں نہ تھا۔ اس نے سکون سے اپنی جیبیں چیک کروائیں اور بازار میں داخل ہوگیا۔ شہر کے اندر آ کر وہ سیدھا رومالوں کی دکان کی طرف گیا اور ان میں ایک دکان کے سامنے پڑی پٹریوں پر بیٹھے کاری گر سے اپنی شکل کا رومال تیار کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ کاری گر خوشی خوشی اپنی جگہ سے اٹھا اور برابر میں رکھے ہوئے بستے میں سے دو تیلیاں نکال کر ایک سفید کپڑے پر رومال کڑھنے لگا۔ اس دوران وہ بڑی دلچسپی سے کبھی کڑھائی کو دیکھتا اور کبھی کڑھنائی کرنے والے کو۔ اگلے دس منٹ میں جب کڑھائی کاری گر نے اس کی تصویر رومال پر اتار کر رومال اس کے حوالے کیا تو وہ حیران رہ گیا۔ اس نے آج تک صرف ان کڑھنے والوں کا تذکرہ سنا تھا اور کچھ کڑھے ہوئے رومال دیکھے تھے۔ اسے لگتا تھا کہ یہ گھنٹوں کی محنت کا صلہ ہوگا کہ کسی شخص کی ہو بہو تصویر ایک کپڑے کے رومال پر اتار دی جائے۔ مگر دس منٹ کے وقفے میں اپنی نظروں کے سامنے خود کی تصویر کو رومال پر اترتا ہوا دیکھ کر اسے ایک انجانی خوشی کا احساس ہوا تھا جس میں حیرت کے آثار ملے جلے تھے۔ اس نے سوچا کہ یہ کتنا بڑا ہنر ہے کہ کسی کو دوچار مرتبہ دیکھا اور اس کی شکل کو رومال پر کڑھ دیا۔ اس کی قیمت صرف بیس روپیے تو ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اس نے اپنی جیب سے چالیس روپے نکال کر اس کاری گر کو دیے تو اس نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ” اس کا صرف بیس روپیہ ہوتا ہے۔” اس پر اسے برا محسوس ہوا اور اس نے مالک کی طرح خفگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کاری گر کو چالیس روپے تھما دیے۔ کاری گر خوش بھی تھا اور حیران بھی۔جس سے نظریں ملا کر اسے پہلی بار مالک ہونے کا احساس ہوا۔ اس واقعے سے اس نے جانا کے کسی کو کچھ دینے کا سکھ بڑی سے بڑی چیز لینے سے ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس احساس سے وہ پہلی بار دوچار ہوا تو اسے اپنے مالک پہ رشک آنے لگا جو اسے اور اس جیسے کتنے لڑکوں کو روز ساٹھ ساٹھ روپے دیا کرتا تھا۔
رومال کڑھوا کر وہ بازار کے دکانوں کے سامنے چکر لگانے لگا۔ مختلف اشیا کی دکانوں پر اسے روشنوں کے جھماکے نظر آئے جہا ں دن میں بھی مختلف سائزوں کے بجلی کے قمقمے روشن تھے۔کہیں اس میں سفید روشنی نکل رہی ہو تی اور کہیں پیلی۔ کانچ کی خوبصورت برتنوں، گھڑیوں، کپڑوں، الیکٹرانکس کی دکانیں جن میں صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے دکان دار اور ان کے ملازم موجود تھے۔ کئی دکانوں کے قریب سے گزرتے ہوئے اس میں اتنی ہمت بھی پیدا نہ ہو سکی کہ وہ ان میں داخل ہو کر کام مانگنے کی کوشش کرے۔ اسے اپنا ٹیلا یاد آیا جہاں دنیا جہان کے کچرے کا ڈھیر تھا وہا ں پہنچتے ہی اس کی خوداعتمادی کئی گنا بڑھ جاتی تھی۔ جہاں موجود لڑکوں سے وہ خود کو ہزار گنا بہتر سمجھتا تھا۔ مگر یہاں معاملہ بالکل الٹ تھا۔ یہاں اس کے منہ میں زبان لکڑی کی طرح سخت ہوگئی تھی۔ وہ دو چار کپڑے کی بنا شیشوں والے دروازے کی دکانوں پر رکا، مگر ان میں داخل ہو کر کام مانگنے کی جرات نہ کرسکا۔ اس نے سوچا کہ خربوزے والی گلی شائد ابھی اس کی پہنچ سے آگے کی دنیا ہے لہذ ا اسے اپنے مالک کی دنیا سے نکل کر کسی درمیانی دنیا میں جانا چاہیے جہاں سے وہ یہاں تک آنے کے آداب سیکھ سکے۔
اس خیال کے بعد اسے خربوزے والے گلی میں رکنا بے سود معلوم ہونے لگا۔وہ وہاں سے نکلا اورداخلی دروازے سے اپنا سامان لیتا ہوا پیدل شہر کی سڑک پہ آ گیا۔ بازار کے سامنے کچھ عمارتیں تھیں جن پر نیلی تختیاں لگی ہوئی تھی اور مختلف زبانوں میں کچھ لکھا تھا۔ بڑی بڑی نئی طرز کی پرانی عمارتیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی سرکاری دفتر ہے جہاں حکومتی کام کاج آہستہ روی سے انجام دیا جاتا ہے تاکہ عمارت کی بوسیدگی مزید متاثر نہ ہو۔ عمارت گول چکر نما دائروں میں بنی ہوئی تھی جس کے گرد فٹ پاتھ تھا۔ وہ سڑک چھوڑکر اس فٹ پاتھ پر آگیا۔ شہر کی گلیوں میں گھومنا اسے یوں بھی پسند تھا لہذا بنا کسی مقصد کے وہ دیر تک ایک عمارت سے دوسری عمارت اور دوسری سے تیسری عمارت کی فٹ پاتھ پر چلتا رہا۔ کہیں کہیں پھلوں اور آئس کریموں کے ٹھیلے لگے دکھائی دیتے تو وہ رک کر کوئی پھل یا آئس کرئم خرید لیتا۔ الم غلم کھاتا ہوا وہ شہر کے جنوب کی جانب جا رہا تھا۔ مگر جنوبی حصہ یہاں سے خاصہ دور تھا۔ وہ چلتے چلتے ایک کالج کے سامنے سے گزرا تو چند خوبصورت لڑکیاں ہاتھوں میں کتابیں تھامے اس کےقریب سے گزریں۔ پھر کچھ لڑکے ۔ سب آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ وہ انہیں دیکھ کر خوش تھا۔ اس نے دیکھا کہ کالج کےگیٹ پہ کچھ لوگ جمع ہیں۔ ایک شخص چیخ چیخ کر بھیڑ سے کچھ کہہ رہا تھا۔ وہ تماشا دیکھنے آگے بڑھا تو آوازوں کا شور کچھ نزدیک آ گیا۔ جو لڑکا بھیڑ سے مخاطب تھا اس کی آواز میں اتنی کرختگی اور بھاری پن تھا کہ وہ اسے نئی معلوم ہوئی۔ اس نے آج سے پہلے ایسی آواز نہیں سنی تھی۔ اسے فوراً مجمعے کے نزدیک جانے کااپنا غلط فیصلہ لگنے لگا۔ وہ بھیڑ میں کھڑا ہو گیا اور اب چیختے ہوئے لڑکے کی آواز وہ صاف سن سکتا تھا۔ مگر وہ کیا کہہ رہا تھا اسے بالکل سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ زبا ن اس کے لیے اجنبی نہیں تھی مگر وہ جس موضوع پر بات کر رہا تھا وہ اس سے بالکل انجان تھا۔ اس نے محسوس کر لیا کہ یہ لڑکا کوئی سیاسی لیڈر ہے جو اپنے قریب کھڑے لوگوں کو جگانے کی کوشش کر رہا ہے یا پھر بڑھکانے کی۔ وہ اسے غصے میں دکھائی دے رہا تھا وہ بار بار ہاتھ اٹھا کر گیٹ کی طرف اشارہ کر تااور کچھ کہتا پھر ان چکردار حکومتی عمارتوں کی جانب اشارہ کرتا اور پھر کچھ کہتا۔ اس نے سمجھا کہ یہاں کسی پر ظلم ہوا ہے اور جو شخص چلا رہا ہے اس ظلم کو ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر تھوڑی ہی دیر میں وردی والوں کا ایک دستہ وہاں آن پہنچا۔ ان کے ہاتھوں میں لٹکی ہوئی بندوقیں دیکھ کر بھیڑ پوری طرح چھٹ گئی۔ وہ بھی راستے کی دوسری طرح گول چکر دار عمارتوں کی فٹ پاتھ پر آگیا۔ اب اس لڑکے کو پیٹا جا رہا تھا اور وہ اس پٹتے ہوئے عالم میں بھی چلا چلا کر پہلے کالج کے گیٹ کی طرف اشارہ کرتا اور پھر ان گول چکر دار عمارتوں کی جانب۔ وردی والے اسے کھنچتے ہوئے اپنی گاڑی تک لے گئے۔ اسے اس میں ڈالا اور گاڑی دوڑا دی۔ آخری بار اس کی نظر جب اس چیختے ہوئے لڑکے پر پڑی تو اس کے منہ سے ایک خون کی لکیر بہہ رہی تھی جس سے اس کی قمیض جگہ جگہ سے لال ہو گئی تھی۔ اس نے آسمان پر نظر ڈالی وہ بھی کہیں کہیں سے لال نظر آرہا تھا۔ اس نے سوچا کہ شام ہونے سے پہلے شہر کے جنوبی علاقے تک پہنچ جانا بہتر ہے ورنہ وردی والے سختی سے اس کی تلاشی لیں گے ۔یہ سوچ کر اس نے ایک سواری روکی اور اس پہ سوار ہو گیا۔
(جاری ہے)
Leave a Reply