کورس : chorus: دو مرد، دو عورتیں
راوی ایک : کیمرہ رولنگCamera rolling
راوی دو : کیمرہ ذوُم Camera zoom
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورس :
وہ لاشیں جن کو شمال مغرب سے آنے والے
ہلاکوؤں نے
یہیں کہیں، اس زمیں میں دفنا دیا تھا۔۔۔
سوچا تھا، اب قیامت تلک یہ زیر زمیں
رہیں گی ۔۔۔۔۔ وہ پھوٹ نکلی ہیں، لاکھوں لاشوں
کی شکل میں ۔۔۔۔کھیت جھومتے ہیں
کہ مردہ جسموں کی فصل اب لہلہا رہی ہے
راوی ۔۱
بھرے پُرے گھر کی ماں، بہن ، یا کسی کی بیوی
ضعیف عورت، جو اب بھی زندہ ہے، جی رہی ہے
اکیلی نکلی ہے گھر سے باہر
وہ گھر جسے شب گزیدہ صبح کی تیرگی نے
کچھ اور تاریک کر دیا ہے
درون ِ خانہ کوئی نہیں ہے !
راوی ۔۲
۔۔۔۔گلی بھی کیا ہے، پچاس پچپن
سے کچے پکے گھروں کا اک سلسلہ ، جو گاؤں
کی ساری گلیوں کو جوڑتا ہے
راوی۔۱
گلی میں خاموش آہٹیں، اُن پلٹتے قدموں
کی بھولی بھٹکی نشانیاں، جو
گذشتہ شب آنے والے دہشت پسند اپنے
جلو میں لائے تھے ۔۔۔ اب کہیں باز گشت بن کر
سسک رہی ہیں
ہوا بھی چلتی ہے، آہیں بھرتی ہوئی
سسکتی ہوئی کہ اذنِ فغاں نہیں ہے!!
راوی ۔۲
گلی سے کچھ دور کھیت ہیں ۔۔دور دور ، حدِ نظر تلک
بیچوں بیچ پگڈنڈیاں ہیں
پنچائتی کنواں ہے
چبوترے کے قریب چاروں طرف
بچھی ریتلی زمیں پر
پڑے ہیں کچھ لوگ ۔۔۔ایسے لگتا ہے
جیسے تھک ہار کر مسافر
تکان سے گر گئے ہیں رستے میں
سو گئے ہیں !
کنوئیں کے اُس پار اک سگِ نیم جاں
نقاہت سے بھونکتا ہے
راوی ۔۱
کسی طرف زندگی کے آثار تک نہیں ہیں
کہ صبحِ صادق تو اب بھی شاید
گذشتہ شب کے اندھیرے گنبد
میں بند ہے، بیٹھی رو رہی ہے
راوی۔۲
قدم تو اُٹھ ہی نہیں رہے ہیں
کنوئیں کے اُس پار تک پہنچنا
بہت کٹھن ہے
راوی۔۱
یہ راستہ تو ہزاروں برسوں کے فاصلے سے
طویل تر ہے
وہ فاصلہ جو ضعیف مائیں جوان بیٹوں
کی میتوں میں
قدم قدم گِن کے ماپتی ہیں!
راوی ۔۲
ضعیف عورت کی انگلیاں جب بھی کانپتی ہیں
تو لیمپ اپنی اُداس آنکھوں سے صبحِ کاذب
کی دھند کو چیرنے کو کوشش میں
ڈگمگاتا ہے، بجھنے لگتا ہے
نیم جاں سا !
کنوئیں کے اُس پار کیا ہے، دیکھیں ۔۔۔۔
کنوئیں کے اُس پر لوگ اُدھڑے پڑے ہیں جیسے ۔۔۔
ٖٖٖٖ لحاف پھاڑے گئے ہوں ۔۔۔۔
روئی کے گٹھے گٹھے، لہو میں لتھڑے ہوئے پڑے ہوں
راوی۔۲
کٹے پھٹے ہاتھ، پاؤں، ٹانگیں
لہو لہو چاک گردنیں، اُدھڑے اُدھڑے چہرے
سبھی طرف خالی کارتوسوں کے خول ۔۔۔
راوی ۔۱
محشر کی یاد گاریں
راوی۔۲
ضعیف عورت پہنچ گئی ہے
لہو سے لت پت ۔۔۔ یہ ایک چہرہ
جو ہو بہو اس کے چھوٹے بیٹے سا لگ رہا ہے
مگر نہیں ہے!
راوی ۔۱
جھکایا یوں لیمپ کو کہ پہچاننے میں مشکل نہ ہو ۔۔۔
راوی۔۲
کہاں ہیں وہ لال چاروں جو
مامتا کی انمٹ نشانیاں ہیں!
کورس (چار بار)
کہاں ہیں وہ لال چاروں جو
مامتا کی انمٹ نشانیاں ہیں
راوی۔۱
کٹی ہوئی ایک شاخ
ٹوٹا ہوا تناور درخت
؎ کڑیل جوان کی لاش ۔۔۔
کورس
ہائے ، ہائے
راوی ۔۲
جھکی ، خمیدہ کمر سے ، تکلیف سے کراہی
ضعیف عورت!
کسی نصیبوں جلی کے بیٹے کی لاش تھی ۔۔۔
آنکھیں وا تھیں، ہاتھوں سے گال سہلائے ۔۔۔
بند کر دیں!
راوی ۔۱
یہ کون ہے؟
اس کو جانتی ہے، ضعیف عورت؟
راوی۔۲
کٹا پھٹا، گولیوں سے چھلنی
وہ جسم اک مردِ پیر کا ۔۔۔
شکستہ عینک قریب ہی ریت پر پڑی ہے
بزرگ، عزت ماّب ، اسکول کا معلم
راوی۔۱
۔۔۔ ہاں، وہی ہے
ضعیف عورت کا بھائی، ماں جایا، چھوٹا بھائی
راوی۔۲
وہ چیخ ۔۔۔جو رات سے گلے میں پھنسی ہوئی تھی
کچھ ایسے پھوٹی ہے ۔۔۔
راوی۔۱
۔۔۔پھڑ پھڑا کر اُڑا ہے اک رات کا پرندہ
قریب کی سبز جھاڑیوں سے ۔۔۔
راوی ۔۲
یہ میرا ہمشیر ، ہائے، ماں جایا، میرا بھائی!!
راوی ۔۱
کٹی ہوئی چند اور شاخیں ۔۔۔
راوی۔۲
گرے پڑے زندگی کے ٹُکڑے ۔۔۔ کہاں ہیں ، لیکن
وہ اس کے اپنے جگر کے ٹکڑے؟
کہاں ہے اس کا میاں؟ کہاں ہے؟؟
راوی ۔۱
چلو ذرا اور، آگے دیکھو
راوی۔۲
اُٹھی، خمیدہ کمر کو اک ہاتھ سے سنبھالے
کچھ اور آگے
کچھ اور آگے
قدم تو اُٹھ ہی نہیں رہے ہیں
مگر ذرا اور ۔۔۔۔اور آگے!
راوی۔۱
نہیں، یہ اس کا بدن نہیں ہے
نہیں کوئی اور ہے، یقینا
یہ اس کا خاوند نہیں ہے، لیکن
ذرا سے شک کو بھی رفع کرنا
بہت ضروری ہے ۔۔۔
راوی۔۲
ضعیف عورت نے ۔۔۔۔ دیکھو ، دیکھو
وہ لیمپ نیچے کیا، جھکی ، اور جھک کے دیکھا
تو گر گئی وہ۔۔۔
راوی۔۱
ہائے، ہائے
راوی۔۲
وہی ہے یہ تو!
یہ اُس کا سینہ، یہ ُاس کے بازو، یہ ُاس کا چہرہ
یہ پائوں ۔۔۔ سب گولیوں سے چھلنی ہیں ۔۔۔
کورس ۔ ہائے ہائے
ہائے ہائے
ہائے ہائے
ہائے ہائے
راوی ۔۱
لہو جو مٹی میں جذب ہوتا رہا ہے
۔۔۔۔اب جم گیا ہے، سُرخ و سیاہ سا ۔۔۔
راوی ۔۲
ہائے ہائے
راوی۔۱
پلٹ کے پھر لیمپ کو اُٹھایا
یہ ایک منزل تو طے ہوئی، اب
کہاں ہیں اس کے و ہ لال چاروں
وہ چاروں ، کڑیل ، جوان بیٹے؟
راوی۔۱
ہوا سبک کر ذرا چلی، تو
ہری بھری فصل ساتھ کے کھیت میں سسکنے لگی
کہ اُس کو لتاڑ کر جانے والے دہشت پسند خود تو
چلے گئے تھے
مگر جنہیں گولیوں سے چھلنی کیا تھا، وہ سب
مرے پڑے ہیں
کمر کمر اونچی فصل چاروں طرف
نگہبان سنتری کی طرح کھڑی ہے!
راوی۔۲
وہ چار بیٹے۔۔۔
راوی۔۱
کمر کمر فصل ہے، مگر بیچوں بیچ
چاروں کے جسم ۔۔۔۔
راوی ۔۲
ایسے پڑے ہیں جیسے ابھی اُٹھیں گے!
راوی۔۱
کٹی پھٹی چار سُرخ شاخیں
جو گرتے گرتے
الجھ گئی ہیں
لہو کے سب پھول جھڑ گئے ہیں !
راوی۔۱
ضعیف ماں کے جوان بیٹوں کی سرد لاشیں
پڑی ہیں، ہاتھوں میں ہاتھ
اک دوسری سے لپٹی ہوئی
کہ جیسے
حیات میں بھائی بھائی چاروں
الگ نہیں تھے!
راوی۔۲
ضعیف عورت کے ہاتھ سے لیمپ گر گیا
اور ایسے اُلٹا
کہ بجھ گیا، تو پچھاڑ کھا کر گری، وہ ۔۔۔۔
راوی۔۲
وہ بیٹوں کی موت خود مر گئی
کہ ماں تھی!
کورس
ہزاروں لاشیں
جو آج دفنائی جا رہی ہیں
مری نہیں ہیں
کہ وہ تشدد جو آج لاشوں کو بو رہا ہے
کبھی اُگے گا
تو لاکھوں لاشوں کے کھیت کھلیان لہلہائیں گے۔۔
قتل گاہیں ہیں کھیت، کھلیان
قتل گاہیں ہیں گاوں، چوپال اور پنگھٹ
کنوئیں، کنووں کی منڈیریں، کھیتوں کی باڑ
پگڈنڈیاں، چو رستے
یہ قتل گاہیں ہیں!
قتل گاہیں ہیں !!
(فیڈ آوٹ)
Leave a Reply