قسط نمبر-1
کافی دیر ہو چکی تھی کہ کھڑکی سے سورج کی روشنی کمرے میں آکر لیفٹیننٹ عثمان کے چہرے پر پڑنی شروع ہوئی لیکن اُس کی آنکھیں پوری طرح تب ہی کھلیں جب روشنی تھوڑی تیز ہوئی اور سیدھی اُس کی آنکھوں میں، جو کہ کافی پہلے ہی پرندوں کے چہچہانے کی آوازوں سے نیم وا ہو رہی تھیں، پڑنے لگی۔ کراچی جیسے شہر میں وہ ان چند خوش قسمت لوگوں میں تھا، وہ سوچنے لگا، کہ جن کی صبحوں کا آغاز بھانت بھانت کے پرندوں کی چہکاروں سے ہوتا ہے۔ وارڈروم میس کے اس چھوٹے سے کمرے کی کھڑکی جس باغیچے کی طرف کھلتی تھی، اس میں آم، چیکو، ناریل اور کیکر کے بہت سے، گھنے پیڑ تھے جن کے تنوں اور پتوں پر صبحدم پرندوں کے غول اکٹھے ہو کر اپنی اپنی بولیوں میں ایسا شور مچاتے کہ کبھی کبھی عثمان کو اتنا ناگوار گزرتا تھا کہ وہ زیرِ لب ان پرندوں کو انگریزی میں گالیاں بکنے لگتا اور اسے حیرت ہوتی کہ کیا واقعی یہ خُدا کی حمدوثناء کررہے ہیں؟ لیکن آج یہ سب کچھ اسے بھلا لگ رہا تھا کیونکہ آج اتوار کا دن تھا اور صبح کی پریڈ، ڈیوٹی،کلاس اور دیگر سرگرمیاں آج اس کے آرام اور پسندیدہ مشاغل یعنی آوارہ گردی اور مطالعے میں مخل نہیں ہونے والی تھیں۔ وہ کافی دیر سے خالی ذہن سے بستر میں لیٹا کھڑکی کے باہر نظرآنے والے آم کے پیڑ کے پتوں اور ان کے درمیان پھُدکتے پرندوں کو دیکھنے کی کوشش کرتا رہا جو تیز روشنی کی وجہ سے صاف نظر نہیں آرہے تھے۔ اس نے کبھی ان کی اقسام پہ غور نہیں کیا تھا۔
اُس نے سوچا کہ اگر وہ فلم میں کیپٹن جیک لیمبرٹ کا کردار ادا کرے تو آخری منظر میں کیسے ایک بھُوکے جنگی قیدی کی طرح کھانا کھائے گا جبکہ نرس جولیا جونز اُسے دیکھ کر زاروقطار رو رہی ہو گی ۔
"چیف صاحب” اُس نے فون پہ میس کا نمبر ملایا تو پیٹی افسر خان زمان نے فون اُٹھایا ۔”کچن والے اسٹیوارڈ کو بتا دیں کہ میرا ناشتہ کمرے میں پہنچادے ،فوراً ” اور فون رکھ کے اس کے ذہن میں خیال آیا کہ خان زمان ہمیشہ کھانے کے پیچھے شکاریوں کی طرح ہی کیوں پڑا رہتا ہے حالانکہ آفیسرز میس میں اُس کا کیا کام؟ اس سے اس کو خیال آیا کہ وہ ان دنوں جو انگریزی ناول پڑھ رہا ہے، اس کی کہانی میں بھی جب ہیرو جرمنوں کے جنگی قیدی کیمپ سے بھاگ کر اپنی سپاہ کے ہسپتال میں پہنچتا ہے تو وہ کس بے صبری سے کھاتا ہے۔ اسے یہ ناول بہت پسند آیا تھا اور وہ اس کے ہیرو کیپٹن جیک لیمبرٹ کے کردار سے اپنا موازنہ کر رہا تھا اور اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اگر اس ناول پہ فلم بنائی جائے تو اس کرّہء ارض پر وُہی واحد شخص ہے جو کہ کیپٹن جیک لیمبرٹ کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسی اثناء میں اسٹیوارڈ کمرے میں آیا اور اس کے اشارے پر ناشتے کی ٹرے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھ کر چلا گیا۔
وہ پُھرتی سے اُٹھا اور آئینے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔اُنگلی سے بالوں کو سیدھا کرکے اُس نے ڈریسنگ ٹیبل پہ دھری پانی کی بوتل اُٹھا کر اُس سے کُلی کی اور کھڑکی سے باہر ایک زوردار پھوار ماری جس سے کچھ ٹھنڈے بخارات ہوا کے ساتھ خود اس پر بھی آ گرے۔اُس نے سوچا کہ اگر وہ فلم میں کیپٹن جیک لیمبرٹ کا کردار ادا کرے تو آخری منظر میں کیسے ایک بھُوکے جنگی قیدی کی طرح کھانا کھائے گا جبکہ نرس جولیا جونز اُسے دیکھ کر زاروقطار رو رہی ہو گی۔ یہ سوچ کر اس نے ایک ہاتھ سے سینڈوچ اُٹھایا اور پورا مُنہ کھول کر اسے منہ میں ٹھونس لیا اور دوسرے ہاتھ سے پانی کی بوتل کو اس زور سے بھینچا کہ وہ پچک گئی اور ساتھ ہی آئینے میں دیکھا کہ یہ منظر بڑا حقیقی تھا۔ کیچپ کے دو موٹے موٹے قطرے اُس کی باچھوں سے ٹپک کر اس کی آستین اور ہاتھ پر لگ گئے۔ اسی لمحے سب لیفٹیننٹ اسد کمرے کے دروازے کو ہلکی سی دستک دینے کے بعد کھول چکا تھا اور ادھ کھلے دروازے سے حیران کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ عثمان کو اس کی آمد کا اندازہ نہ ہوا۔ "آئی ایم سوری سر۔۔۔” سب لیفٹیننٹ اسد نے ہلکا سا کھانس کر متذبذب لہجے میں کہا۔ لیفٹیننٹ عثمان نے مُڑ کر دیکھا تو بوکھلا سا گیا۔ اس نے تیزی سے سینڈوچ نگل کر باقی ٹرے میں رکھا اور تولیہ اُچک کر مُنہ پونچھنے لگا۔
"کیا حال ہیں اسد؟”
اُس نے شرمندگی چُھپائے بغیر، ہاتھ صاف کرتے ہوئے پوچھا اور اسد کی طرف مصافحے کا ہاتھ بڑھا دیا۔
I am sorry to bother you, sir
سب لیفٹیننٹ اسد نے ایک بار پھر معذرت کرتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا۔
"سر دراصل مُجھے آج اچانک شفاء جانا پڑ رہا ہے ، میرے فادر وہاں ایڈمٹ ہیں ۔۔۔تو ایکس او صاحب نے کہا ہے کہ اگر آج آپ میری جگہ آفیسر آف دی ڈے۔۔۔”
اسد نے ذرا معذرت خواہانہ انداز میں کہنا شروع کیا لیکن عثمان نے اسے ہاتھ کے اشارے سے ٹوک دیا:
"اوکے،اوکے، ڈیوٹی؟کردوں گا، جاءو، اور میری طرف سے بھی انکل کی عیادت کرنا”
اس نے تیزی سے کہا۔ سب لیفٹیننٹ اسد نے نیم فوجی سا سلیوٹ کیا اور شکریہ ادا کر کے کمرے سے نکل گیا۔ عثمان نے بڑھ کر اندر سے چٹخنی بند کرلی اور دروازے کو ہلکی سی ٹھوکر ماری۔ Bloody… اس نے زیر لب ایک انگریزی گالی نامکمل چھوڑ دی۔
باقی سینڈوچ کھانے کے بعد اس نے تیزی سے شیو کی اور وردی پہن کر کتابوں کی الماری کے سامنے کھڑا سلیقے سے رکھی کتابوں کو گھورنے لگا۔Damn it!!! اس نے کتابوں کی الماری کو لات مار کر کسی ناول یا کتاب کا انتخاب کرنے کا ارادہ ترک کردیا کیونکہ ایک کتاب ہی کو دیکھ کر اسے خیال آیا تھا کہ آج احسان بھیا نے بھی اسے ملنے آنا تھا۔ "چلو آج بھائی کے ساتھ گپ شپ میں ہی وقت گذاریں گے”اس نے خود کلامی کے انداز میں کہا اور الماری بند کردی۔ وارنٹ آفیسر احسان، عمر میں اس سے دوسال بڑا تھا اور گریجوایشن کے بعد فضائیہ میں انگریزی کا انسٹرکٹر بھرتی ہو گیا تھا لیکن عمر میں بڑا اور عہدے میں چھوٹا ہونے کا احساس ان دونوں کی دیرینہ دوستی اور بے تکلفی میں کبھی حائل نہیں ہوا تھا۔ تمام خاندان اور اساتذہ کی نظروں میں احسان ایک بہت ذہین اور لطیف مزاج کا لڑکا تھا جسے کم از کم فوج میں نہیں آنا چاہیئے تھا البتہ عثمان اپنے فوجی باپ کے ورثے کا سچا وارث تھا۔ دونوں بھائی کتابوں کے رسیا تھے لیکن احسان وسیع مطالعے کا، اور عثمان کے برعکس دوراندیش اور بہت دھیمے مزاج کا آدمی تھا۔
لیفٹیننٹ عثمان چونکہ خود فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ وارنٹ آفیسر کا بیٹا تھا لہٰذا عمر بھر سپاہی کے طور پر محنت کرکے نان کمیشنڈ افسر بننے والے طبقے کے ساتھ مہربانی اور خوش اخلاقی سے پیش آتا تھا۔
"چیف صاحب” دفتر میں بیٹھتے ہی عثمان نے ڈیوٹی پیٹی افسر خان زمان کو آواز دی جو گارڈ روم کے سامنے کھڑا سگریٹ پی رہا تھا۔ خان زمان سگریٹ پھینک کر تیز قدموں سے اپنی توند کو سمیٹتا ہوا اور مونچھوں کا زاویہ فرمانبردارانہ سطح تک جھُکاتا ہوا دفتر میں وارد ہوا۔ "السلام علیکم سر” اس نے دفتر میں آتے ہی سلیوٹ کیا اور باچھیں پھیلا کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔
"آج تو صبح صبح آفیسرز میس میں پائے جاتے تھے جناب” عثمان نے عمر رسیدہ پٹھان پیٹی افسر سے چہل کرتے ہوئے خوش مذاقی سے کہا۔
"سر، بس وہ ڈیوٹی شیف سے کام تھا تو میں چائے پینے بیٹھ گیا وہاں۔۔۔ اب سر میں سیلرز میس جا رہا ہوں، ذرا ناشتے کا میعار چیک کر لوں وہاں” خان زمان نے کھسیانا سا ہو کر، خوشامدانہ سے انداز میں قریب قریب رکوع کی حالت میں آ کر ایک سلیوٹ کیا اور ساتھ باچھیں کانوں تک پھیلا دیں۔
لیفٹیننٹ عثمان چونکہ خود فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ وارنٹ آفیسر کا بیٹا تھا لہٰذہ عمر بھر سپاہی کے طور پر محنت کر کے نان کمیشنڈ افسر بننے والے طبقے کے ساتھ مہربانی اور خوش اخلاقی سے پیش آتا تھا۔
"چیف صاحب، آپ ذرا آرام کریں، کیوں ناں آج میں ہی سیلرز میس کا معائنہ کر آوں، دیکھوں سپاہیوں کو کیسا کھانا دے رہے ہیں آپ لوگ۔۔۔”عثمان نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
"سر آپ کہیں تو میں بھی ساتھ۔۔۔” خان زمان نے ساتھ چلنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن عثمان نے سگریٹ ہونٹوں میں دبائے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے اس کی بات کاٹ دی اور دفتر سے نکلنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔
پاکستان نیوی کے زمینی یونٹوں میں چھاونیوں اور بحری جہازوں کے ماحول کا امتزاج ہوتا ہے جس میں جہازوں کی طرح ہر افسر ہر جوان سے بہت قریبی پیشہ ورانہ تعلق کی ڈوری میں بندھا ہوتا ہے جبکہ چھاونیوں کے ماحول کی طرح فوجی ڈسپلن اور ضابطوں کی بندشیں بھی اپنی جگہ قائم ہوتی ہیں لہٰذا بے تکلفی اور باہمی احترام کا ایک تناسب قائم رہتا ہے۔ لیفٹیننٹ عثمان کے لئے نیوی کا ماحول پھر بھی شروع شروع میں قدرے اجنبی تھا کیونکہ وہ فضائیہ کے گہوارے میں پلا ایک سپاہی ذادہ تھا۔
وہ ٹہلتا ٹہلتا سیلرز میس کی طرف جانے والی سڑک پہ پہنچا جس کے دونوں جانب ناریلوں کے پیڑ چونے اور گیرو سے ملبوس، ستونوں کی طرح ایستادہ کھڑے تھے۔ وردی کی پتلون کی دائیں جیب میں اس نے موبائل فون کا ارتعاش محسوس کرکے فون باہر نکالا، احسان کا فون تھا۔Ottoman!!!! اُس نے جونہی کال سُنی تو دوسری طرف احسان اپنے روائتی انداز میں بولا۔ "بھائی آگئے آپ؟”عثمان اسی قدم پہ رُک گیا۔اس نے ایڑی پر گھوم کر بائیں طرف دیکھا تو دور ،گارڈ روم سے احسان سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک ہاتھ سے موبائل فون کان سے چپکائے اور دوسرا ہاتھ لہراتا ہوا اُسی جانب آ رہا تھا۔ "آج تو سیاہ کپڑوں پر واسکٹ بھی ہے بھیّا، مُفتی تو نہیں ہو گئے؟”عثمان نے احسان سے گلے ملتے ہوئے کہا۔ "نہیں، مسرور بیس کے حلقے سے ایم این اے بن گیا ہوں” احسان نے اسی طرح مذاقاً کہا تو دونوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ احسان لمبے قد اور گوری رنگت کا ایک صحت مند اور ہٹا کٹا جوان تھا جس کی مردانہ وجاہت میں بڑا ہاتھ اسکی گھنی سیاہ مونچھ کا بھی تھا جبکہ عثمان دھان پان جسامت کا ایک گورا چٹا لیکن ڈاڑھی مونچھ صاف رکھنے والا لڑکا تھا۔ دونوں بھائی رسمی احوال پرسی کرتے ہوئے سیلرز میس کی جانب چلے۔ احسان کو معلوم نہیں تھا کہ عثمان اس کا ہاتھ تھامے کہاں لئے جا رہا تھا۔
"یار عثمان ایک کتاب پڑھی ہے اس ہفتے میں، لیکن کیا کہنے یار، ایکدم تمہارے ذوق کا سٹف ہے "احسان بولا۔
"ارے بھائی ، آپ چھوڑیں سب باتیں، جو ناول میں نے پڑھا ہے ناں، قسم سے آپ کو یقین نہیں آئے گا ، میں تین دن سے اس کے نشے میں ہوں” عثمان نے ایک دم اچھل کر احسان کے شانے پر ہاتھ مارتے ہوئے جوش سے کہا۔
"تمہارا کیا ہے، کوئی بھی ناول پڑھ لو، تمہاری یہی حالت ہوتی ہے،نشئی۔۔۔” احسان مصنوعی ناگواری سے بولا تو دونوں ہنس دِیئے۔
اسی اثناء میں وہ سیلرز میس کے سامنے پہنچ چکے تھے ۔ یہ یونٹ کی سب سے پرانی ، ایک ہال نما عمارت تھی جس پر ہلکا سُرمئی روغن کیا گیا تھا اور داخلی دروازے کے اوپر لکڑی کے ایک بورڈ پر Dining Hall لکھا گیا تھا جس کے ہجے ایک عرصے سے غلط لکھے تھے لیکن کسی نے اسکی طرف توجہ نہیں دی تھی۔
"آئیے بھائی، آپ نے کئی دفعہ مجھے ائر مین میس دکھائی تھی، آج میں آپ کو اپنے سپاہیوں کی میس دکھاتا ہوں”عثمان نے کندھے اچکاتے ہوئے میس کے دروازے کی طرف اشارہ کیا جہاں ناشتے کیلئے آنے والے سیلر اندر جاتے ہوئے انہیں مُڑ مُڑ کر دیکھ رہے تھے۔ یقیناً میس افسر نے بھی ایک عرصے سے ناشے کے وقت میں میس کا معائنہ نہیں کیا تھا۔
لیفٹیننٹ عثمان کو کھانے کے ہال میں دیکھ کر ہال میں بیٹھے تمام سیلرز پر خموشی چھا گئی، کاونٹر کے پیچھے کھڑے شیف نے جلدی سے اپنی شرٹ کے گریبان کے سامنے والے بٹن بند کئے جبکہ میس سیکرٹری، جو کونے میں کھڑا ویٹروں کو ہدایات دے رہا تھا، تیزی سے اپنے سر سے ٹوپی اتار کر عثمان کی طرف بڑھا۔
"شائد یہ ائرمین میس کے میعار کی نہ ہو لیکن ہم اپنے جوانوں کو راشن آپ سے ذیادہ ہی کھلاتے ہیں”عثمان نے شوخی سے کہا۔
” جی ہاں، تمہاری صحت سے بھی لگ رہا ہے کہ تمہارے ہاں افسروں کے حصے کا راشن بھی جوان کھا رہے ہیں” احسان نے اس کے پیٹ میں انگلی چبھوتے ہوئے کہا تو دونوں ایک بار پھر ہنس دیئے۔
لیفٹیننٹ عثمان کو کھانے کے ہال میں دیکھ کر ہال میں بیٹھے تمام سیلرز پر خموشی چھا گئی، کاونٹر کے پیچھے کھڑے شیف نے جلدی سے اپنی شرٹ کے گریبان کے سامنے والے بٹن بند کئے جبکہ میس سیکرٹری ، جو کونے میں کھڑا ویٹروں کو ہدایات دے رہا تھا، تیزی سے اپنے سر سے ٹوپی اتار کر عثمان کی طرف بڑھا۔
"السلام علیکم سر” سیکرٹری نے بغیر ٹوپی کے ہی سلیوٹ کے انداز میں سلام کیا۔ عثمان نے سر ہلا کر ‘وعلیکم السلام’ کہا۔
"لیڈنگ صاحب، ناشتے کا مینو کیا ہے؟” عثمان نے معمول سے ذیادہ رعب اپنی آواز میں پیدا کرنے کی کوشش کی اور سوال کیا۔احسان اس تصنع کو بھانپ کر زیرِ لب مسکرایا۔
"سر، سویّاں اور چنے کا چاٹ ہے، ساتھ چائے بھی ہے سر”میس سیکرٹری نے ادب سے مینو بتاتے ہوئے عثمان اور احسان سے باری باری مصافحہ کیا۔
"اور؟ باقی سب اچھا ہے؟ جوانوں کو کوئی مسئلہ؟”عثمان نے اسی لہجے میں پوچھتے ہوئے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ سیلر خموشی سے کھانا کھا رہے تھے ۔ کچھ جوان مکھیوں کی طرح بھنبھنا کر سرگوشیاں کر رہے تھے۔کٹلری اور پلیٹوں کے بجنے کی آواز احسان کے کانوں کو کچھ اجنبی تو لگی لیکن ناگوار نہیں۔ وہ فضائیہ اور بحریہ کی زندگی میں فرق اور اس کے پیچھے برسوں اور صدیوں کی روایات اور معاشرت کو خوب سمجھتا تھا۔
"سب اچھا ہے سر” میس سیکرٹری نے اب کی بار ایک چست سا سلیوٹ کیا اور عثمان اس کا جواب دیئے بغیر اپنے سفید بوٹ کی ایڑی پر گھوم گیا۔ہال سے نکلتے ہوئے احسان اس کے پیچھے تھا۔
"مولوی” ہال سے نکلتے ہی عثمان نے ایک سیلر کی طرف اُنگلی سے اشارہ کر کے اسے کرخت آواز میں پکارا۔ایک نوجوان سا سیلر جو کہ شلوار قمیص میں ملبوس تھا اور سر پر نماز کی ٹوپی پہنے تھا، عثمان کے قریب سے گذر کر باہر نکلا تھا، چونک کر مُڑا۔
"ہاں، تمہی کو بلایا ہے” عثمان سے آہستہ سے انگلی کے اشارے سے اسے بلاتے ہوئے کہا۔میس کے باہر برگد کے ایک پیڑ کے نیچے آکر عثمان پیچھے مڑا تو وہ سیلر خاموشی سے اس کے پیچھے آرہا تھا۔جبکہ احسان بھی خاموشی سے صورتحال سے بظاہر لطف اندوز ہو رہا تھا۔چھوٹی چھوٹی ڈاڑھی والے سیلر کی آنکھوں میں سُرمے کی دھاری کے ساتھ ساتھ ہلکی سی تشویش بھی تھی۔
"مولوی۔۔۔” عثمان دوبارہ اس سیلر سے گویا ہوا۔ فوج میں ہر ڈاڑھی والے کو عموماً مولوی ہی کہہ کر پکارے جانے کا رواج ہے۔
"سر۔۔۔” سیلر قریب قریب منمنایا۔
"کیا نام ہے؟” عثمان نے اس کے دونوں پَیروں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔سیلر نے شلوار ٹخنوں تک اوپر اڑس رکھی تھی اور پا٫وں میں سلیپر جسے عام طور پر قینچی چپل یا نیوی کے روز مرّہ میں باتھ روم چپل کہتے ہیں، پہن رکھی تھی۔ یہ چپل پہن کر میس میں آنا فوجی آداب میں ایسا سمجھا جاتا ہے جیسے جوتے سمیت مسجد میں آ گھسنا۔
"حافظ ناصر ،اسٹور اسسٹنٹ” سیلر نے اپنا نام بتایا اور سوالیہ نظروں سے عثمان اور احسان کی آنکھوں میں باری باری دیکھا۔
احسان بظاہر پاس کھڑا اس سے لاتعلق، پاس سے گزرتے ہوئے سیلرز کو دیکھ رہا تھا لیکن عثمان کو اندازہ تھا کہ وہ ڈسپلن سے ذیادہ آداب اور Manners کو اہمیت دیتا اور ایسی باتوں کا بہت بُرا تاثر لیتا تھا۔ لیکن دراصل اُسے عثمان کی یہ حرکت واہیات لگ رہی تھی۔
” حافظ صاحب، آپ میس میں کھانا کھانے گئے تھے یا شبینہ پڑھنے؟؟؟” عثمان نے مصنوعی غصے اور حقیقی ناگواری سے پوچھا۔
"سر ناشتہ کرنے” سیلر نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا۔
"کیا آپ کو پتہ ہے حافظ صاحب، کہ یہ جو ٹوپی آپ نے سر پر پہن رکھی ہے، یہ میس کے آداب کے سخت خلاف ہے؟؟”عثمان نے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے اس سیلر کے سر سے اس کی نماز والی ٹوپی اُتار کر اس کے ہاتھ میں تھما دی۔
"کیا آپ کو پتہ ہے حافظ صاحب، کہ یہ جو ٹوپی آپ نے سر پر پہن رکھی ہے، یہ میس کے آداب کے سخت خلاف ہے؟؟”عثمان نے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے اس سیلر کے سر سے اس کی نماز والی ٹوپی اُتار کر اس کے ہاتھ میں تھما دی۔
"سر ابھی مسجد سے آرہا ہوں، تلاوت کرکے”سیلر نے کہا لیکن عثمان نے سُنی ان سُنی کر دی۔
"سر ابھی مسجد سے آرہا ہوں، تلاوت کرکے”سیلر نے کہا لیکن عثمان نے سُنی ان سُنی کر دی۔
"اور حافظ صاحب، یہ جو چپل تُم نے پاوں میں پہن رکھی ہے، آرمی میں اسے گانڈو چپل کہا جاتا ہے اور یہ بھی میس میں پہننا گناہِ کبیرہ ہے جس کا تُمہیں بھی اچھی طرح پتہ ہے” عثمان نے دانت پیستے ہوئے اس سیلر کے پاوں پر اپنا پاوں رکھا اور قریب قریب اس کا پاوں اپنے بوٹ کی نوک سے مسل دیا جس سے اس سیلر کے چہرے پر ناگواری کے آثار واضح ہو گئے۔
احسان فوراً بھانپ گیا کہ صورتحال کس طرف جا رہی ہے۔
”Ottoman, skip it!!” احسان نے سرگوشی میں کہا لیکن عثمان نے یہ بھی سُنی ان سُنی کر دی۔ اب اسے غصہ آ چکا تھا کہ پاس سے دو تین اور سیلر بھی اسی حُلیے میں میس سے نکل کر گذر گئے تھے۔
"تُم نے میس کے آداب کو مذاق سمجھ رکھا ہے؟؟؟ "عُثمان قریب قریب گرجا تو وہ سیلر ایک قدم آگے بڑھا
"سر۔۔۔” سیلر، جس کا نام حافظ ناصر تھا، پورے اعتماد سے گویا ہوا
"میں کھانا کھاتے ہوئے سر پہ ہمیشہ نماز والی ٹوپی پہنتا ہوں کیونکہ یہ میرے پیارے نبی ْ کی سُنّت ہے اور چپل میں اس لئے پہنتا ہوں کہ میں کھانا کھاتے ہوئے اپنے پاوں سے جوتا اُتار سکوں کہ یہ بھی میرے پیارے نبیْ کا طور طریقہ ہے” حافظ ناصر نے پورے اعتماد سے اپنے موقف کی وضاحت کی۔
"شَٹ اپ۔۔۔ مُجھے سُنّت پڑھانے کی کوشش مت کرو، میں جانتا ہوں۔ یہ میس کے آداب کے خلاف ہے، تُم فوراً وردی پہن کر مجھے رپورٹ کرو” عثمان اس تُرکی بہ تُرکی جواب پر برہم ہو کر غصے سے بولا تو ساتھ گزرتے ایک دو سیلرز نے بھی مُڑ کر توجہ کی لیکن پھر تیز قدموں سے چلتے بنے۔
احسان نے ایک بار پھر عثمان کو خاموش کرنے کی کوشش کی لیکن اب کی بار سیلر بھی عثمان کی بات کا بُرا مان چکا تھا۔
"سر، میں آپ کے انگریز کے بنائے قانون کو نہیں مانتا، آپ جو قانونی کارروائی چاہیں، کر لیں”حافظ نے پہلے سے بلند اور اٹل لہجے میں کہا تو عثمان کا پارہ چڑھ گیا۔
(جاری ہے)
Leave a Reply