Laaltain

دو نظمیں (نیلم ملک)

13 مئی, 2020
Picture of نیلم ملک

نیلم ملک

“عنوان ندارد”

گھنی تیرگی تھی
بصارت کو اپنے نہ ہونے کا یکسر یقیں ہو چلا تھا
کئی غیر ملفوظ آوازیں وحشت میں
ڈھلتی چلی جا رہی تھیں
یہاں تک
کہ ہر ذی نفس سامعہ کے نہ ہونے کو نعمت کی صورت طلب کر رہا تھا
مگر جب
افق کے کنارے سے اک روشنی کا پھریرا سا لپکا
کہیں دور سے تیری آواز آئی
تو وحشت کے معنی بدلنے لگے اور
کئی بے زباں حیرتیں اپنے ہونے کے احساس سے
چیخ اٹّھیں یکایک
مگر ایسی چیخیں کہ جن کے بطن میں
نہ وحشت نہ دہشت
کوئی سرخوشی تھی!
سراسیمگی تھی!
زمیں حیرتی تھی کہ یہ کیسی چیخیں
فضاؤں میں گھلتی چلی جا رہی ہیں
خوشی اور غمی کے معانی کو یکسر بدلتا ہوا روشنی کا پھریرا ہوا کے دباؤ سے لہرا رہا ہے۔۔
عجب تیرگی تھی
عجب روشنی تھی
عجب شور تھا اور
عجب خامشی تھی
جو ہونے کی تہہ سے نہ ہونے کے بھیدوں کو سوچوں کے ساحل تلک لا رہی تھی

نامُرادی کی ایک نظم

مُجھے پہلے لگتا تھا
میرے بھی کمرے کی ہیں چار دِیواریں
اور ایک دَر ہے
اور اِس دَر کے باہر
مرا ایک گھر ہے
اور اِس گھر کے باہر مری ایک دُنیا

اَب اکیس دِن سے
اِسی ایک کمرے میں
روزانہ چوبیس گھنٹوں سے کُچھ ساعتیں کم
مُسلسل مُقیّد
میں یہ دیکھتی ہُوں
مرے چاروں جانب
فقط دَر ہی دَر ہیں
سبھی دَر کھلے ہیں
ہر اِک دَر کے باہر
زمانہ جُدا ہے

کہیں بین کرتی سُبک سار حُوریں
کہیں رَقص کرتے برہنہ فرشتے
کہیں سبز ملبوس میں زَرد رُوحیں کہ شاید ہیولے
کہیں جِسم ہی جِسم
جِن میں کبھی رُوح پھُونکی گئی تھی
مگر اَب وہ کٹھ پتلیاں ہیں
جو خُود اپنی ڈوریں ہلاتے ہُوئے
گُھپ اندھیرے میں اُتری چلی جا رہی ہیں

کہیں زہر پینے سے مُنکر ہے سُقراط
اور بھیک میں زِندگی مانگتا ہے

کہیں پر ہے نِیرو
وہی بانسری جو بجاتا رہا، شہر جلتا رہا
اَب وہ اَژدر کی صُورت گلے میں حِمائل
شکنجے کو ایسے کَسے جا رہی ہے
کہ نِیرو کی آنکھیں
اُبل کر جلے شہر کی راکھ پر بہہ رہی ہیں مُسلسل

کہیں ہِرنیاں ایک ہی چوکڑی میں
زمیں آسماں کے قلابے ملانے میں
کب سے مگن قہقہے ریت پر مارتی ہیں
جہاں پر وہیں “پھول بن” کِھل اُٹھیں
اور مجنوں بُھلائے ہُوئے اپنی لیلیٰ کو یکسر
چُنے “پُھول بَن” سے فقط سُرخ کلیاں

کہیں پر زُلیخا ہے
جو ناخنوں کی دراڑوں میں اَٹکے ہُوئے
سَعد کُرتے کے دھاگوں کو
دانتوں سے نوچے چلی جا رہی ہے
کراہے چلی جا رہی ہے

اور اِک دَر کے باہر
جہاں تُو کھڑا ہے
میں یکبارگی اُس کی جانب لپکتی ہُوں۔۔۔
دہلیز دَلدَل ہے۔۔۔
دَلدَل کی کیا ہو بیاں بےکرانی
فَلَک اُس میں ڈُوبے تو واپس نہ اُبھرے

ہمارے لیے لکھیں۔