Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

سمجھدارکون؟

test-ghori

test-ghori

01 دسمبر, 2014

youth-yell-featured

سارا پاکستان اس وقت سیاسی مخمصے کا شکار ہے ، پوری قوم سیاسی نا پختگی کا مظاہرہ کررہی ہے اورملکی قیادت کے سیاسی رخ کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ اسلام آباد میں راقم نے عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے دھرنے کا بغور معائنہ کیا اور نہ صرف معائنہ کیا بلکہ وہاں عوامی تحریک کے پنڈال میں موجود لوگوں کی بے چارگی ، بچوں کی خستہ حالی، خواتین کی کسمپرسی، نوجوانوں کی مایوسی اور تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ شرکاء کے چہروں پر عزم امید اورجوش کے ساتھ بدلہ لینے کاجذبہ بھی دیکھا۔ تحریک انصاف کے جزوقتی دھرنے میں نوجوانوں، خواتین اور بچوں کی ایک کثیر تعداد نظر آتی رہی ہےجو سمجھتے ہیں کہ وہ دھرنے میں شریک ہوکراپنے مقاصد حاصل کرچکےہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنان کے لیےعمران خان کا روزانہ ان کے سامنے آجانا ہی تبدیلی ہے اور وہ دن دور نہیں جب انہیں منز ل مل جائے گی ۔ دونوں دھرنوں میں ایک بات تو عیاں تھی کہ دونوں قائدین روایتی سیاسی جماعتوں میں آمریت اور موروثیت کی روش کے خلاف بہت سنجیدہ تھے۔
عوامی تحریک کے کارکنان کہتے ہیں کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ شریف برادران ہیں ۔عوامی تحریک کے قائد علامہ طاہر القادری کا کہنا ہے کہ وہ تینتیس برس سے انقلاب کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ نجانے ان تینتیس برسوں میں انہوں نے اپنے کارکنا ن کی کیا تربیت کی ہے کہ ان کے نزدیک انقلاب محض نوازشریف حکومت کا خاتمہ ہے۔ عوامی تحریک کا دھرنا جب تک جاری رہا،طاہر القادری صاحب کی تقاریر کے روزانہ دو ادوار ہوا کرتے تھے؛ ایک سہ پہر تین بجےکی پریس کانفرس اور پھر شام تقریباََ سات بجے اپنے کارکنان سے خطاب ۔ شام کے خطاب میں طاہر القادری اپنے کارکنان کو آئین پڑھاتے اور ساتھ ہی آستینیں چڑھا کرشریف برادران کو دھمکاتے ۔قادری صاحب ہر شام اخبارات میں نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف چھپنے والے سکینڈل اور خبروں پر تبصرہ فرماتے اور انقلاب کی نوید سناتے ۔اور کچھ نہیں تو لاہور اور اسلام آباد کے شہدا کو یاد کرتے اور حکومت کو کھری کھری سناتے۔
قادری صاحب بھلے دھرنا ختم کر چکے ہیں مگر کارکنان اور گھر بیٹھے عوام نے اس دوران ہونے والی تقاریر کے ذریعے آئین میں درج اپنے حقوق بارے آگہی اور شعور حاصل کیا۔
قادری صاحب بھلے دھرنا ختم کر چکے ہیں مگر کارکنان اور گھر بیٹھے عوام نے اس دوران ہونے والی تقاریر کے ذریعے آئین میں درج اپنے حقوق بارے آگہی اور شعور حاصل کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مقصد کی خاطر اپنے گھروں کو چھوڑ کر بارش ،دھوپ اور بیماریاں سہنا اور برداشت کرنا بھی سیکھا۔بہت سے مجبوروبے کس جو علامہ صاحب کی تقاریر سن کر اس دھرنے میں شامل ہوئے آخر کار انقلاب لائے بغیر مایوس لوٹ گئے۔دھرنے میں راقم کئی ایسے لوگوں سے بھی ملا جو گھر جانا چاہتے تھے لیکن کرایہ نہ ہونے کے باعث لوٹ نہیں سکے۔چند ایسے بھی نظر آئے جو صرف اس لئے ڈی چوک پر جمے ہوئے تھے کہ انہیں کھاناادویات اور اشیائے ضروریہ بالکل مفت دستیاب تھیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب پر ڈیل کے الزامات سے قطع نظر ان کا ہر کارکن آج ان سے یہ پوچھنا چاہتا ہے وہ کونسی مجبوری ہے جو انہیں دھرنا ختم کر کے احتجاج کی طرف لے گئی ہے۔یہ سوال صرف راقم کا ہی نہیں شائد ان تمام کارکنوں کا بھی ہے جو اڑسٹھ روز تک اپنے قائد کی پکار پر لبیک کہتے رہے اور ان کی کامیابی کے لیے نعرے لگاتے رہے۔ہم سب جاننا چاہتے ہیں کہ وطن واپسی کے بعد اب وہ کس قسم کا احتجاج کرنا چاہتے ہیں اور انکے انقلاب کا محور کیا ہوگا۔
حکومت کے مقابلے میں ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے پسپائی کے فیصلے کی تعریف کی جانی چاہیے،جنہوں نے اپنے کارکنان کو مزید تنگی اور خفت سے بچاتے ہوئے ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے۔
راقم ڈاکٹر طاہر القادری کا ایک نہیں کنٹینر میں تین بار انٹر ویو کر چکا ہے اور ہر بار انہیں ایسا پایا کہ وہ جو نعرہ لگا چکے وہ حرف آخر ہے، اور اب وہ یہاں سے اسکی تکمیل سے پہلے نہیں جائیں گے ۔انہوں نے اکتیس اگست کی رات کو وزیر اعظم ہاؤس کی جانب آگے بڑھتے ہوئے بھی اسی عزم کا اظہار کیامگر وہ پسپا ہوئے، یکم ستمبر کو پی ٹی وی اور پاکستان سیکریٹیریٹ پر دھاوا بولنے کے بعد جب حکومت نے کارروائی کا اعلان کیا تب بھی دونوں انقلابیوں نے الزام تراشی کرتے ہوئے واپسی کا راستہ اختیار کیا۔دوسری جانب حکومت کی ڈھٹائی کا اندازہ اسی بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اسکے خلاف احتجاج کو تین ماہ ہونے کو ہیں لیکن حکمران جماعت کی جانب سے اب تک مظاہرین کے مطالبات تسلیم کرنے کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔حکومت کے مقابلے میں ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے پسپائی کے فیصلے کی تعریف کی جانی چاہیے،جنہوں نے اپنے کارکنان کو مزید تنگی اور خفت سے بچاتے ہوئے ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے۔امید ہے عمران خان اور حکومت بھی عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسائل کا سیاسی حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔