میں نے دھیرے دھیرے
خواب کی ایک ایک گانٹھ کھولی
اور اس ڈوری کو اپنی گردن پر لپیٹ لیا
میں نے آہستہ آہستہ
تمنا کی شاخ سبز
زندگی کے مرتبان میں ڈال کر
اس کی شاخوں کا لیپ تیار کیا
اور دل کے زخموں پر لگا لیا
میں نے چپکے چپکے
شوق کے رسیلے پھل سے
ایک سانس نچوڑی
اور اپنی پیاس کی کٹوری
۔۔۔۔۔۔ میں انڈیل دی
میں نے سورج کی کرنوں کی حرارت نچوڑی
اور اپنی آنکھوں کے زخمی پپوٹوں کے
درمیان صبح کی خواہش میں دبا لیا
میں نے تمہاری
زلف گرہ گیر سے ایک
نصف دائروی کمان دریافت کی
اور تمہارے دائرے سے باہر نکلنے کا
متحرک زاویہ نکال لیا
Image: Neha Kapil