تحریر: ذکی نقوی
چترال کے دور دراز علاقے میں پبلک اسکولنگ کی بنا ڈالنے والے بزرگ استاد اور چترال کے پہلے انٹرمیڈئیٹ کالج کے بانی پرنسپل میجر جیفری ڈگلس لینگلینڈز حال ہی میں اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہو گئے ہیں۔اور پاکستان کے قیام سے کہیں پہلے کے وقت سے جاری اپنی خدمات سے سبکدوشی کے بعد ۹۵ برس کی عمر میں برطانیہ لوٹ گئے ہیں۔ وہ ۱۹۸۹ء سے جی ڈی لینگلینڈز کالج چترال کے پرنسپل تھے۔ میجر ڈگلس لینگلینڈز اگرچہ بنیادی طور پر ایک فوجی تھے لیکن انہوں نے پاکستان میں جو تعلیمی خدمات سرانجام دی ہیں، ان کی وجہ سے وہ پاکستان کے ایک ناقابل فراموش محسن ہیں۔ ۱۹۵۴ء سے اب تک کی ہر نوجوان نسل ان کی ممنون ہے کہ انہوں نے وطنِ عزیز کے مختلف تعلیمی اداروں میں جس بے لوث جذبے اور لگن سے تدریسی خدمات سرانجام دی ہیں، اس کی مثال ہماری تدریسی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
میجر جیفری ڈگلس لینگلینڈز اکتوبر ۱۹۱۸ء میں برطانیہ کے مشہور صنعتی قصبے برسٹل کے ایک ازحد غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اہلِ محلہ کی مدد اور علاقہ کے مہربان اساتذہ کے تعاون سے میٹرک تک کی تعلیم بھی کافی تنگدستی کے عالم میں حاصل کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے اچھے لوگوں کی مہربانیوں کی وجہ سے انہیں یہ خیال آیا کہ وہ بھی ان نیکیوں کے عوض معاشرے کی خدمت کریں اور نادار مفلس طبقے کی تعلیم کی صورت میں خدمت کر جائیں۔ ایف ایس سی کرنے کے بعد انہوں نے ۱۹۳۶ء میں کوُمبی ہال اسکول لندن میں اپنے تدریسی کیرئیر کا آغاز پانچ پونڈ ماہانہ تنخواہ سے کیا۔ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر انہوں نے ونسٹن چرچل کا اعلان جنگ سنتے ہی فوج میں بھرتی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ اولین طور پر بطور سپاہی بھرتی ہوئے، پھر کمانڈوز میں شمولیت اختیار کی اور دوسری جنگِ عظیم کی مشہور لڑائی ‘Battle of Diepp’ میں حصہ لیا۔ 1944ء میں انہیں رائل انڈین آرمی میں کمیشن ملا اور دوسری جنگِ عظیم کے اختتام تک 18 گڑھوال رائفلز میں خدمات سرانجام دیں۔ تقسیم کے وقت انہوں نے پاکستان آرمی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور پاک فوج کی 15 پنجاب رجمنٹ میں شامل ہوئے۔ پاک فوج میں خدمات کے دوران انہوں نے زیادہ تر عرصہ آئی ایس ایس بی کوہاٹ میں گروپ ٹاسک آفیسر کے طور پر گزارا۔ اور مشرقی پاکستان میں ایک کیڈٹ کالج (جس کا نام انہیں یاد نہیں، اغلب امکان ہے کہ فوجدار کیڈٹ کالج) کی بنیاد بھی رکھی۔ اس کام میں کیڈٹ کالج حسن ابدال کے بانی ونگ کمانڈر ہیوف کیچ پول بھی ان کے ساتھ تھے جو کہ بعد میں بھی ان کے ساتھ رہے۔
میجر لینگلینڈز نے جن طلبہ کو پڑھایا، ان میں سے چند نام انہیں بخوبی یاد ہیں۔ ان کے نامور شاگردوں میں سابق صدر پاکستان سردار فاروق احمد خان لغاری، بانئ تحریک انصاف عمران خان، میر ظفر اللہ خان جمالی (سابق وزیر اعظم)، بیرسٹر اعزاز احسن اور سید فخر امام شامل ہیں۔
1954ء میں پاک فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خاں کے اصرار پر وہ برطانیہ واپس جانے کی بجائے ایچی سن کالج لاہور میں تدریسی خدمات کے طور پر مامور ہو گئے۔ جہاں انہوں نے 1979ء تک بطور ہاؤس ماسٹر ٹیچر کے، خدمات سرانجام دیں۔ اس عرصہ میں میجر لینگلینڈز نے جن طلبہ کو پڑھایا، ان میں سے چند نام انہیں بخوبی یاد ہیں۔ ان کے نامور شاگردوں میں سابق صدر پاکستان سردار فاروق احمد خان لغاری، بانئ تحریک انصاف عمران خان، میر ظفر اللہ خان جمالی (سابق وزیر اعظم)، بیرسٹر اعزاز احسن اور سید فخر امام شامل ہیں۔
میجر لینگلینڈز جب ایچی سن کالج سے ریٹائرڈ ہوئے تو یہ شمالی وزیرستان کے پہلے کیڈٹ کالج، کیڈٹ کالج رزمک کے قیام کے اولین دن تھے اور اس وقت کوئی ماہر تعلیم، فوجی افسر یا استاد اس علاقے میں کیڈٹ کالج رزمک کے پرنسپل کے طور پر زیادہ عرصہ ٹھہرنے کو تیار نہ تھا۔ میجر لینگلینڈز نے اس نازک موقع پر کیڈٹ کالج رزمک کے پرنسپل کے طور پر ادارے کی باگ ڈور سنبھالی اور اگلے دس سالوں میں اس ادارے کو ملک کا ایک اعلیٰ پایے کا کیڈٹ ساز اسکول بنایا۔ 1987ء میں مقامی پٹھان لیڈروں نے انہیں اغوا بھی کیا لیکن چند روز بعد رہا کر دیا گیا۔
1989ء میں ڈپٹی کمشنر چترال نے میجر لینگلینڈز نے استدعا کی کہ وہ چترال میں ایک پبلک اسکول کے قیام میں ضلعی حکومت کی مدد کریں اور ادارے کے سربراہ کے طور پر ادارے کو پروان چڑھائیں۔ سئیو راج پبلک اسکول کے نام سے قائم ہونے والا یہ ادارہ چترال کے علاقے کا پہلا معیاری پبلک اسکول تھا۔ میجر لینگلینڈز نے اس ادارے کے لیے جو خدمات دیں، ان کے اعتراف میں اس ادارے کا نام جی۔ڈی۔ لینگلینڈز پبلک اسکول رکھ دیا گیا۔ گزشتہ ایک عشرے میں صوبہ سرحد کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے پاکستان میں مقیم کئی انگریزوں کو حکومت برطانیہ نے ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا لیکن میجر لینگ لینڈز نے اپنے اسکول کے بچوں کو چھوڑ کر برطانیہ جانے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بطور استاد انہیں جو محبت اور احترام پاکستان میں ملا ہے، وہ مغرب میں کبھی نہیں مل سکتا۔
گزشتہ ایک عشرے میں صوبہ سرحد کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے پاکستان میں مقیم کئی انگریزوں کو حکومت برطانیہ نے ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا لیکن میجر لینگ لینڈز نے اپنے اسکول کے بچوں کو چھوڑ کر برطانیہ جانے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بطور استاد انہیں جو محبت اور احترام پاکستان میں ملا ہے، وہ مغرب میں کبھی نہیں مل سکتا۔
چند سال قبل، کبر سنی کے پیش نظر انہوں نے پرنسپل کے عہدہ سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر لیا اور اس امر کا اظہار کیا کہ وہ یہ عہدہ کسی انگریز ہی کو دیں گے کیونکہ پاکستانیوں میں نصف صدی گزارنے کے بعد بھی وہ اس بات کے قائل ہیں کہ جس درجہ کی پیشہ ورانہ ڈسپلن کی انہیں ضرورت ہے، وہ انہیں کسی انگریز ہی میں مل سکتا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے کئی انگریزوں اور اہل یورپ سے بات کی لیکن کوئی پاکستان آنے کو تیار نہ ہوا۔ بالآخر مارچ 2013ء میںنامور انگریز صحافی مادام کیری شفیلڈ نے ان سے پرنسپل کے عہدے کا چارج لے لیا۔
میجر ڈگلس لینگلینڈز ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں۔ راقم نے ان سے ان کے تجرد کی وجہ پوچھی تو انہوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ بطورِ ہاؤس ماسٹر وہ اس لیے شادی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے کہ پھر وہ اپنے طلبہ کو وقت نہ دے پاتے، ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانیوں میں اگر کوئی انگریز یا اینگلو پاکستانی خاتون ان سے شادی پر رضامند ہوئیں بھی تو ان کاپہلا مطالبہ یہ تھا کہ شادی کے بعد وہ برطانیہ چلے جائیں۔ میجر لینگلینڈز جڑواں پیدا ہوئے تھے اور ان کے بھائی الیکسانڈر جان لینگلینڈز جو کہ برطانوی فضائیہ سے ریٹائرڈ ہیں، برطانیہ کے ایک اولڈ ہوم میں مقیم ہیں۔ میجر ایک دو دفعہ اپنے بھائی سے ملنے کے لیے برطانیہ گئے تھے جس کے اخراجات ان کے لیے ایک سابق شاگرد نے ادا کیے تھے۔ میجر لینگلینڈز انتہائی سادہ طرزِ زندگی رکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی تنخواہ اس قدر کم کیوں ہے جبکہ ان کے کچھ لیکچرر صاحبان ان سے زیادہ تنخواہ پا رہے ہیں۔ میجر لینگلینڈز کا جواب ان کی پیشہ ورانہ دیانت داری کا مظہر ہے؛ انہوں نے کہا “کیونکہ میں گریجوایٹ نہیں ہوں” وہ کومبی ہائی اسکول لندن میں تدریس کے ساتھ ساتھ گریجوایشن کے طالب علم ہی تھے کہ دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی اور ان کی گریجوایشن مکمل نہ ہو سکی۔ میجر لینگلینڈز کا طرزِ زندگی انتہائی سادہ ہے، کبرسنی کے باعث ان کی یادداشت کچھ کمزور پڑ گئی ہے لیکن پھر بھی چند سال قبل تک وہ ریاضی بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ پر اہلِ چترال بہت اداس تھے اور مُصر بھی تھے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی چترال میں رہیں۔ اپنے طلباء اور ادارے کے ساتھ اس
وابستگی اور کلاسیکی تدریسی روایات کی حامل شخصیت کی وجہ سے انہیں پاکستان کا “مسٹر چپس” بھی کہا جاتا ہے۔
چترال جو کہ اب تعلیم اور اعلیٰ تعلیمی سہولیات سے مالامال ہو چکا ہے، میجر ڈگلس لینگلینڈز کا شکر گزار ہے کہ ان کے طلباء ہر سال ایف سی یو لاہور، غلام اسحٰق خاں انسٹیٹیوٹ اور کئی دوسری بڑی یونیورسٹیوں میں اسکالر شپ حاصل کر چکے ہیں اور یہ پس ماندہ علاقہ اب تعلیم کے میدان میں 1980ء کی دہائی کی نسبت بہت آگے نکل چکا ہے۔
جی۔ڈی لینگلینڈز کالج چترال میں اس وقت 1000 کے لگ بھگ طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ چترال جو کہ اب تعلیم
اور اعلیٰ تعلیمی سہولیات سے مالامال ہو چکا ہے، میجر ڈگلس لینگلینڈز کا شکر گزار ہے کہ ان کے طلباء ہر سال ایف سی یو لاہور، غلام اسحٰق خاں انسٹیٹیوٹ اور کئی دوسری بڑی یونیورسٹیوں میں اسکالر شپ حاصل کر چکے ہیں اور یہ پس ماندہ علاقہ اب تعلیم کے میدان میں 1980ء کی دہائی کی نسبت بہت آگے نکل چکا ہے۔
میجر لینگلینڈز کو ان کی خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے نشانِ امتیاز، گورنر پنجاب کی طرف سے ٹیچر ایمریٹس، اور ملکہ برطانیہ کی طرف سے ممبر آف برٹش ایمپائر (ایم بی ای) اور آرڈر آف سینٹ مائیکل اینڈ جارج کےاعزازات مل چکے ہیں۔