وہ ایک خونی لٹیراتھا۔ اس کے سر پر انعام تھا، اس کی موت یقینی تھی اور اس وقت وہ کسی انجان راستے پر لگاتار کئی دنوں سے بھاگا چلا جا رہا تھا۔اس کے پیچھے تھے مسلح سپاہی اور ان کے خونخوار کتے۔ یہ اس کی بقا کا سوال تھا۔ رکنا مطلب موت۔ وہ رک نہیں سکتا تھا۔ مگر اسے اچانک رکنا پڑا۔ اچانک سامنے آئے دو گہرے سیاہ گڑھوں نے اس کا راستہ روک لیا تھا ۔وہ ٹھٹک گیا، اس نے ان سیاہ گڑھوں اور ان کو پار کرکے آنے والی گھاٹی میں رہنے والے لوگوں کے متعلق مبہم مگر کچھ پراسرارسا سن رکھا تھا۔ سپاہیوں اور کتوں کی آوازیں قریب آتی جا رہی تھیں۔ اس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ وہ دونوں گڑھوں کے بیچ بنے تنگ راستے پر چڑھ گیا اور جیسے ہی اس کے پار اترا، اس کے سر پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ اور وہ بے ہوش ہو گیا۔
اس کی آنکھ کھلی تو روشن دان سے چھن چھن کر آتی روشنی میں پایا کہ وہ کسی کوٹھری میں بند ہے ۔ابھی وہ صورتِ حال کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ تبھی کوٹھری کا دروازہ کھلا اور ایک بارعب بوڑھا اندر آیا۔جو قدیم طرز کا لبادہ پہنے تھا، جس نے اس کا پورا منہ ڈھانپ رکھا تھا۔وہ اسے دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا اور معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔’’میں معافی چاہتا ہوں میرا قطعی ارادہ یہاں آنے کانہیں تھا۔ پر میرے پیچھے سپاہی پڑے تھے۔میں جلد ہی یہاں سے چلا جاوں گا۔‘‘
’’اب تک تو ایسا ہوا نہیں کہ کوئی یہاں سے زندہ واپس گیا ہو۔تم بھی نہیں جا سکو گے۔ کل صبح تمہیں مار دیا جائے گا۔ ویسے بھی واپس جا کرتمہیں مرنا ہی ہے۔‘‘
’’مجھ پر رحم کرو۔کوئی تو حل ہوگاکہ میں زندہ بھی رہوں اور یہاں بھی رہوں۔ کیونکہ اب میرے لئے واپسی کی راہ مفقود ہو چکی ہے۔‘‘
’’پھر تو ایک ہی حل ہے کہ تم ہمارے جیسے ہو جاو۔‘‘
’’تمہارے جیسے؟ میں تمہارا جیسا ہی ہوں۔‘‘
’’نہیں تم ہمارے جیسے نہیں ہو ۔لیکن اگر تم را ضی ہو، ہمارے جیسا بننے پر تو خوش آمدید۔‘‘
’’میں راضی ہوں۔ مجھے تمہاری ہر شرط منظور ہے۔‘‘ اس نے بیتابی سے کہا۔ ابھی اس کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ گھنٹا بجنے کی تیز آوازیں آنے لگیں ۔
’’یہ آواز کیسی؟‘‘
’’اس کا مطلب کہ بارہ بج گئے اور دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا ۔میں تمہارے لئے کھانا لاتا ہوں۔ ویسے یہ گھنٹا صرف دن میں کھانے پر بلانے کیلئے بجایا جاتا ہے۔ جب سب کام پر دور دور ہوتے۔ رات کو اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘
سوچوں میں ڈوبے ہوئے اس نے کھانا کھایااور کھاتے ہی اس پر غنودگی سوار ہو گئی۔نیم بیداری ، نیم بے ہوشی کی حالت میں وہ ایک سپنا دیکھ رہا تھاکہ اس کے پیچھے پیچھے سپاہی اور کتے ہیں اوروہ بھاگتا چلا جا رہا ہے۔ بھاگتے بھاگتے اچانک دو سیاہ گڑھے آ جاتے ہیں اور وہ ان میں گر جاتا ہے۔اور گرتا چلا جاتا۔ درد کے شدید احساس کے ساتھ گڑھوں کی کبھی نا ختم ہوسکنے والی تاریکی، اسے ڈرا دیتی ہے۔ وہ چیخنا شروع کر دیتا ہے اور ہڑبڑا کر بیدار ہو جاتا ہے۔کوٹھری میں گھپ اندھیراتھا۔اور گھنٹے کی آواز کوٹھری میں گونج رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انورکی اس نہاری ہائوس میں اکثر آنے کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ یہاں پورے شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ لذیذ اور منفرد ذائقے والی نہاری ملتی تھی۔بلکہ یہاں آنے کی ایک وجہ ا سکے کام کے حوالے سے بھی تعلق رکھتی تھی۔ وہ افرادی قوت فراہم کرتا تھا۔اور اس مد میں کمیشن پاتا تھا۔ اور یہ ہوٹل تو اس کے بڑے کلائنٹ میں شمار ہوتا تھا۔
بڑھتے ہجوم کے باوجود اسے سیٹھ کے کاونٹر کے پاس والی ہی میز مل گئی۔ کافی دیر تک جب کوئی آرڈر لینے نہیں آیا تو اس نے سیٹھ کو آواز لگائی۔
’’اورسیٹھ، سناو کیا حال چال ہیں، دھندہ کیسا چل رہا ہے۔ مجھے اتنی دیر ہوگئی کوئی آرڈر لینے ہی نہیں آیا۔ ذرا ایک اسپیشل نہاری تو منگوا دو۔”
’’ ارے واہ انور،ایکدم بڑھیا۔تم سنائو کیا چل رہا ہے۔ معافی ،دیر لگ رہی ہے تمہیں، ادھر چھوکروں کا ذرا مسئلہ ہے۔ کمی چل رہی ہے۔سالے ٹکتے ہی نہیں۔‘‘
’’ارے کیا سیٹھ وہ جو پچھلے ہفتے آٹھ پہاڑی لڑکے دیئے تھے ۔ انکا کیا ہوا نظر نہیں آرہے۔اور لوچا ووچا کچھ نہیں، یہ آج کل کے لڑکے حرام خور ہوگئے ہیں۔ کھانا جانتے ہیں پر کام نہیں ہوتا ان سے۔ خیر میرے ہوتے تمہیں فکر کرنے کی کیا ضرورت۔ بولو کتنے لڑکے بھیجوں۔ لڑکوں کی تازہ تازہ کھیپ آئی ہے۔‘‘
’’دس پندرہ تو بھیج ہی دو، ہوٹل کا رش تو تم دیکھ ہی رہے ہو ۔گراہکی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔‘‘
’’دس پندرہ؟‘‘ وہ ششدر رہ گیا۔ زیادہ لوگوں کا مطلب، زیادہ کمیشن۔ ہال کی جانب اس کی نظریں غیر ارادی طور پر اٹھ گئیں، ہال معمول کے مقابلے میں دگنا بھرا تھا اور اس میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ ’’سیٹھ کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔‘‘اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ اور بھاری کمیشن کا سوچ کر مسکرا اٹھا۔
’’ہاں، اتنے تو میں مانگتا ہی ہوں۔ اور ہاں پہاڑی چھوکرے ہی لانا۔‘‘
’’پر سیٹھ، وہ توپھر بھاگ جا۔۔۔‘‘اس کے جملہ ادھورا رہ گیا۔سیٹھ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
’’بولانا، اب سے ادھرپہاڑی چھوکرے ہی چلیں گے اور ہاں پہلے کے طرح ہی ہٹے کٹے اور قد آور ہوں۔ اور ہاں، ان کے بھاگنے کی مجھے پرواہ نہیں، تم ہو نا۔‘‘
اس نے اثبات میں اپنی گردن ہلائی، اور اپنی نہاری کی طرف متوجہ ہو گیا۔ گرم گرم نہاری سے اشتہا انگیز خوشبو اٹھ رہی تھی۔ اس نے لوازمات ڈالتے ہوئے ،بے قراری سے پہلا نوالہ لیا۔
’’واہ سیٹھ۔ تمہاری نہاری تو دن بدن لاجواب ہوتی جارہی ہے۔اب تو گوشت کی بوٹی بھی پہلے سے بڑی دینے لگے ہو، ایک دم رسدار، چربیلی،اور نرم۔‘‘
اس نے نہاری کی تعریف کرتے ہوئے سیٹھ کی جانب دیکھا۔ پر وہ چاروں جانب سے ادائیگی کرتے گاہکوں سے گھرا تھا۔ اس کی نظریں دفعتاً ہال کی جانب اٹھ گئیں ، ہال میں اب تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔اور ہوٹل کے باہر،اپنی باری کا انتظار کرتے گاہکوں کی طویل قطار دور تک چلی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’گو کہ صاحب میں بس ابھی دکان بند کرنے ہی والا تھے۔ پھر بھی آپ کا سامان پیک کرتے ہوئے، جلدی جلدی آپ کے سوال کا جواب بھی دیتا جاتا ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ زلزلہ انتہائی بھیانک تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ زمین سے اٹھتی لہریں سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیں گی۔ جدھر نظریں دوڑائیں، تباہی و بربادی کا عالم تھا، ہر طرف چیخ و پکار تھی،کراہیں تھیں، رونا دھونا تھا۔ اپنے پیاروں کو تلاش کرتے لوگوں کی پکاریں تھیں۔ قیامت اس سے کیا کم ہوگی؟۔۔۔ اورجیسا کے آپ دیکھ ہی ہیں کہ میرا ذریعۂ معاش پہاڑی جڑی بوٹیوں اور ان جانوروں پر ہے ،جو طبّی نقطۂ نظر سے فائدہ مند ہیں۔ سواس دن بھی میں جنگل میں انہیں کی تلاش میں نکلا ہوا تھا۔‘‘
میں بخوبی جانتا تھا کہ میں کہاں بیٹھا ہوا ہوں اور کس مقصد سے آیا ہوں ، پھر بھی غیر ارادی طور پر میری نگاہیں دکان کی اطراف گھوم گئیں۔ نیم تاریکی میں جو کچھ میں دیکھ پایا، وہ تھیں شیشے کے بڑے بڑے مرتبانوں میں بند انواع و اقسام کی جڑی بوٹیاں، سوکھے کیڑے مکوڑے اورشفاف محلول میں ڈوبے جنگلی جانوروں کے مردہ اجسام۔
"زلزلے کے جھٹکے وہاں جنگل میں بھی محسوس ہوئے۔ لیکن اتنے نہیں۔ میں نے اپنی سائیکل اٹھائی اور تیزی سے یہاں آیا۔ میرا مکان بھی ڈھے چکا تھا۔ ممتا سے محروم میرا چھ ماہ کا بچہ اور اس کی خادمہ دونوں ملبے تلے دب چکے تھے۔ میں پاگلوں کی طرح اکیلے ہی ملبہ ہٹانے لگا۔ وہاں میری مدد کرنے والا بھی بھلا کون تھا۔میں دنیاو مافیہا سے بے خبر ۔ اس وقت تک اپنے کام میں جٹا رہا، جب تک میں نے اپنے بچے کو ملبے سے نکال نہیں لیا۔‘‘وہ کچھ دیر تک ہاتھ میں موجود گلاب کی خشک پتیوں کو دیکھتا رہا، پھر کہنے لگا ،’’بس اس دن سے ایسا خوف بیٹھا صاحب کہ اب میں کبھی بھی اپنے بچے کو خود سے جدا نہیں کرتا ہوں۔ اب وہ ہر جگہ میرے ساتھ جاتا ہے ، یہاں تک کے جنگل میں بھی۔ ‘‘
میں سامان لے کر باہر نکلا۔ اتنی دیر میں اس نے بھی شٹر گرا دیا۔اور سائیکل پر بیٹھ کر مجھے سلام کرتا ہوا، جنگل کی جانب جاتی تنگ پگڈنڈی پر چڑھ گیا۔ اس کی سائیکل کے اسٹینڈ پر ایک مرتبان رکھا ہوا تھا۔
ٰImage: Wassily Wassilyevich Kandinsky
Leave a Reply