Laaltain

گُم شُدہ شہر کی کہانی (محمد جمیل اختر)

21 اگست، 2020
Picture of محمد جمیل اختر

محمد جمیل اختر

آدھی رات کو اُس نے اپنے گھر کے دروازے پہ دستک دی تو اُسے یوںمحسوس ہوا کہ وہ ساری عُمر دستک دیتا رہے گااوریہ دروازہ کبھی بھی نہیں کھُلے گا۔۔۔وہ جوان ہوگیا تھا لیکن اُس کا دل پانچ سال کے بچے جیسا تھا،اُس نے بہت چاہاکہ وہ بڑا ہوجائے لیکن ہر بارناکام رہا اب جب کہ وہ ایک پینتیس سال کا جوان آدمی تھاتو وہ کوشش کرتا کہ ہراُس صورت حال سے بچے کہ جس سے لوگوں کو اُس کے ’’پانچ سالہ دل‘‘ کے بارے معلوم ہوجائے۔۔

جب تک یہ آدمی دروازے پہ کھڑا ہے،اِتنی دیر میں ہم درج ذیل تین باتیں پڑھ لیتے ہیں
ٌ*افشین نے ایک عمارت کے چوتھے فلور سے چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی۔
**افشین کے باپ نے چارلاکھ کا انگلش بُل ڈاگ منگوالیا۔۔
***افشین نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر لکھا ’’میں اِن زہریلے مچھروں سے تنگ ہوں، شاید میں جلد مرجاؤں ‘‘

بھلا اِن باتوں کاآپس میں کوئی تعلق ہوسکتا ہے؟بہت سی باتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی ہوتا۔۔

اس کہانی کو لکھنے کے لیے مجھے مکمل خاموشی چاہیے جو ایک کمرے کے مکان میں میسر نہیں سو مجھے بار بار گلی میں جاکر سگریٹ پھونک کر کرداروں کے بارے سوچنا پڑتا ہے سو آپ کو وقفوں وقفوں میں مختلف کرداروں کی کہانی پڑھناہوگی۔۔۔میری بیوی کا خیال ہے کہ کہانیاں لکھنے سے گھر نہیں چل سکتا، میرا بھی یہی خیال ہے لیکن میں اب کیا کرسکتاہوں۔۔۔وہ مجھے بتارہی ہے کہ میرے بھائی نے اپنا مکان لے لیا ہے۔

’’ ہم کب تک کرائے کے ایک کمرے میں رہیں گے؟‘‘میرے پاس اِس بات کا کوئی جواب نہیں۔۔۔

میں سگریٹ پینے گلی میں چلا جاتا ہوں۔۔۔واپسی پر میری بیوی کی آنکھ لگ چکی تھی۔۔۔آئیے ! ہم کہانی کی جانب لوٹتے ہیں۔۔

اب جب کہ وہ بڑا ہوچکاتھا لیکن دل بالکل بچوں جیسا ہونے کی وجہ سے راتوں کو روتا رہتا اُس کی پوری کوشش ہوتی کہ وہ اخبار نہ پڑھے لیکن جب کبھی لوگ اُس کے سامنے کسی خبر پربحث کرتے تو وہ کوئی جواب نہ دیتاکہ شاید لوگ موضوع بدل لیں۔ قتل وغارت اوردھماکوں کی خبروں سے وہ بے انتہااُداس ہوجاتالیکن اُس شہر کے لوگ زندگی کی بجائے موت کے بارے زیادہ گفتگوکرتے،وہ جلدی جلدی اپنے گھرپہنچتا اور ساری رات کانوں میں ہیڈفون لگاکر گانے سُنتا رہتا اور کمبل میں منہ چھپا کرروتے روتے سو جاتا۔۔جوں جوں اُس کی عمر بڑھتی جارہی تھی،شہر بدلتا جارہا تھااور قتل وغارت کی خبریں بڑھ گئی تھیں، وہ دعا کرتا کہ ’’ یاخدا اِس شہر کو کوئی قانون عطافرما‘‘

وہ نوجوان ابھی تک دروازے پہ کھڑا کانپ رہا ہے لیکن دروازہ نہیں کُھل رہا۔۔کوئی تو دروازہ کھولے کہ بڑی مشکلوں کے بعد اُسے اپنا گھر ملا تھایہاں پہنچنے سے پہلے وہ شہر کی کئی گلیاں دوڑتا رہا تھا، دراصل اُس کے پیچھے کتے پڑ گئے تھے، ایک گلی کے سِرے پر چند لڑکے کتوں کی لڑائی کرانے کا سوچ رہے تھے، رات کافی بیت چکی تھی اور اُس نے دیکھا کہ تمام کتے نیند میں اونگھ رہے ہیں،لڑکوں نے کتوں کو چابک رسید کیے تو کتوں نے بھونک بھونک کر سارا شہر جگادیا۔۔۔

وہیں ایک بچی رو رہی تھی۔۔۔

’’یہ رو کیوں رہی ہے ؟‘‘ اُس نوجوان نے سوچا،شاید وہ بھی کتوں سے ڈر گئی ہے۔وہ اُسے حوصلہ دے کر چپ کرانا چاہتا تھا لیکن اُس کا اپنا ڈر کے مارے برا حال تھا سواُس کی آواز اندر ہی دب گئی۔۔وہ ننھی لڑکی دوڑ کے آگے بڑھ جاتی ہے لیکن یہ کیا وہ پھر واپس آرہی ہے شاید آگے گلی بند تھی یا پھر آگے بھی کتے تھے،اُسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے شہر کو کتوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔۔حالانکہ افشین نے اُسے درج ذیل تین باتیں بتائی تھیں۔۔

*اِس شہر میں ایسے مچھر ہیں جن کے سر آدمیوں کی طرح ہیں اورروز بَہ روز اِن کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔۔۔
**میرے باپ نے میری ماں کو طلاق دے دی ہے،وہ باہر سے کتے امپورٹ کرتا تھالیکن میر ی ماں کو اعتراض تھاسو اُس نے طلاق دے دی۔۔۔۔
***اب میں جہاں رہتی ہوں وہاں ہر طرف مچھر ہی مچھر ہیں، مجھے اُمید ہے تم مجھے اِس شہر سے ضرور دور لے جاؤ گے۔
۔
اُس ننھی لڑکی کی آنکھوں میں ایسا خوف تھا جو کتوں اور لڑکوں کے سوا ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا تھا۔۔

وہ آدمی کہ جس کا دل پانچ سال کے بچے جیسا تھا، ڈر گیا اُس نے سوچا ’’اِن کتوں کو کوئی روکتا کیوں نہیں ؟‘‘

لیکن اِس شہر میں اب کوئی کسی کونہیں روک سکتا تھا۔۔

یہ بالکل نیا شہر تھا، پرانا شہر آہستہ آہستہ معدوم ہوتے ہوتے آج مکمل طور پہ گُم ہوگیا تھا۔

وہ وہاں سے بھاگا کہ اُسے پرانا شہر ڈھونڈنا تھا۔۔۔

’’کیایونہی بھاگتا جاؤں، بھاگتا جاؤں تو مجھے گُم ہوا شہر مل جائے گا؟‘‘اُس نے اپنے آپ سے سوال کیا تھا

’’نہیں، نہیں، نہیں۔۔۔گُم ہوئے شہر کبھی نہیں ملتے ‘‘اندر سے جواب ملا تھا۔۔۔

وہ اِس نئے شہر سے بھاگ جانا چاہتا تھا،چند روز پہلے افشین نے اُسے بتایا تھا کہ
* وہ تو اِس شہر سے دور جانے والی ہے بہت دوربلکہ خواب میں اُس نے ایک گاڑی بھی پکڑ لی تھی جس پہ وہ بغیر ٹکٹ سوار ہوگئی تھی اور اُس نے کئی ہزارکلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے یہ شہر پارکرلیا تھا، خوا ب میں انسان بہت تیز سفر کرتا ہے،صدیوں بھرا دن لمحوں میں کٹ سکتا ہے۔

’’ہوسکتا ہے یہ زندگی عرصہِ خواب ہو؟‘‘ اُس نے افشین سے پوچھا تھا۔

’’نہیں بالکل نہیں، یہاں ایک ایک لمحہ صدیاں بن گیا ہے یہ خواب نہیں ہوسکتا‘‘افشین نے کہا تھا۔۔

’’اِس سے پہلے کہ دالیں سبزیوں کے بھاؤ، سبزیاں گوشت کی قیمت پر بکیں اور گوشت ہماری قوتِ خرید سے باہر ہوجائے ہمیں اُس سے پہلے اِس شہر سے بھاگ کر شادی کرلینی چاہیے ‘‘افشین نے کہا تھا۔

’’لیکن میری تو شادی ہوچکی ہے میرا ایک بچہ بھی ہے پھر بھی تم مجھے سے شادی کرنا چاہتی ہو تو سنو،ہم ضرور شادی کرلیں گے، بس کچھ رقم میرے ہاتھ آجائے،میں روپے جمع کررہا ہوں،مجھے کچھ وقت چاہیے۔‘‘

’’وقت ہی تو نہیں ہے ‘‘افشین نے کہا تھا اور اُس کے پاس واقعی وقت نہیں تھا،اُس نے آج ایک بلڈنگ سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی تھی۔۔۔اُس شہر میں اب ایسا کوئی قانون نہیں تھا جس سے یہ ثابت کیا جاسکتاکہ اُس نے بلڈنگ سے چھلانگ لگائی تھی یا اُسے مچھروں نے نیچے پھینکا تھا۔۔

وہ ڈرا ہوا لڑکا بھاگتا بھاگتا ایک گلی میں داخل ہوا جو اُس کی اپنی گلی ہی کی طرح تھی لیکن اُس کا گھر کہیں موجودنہیں تھا۔۔۔صبح تک تو اُس کا گھر اِسی گلی میں موجودتھا، معلوم نہیں اب اُس کا گھر کہاں ہے۔۔ابھی وہ یہ سو چ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکا ہاتھ میں کتے کی رسی پکڑے اُس کے سامنے آگیا، لڑکے اور کتے کی آنکھوں میں وحشت صاف دکھائی دے رہی تھی۔۔

’’دیکھو مجھ سے لڑنا مت،مجھے لڑنا نہیں آتا ‘‘اُس نے گھبرا کر کتے والے نوجوان سے التجا کی ۔

لڑکے نے اُس کا گریبان پکڑ لیا اور ایک زور دار تھپڑ اُسے رسید کیا۔۔

’’دیکھومجھے چھوڑ دو میں ڈر اہوا انسان ہوں، میرے ماں باپ بھی ڈرے ہوئے تھے انہوں نے مجھے سکھایا تھا کہ کسی سے مت لڑنا ‘‘۔

لڑکے نے اُسے دھکا دے کر نیچے گرا دیا’’سالے اتنے بڑے ہوگئے ہو ڈرتے ہو، یہ لو کتا اور شہر کی گلی گلی میں گھومو‘‘۔

’’کتا۔۔۔نہیں مجھے کتوں سے خوف آتا ہے ‘‘

’’خوف ؟ اب بھلا کس بات کا خوف؟ اب تو شہر میں انسانوں سے زیادہ کتے ہیں۔۔۔‘‘

وہ وہاں سے بھاگا توکتے والے لڑکے نے پیچھے سے آواز لگائی تھی ’’نئے شہر میں رہنے کے لیے ہمارے جیسے ہوجاؤ، ورنہ تمہیں شہر چھوڑنا پڑے گا‘‘۔

وہ بھاگتا رہا، بھاگتا رہا حتٰی کہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔۔۔لیکن اب دروازہ نہیں کُھل رہاتھا۔۔

’’آپ رات کے اِس وقت باہر کیوں گئے تھے ؟‘‘ میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں دراصل میری بیوی کی آنکھ پھرکُھل گئی ہے۔

’’سگریٹ پینے گیا تھا‘‘ میں نے اُسے بتایا۔

’’چارپیسے جو کماتے ہو، وہ بھی دھوئیں میں اُڑا دیتے ہو۔۔۔اِس بچے کو دیکھو،کل کو اِس نے سکول جانا ہے کچھ بننا ہے کیا تم نے اِس بارے کچھ سوچا ہے؟ـ‘‘میرے پاس اِن میں سے کسی سوال کا جواب نہیں۔۔

رکیے! میں سگریٹ پی کر آتا ہوں۔

’’اب پھر باہر جارہے ہو۔۔۔؟تم کبھی بھی ہمارے بارے نہیں سوچتے ‘‘۔

میں اپنے ایک کمرے کے مکان سے باہر آجاتا ہوں، باہر بے انتہاسردی ہے لیکن میرے اندر آگ جل رہی ہے، سگریٹ سلگاکر میں نے سامنے دیکھا تو ایک آدمی تھر تھر کانپ رہا تھا۔

’’کیا ہوا؟خیریت تو ہے ؟‘‘میں نے پوچھا۔

آدمی نے سراُٹھایا۔۔۔

’’تم؟؟؟؟؟ ‘‘

’’تم یہاں کیا کررہے ہو، تم تو کہانی میں تھے ‘‘میں نے اُس سے پوچھا۔

اُس آدمی نے میرا گریبان پکڑلیا۔

’’سالے، مجھے یہاں اکیلا کھڑا کرکے تم نے اچھا نہیں کیا،شہر میں ہرطرف کتے ہی کتے دندنا رہے ہیں اور یہ چوٹیں دیکھو جو بھاگ بھاگ کر لگی ہیں، اب یہ دروازہ کھلواؤ ورنہ میں خوف سے مرجاؤں گا‘‘وہ رونے لگ گیا۔

’’لیکن تم تو کہانی میں تھے تم یہاں کیسے پہنچے ہو؟‘‘

’’دروازہ کھلواؤ، میں مرجاؤں گا،یہ شہر اب رہنے کے قابل نہیں رہا‘‘وہ چلایا۔

’’جب اِتنا حوصلہ نہیں تھا تو محبت کیوں کی تھی ؟‘‘میں چلایا۔

’’میں نے تو اُسے بتایا بھی تھا کہ میرا دل ایک پانچ سال کے بچے جتنا ہے،میں اِن کتوں اور مچھروں سے لڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتا،
خدا کے لیے دروازہ کھلواؤمیرا دل خوف سے پھٹ جائے گا‘‘

’’اندر آجائیے باہر بہت سردی ہے ‘‘میری بیوی نے کھڑکی سے کہا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *