راہ دم تیغ پہ ہو کیوں نہ میر
جی پہ رکھیں گے تو گزر جائیں گے

وہ کھانسے، یوں نہیں جیسے کوئی مریض کھانستا ہے بلکہ یوں جیسے کوئی گفتگو کرنے والا، اپنے حلقوم تک آ چکی بات کو نئے رخ سے راہ دینے کے لیے ہلکا سا کھنگورا مارتا ہے؛ "ہَک کھونہہ”، یوں ؛ اپنے بدن کو تھوڑا سا جھلارا دیتے ہوئے۔ جیسے،وہ ایک ہی پہلو پر بیٹھے بولتے رہنے سے نہیں تھکے تھے ان کے بدن کا بوجھ سہتی نشست تھک گئی تھی۔ وہ قدرے فربہ تھے، یوں جھولے تو کرسی بھی چرچرائی۔ بس اتنا ہوا تھا اور میری بیگم کے چہرے پر سے ہوائیاں اُڑنے لگی تھیں۔ وہ دونوں ہاتھ کھانے کی میز پر کہنیوں تک بچھائے اور اوپر والے بدن کا سارا بوجھ ان پر ڈالے پوری توجہ سے تایاجان کو سن رہی تھی۔ کھنگھورے پر بازو سمیٹ کر انہیں یک لخت اوپر اُچھالااور یوں پیچھے ہٹی کہ اگر پیچھے کرسی کی ٹیک نہ ہوتی تو اس کا سر دیوار سے ٹکرا کر پھیتی پھیتی ہو جانا تھا۔ اس کے حلقوم سے پھنس پھنس کر آواز نکلی تھی:

"ک کک ک ا ر ونا”

ہم سب چونکے۔ میں بھی اور بچے بھی۔ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے تایا جان کی کہنیاں میز پر ٹکی رہیں۔ ان ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسی ہوئی تھیں اور انگوٹھے یوں گول گول گھوم رہے تھے جیسے ایک دوسرے کا طواف کر رہے ہوں۔ ایک ساعت کے لیے ان کے انگوٹھے جہاں تھے وہیں رُک گئے،یوں جیسے ادھر کعبے میں طواف رکا ہوا تھا۔ پھر قہقہہ لگایا اور دو ہاتھوں کی اکلوتی مٹھی کو آگے پیچھے جھلاتے ہوئے چھت کی طرف منھ کر لیا۔ جب اُن کا چہرہ واپس اپنی جگہ پر آیاتھا تو ان کی آنکھیں آنسووں سے بھری ہوئی تھیں۔

"تم لوگ اس کرب اور اس اذیت کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے جب کوئی اپنے پیارے کے سامنے دم توڑتا ہوگا۔ یوں جیسے۔۔۔۔ جیسے۔۔۔”

وہ کچھ کہتے کہتے رُک گئے تھے۔ اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر مایوس ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنا موقوف کردیا، جیسے سانس کے ٹوٹنے کی مشابہت کہیں قائم نہ کر پائے تھے۔

"مرنا۔۔۔ اپنی عزیز ترین ہستی کی گود میں سر رکھ کر مرنا۔۔۔ ”

وہ بُڑبڑائے اور میز پر ٹکی کہنیوں اوراوپر اٹھے بازووں کے درمیان اپنے سر کو لا کراتنا نیچے گرا لیا کہ سر پر دونوں طرف جھولتی دودھ جیسی سفید چادر وہاں سے ڈھلک گئی تھی۔ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے اسے تھام لیا اور اپنا چہرہ پونچھنے کے بہانے اپنی آنکھیں پونچھ لیں۔ تب تک وہ آنسو جو پلکوں تک ڈھلک آئے تھے،ہم نے میزپر گرتے دیکھ لیے تھے۔

تایا جی نے سر اوپر نہیں اُٹھایاتھا،بازو اوپر اُٹھائے تھے۔ دونوں مٹھیوں میں بھینچی ہوئی چادر سر کے اوپر سے گھما گردن کے ارد گرد ڈالنے کے لیے۔ جب دونوں بازو وہیں پہنچ گئے جہاں پہلے تھے تو انگلیوں کی کنگھیاں بھی پہلے کی طرح ایک دوسرے میں دھنس گئیں۔ تاہم اس بار کچھ ایسا ہوا تھا کہ آٹھوں انگلیاں اپنی جڑوں تک کنگھی کے دندانوں کی طرح ا کڑ کر اوپر اُٹھ گئی تھیں۔ ہتھیلیاں باہم پہلے کی طرح جڑی ہوئی تھیں۔ دونوں انگوٹھے جو کچھ دیر پہلے ایک دوسرے کے گرد گھوم رہے تھے،اب پہلو پہلو سے جوڑے ایک دوسرے کو پرے دھکیل رہے تھے، پاس پاس بیٹھے اُن شریر بچوں کی طرح جو کندھے بھڑاتے بھڑاتے ایک دوسرے کو دھکیلنے لگتے ہیں۔ تایا جی نے دونوں انگوٹھوں کو پہلے اپنی پیشانی پر ٹکایا، ان پر پورے سر کا بوجھ ڈالا اور پھر انگوٹھے سر سے یوں ٹکرانے لگے جیسے کوئی ہدہداپنی سخت اور لمبی چونچ سے درخت کی چھال ٹھونگتا ہے۔ میں اندازہ کر سکتا تھا کہ ایسا وہ قصداً نہیں کر رہے تھے، ایک اضطراری کیفیت تھی کہ ایسا ہوتا چلا جا رہا تھا۔

جب تایا جان نے گود میں سانس توڑنے والا جملہ کہا تھا تو میرا دھیان کورونا کی وبا سے مرنے والے کراچی کے ڈاکٹر فرقان الحق کی طرف نہیں گیا تھا۔ وہی ڈاکٹر فرقان جو عمر بھر دل کے مریضوں کو زندگی دیتا رہا تھا، اتوارتک مختلف ہسپتالوں میں اپنے لیے وینٹی لیٹر کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا اورمر گیا تھا۔ میں تو اس مرنے والی کی بابت سوچ رہا تھا، جس سے تایا جان کو بہت محبت تھی۔اُس نے اسپتال میں ایک بیٹی جنم دِی تھی اور جب وہ لیبر روم سے وارڈ میں لائی گئی تھی تو اُن کی گود میں سر رکھ کر مر گئی تھی۔ اپنی بیوی کے اس طرح مرنے کی کہانی تایا جی نے کئی بارسنائی تھی اور جتنی بار سنائی ایک الگ طرح کا دُکھ اس میں گُندھ گیا تھا۔ وہ یہ بتانا کبھی نہ بھولتے تھے کہ اُسے بیٹی جنم دیتے ہوئے مرنا ہوتا تووہ لیبر روم میں مر جاتی۔

” ڈاکٹر نے یہی کہا تھا کہ کیس بہت پیچیدہ تھا۔ وہ مرتے مرتے بچی تھی۔”

تایا جی ہنسے۔۔اس تھوڑا سا ہنسنے سے ہی ان کا گلا رندھ گیا۔ بات روک روک کر آگے بڑھائی:

” ڈاکٹر نہیں جانتے تھے۔۔۔کہ۔۔۔ وہ موت کو غچہ دِے کر وارڈ میں۔۔۔ میرے پاس آئی تھی کہ۔۔ اُسے میری آنکھوں کے سامنے مرنا تھا۔۔۔عین اس وقت۔۔۔ جب میں محبت سے اُس کا سر اپنی گود میں لے رہا تھا۔ ”

ڈاکٹر فرقان کی موت کی خبر ایک آدھ روز پہلے آئی تھی۔ ہمارا گمان تھا کہ تایا جان کو شاید اس کا علم ہی نہ ہوگا۔ مرنے والے ڈاکٹر کی بیوی کا کلیجہ چیر کر رکھ دینے والا بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا تھا۔ اُس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جب اس کاشوہر اس کی گود میں مر رہا تھا تو وہ اس کے لیے وہ کچھ نہ کر سکی تھی۔ وہ لوگوں کو مدد کے لیے پکارتی رہی لیکن کوئی بھی اس کی مدد کو نہ آیا۔ اس نے اپنے نڈھال ہو کر بے ہوش ہونے والے شوہر کو خود ہی اسٹریچر پر ڈالا ہسپتال لے گئی تھی۔اسپتال والوں نے ڈاکٹر فرقان کو داخل نہیں کیا تھا۔ وہ مر رہا تھا، اپنی بیوی کی گود میں سر رکھ کر اور اس کے مر جانے تک اس کے لیے ہسپتال میں جگہ نہ نکل پائی تھی۔

یہ ایسی تکلیف دہ خبر تھی جس کا ذکر ہم خود بھی تایا جی کے سامنے نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹرعظمیٰ جس ہسپتال میں تھی، وہاں گائنی کے وارڈ میں تین ڈاکٹروں اور دو نرسوں کے علاوہ عملے کے تین افراد کو کرونا پازیٹو نکل آیا تھا۔ پورا وارڈ سیل کر دیا گیا تھا اور جو جو وہاں ایک دوسرے سے رابطے میں رہا تھا ان کے ٹسٹ ہو رہے تھے۔ڈاکٹر عظمیٰ کی ڈیوٹی اسی وارڈ میں تھی۔ کسی کو کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا تھا کہ اس وبا کے حملے کی علامات فوری طور پر ظاہر نہ ہوتی تھیں مگر وہ حوصلے میں تھی۔ اس سارے عرصے میں فون پر ہمارا اس سے رابطہ رہا تھاتاہم اُس نے تایاجی کو کچھ بھی بتانے سے منع کر رکھا تھا۔

تایا جی کا کل فون آیا تھا، بہت دیرتک اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ پھر شہر کے حالات پوچھے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ کچھ پوچھنا چاہتے تھے اور پوچھ نہیں پارہے تھے۔ بالآخر انہوں نے فون بند کردیا۔ میں نے لمبا سانس لیا اورخدا کا شکر ادا کیا کہ وہ اسپتال والے واقعے کی طرف نہیں آئے تھے۔ لیکن ہوا یوں کہ وہ صبح صبح آگئے تھے۔

کھانے کی میز پرہم سب آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ ناشتہ کم کیا اور تایاجی کو زیادہ سنا۔ہم نہیں چاہتے تھے کہ تایا جی کو ہماری کسی بات سے شبہ ہو کہ اسپتال میں ان کی بیٹی کے ساتھ کیا چل رہا تھا۔ وہ بھی بات کرتے کرتے رُک جاتے اور کچھ سوچنے لگتے، تاہم جب وہ اپنی کہانی سنا نے لگے توسناتے چلے گئے۔ کیسے دونوں میں محبت ہوئی تھی۔ کیسے سب سے لڑ بھڑ کر انہوں نے شادی کی۔ اور کیسے وہ ایک بچی کو جنم دینے کے بعد مر گئی تھی۔

ناشتہ کر چکے تو بھی وہاں سے اٹھنے کو جی نہ چاہا تھا۔ بیگم نے برتن سمیٹے، ہم ہمہ تن گوش بیٹھے رہے۔ وہ کچن سے فارغ ہو کر ایک بار پھر اس منڈلی کا حصہ ہو گئی تھی۔تایا جان اپنے ابا اماں کے منائے جانے کا قصہ ختم کرتے تو اپنے سسر اور سالوں کو رام کرنے کی کہانی چھیڑ لیتے۔ ان کی باتیں، محض باتیں نہیں تھیں، کہانی تھی۔ بچپن سے اب تک میں ان سے یہی کہانی کئی بار سن چکا تھا مگر اسے سناتے ہوئے ہر بار کہیں نہ کہیں کچھ ایسا کر لیتے تھے کہ وہ نئی ہو جاتی تھی۔ کبھی کبھی مجھے لگتا، جیسے اُن کے وجود میں الف لیلہ کی شہرزادکی روح داخل ہو گئی تھی جو سمر قند کے بادشاہ شہریار کو رات بھر کہانی سناتی اور اس میں ایک تجسس رکھ کر اسے ناتمام چھوڑ دیتی تھی اگلی رات کی کہانی کی گرہ اُس میں لگانے کے لیے۔ کہتے ہیں آٹھویں صدی عیسوی کے سمرقند کا یہ بادشاہ بہت ظالم تھا۔ظالم بھی اور عورتوں کا رسیا بھی۔ ہر رات ایک نئی عورت اُس کی دلہن بنتی اور صبح تک قتل ہو جاتی تھی کہ اُس کی رفاقت سے بادشاہ کا دِل بھر جاتا تھا۔ایسے میں شہریار کے ایک وزیر کی بیٹی شہرزاد نے منت سماجت کرکے باپ کو منالیا کہ وہ بادشاہ کو شادی کرکے اپنی صنف پر ہوتے ظلم کے آگے بند باندھنا چاہتی تھی۔

یہ کہانی ہی تھی جس نے بادشاہ کے ظلم کے آگے بند باندھ دیا تھا۔

نہ ختم ہونے والی یہ کہانی ہر رات آگے بڑھتی رہی۔ ایک، دس، سو۔ ہزار، ایک ہزار ایک، کہانی کا بھید ایسا تھاکہ بادشاہ اسے جاننے کے لیے سنتا رہا اور قتل کا فیصلہ ملتوی کرنے پر مجبور ہوگیاتھا۔ وہ سنتا رہتا اور شہرزاد کی طرف دیکھتا رہتا حتیٰ کہ اسے کہانی کہنے والی سے محبت ہو گئی تھی۔
تایاجان سے میرے بچوں کو بھی محبت ہو گئی تھی۔تایاجان سے یا اُن کی کہانیوں سے۔ وہ جب آتے تو بیٹی عظمیٰ کو فون کر کے یہیں بلوا لیتے اور بچے مل کر خوب ہلا گلا کرتے تھے۔تایا جان کے پاس بہت سی کہانیاں تھیں جنہیں دِن ہو یا رات وہ سنا سکتے تھے انہیں ہماری اور بچوں کی توجہ بٹورلینے کا ہنر آتا تھا۔ وہ یوں سناتے تھے کہ کئی کہانیوں کی ایک کہانی بن جاتی۔ بچپن سے میں اُن کی باتیں سنتا آیاتھا۔ کئی بار کی دہرائی ہوئی باتیں مگر جب وہ انہیں کہانی میں ڈھال کر سناتے توہمارا تجسس بھی بندھ جاتا تھا۔ انہوں نے مجھے احساس دلایا تھا کہ قصہ ہو یا کہانی، اُس میں سو طرح کے بھید ہوتے ہیں اور جتنی بار سناو بہ ظاہر واقعات تو وہی رہتے ہیں اُس میں کچھ نہ کچھ سمجھ میں نہ آنے والا بدل کر کسی نئے بھید کو راہ دے دیتا ہے۔یوں نہیں جیسے جادو گر کی ٹوپی سے خرگوش نکلتا ہے کہ جادو گر تو بس تماشا دیکھنے والوں کی نظر باندھ دیتا ہے اوردھوکے سے خرگوش نکال کر دکھا دیتا ہے جو ہمارے خیال میں وہاں نہیں ہوتا مگر فی الاصل وہ وہیں کہیں ہوتا ہے۔ تایا جی کی کہانی میں اور طرح کا بھید ہوتا۔ اصلی، سچا اور نیا۔کبھی کوئی بات سناتے ہوئے کہتے ؛ نواں نکور واقعہ سنو اور کبھی کہتے، کھری بات؛ بالکل اس کھرے گھی جیسی بات جو ہمارے سامنے بلوئی گئی چھاچھ کے مکھن کو کاڑھ کر نکلتا تھا اور جسے تھوڑا سا ہتھیلی پر ڈال کر سونگھنے ہی سے پہچانا جاسکتا تھا۔ وہ بولتے چلے جاتے اور یہ کھرا بھید کہانی کی تہوں کے اندر سے پیدا ہوتارہتا۔ کسی اور ملاوٹ کے سارے امکانات رد کرتے ہوئے۔ الگ چھب والا، نئی نئی حیرتیں اُچھالنے والا۔

ہم نے تایا جی کی آنکھوں کو یوں آنسووں سے بھرتے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اپنی بیوی کو یاد کرتے ہوئے وہ دُکھی ضرور ہوتے تھے یوں آنکھوں کو نہ چھلکاتے تھے۔ بس اپنی بیٹی عظمیٰ کی طرف دیکھے جاتے تھے جس کی خوشی میں انہوں نے اپنی ساری خوشیاں رکھ چھوڑی تھی۔

ایسی خوش حالی جو انہیں مطمئن رکھتی تھی اپنے باپ سے ملی تھی۔ گاوں میں اتنی زمین تھی کہ اس کی کاشت برداشت سے اُن کی ضرورتیں پوری ہو رہی تھی۔ شادی سے پہلے انہیں مجلس جمانے کا شوق رہاتھا، وہیں اوپر کی طرف جہاں رہٹ تھا،اس کے مشرق میں انہوں نے ایک قطعہ زمین چھتا ہوا تھا۔یہیں حقے تمباکو پر مجلسیں جماتے۔ مشغلہ انہیں اچھی نسل کے بیل پالنے کا تھا۔ بیلوں کی دوجوڑیاں تھیں ان کے پاس۔ ایک زمین میں ہل چلانے، سہاگہ پھیرنے، گہائی کرنے، رہٹ کھینچے سے لے کر بار برداری جیسے کاموں کے لیے اور دوسری جسے انہوں نے آختہ کروا لیا تھا عرس میلے پربیلوں کی دوڑ میں حصہ لینے کے لیے۔ بہ قول تایا جی یہ جوڑی ہر کہیں معرکہ مارتی تھی۔ وقت بدلا تو بہت کچھ بدل گیا۔ ڈیرے والی زمیں انہوں نے اسکول کے لیے وقف کر دی۔بیٹی کی ضد پر انہوں نے ٹریکٹر، ٹرالی اور دوتین قسم کے ہل خریدلیے تھے۔ کچھ عرصہ تک ان کے پاس ایک بیل رہا، مقامی منڈی سے خریدا ہوا ایسا بیل جوسارا دن چکلی جوڑے کے کَتے کی ٹخ ٹخ پر ایک دائرے میں گھومتا اور ماہل سے بندھے پانی سے بھرے ہوئے ٹینڈے کنویں سے کھینچتا رہتا تھا۔ بعد میں وہ نہ رہا، وہاں ڈیزل انجن لگوا لیا گیا کہ بیٹی عظمیٰ کہتی تھی، کب تک اس بیل کی طرح آنکھوں پر کھوپے چڑھائے زندگی کو ایک دائرے میں کھیتے رہیں گے۔ تب انہوں نے اس دائرے کو توڑنے کا فیصلہ کیا تھااوریہ کچھ سال بعد میں ہوا تھا، تب جب اُن کی بیٹی میڈیکل کالج پہنچ گئی تھی۔

عظمیٰ کے لیے تایا جی، باپ بھی تھے اور ماں بھی، وہ ان کے اتنا قریب تھی کہ جیسے ان کے وجود کے اندر بستی تھی۔

کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا کہ اپنی ایک دن کی بچی کو انہوں نے کیسے پالا ہو گا۔ شروع شروع میں بچی کی پھپھیاں مدد کو آتی رہیں، مگر کب تک ہر ایک کا اپنا گھر بار تھا، تایا جی کو اپنا بوجھ خود اٹھانا پڑا۔ وہ کھیت کھلیان پر بھی اسے اٹھائے پھرتے۔ گھر میں ہوتے تو ایک چادر کے چاروں کونے چارپائی کے بازو سے باندھ بچی کا جھولا بنا لیتے تھے۔ اسی چادر کو ایک طرف سے اپنی کمر سے باندھ کراور دوسری طرف سے کندھے میں اڑس کر وہ کھیتوں کو نکل کھڑے ہوتے تو بچی اس چادر کے جھولے میں ہوتی۔ جب عظمیٰ کی ماں مری تھی تو پورا گاوں افسوس کے لیے اُمنڈ آیا تھا۔ اتنا بڑا جنازہ پہلے اس گائوں میں نہیں دیکھا گیا تھا مگررفتہ رفتہ تایا جان انہی گائوں والوں کی ٹچکروں کا سامان ہوتے گئے تھے۔ سب عزیز و اقارب اور سیانے، انہیں مشورہ دے چکے تھے کہ ایک معصوم جان کا پالنا ایک مرد کے بس کی بات نہیں، انہیں شادی کرکے، جس کا کام اسی کو سونپ دینا چاہیے مگر وہ نہ مانے تھے کہ ایک نمبر کے ضدی تھے۔

"میں ایک نمبر کا ضدی تھا۔”

یہ انہوں نے خود اپنے بارے میں کہا تھااور اس سے جوڑ کر اپنی شادی سے لے کر بیٹی کے ڈاکٹر بننے تک کی کہانی سنا ڈالی تھی۔ اور تب جب انہوں نے کھنگھورا مار کر نئی کہانی کہنا چاہی اور میری بیگم نے ان کے کھانسنے کوادبدا کر کورونا سے جوڑدیا تھا تو وہ رنجیدہ ہو گئے تھے۔ یہیں کہیں انہوں نے ایک عزیز ترین ہستی کے گود میں سر رکھ کر مرنے والا جملہ کہا تھا۔ جب ہم اس جملے کو ان کی اپنی زندگی سے جوڑ چکے تواچانک وہ کمر سیدھی کرکے بیٹھ گئے تھے اور ہم سب کی طرف باری باری دیکھا تھا جیسے یقین کر لینا چاہتے تھے کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو ان کی طرف متوجہ نہ تھا۔ کہا :

"آپ لوگ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر فرقان جو ادھر کراچی میں کرونا سے مر گیا کون تھا؟”

ہم چونکے اور بوکھلا ئے بھی۔ گویا انہیں ایسی خبریں پہنچ رہی تھیں۔ انہوں نے ہمارے جواب کا انتظار کیے بغیر کہا۔
"ڈاکٹر فرقان، بیٹی عظمیٰ کے استاد تھے۔ وہ انہیں اپنا استاد مانتی ہے۔ کسی کانفرنس میں اُن سے ملی تھی بیٹی، ان سے رابطے میں تھی اور بہت کچھ سیکھا تھا ان سے۔ کئی بار اس نے اُن کا ذکر کیا تھا۔”

انہوں نے کہنی موڑ کر اپنی بغلی جیب میں ہاتھ ڈالا، موبائل فون نکالا اور ہماری طرف،اس کا ڈسپلے کرتے ہوئے کہا:

” اس پر مجھے ملی ہے ڈاکٹر فرقان کی موت کی خبر۔”

انہوں نے موبائل فون دوبارہ جیب میں ڈال لیا اور اپنی نظریں میز پر گاڑھ کر دھیرے دھیرے کہنے لگے جیسے ہم سے نہیں اپنے آپ سے بات کر رہے ہوں:

” میں نے ایک دوبار بیٹی سے بات کرنے کے لیے نمبر ملانا چاہا مگر یہ سوچ کر چھوڑ دیا کہ میرے بیگانوں کی طرح فون پر پرسہ دینے سے وہ اورزیادہ دُکھی ہو جائے گی۔ رات بھر کروٹیں بدلتا رہا اور صبح پہلی بس سے نکل آیا ہوں۔ ہمت نہ پڑی بیٹی کو فون کرکے یہاں بلا لیتا۔”

وہ ایک ہی سانس میں بہت کچھ کہہ گئے تھے۔۔۔ وہ کچھ جو اُن کی بیٹی نے ہمیں اُن سے چھپانے کو کہا تھا۔ میں نے بیگم کی طرف دیکھا اور کہہ دیا۔

"اب کچھ چھپانے سے کیا حاصل؟”

یہ بات میں نے سرگوشی میں کہی تھی مگر وہ تو شاید سماعت اسی طرف لگائے بیٹھے تھے۔ اپنے قدموں پر یوں سرعت سے کھڑے ہوئے کہ کرسی جس پر وہ بیٹھے ہوئے تھے لڑکھڑا کر پیچھے جا گری۔

” کیا، چھپا رہے ہو تم لوگ، بتاو۔۔ بتاو۔۔ بتاو ”

تیسری بار "بتاو” کہتے ہوئے ان کی آواز بہت اونچی ہو گئی تھی۔

محض اونچی نہیں، یوں لگتا تھا،لفظ ’بتاو‘ اُن کا حلقوم پھاڑتے ہوئے نکلا تھا۔ میں بھی کھڑا ہوگیاتھا۔ ہم میں سے کوئی نہ تھا جو اپنی نشست پر بیٹھا رہا ہو۔ان کی مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں۔ وہ مسلسل میری طرف دیکھ رہے تھے یوں، جیسے وہ پلکیں جھپکنا ہی بھول گئے تھے۔ میں کھسکتا ہوا اُن کے قریب ہو گیا اورکھڑے کھڑے ساری بات یوں کہہ دی جیسے جھڑکے جانے پرکوئی بچے بھولا ہوا سبق بھی فر فر سنانے لگتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہو چلا تھا کہ اب بھی کچھ چھپایا تو تایا جان مجھے زندگی بھر معاف نہیں کریں گے۔ میری بات ابھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ انہوں نے بازو لمبا کیا اور مجھے ایک جانب زور سے دھکیل دیا۔ دروازہ کھولا باہر چھلانگ لگا دِی۔

جب تک میں گاڑی کی چابیاں تلاش کرتا،پورچ میں پہنچ کرگاڑی اسٹارٹ کرتا، اسے ریورس میں ڈال کر باہر سڑک پرڈالتا وہ بھاگتے ہوئے بہت دور نکل گئے تھے۔ ابھی میں نے گاڑی دوسرے گیئرہی میں ڈالی ہوگی کہ اُسے روک کر اُترنا پڑا۔ سڑک کے عین وسط میں ایک کپڑا پھیلا پڑا تھا دودھ جیسا سفید۔ تایا جان کی چادر۔ وہ اُن ہی کی چادر تھی۔ وہی جوکچھ دیر پہلے اُن کے سر سے سرکی تھی توانہوں نے اُسے گردن کے اردگر جما لیا تھا۔ چادر سڑک پریوں پھیلی پڑی تھی جیسے کسی زندہ وجود نے زمین کی گود میں لیٹے لیٹے بہت ہاتھ پاوں مارے تھے اور اچانک دَم توڑ دیاتھا۔ میں نے چادر سمیٹے سمیٹتے گھبرا کر وہاں دیکھا جہاں کچھ دیر پہلے تایاجان تھے۔ اب وہ وہاں نہیں تھے۔ جہاں وہ ہو سکتے تھے وہاں سے سڑک معدوم ہو رہی تھی۔

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: