Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

“منگدا نصیبا کجھ ہور اے” ( گلوکارہ مبارک بیگم کی نذر) – قیصر نذیر خاورؔ

test-ghori

test-ghori

09 اگست, 2020

راجستھان سے واقف لوگ اس کے ‘ جے پور’، ‘ اودھے پور ‘، ‘ اجمیر ‘، ‘ جودھ پور ‘ اور ‘ بیکانیر ‘ جیسے شہروں بارے میں تو جانتے ہی ہوں گے اور شاید یہ بھی کہ ‘ہوا محل’ کہاں ہے، مہران گڑھ قلعہ کہاں اور خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کہاں ہے۔ وہ شاید یہ بھی تقسیم کر سکتے ہوں کہ اس میں تَھر کے ریگستان کے ساتھ ساتھ ‘ آراوالی ‘ پہاڑی سلسلہ بھی ہے جو گجرات سے شروع ہو کر اس میں سے ہوتا پورا ہریانہ عبور کرتا دہلی میں آ کر ختم ہوتا ہے جہاں دہلی رِج (Delhi Ridge) اس کی آخری پہاڑی ہے۔

یہ پہاڑی سلسلہ شمال مشرق کی سمت میں برصغیر کے اُن فولڈ (Fold) پہاڑوں کا سلسلہ ہے جس نے مزید بلندی اختیار کرنا بند کر دیا تھا بلکہ اس کے الٹ موسمی ریشہ دوانیوں کے ہاتھوں عرصے سے کُھرنا ( erode ) شروع کر دیا ہوا ہے اور دن بدن ان کی بلندی کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس شمال مغرب سے جنوب مشرق میں پھیلے ہمالیہ پہاڑوں کا سلسلہ بھی ہے جو ہے تو فولڈ (Fold) پہاڑوں کا ہی ایک سلسلہ، لیکن اس کی چوٹیوں کی بلندی ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

آراوالی پہاڑی سلسلہ کے قدموں میں چارو کا علاقہ ہے جسے پار کریں تو تَھر کا ریگستان شروع ہو جاتا ہے۔ اسی علاقے کا ایک شہر ‘سوجان گڑھ ‘ ہے جس کے نواح میں جوہنجہنو ( Jhunjhunu ) نامی بستی ہے جس میں 5 جنوری 1936 ء کو مبارک بیگم پیدا ہوئی تھی، اس کا پریوار اندرون سارنگ پور دروازہ، احمد آباد، گجرات میں بسا تھا جہاں اس نے بچپن میں ہی فلمیں دیکھنے کا شوق پال لیا۔ ثریا کا زمانہ تھا، وہ اپنے تایا کے ہمراہ جاتی اور فلم آدھی بھی نہ ہو پاتی تھی کہ خراٹے بھرنے لگتی البتہ گھر آ کرگراموفون ریکارڈوں اور ریڈیو پر اس کے گانے سن کر اس کی نقل کرتی۔ یہ شوق دیکھ کر بڑوں نے اسے استاد عبدل کریم خاں کے بھتیجے ریاض الدین خان کے حوالے کیا کہ کلاسیکی موسیقی کی شُدھ بُدھ اس حد تک حاصل کر لے کہ ریاض کر سکے۔ مُکمل عبور کے حوالے سے اُن کا خیال تھا کہ وہ ہلکی پھلکی موسیقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ وہ خود کہتی ہے؛

” ہمارے یاں یہ باور کیا جاتا تھا کہ کلاسیکی موسیقی کی زیادہ جانکاری اور گہرائی سے تربیت گلوکاروں کی آواز کو گیتوں، غزلوں اور نعت و حمد کے لئے ناموزوں کر دیتی ہے جبکہ ہم تو گاتے ہی ہلکا پھلکا گانا تھے۔ ”

اس کا گانا محفلوں میں پسند کیا جانے لگا۔ آل انڈیا ریڈیو والے یہ محفلیں ریکارڈ کرکے ریڈیو پر بھی بجاتے تھے۔ سننے والوں میں موسیقار رفیق غزنوی بھی تھے جنہوں نے فلم ‘ تقدیر 1943ء ‘ کا میوزک ترتیب دیا تھا۔ یہ پہلی فلم تھی جس میں نرگس بطور ہیروئین آئی تھی۔ انہیں اس کی آواز پسند آئی۔ گانوں کی ریہرسل ہوئی لیکن مبارک بیگم سٹوڈیو ریکارڈنگ میں مائیک کے سامنے نہ گا سکی۔ یہی بات پھر اس وقت ہوئی جب رام دریانی کی فلم ‘ بڑی بہن 1949 ء ‘ کے لئے اس نے گانوں کی ریہرسل تو کر لی لیکن سٹوڈیو کا مائیکروفون پھر آڑے آیا اور وہ گانے ریکارڈ کرانے میں ناکام رہی۔ ‘ بڑی بہن 1949 ء ‘ کے گانے کچھ ثریا نے گائے اور باقی لَتا کے حصے آ گئے تھے۔

ابتداء میں مبارک بیگم مائکروفون کے سامنے گانے میں ناکام رہیں، مگر پھر انہوں نے اپنی اس جھجھک پر قابو پا لیا

اگلے کچھ ماہ میں مائیکروفون کے سامنے اس کے گانا گانے کی جھجک اُن دو بھائیوں نے اُتاری جو یعقوب برادرز کے نام سے مشہور تھے۔ یوں فلم ‘ آئیے ‘ کے لئے وہ اپنا پہلا گانا ‘ مجھے آنے لگی ہے انگڑائی۔۔۔ ‘ گا پائی۔ اِسی فلم کے لئے اس نے لَتا کے ساتھ بھی ایک گانا ‘ آچلیں، چلیں سکھی وہاں۔۔۔۔ ‘ بھی ریکارڈ کرایا۔ اس فلم کی موسیقی شوکت دہلوی عرف ناشاد نے ترتیب دی تھی۔

اس کے ان دونوں گانوں میں اس کی آواز پر ثریا کی چھاپ اور مائیکروفون شائی (shy) ہونا کچھ ایسے آڑے آیا کہ اکثر موسیقار اسے کام دینے سے انکاری رہے اور لتا کو گانے ملتے رہے۔ ایسے میں البتہ ایس ڈی برمن اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہے کہ وہ اپنی آواز پر سے ثریا کی چھاپ دور کرے اور اپنا سا کوئی انداز بنائے۔

جی پی پوار کی فلم ‘ پھولوں کا ہار 1951 ء ‘ سے کمال امروہوی کی فلم ‘ ڈیرا 1953ء ‘ تک کا سفر ڈیڑھ دو سو روپے فی فلم چلتا رہا۔ وہ ابھی اہم نہ تھی، کمال امروہوی، مینا کماری اور رفیع کے نام بھی فلم ‘ ڈیرا ‘ کو کامیاب نہ بنا سکے اور یہ بری طرح فلاپ ہو گئی۔ یہ شاید اس کی بدقسمتی تھی۔ ایسے میں ادھر کئی ایسی فلمیں تھیں جو ہٹ رہیں اور ان میں لتا کے گانے بھی تھے۔

1953ء ہی تھا شاید، ایم صادق بھارت بھوشن اور نوتن کو لے کر فلم ‘ شباب ‘ بنا رہے تھے۔ اس کی موسیقی نوشاد ترتیب دے رہے تھے۔ انہوں نے مبارک بیگم کو گلوکاری کے لئے بلایا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ شباب 1954 ء کی ایک بڑی فلم تھی۔ اسے توقع تھی کہ اگر اس میں اس کا ایک بھی گانا ہٹ ہو گیا تو اس کے پاؤں انڈسٹری میں جم جائیں گے۔ وہ بھاگتی ہوئی نوشاد کے پاس گئی۔ انہوں نے رفیع کی آواز میں گائے جانے والے ایک گیت کے بول اس کے سامنے رکھے۔ یہ گانا ‘ محلوں میں رہنے والے ہمیں تیرے در سے کیا۔۔۔۔ ‘ تھا۔ انہیں اس میں ایک ایسی گلوکارہ کی آواز چاہیے تھی جو بچگانہ آواز میں اس کورس میں رفیع کا ساتھ دے سکے۔ کورس میں بندے خان کو نوشاد پہلے ہی منتخب کر چکے تھے۔ اس کا دل بجھ گیا۔ نوشاد کایاں تھے اس کے کو موڈ بھانپ گئے، بولے؛
” تم یہ تو گاؤ، میں تمیں سولو گیت بھی دوں گا۔ ”

مبارک بیگم نے اس لالچ میں رفیع اور بندے خان کے ساتھ یہ گیت گا دیا لیکن نوشاد اپنے وعدے پر قائم نہ رہا اور اسے کوئی سولو گیت نہ دیا۔ ڈیڑھ دو برس اور بیتے، اسے اِکا دکا فلمیں ملتی رہیں۔

مبارک بیگم اور محمد رفیع ایک گیت کی ریکارڈنگ کے دوران

بمل رائے شرت چندر چٹو پھادے کے بنگالی ناول ‘ دیوداس ‘ کو پھر سے فلما رہے تھے، یہ پہلے خاموش زمانے (1927 ء) میں بننے کے بعد بنگالی (1935ء)، ہندی (1936ء ) اور آسامی (1937 ء) میں فلمایا جا چکا تھا۔ پی سی بورا کی تینوں فلمیں ہٹ گئی تھیں، خاص طور پر ہندی ورژن کے ایل سہگل، جمنا بورا اور ٹی آر راجکماری کی اداکاری اور گانوں کی وجہ سے سپر ہٹ رہی تھی۔ بمل رائے ان فلموں میں پی سی بورا کے ساتھ سینماٹوگرافر رہا تھا۔ بمل رائے کی فلم میں سچن دیو برمن موسیقی ترتیب دے رہے تھے، انہوں نے مبارک بیگم کو بلایا اور اسے بھی گیتا دت، لتا، آشا اور اوشا کے ساتھ ایک گانے کے لئے چن لیا۔ دیوداس کے گانے جب ریکارڈ ہو کر گراموفون اور ریڈیو پر بجے تو ‘ وہ نہ آئیں گے پلٹ کر۔۔۔ ‘ ہر ایک کی زبان پہ تھا۔ 1955ء میں جب فلم سامنے آئی تو چندرمکھی (وجنتی مالا ) جب کوٹھوں والے بازار سے دیوداس ( دلیپ کمار ) کو جاتے ہوئے دیکھتی ہے تو دو بول کا یہ گانا بیک گراؤنڈ میں کسی کوٹھے پر بجتا ہوا دکھایا گیا۔ اس کے باوجود اس کی انفرادیت دیگر گانوں پر آج بھی قائم ہے۔

اس کے بعد اس نے بمل رائے کی تقریباً سبھی فلموں میں گایا۔ جن میں فلم ‘ مدھومتی 1958 ء ‘ کا گانا ‘ ہم حال دل سنائیں گے۔۔۔۔ ‘ سپر ہٹ ہوا۔ اسے شیلندر نے لکھا تھا جبکہ دُھن سلیل چوہدری کی تھی۔ اس گانے میں صرف تین ساز ہارمونیم، طبلہ اور سارنگی استعمال ہوئے تھے اور سارنگی پنڈت رام نارائن نے بجائی تھی۔

مبارک بیگم نے کیدار شرما کی بھی لگ بھگ سبھی فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا جن میں فلم ‘ ہماری یاد آئے گی ‘ کا گیت ‘ کبھی تنہایوں میں ہماری یاد آئے گی۔۔۔ ‘ تو اس کی پہچان بن گیا۔

1981 ء تک وہ سو سے زائد فلموں میں گا چکی تھی اور تقریباً ہر موسیقار نے کسی نہ کسی طور اس کی آواز کو برتا تھا لیکن اس کے نصیبے کا کیا کیجئیے کہ اسے تو وہ ‘ آراوالی ‘ پہاڑی سلسلے کے قدموں سے اٹھا کر لایا تھا۔ یہ پہاڑی سلسلہ بحیرہ عرب سے عمودی رخ پر واقع ہونے کی وجہ سے، اُس میں سے اٹھنے والی جنوب مغربی مون سون مرطوب ہواؤں سے فیض یاب نہیں ہو پاتا۔ بحیرہ عرب ہے تو چھوٹا ساگر لیکن ساگر تو پھر ساگر ہوتا ہے یہ تو انہی کو فیض یاب کرتا ہے جو اس کے سامنے عمودی طور پر نہ کھڑے ہوں۔ کچھ ایسا ہی مبارک بیگم کے ساتھ ہوا، موسیقی کے ساگر سے اٹھنے والی کوئی بھی مرطوب ہوا اسے اُس طرح ہرا بھرا نہ کر سکی جس طرح ہمالیہ پہاڑی سلسلے کے قدموں میں پڑے اِندور کی آشا کو او پی نیر اور لتا کو ماسٹر غلام حیدر نے سرسبز کیا تھا۔

مبارک بیگم آکاش وانی میں ریکارڈنگ کے دوران

آشا اور لتا کا قد ہمالیہ کی چوٹیوں کی طرح بڑھتا رہا جبکہ مبارک بیگم کا ‘ آراوالی ‘ پہاڑیوں کی طرح گھٹتا رہا۔

آخری ایام میں لی گئی ایک تصویر

2010 ء کے آگے پیچھے میڈیا میں کچھ ایسی خبریں آئیں کہ وہ شاید کسمپرسی کے عالم میں ممبئی میں زندگی گزار رہی ہے۔ میڈیا کئی اوقات رپورٹنگ کرتے ہوئے لوگوں کی عزت نفس سے بھی کھیل جاتا ہے۔ درست ہے کہ مبارک بیگم اس طرح خوشحال نہیں تھیں جس طرح لتا اور آشا ہیں لیکن وہ تہی دست بھی نہیں تھی۔ وہ اپنے بیٹے اور پوتیوں کے ہمراہ جوگیشواری ویسٹ، ممبئی میں درمیانے طبقے کے لائف سٹائل کے ساتھ عزت سے رہ رہی تھی۔ اس کی پوتیاں مناسب پڑھی لکھی ہیں، اچھے بر رکھتی ہیں۔ دادی کو نجی محفلوں اور کنسرٹس میں لے جاتی رہیں جو اپنی گائیکی سے اتنا کما لیتی کہ کسی پر بوجھ نہ بنے۔ نصیبے میں اونچا نام تو ہے، لمبا کامیاب کیرئیر نہیں تو کیا۔ صحت بھی ویسی نہیں جیسی ہم عصر گلوکاراوٗں کی ہے بہرحال نصیب کا ہارا روکھی سوکھی کھا کر عزت سے بی جی لے تو کم نہیں ہوتا۔

لتا آج 91 برس کی ہے، آشا 87 کی جبکہ مبارک بیگم 80 برس کی ہی عمر میں 18 جولائی 2016 ء کو فوت ہو گئی۔ لتا اور آشا ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو کی طرح ایستادہ ہیں جبکہ مبارک بیگم کا قد تھا کہ ‘ گُرو شخار ‘ کی چوٹی کی طرح گھٹتا ہی چلا گیا تھا اور چار برس قبل زمین بوس ہو گیا تھا۔

راجستھان میں پھیلی تہذیبِ وادیِ سندھ کی باقیات کی طرح ماضی میں گائے اب اس کے کچھ ہی گیت ہیں جو ہم سنتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔