خالدہ حسین اور فہمیدہ ریاض بالکل الگ مزاج کے تخلیقی وجودتھے مگرہم یہاں دونوں کو ایک ساتھ یا د کر رہا ہیں۔ فہمیدہ ریاض اپنے ترقی پسند نظریات میں راسخ شاعرہ، فکشن نگاراور مترجم، انسانی حقوق اور علی الخصوص حقوق نسواں کی متحرک کارکن۔ ایسی زندگی گزاری جو تنازعات میں گھری ہوئی تھی۔ ان کے اولیں پہلے شعری مجموعوں’’پتھر کی زبان ‘‘اور ’’بدن دریدہ ‘‘ سے ہی ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا۔جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف جد و جہد پر ستایا گیا تو بھارت چلی گئیں۔’’ دشمن ملک کیوں گئیں؟‘‘، شور اُٹھا تو ہم جیسوں کو بھی متاثر کرتا گیا۔ مولانا روم کو اُردو میں ڈھالنے والی اس بے مثال شاعرہ اور ادیبہ کو ان کی موت پر بھی نہ بخشا گیا اور اس کی ایک مثال یاسر پیرزادہ کا وہ کالم ہے جو ڈاکٹر سلیم اختر بمقابلہ فہمیدہ ریاض کے عنوان سے ۱۳ جنوری ۲۰۱۹ء کے جنگ میں چھپا تھا۔ کہہ لیجئے فہمیدہ ریاض کی زندگی تحرک اور ہنگامے کی زندگی رہی۔ خالدہ حسین اس گوں کی عورت نہ تھیں۔ راضی بہ رضا عورت۔ دکھ سہتی مگر شکوہ شکایت سے اور احتجاج سے گریزاں عورت، اپنی کہانیوں کے کرداروں کی طرح ایک بھید ہو جانے والی عورت۔ کسی نظریے اور کسی تنظیم کا پرچم نہیں اٹھایا، عورت ہو کر اور عورت پر لکھتے ہوئے بھی حقوق نسواں کی تحریک سے الگ تھلگ رہیں۔ گویا خالدہ حسین ایک ہنگامے کے مقابلے میں گھمبیر سکون تھیں۔ دونوں میں اگر کوئی اشتراک ہے تو یہ کہ دوں تخلیقی طور پربہت باکمال تھیں، دونوں نے بہت مشکل اور تکالیف سے بھری ہوئی زندگی گزاری، دونوں عمر کے آخری حصے میں بیماری کے دکھ سہہ کر ہم سے رخصت ہوئیں۔ فہمیدہ ریاض ۲۱ نومبر ۲۰۱۸ء کو اور خالدہ حسین ۱۱جنوری ۲۰۱۹ء کو۔ اس نشست میں مجھے ان دو باکمال عورتوں کی دوکہانیاں یاد آرہی ہیں۔ خالدہ حسین کی کہانی’’دادی آج چھٹی پر ہیں‘‘ اور فہمیدہ ریاض کی کہانی’’ جھنو کو چٹھی ملی‘‘، ان پر بات کروں گا مگر پہلے کچھ باتیں خالدہ حسین کے حوالے سے۔
۱۱ جنوری کی صبح صبح جب کشور ناہید نے ٹیلی فون پر رندھائی ہوئی آواز میں یہ تکلیف دہ خبر دی کہ’’خالدہ حسین نہیں رہیں‘‘تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ یوں نہیں ہے کہ میں اُن کی مسلسل بگڑتی ہوئی صحت سے آگاہ نہیں تھا،یا موت کی اس خبر نے مجھے اچانک آلیا تھا۔ واقعہ یوں ہے کہ میں لگ بھگ سوا ڈیڑھ سال سے موت کو ایک سائے کی صورت اُن کی جانب لپکتا دیکھ رہا تھا۔ اُن کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ dialysis پر تھیں اور روز بہ روز اُن کا وزن جھڑتا جارہا تھا۔ تاہم ایسا بھی ہے کہ اس دورانیے میں، جب جب ہمارا خالدہ حسین کی تیمارداری کی غرض سے ان کے ہاں جانا ہوا، ان کے سرہانے کوئی نہ کوئی کتاب ضرور دیکھی اور ہر بار لکھنا پڑھنا ہی ہماری گفتگو کا موضوع رہاہے، ان کی کتاب سے یہ محبت زندگی سے محبت کی علامت تھی۔ اور یہ بھی ہے کہ انہیں بیماری کے بارے میں بات کرنا اچھا نہ لگتا تھا۔ تاہم جس تکلیف اور اذیت سے وہ گزر رہی تھیں وہ ہم صاف محسوس کر سکتے تھے۔
مجھے یاد ہے کوئی سال بھر پہلے جب میں اور یاسمین ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، تو یاسمین نے محبت سے ان کی پیٹھ سہلانا شروع کر دی۔ وہ لگ بھگ گچھی مچھی ہو کر بستر بیٹھی ہوئی تھیں،تشکر سے یاسمین کو دیکھا اور پھر میری جانب دیکھتے ہوئے کہا :
’’شاہد صاحب میری خواہش ہے کہ آپ میری افسانوں کے نئے مجموعے پرلکھیں اور چھپنے کو دے دیں‘‘
وہ مجموعہ کوئی مرتب صورت میں نہ تھا، کچھ افسانے امینہ بی بی سے ملے کچھ آصف فرخی سے کچھ ان کے ہاں پڑے پرچوں سے نکل آئے۔ افسانے جمع ہو گئے، جو میں نے لکھنا تھا لکھ دیا اور انہیں ایک نظر دیکھنے کو دے آیا تو اگلی صبح ان کا فون تھا اور نقاہت بھری آواز میں میرا شکریہ ادا کیا اور پھر ان کے اس مجموعے کے افسانوں کے حوالے سے بات ہوتی رہی۔ کتاب مرتب ہوگئی تو کشور ناہید کے مشورے سے اس کا نام طے ہوا’’جینے کی پابندی‘‘۔ یہ نام خالدہ حسین کے ایک افسانے کا تھا اور کتاب کے نام کے طور پر انہیں بھی بہت پسند آیا تھا۔ پروف پڑھنے سے لے کر کتاب کی اشاعت تک کشور ناہید نے بہت مدد کی۔جب کتاب آگئی تو اُن کا فون آیا۔ ’’اپنی کتاب لے جائیں‘‘ میں نے یاسمین کو ساتھ لیا اورپھولوں کے گلدستے کے ساتھ ان کے ہاں پہنچ گئے۔ خالدہ حسین پر اسی طرح نقاہت طاری تھی مگر وہ خوش اور قدرے پرجوش تھیں انہوں نے مجھے کتاب کا جو نسخہ عطا۔میں نے اسے کھول کر دیکھا تو اس کے پہلے صفحے پر لکھا تھا:
’’نہایت ذہین نقاد اور افسانہ نگارحمید شاہد کے لیے،خلوص کے ساتھ۔خالدہ حسین‘‘
یہ الفاظ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھے۔
خالدہ حسین کا اپنا یہ خیال تھا کہ وہ اپنی کتاب ’’جینے کی پابندی‘‘ کے موضوعات اور ٹریٹمنٹ میں ایک تنوع لے کر آئی تھیں اور جاننا چاہتی تھیں کہ اس کے بارے میں ادبی حلقوں میں کیا رد عمل رہا۔ لہٰذا جب جب ملاقات ہوئی اس پر بات رہی۔ ایک بار یہ پروگرام بھی بنا کہ اس کتاب کے حوالے سے اکادمی ادبیات یا اسلامک یونیورسٹی میں ایک نشست رکھتے ہیں، وہ اس پر آمادہ بھی تھیں مگر ہم دیکھ رہے تھے کہ اب ان کے لیے ایسی کسی تقریب کے لیے بیماری کے بستر سے اترنا ممکن نہ رہا تھا لہذا ایک روز کہ جب آصف فرخی بھی اسلام آبا د میں تھے ہم سب ان کے ہاں پھول اورکیک لے کر پہنچ گئے۔ افتخار عارف، فتح محمد ملک، کشور ناہید، آصف فرخی اور میری بیگم یاسمین اور اپنی بیٹی یاسرہ کی موجودگی میں انہوں نے کیک کاٹا۔ سب نے انہیں مبارکباد دی اور کتاب کے حوالے سے بات کی، یہ سب انہیں اچھا لگ رہا تھا۔ اگر ان کے اعزاز میں کوئی آخری ادبی تقریب تھی تو وہ یہی نشست تھی۔ یوں تو اسی بیماری کے زمانے میں خالدہ حسین کے فن سے محبت کرنے والوں نے دو ایسی نشستیں رکھی تھیں جو بہت یاد گار رہیں گی۔ ایک اکادمی ادبیات پاکستان میں ان کے ساتھ نشست جس میں انہوں نے اپنے تخلیقی عمل حوالے سے بہت اہم باتیں کیں اور اپنا افسانہ معدن سنانے کے بعد کہا تھا کہ اس میں ان کا اپنے فن اور زندگی کے بارے میں نقطہ نظر بھی بیان ہو گیا ہے۔ دوسری تقریب آکسفورڈ والوں کا اسلام آباد لٹریچر فیسٹول میں ان کے افسانوں کے انتخاب کی رونمائی میں شرکت تھی۔ خالدہ حسین کے افسانوں کا یہ انتخاب آصف فرخی نے کیا تھا۔ مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ میں خالدہ حسین سے مکالمہ کروں۔ مجھے یاد ہے خالدہ حسین نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا:
’’میں ایک ایسے عہد میں پیدا ہوئی ہوں، جس میںبہت بڑے بڑے لکھنے والے،بہت بڑے بڑے مفکر اور اردو ادب میں بہت بڑے لوگ پیدا ہوئے ہیں اور میں بہت چھوٹی چیزوں کے بارے میں لکھتی ہوں۔ میں طبعاً ایسی ہی ہوں۔ شاید قدرت نے مجھے ایسا ہی پیدا کیا ہے کہ میں اپنے قریب کی چیزیں بہت تفصیل کے ساتھ دیکھتی ہوں اور دیکھنا چاہتی ہوں۔میری زندگی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے مل کر بنی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ میرے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی چیزوں کے پہاڑ ہیں اور میں انہی میں سے چیزیں چنتی رہتی ہوں، لیتی رہتی ہوں۔مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں نے کوئی بہت بڑے اور اعلی مقاصد پر نہیں لکھا، یا کوئی بہت بڑے آئیڈیلز پیش نہیں کیے، مگر میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ چھوٹا سوچنے والوں کے لیے اور چھوٹی چیزوں سے محبت کرنے والوں کے لیے بھی، اس دنیا میں جگہ ہونی چاہیے۔‘‘
جی یہ خالدہ حسین کے الفاظ ہیں۔ جی خالدہ حسین جو ایک زمانے میں خالدہ اصغر کے نام سے بھی لکھتی رہیں۔ جنہوں نے بہت توجہ کھینچنے والے افسانوں کے مجموعے،’’پہچان‘‘،’’دروازہ‘‘،’’مصروف عورت‘‘،’’خواب میں ہنوز‘‘،’’میں یہاں ہوں‘‘اور ناول’’کاغذی گھاٹ‘‘ سے فکشن کی دنیا میں اپنا الگ اور نمایاں مقام بنایا اور فکشن کا بڑا نام ہو گئیں۔ مگر جو بہت عاجزی سے اور دھیمے لہجے میں زندگی کے اور اپنے فن کے بھید کھول رہی تھیں۔ بیمارخالدہ حسین اور اپنے گھر میں لگ بھگ محبوس رہنے والی خالدہ حسین دو بہت بڑے سانحات سے گزری تھیں ان کے اکلوتے بیٹے اور ان کے شوہر نے اوپرتلے موت کی اوڑھ لے لی تھی اور وہ خود بیماریوں سے نبرد آزما تھیں مگر جن کا سب سے بڑا مسئلہ وجود ہو گیا تھا۔ وجود اور ایگزسٹینس۔آپ جانتے ہی ہیں کہ خالدہ حسین کے افسانوں کے پہلے مجموعے کا نام ہی ’’پہچان‘‘ ہے جب کہ اپنے افسانوں کے دوسرے مجموعے ’’دروازہ‘‘ کے آغاز میں انہوں نے لکھا تھا:
’’کہانی لکھنے کا عمل میرے لیے اپنے وجود کا رشتہ قائم رکھنے کی کوشش ہے، ان دو دنیائوں کے ساتھ جو میرے اندر اور باہر بہتی ہیں اوریوں مسلسل بہتی ہیں کہ دونوں کے بہائو ایک دوسرے میں مدغم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ تو جب مجھے اپنا وجود خطرے میں محسوس ہوتا ہے،میں اپنے آپ کو لکھنے پر مجبور پاتی ہوں۔‘‘
خالدہ حسین کے الفاظ دہراتا ہوں: ’’جب مجھے اپنا وجود خطرے میں محسوس ہوتا ہے،میں اپنے آپ کو لکھنے پر مجبور پاتی ہوں‘‘ تو گویا وجود، پہچان اور شناخت ان کا بنیادی مسئلہ رہا۔ مجھے یاد ہے خالدہ حسین نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا:
’’میرا اصل مسئلہ وجود ہے، ہستی ہے، ایگزسٹینس ہے۔ اور یہ ایگزسٹینس نام کی وجہ سے ہے یا وجود کی وجہ سے۔ کون سی چیز کس پر اثر انداز ہوتی ہے اور ہماری زندگی کو کسی ایک رخ پرلے جانے میں دونوں کا کیا ہاتھ ہے۔ یہ ایسے چھوٹے چھوٹے یا آپ کہہ لیں بڑے مسائل ہیں جو مجھے الجھاتے رہتے ہیں۔ ‘‘
وہ چھوٹے چھوٹے مسائل جو بہ قول خالدہ حسین کے اُنہیں اُلجھاتے رہے، وہ چھوٹے کہاں رہتے؟ وہ محض ایک وجود کا مسئلہ بھی نہیں تھے ؛اپنے جیسے وجودوںکی ایک پوری تہذیب کا مسئلہ ہوگئے تھے۔ ایک انٹرویو کے دوران میلان کنڈیرا نے فلپ روتھ کے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ قنوطیت اور رجائیت قسم کے الفاظ سے چوکنا رہتے ہیں اور یہ کہ ان کا فکشن کسی چیز کو منوانے پر اصرار نہیں کرتاکہ اس کا کام تو صرف جستجو اور سوال اُٹھانا ہے۔ خالد حسین کا افسانہ چوں کہ کسی نظریے، فکر اور آدرش کا پر چارک نہیں ہے لہٰذا ان فکریات یا مطالبات سے وابستہ قنوطیت یا رجائیت سے الگ ہو کر (مگر انسانی وجود سے جڑکر) جستجو کرتا اور سوال اُٹھاتا ہے۔ یہ جستجو اور مسلسل استفساربیانیے میں باریک کام کی صورت گندھ کرفکشن کی دانائی کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ خالدہ حسین کا بیانیہ اس دانائی سے مالا مال ہے۔
انسانی وجود سے جڑی فکشن کی یہ دانائی انہیں مسلسل ایک جستجو میں مبتلا رکھتی ہے۔وہ اپنے ایک افسانے میں اس سوال کے مقابل ہیں کہ بنیادی قضیہ وجودہے یا اس وجود کے ساتھ چپکا ہوا نام۔ اصل کیا ہے؛نام یا وہ جس کا نام رکھا گیا۔ کہیں کہیں یہ مسئلہ وجودی سے زیادہ مابعدالطبیعیاتی بھی ہو جاتا ہے۔ ہستی کیا ہے؟ محض ایک لفظ جو نام کی صورت موجود ہے، یا اس نام کے خول میں بھرا ہوا وجود۔ اور جب خول اُتر جائے تو شناخت کے ساتھ کیا سانحہ ہوتا ہے؟۔ یہاں عورت اور مرد کا الگ الگ وجود بے معنی ہو جاتا ہے تاہم انہوں نے اس سوال کے مقابل ہو کرجہاں جہاں عورت کے وجود کو رکھا ہے،پڑھتے ہوئے بدن پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ مثلاًان کا ایک افسانہ ہے ’’نام رکھنے والے‘‘۔ اس سے ایک دو سطریں مقتبس کرتا ہوں:
’’وہاں دہلیز میں کھڑے کھڑے اس کے پائوں سن ہونے لگے۔اُس نے دیکھا وہ بالکل کونے میں کھڑی ہے۔۔۔۔پھر جیسے اچانک ابا چونک پڑے
’’بھئی کمال ہے شاہ صاحب، آپ نے گھر کیسے ڈھونڈلیا۔‘‘
’’ہاں بھئی، یہ بھی کمال کی بات ہے۔ امداد غیبی سمجھ لو۔ اتفاق کہہ لو۔ کہاں ہے وہ۔ ہاں یہ بچی۔
ابا نے گھوم کر اسے دیکھا۔’’اور یہ بچی کون ہے!‘‘
وہ حیرت سے بولے پوری کائنات اس ایک سوال میں ڈوب گئی۔‘‘
یہ بچی کون ہے؟ یہ عورت کون ہے؟ بالادست مردوں کے اس معاشرے میں عورت ایک کونے میں کھڑی بچی ہو، نظروں کی انیوں پر ٹنگی لڑکی یا ایک عمر گزار کر بڑھاپے کی منزل کو چھو نے والی،اس کے وجود کے آگے ’’کون‘‘ کا بڑا سا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ یہیں خالدہ حسین کے افسانے ’’دادی آج چھٹی پر ہیں‘‘ کا پہلا جملہ سن لیجئے جو بچی کے ذہن میں اس کے باپ اور دادا نے انڈیلا ہے:
’’دادی دوزخ میں جائیں گی!‘‘
خالدہ حسین معروف معنوں میں فیمنسٹ نہ تھیں مگر عورت کا وجود اور اس کی اپنی شناخت ان کا مسئلہ رہا ہے۔ ذرا تصور کیجئے ایک عورت ہے جسے اپنی تخلیقی شناخت کے ساتھ زندہ رہنے کی للک ہے۔ خالدہ حسین اپنی اسی ہمزاد کی کہانی لکھنے کے ارادے سے پہلا جملہ لکھتی ہیں، تو اس فرسودہ خیالات کو عزیز تر رکھنے والے معاشرے میں عورت کے مقام کو بھی نشان زد کر دیتی ہیں۔بتاتا چلوں کہ جب میں نے پہلی بار اس جملے کو پڑھا تو چونکا تھا اور جب اس افسانے کی آخری سطر پر پہنچا تھا تو میرے جسم میں وہی کپکپی دوڑ رہی تھی، جو کہانی کے آغاز میں ٹیرس کی ریلنگ پر جھکی بچی کے بدن میں دوڑ گئی تھی۔بالکل مختلف اور بے رحم بیانیہ ؛ میں نے اپنے تئیں تخمینہ لگایا تھا۔ محض تخمینہ نہیں مجھے یقین ہو گیا تھا کہ یہ افسانہ اپنے بیانیے اور اسلوب کے اعتبار سے خالدہ حسین کے معروف افسانوں سے مختلف ہے۔ لگ بھگ ایسا ہی خیال مجھے ان کا ایک اور افسانہ ’’ابن آدم ‘‘ پڑھ کر آیا تھا۔ گویا اب میں کہہ سکتا تھا کہ خالدہ حسین محض ایک اسلوب کی اسیر افسانہ نگار نہیں ہیں۔ جس سہولت اور سفاکی سے وہ انسانی وجود کا ماس کاٹ کر اندر اُترتی رہی ہیں اور وہاں کلبلاتی سرسراتی بھیدوں بھری کائنات کے مقابل ہوتی رہی ہیں، اتنی ہی بے رحمی اور تخلیقی التزام کے ساتھ وجود سے باہر کی ٹھوس اور سفاک حقیقت سے بھی معاملہ کر سکتی تھیں اور کیا بھی۔ خالدہ حسین نے جس دادی کے دوزخی اور بدراہ ہونے کی خبر دی ہے اُن کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنی پوتی کو معروف موچی اور سندباد جہازی اور اڑن کھٹولوں کی کہانیاں سناتی ہیں، شاعری کرتی ہیں، لوگوں میں ان کا نام لیا جاتا ہے، اُن کی کتابیں چھپتی ہیں اور کبھی کبھار اخباروں میں ان کی تصویریں اور انٹرویو بھی آجاتے ہیں۔ایسے میں ان کا ہمیشہ صبح سویرے قرآن کھول کر پڑھنا جس میں ایک طرف عربی اور دوسری طرف انگریزی لکھی ہوتی، کون دیکھتا۔ ایک مرحلے پر اسی دوزخی دادی کا کہا ننھی پوتی کو یاد آتا ہے:
’’ ایک بار انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ آنکھوں کی کسی بیماری یا شاید سرجری کے بعد انھیں چھوٹی چیزیں بڑی اور بڑی چھوٹی چھوٹی نظر آنے لگی تھیں اس کے علاوہ دور کی چیزیں نزدیک اور نزدیک کی دور بھی چلی جاتی تھیں۔ یہ کہہ چکنے کے بعد وہ بچوں کی سی ہنسی ہنس دی تھیں۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ خود خالدہ حسین کے ہاں، چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بڑااور بڑی چیزوں کا چھوٹا نظر آنا کسی سرجری کا نتیجہ نہ تھا، جس نہج پر اُن کی تخلیقی شخصیت ڈھلی، ایسا اسی کا شاخسانہ تھا۔ میرے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے فرمایاتھا:
’’لکھنے والوں کو اپنے آس پاس کچھ ایسی چیزیں نظر آتی ہیں، جو دوسروں کو نظر نہیں آتیں۔ اس لیے وہ تنہائی کا شکار بھی ہوتا ہے اور دوسروں سے پوچھتا بھی ہے کہ کیا آپ کو بھی ایسا نظر آتا ہے؟ یہ جو مفاہمت ہے، ایک دوسرے سے بات کرنے کی کوشش ؛ یہی کہانی لکھواتی ہے۔‘‘
یہ وہ مفاہمت تھی جو خالدہ حسین کے ہاں وجود کے ایک مسئلے کی صورت کہانی بنتی رہی، ان کے اندر اُتھل پتھل مچاتی رہی، اُنہیںتنہا کرتی اور اُن کے تخلیقی وجود کو انگیخت کرتی رہی تھی۔ افسانہ ’’دادی آج چھٹی پر ہیں‘‘ کو بالکل مختلف اور بے رحم بیانیے والا افسانہ میں نے یوں کہا ہے، کہ اس افسانے میں خالدہ حسین اپنے اندر رسنے والے دُکھ کو ایک معصوم بچی کی آنکھ سے دکھایا ہے۔ جانے پہچانے منظر میں،دیکھے بھالے کرداروں کی صورت میں اور بدلے ہوئے جادوئی بیانیے میں۔
اب کچھ باتیں فہمیدہ ریاض کے حوالے سے، جن کے بارے میں کہہ چکا ہوں کہ ان کی زندگی ایک تحرک اور ایک ہنگامہ تھی۔ حقوق نسواں کے حوالے سے جو دو بڑے نام بلاجھجک لیے جا سکتے ہیں وہ کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض ہیں اور یہ ایسے نام ہیں جن کے بغیر انسانی حقوق اور بالخصوص حقوق نسواں کی جد جہد کا ڈھنگ سے تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔فہمیدہ فیمینسٹ تھیں، اس باب میں انہوں نے لکھا بھی بہت اور انہیں فیمینسٹ کہلوانا پسند بھی تھا۔
ایک انٹرویو میں فہمیدہ ریاض نے اپنی زندگی کے اولین دور کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے لکھنے کا آغاز محبت کے خطوط لکھنے سے ہوا تھا۔ بہ قول ان کے انہیں بہت چھوٹی عمر میں پڑوس کے ایک لڑکے سے عشق ہو گیا تھا، اسے وہ خط لکھتی رہیں اور رائٹر بن گئیں۔پھر لکھنے سے عشق ہو گیا تو اندر کی تخلیقی گرہیں کھلتی چلی گئیں۔ اسی مکالمے میں فہمیدہ ریاض نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب وہ سترہ اٹھارہ سال کی تھیں اور زبیدہ کالج حیدر آباد میں پڑھتی تھیں تو حیدر آباد ریڈیو پر فوجی بھائیوں کا پروگرام کیا کرتی تھیں۔ بعد میں بی بی سی سے منسلک ہوئیں توہر زبان کے لوگوں سے ملاقاتیں رہیں اور ذہنی افق وسیع ہوتا چلا گیا۔ فلم پروڈکشن کی ڈگری لی تو فلم سازی کی طرف بھی دھیان گیا تھا مگر راستے مسدود پائے تو قلم کی نوک کو تیز کر لیا۔ ادبی جریدے ’’آواز‘‘ کی مدیرہ رہیں، عملی زندگی میں حقوق نسواں اور انسانی حقوق ان کا علاقہ ٹھہرا۔ ’’پتھر کی زبان‘‘،’’بدن دریدہ‘‘، ’’کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے‘‘، ’’دھوپ‘‘،’’میں مٹی کی مورت ہوں‘‘،’’آدمی کی زندگی‘‘،’’گوداوری‘‘،’’خط مرموز‘‘ تو یوں ہے کہ تخلیقات کا ایک سلسلہ ہے جو فہمیدہ ریاض کی ادبی توقیر میں اضافہ کرتا گیا ہے۔
ان کی محبوب صنف سخن نظم رہی مگر فکشن میں بھی ان کاکام ایسا ہے کہ نظر انداز نہ کیا جا سکے گا۔ ان کے تخلیقی مزاج کو سمجھنے کے لیے ’’ قلعہ فراموشی‘‘ جیسا ناول دیکھا جا سکتا ہے جو قدیم ایران کی تاریخی شخصیت مزدک متن کے مرکز میں لے کرایک بہت بامعنی کہانی بیان کرتا ہے۔ قدیم ایران کے صوبہ خوزستان میں ایک قلعہ تھا ’’گیل گرد‘‘، تب بھی آج کل کی طرح لوگ غائب کر دیے جاتے تھے اور جسے انوش برُد کرنا ہوتا کہ لوگوں کی یادداشت سے بھی محو ہو جائے اسے قلعہ فراموشی میں بھیج دیا جاتا تھا۔ فہمیدہ ریاض نے تین ہزار سال کے وقت کے دھندلکے سے برآمد ہونے والی شہر سوس کی ایک عورت کی کہتاافسانہ ’’اَخِت جادِو‘‘ لکھ رکھا ہے اور کیاخوب لکھا ہے،یہ افسانہ ہو یا’’ خط مرموز‘‘ اور دوسرے افسانے توجہ اسیر کرتے ہیں۔تاہم یہاں مجھے اُن کی کہانی ’’جھنوکو چٹھی ملی ‘‘ پر بات کرنی ہے جو آصف فرخی کے جریدے ’’دنیا زاد‘‘ کے اگست ۲۰۰۷ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ لطف یہ کہ یہ کہانی ہم نے فہمیدہ ریاض کے سامنے بیٹھ کر، خود اُنہی سے سنی تھی۔عجب طرح کا دِل قابو میں رکھنے والا بیانیہ ہے اِس کہانی کا۔ بہ ظاہر یہ رتنیا کی بیل گاڑی پر قصبے سے گائوں آنے والی لاری کے اڈے سے پیلی مسیت تک اپنی ردی کی گٹھڑی کے ساتھ آنے والی جمیلن بوا عرف جھنو کی کہانی ہے مگر یہ مولوی کے حجرے میں داخل ہوتی ہے،سفید براق تہمد اور کرتے والے مولوی سمیت ہماری مذہبیت اور مردانگی کو کھنگالتی اور ہمارے دوغلے پن کا لبادہ تار تار کرکے ہمیں فکری سطح پر مفلس اور برہنہ دکھانے کی کہانی ہو جاتی ہے۔ پیلی مسیت کا مولوی برا پھنسا تھا ایک جمعے کے خطبے میں بڑی کتاب کی بے حرمتی پر گائوں والوں کو خوب خوب جوش دلایا تھا۔ اب من چلی ردی چننے والی جھنو فکر مندی سے، لفافے بنانے سے پہلے،اسے اپنی گٹھڑی کی ردی دکھانے آ جاتی تھی تو انکار کیسے کرتا۔تاہم مولوی بڑا چالاک اور مکار تھا ہر بار بیگار بھرتے ہوئے اپنی آنکھیں بھی سینک لیتا تھا۔ جھنوکا کردار فہمیدہ ریاض نے بہت محبت اور کمال ہنرمندی سے تراشا ہے۔ اپنے اوپر سوت پر سوت لے آنے والے شوہرکی لات کھا کر اس سے بھڑ جانے والا اور شوہر کے منہ میں جلتی لکڑی ٹھونس کر اگلی صبح اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر چنے کے ایک کھیت کنارے جھونپڑی بنا کر بس جانے والا۔بہ ظاہر بے آسرا کردار مگر اپنے آپ ترس نہ کھانے والاایسا باہمت کردار جس کی پیلی مسیت کے مولوی سے لے کر گائوں کی برادری کے چھوٹے بڑے لوگوں، کمیوں اور بنیوں، سب سے جان پہچان تھی۔ جھنو کی گٹھڑی سے دوتین لمبے کاغذ نکلتے ہیں تو مونڈھے پر بیٹھ کر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے اور وقفے وقفے سے شر میلی نگاہ سے جھنو کو دیکھتامولوی ٹھٹک کر انہیں غور سے دیکھنے لگتا ہے۔یہ وہ چٹھی ہے جو کہانی کا عنوان ہوئی ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی چھٹی، مالک اشتر کے نام۔ اس خط کی عبارت کو جس قرینے سے تخلیقی متن کا حصہ بنایا گیا ہے اور حکمرانی کے اصول سجھانے کو جس طرح مولوی اور جھنو کے مکالمے میں اسے بن ڈالا گیا ہے اس نے اس افسانے کو شاہکار بنا دیا ہے۔ جھنو کے لیے یہ چٹھی ایسی انمول متاع ہے جسے وہ اپنے پاس سنبھال کر رکھنا چاہتی ہے اور مولوی جو اپنے علم پر مغرور ہے چاہتا ہے کہ وہ اس اجڈ اور گنوار سے یہ مبارک عریضہ لے لے۔ یہیں سے کہانی میں ایک نئی چپقلش شروع ہوتی ہے اور ہماری سیاسی سماجی اور مذہبی صورت حال کی تظہیر ہو جاتی ہے۔ گائوں کی ایک عام بے آسرا لوگائی،جو دین کی ایک بات نہ جانتی تھی،ایک مبارک چھٹی کی محافظ ہو گئی تھی۔ تو یہ تھا فہمیدہ ریاض کے ہرے بھرے تخیل کا کمال۔ انہوں نے کسی مولوی، چوہدری، یا کسی مرد کے بجائے گائوں کی ایک بے آسرا مگر نٹ کھٹ لوگائی جھنو کو مبارک چٹھی کی محافظ بنایا۔ مولاعلی کی چھٹی کے ایک ایک لفظ پر ایقان رکھنے والی اورطعنوں، تکلیفوں اور پتھروں کی بارش برداشت کرکے بھی ازبر ہو چکی چٹھی کو فر فر دوسروں کو سنانے والی۔ وہ فضلو، کرشن، شبراتی یا سیدو کا باپ جو بھی سامنے آتا جھٹ چھٹی کے انقلابی الفاظ سنانے لگتی تھی؛
’’لکھت ہیں، کچھ تو ہیں مسلمان، اور دوجے، اللہ پاک کے بنائے تیرے جیسے ہنسان !، جیسا تو آپ ہے۔ جری فرق نہیں کر رہے۔‘‘
اس کہانی پر بات تمام ہوئی،نتیجہ خود اخذ کر لیجئے مجھے آخر میں یہ کہنا ہے کہ بہ ظاہر خالدہ حسین اور فہمیدہ ریاض کی یہ دونوں کہانیاں، ان دونوں لکھنے والیوںکے ہاں ان کے فن کی استثنائی صورتیں ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ خالدہ حسین کو ڈھنگ سے سمجھنا ہو تو ’’دادی آج چھٹی پر ہیں‘‘ پڑھنا ہوگی اور فہمیدہ ریاض کو سمجھنا ہو تو فہمیدہ کی لکھی ہوئی کہانی ’’جھنو کو چٹھی ملی‘‘ کہ یہ دونوں ایک سطح پر ان دونوں کی زندگیوں اور فن کی تفسیر بھی ہو گئی ہیں۔
(ایس ڈی پی آئی کے زیر اہتمام فہمیدہ ریاض اور خالدہ حسین کی یاد میں منعقدہ تقریب میں پڑھی گئی تحریر)
Leave a Reply