[blockquote style=”3″]
ایروٹیکا ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں بڑے فنکارانہ انداز کوئی جنسی کہانی یا قصہ تحریر کیا جاتا ہے، دوسری بعض بڑی اصناف کے ساتھ یہ بھی مغرب سے ہمارے یہاں درآمد ہوئی۔ اس صنف میں لیکن بدقسمتی سے سنجیدگی کے ساتھ کچھ زیاده نہیں لکھا گیا جبکہ اردو میں پھوہڑ اور غیر دلچسپ جنسی کہانیوں کی بہتات ہے، پہلی سنجیده اور قابل ﺫکر ایروٹیکا اردو کے اہم افسانہ نگار بلراج مین را نے لکھی جس کا عنوان تھا، ‘جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے’، اس کے بعد ابھی تک ایسی کوئی سنجیده کوشش نہیں دیکھی جا سکی ہے۔ تصنیف حیدر نے اسی صنف میں ایک ناولٹ لکھنے کا اراده کیا ہے جسے قسط وار لالٹین پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے
[/blockquote]
باب-5
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
انتباہ: اس تحریر کے مندرجات صرف بالغ افراد کے لیے ہیں۔
خاموشی کی ایک چھوٹی سی لہر ان دونوں کے درمیان رقص کررہی تھی۔ کچ کی نگاہیں خلا میں تھیں، اس نے یونہی اپنے ہونٹوں کو جنبش دی تو ہوائیں لفظ کے کٹے پھٹے پیرہن پہن کر باہر نکلنے لگیں۔صدر کو محسوس ہوا جیسے وہ آپ ہی آپ کچھ بڑبڑا رہی ہے۔اس نے کچ کے تلووں پر دو انگلیاں پھیرنی شروع کر دیں،ایک ذرا دیر میں کچ نے پیر پیچھے کھینچا تو نیل پالش کی شیشی بھی چٹ کی آواز سے نیچے بچھے ہوئے ایک کاغذ پر گرپڑی، صدر نے اسے اٹھایا نہیں، وہ ہلکے ہلکے باہر بہہ کر آتی ہوئی نیل پالش کو دیکھنا چاہتا تھا۔کچ نے کہنا شروع کیا۔
مجھ میں اور تم میں ایک عجیب و غریب فرق شاید یہی پایا جاتا ہو، کہ تمہیں کسی نے زبردستی چھوا، نوچا کھروچا تب بھی تمہیں خوشی حاصل ہوئی۔لیکن میں ایسا محسوس نہیں کرپاتی۔ مجھے صرف اور صرف ایک تمہارے جسم کی دستک پر اپنے بدن کے دروازے کھولنے کی خواہش ہوئی ہے ۔
‘مجھ میں اور تم میں ایک عجیب و غریب فرق شاید یہی پایا جاتا ہو، کہ تمہیں کسی نے زبردستی چھوا، نوچا کھروچا تب بھی تمہیں خوشی حاصل ہوئی۔ لیکن میں ایسا محسوس نہیں کر پاتی۔ مجھے صرف اور صرف ایک تمہارے جسم کی دستک پر اپنے بدن کے دروازے کھولنے کی خواہش ہوئی ہے۔ اس سے پہلے میں جتنی بار بھی چھوئی گئی ہوں، نوچی گئی ہوں۔وہ میری پسند کے خلاف تھا اور اس نے مجھے خوشی کا احساس نہیں دیا، بلکہ ایک نشہ کی یا خواب آور کیفیت میں ضرور ڈال دیا۔مجھے یاد ہے کہ جب میں چار پانچ سال کی تھی تو ایک دفعہ گھر کے باہر موجود ایک آئس کریم والے سے آئس کریم خریدنے پہنچی تھی، وہ پٹھانی شلوار سوٹ پہنے، گھنی مونچھوں اور ہلکی داڑھی کے ساتھ، اپنے پکے سانولے رنگ اور تگڑے بدن کو لیے ایک برگد کے نیچے بیٹھ کر برفیلی سوغاتیں بانٹا کرتا تھا۔دیکھنے میں ہنس مکھ تھا، لوگوں سے ٹھیک سے بات کرتا،خاص طور پر بچوں سے۔اس کے دل میں شاید بچوں کے لیے کوئی الگ ہی کشش تھی، میں بھی اس روز وہاں آئس کریم لینے دوڑتے ہوئے پہنچی تو میرا سانس چڑھا ہوا تھا، بال کندھوں تک جھولا کرتے تھے، شاید میرے پیسوں میں کچھ کمی تھی، کوئی سکہ کھوٹا تھا یا شاید کوئی سکہ غائب تھا۔اس نے مجھے بڑے پیار سے چھوا، میرے گال پر ایک ہلکی سی چٹکی لیتے ہوئےاپنی گود میں بٹھالیا اور آئس کریم نکال کر دے دی۔ میں خوش ہوگئی اور آئس کریم کھانے لگی۔۔۔آئس کریم کے ٹھنڈے نرم ذرات میرے منہ میں گھلے جارہے تھے اور میں اپنی حلق میں بہت الگ تازگی محسوس کررہی تھی۔دھیرے دھیرے مجھے محسوس ہوا کہ میری رانوں سے کوئی چیز ہلکی ہلکی رگڑ کھارہی ہے، جیسے کوئی ربر میرے بدن پر ملا جارہا ہو۔میں نے آئس کریم والے کی طرف دیکھا تو وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے جارہا تھا، اور ساتھ ہی ساتھ میرا سر سہلا رہا تھا۔لوگ سڑک پر آ جا رہے تھے، میرا بدن سن ہونے لگا اور اچانک ہاتھ سے آئس کریم بھی چھوٹ کر گرگئی۔اس وقت مجھے سمجھ میں ہی نہ آیا کہ کیا ہورہا ہے۔ایسا لگ رہا تھا جیسے بہت سی چیونٹیوں نے میرے شریر کو جکڑ لیا ہے، ان کی تاپ میں محسوس کرسکتی تھی، وہ تاپ اس پوری رات میں نے محسوس کی۔آئس کریم والے نے تو مجھے اسی وقت گود سے اتار دیا تھا، جب میرے ہاتھ سے آئس کریم گری تھی۔مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو میں نے بابا کے لائے ہوئے ایک موٹے سے تار کو اپنی رانوں سے چھوا کر دیکھا۔۔۔سب کچھ ٹھیک ہی تھا۔۔اور پتہ نہیں، کیسے وہ وقت گزر گیا۔لیکن آج بھی وہ رگڑ میرے بدن پر جیسے چپکی ہوئی ہے، اس رات جب تم میری رانوں کواپنے ہونٹوں کی حدت سے پگھلا رہے تھے، اس دوران وہ رگڑ کہیں غائب ہوگئی تھی۔وہ احساس کہیں نہیں تھا، بلکہ اس کی جگہ تمہارے ملائم ہونٹوں کی ایک دھندھک تھی جو مجھے محسوس ہورہی تھی۔پتہ نہیں کیوں مگر میرا دل چاہ رہا تھا کہ تم میرا اتنا حصہ چباجاو، دانتوں سے نہیں۔۔اپنے ہونٹوں سے۔میں یہ خود چاہتی تھی،میرا نچلا دھڑ بے رنگ پسینے اور سفید بوندوں سے بھررہا تھا، مگر مجھے وہ سب بہت اچھا محسوس ہورہا تھا۔ایسے جیسے تم نے میری رانوں پر کسی ہوئی وہ عجیب سی پٹی کھول دی ہے، جس نے میری نسوں میں خون روک لیا تھا، میری سانسوں، میرے خوابوں کو اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا۔’
کچ یہ کہتے کہتے وہاں سے اٹھی اور بالکنی میں جاکر کھڑی ہوگئی، باہر کا رنگ سرمئی ہورہا تھا۔معلوم ہوتا تھا جیسے آسمان کی نیلی آنکھوں میں ہواوں نے سرمہ لگایا ہو، آسمان پر کہیں دھوئیں کی ایک سیدھی لکیر بنی ہوئی تھی، ابھی ابھی کوئی راکٹ گاڑھا سفید دھواں اگلتے ہوئے اس سیدھ سے گزرا تھا، بالکل زندگی کی طرح، جو حادثات کے پیچھے ایک سفید گاڑھا دھواں چھوڑ جاتی ہے اورپھر بہت مشکل سے وہ دھواں مدھم پڑتا ہے، خاموش ہوتا ہے۔کچ کے بال کھلے ہوئے تھے ،اس کی ننگی کمر پر صدر نے ایک تتلی بنادی تھی، ایک سیاہ رنگ کی تتلی جو اس کے بدن کی خوشبو کو سونگھتے رہنے کے لیے اس میں جذب ہوگئی تھی، یہ وہ نشان تھا جو نہ پانیوں سے مٹتا، نہ حادثوں سے۔یہ کھال میں پیوست ایک پینٹر کی ایسی خواہش تھی جو اب کچ کے حواس سے کبھی جدا نہ ہونے والی تھی۔صدر نے پیچھے جاکر کچ کے بالوں کو ایک طرف کیا اور اس کی گردن پر بوسہ دیتےہوئے سرگوشی کی۔
‘وہ وقت تو گزر جا چکا ہے نا کچ۔۔کیوں اسے یاد کرکے آج کو بوجھل بنارہی ہو۔’
اس کی ننگی کمر پر صدر نے ایک تتلی بنادی تھی، ایک سیاہ رنگ کی تتلی جو اس کے بدن کی خوشبو کو سونگھتے رہنے کے لیے اس میں جذب ہوگئی تھی، یہ وہ نشان تھا جو نہ پانیوں سے مٹتا، نہ حادثوں سے۔
ٌتم نہیں سمجھوگے صدر! لڑکیوں کے لیے ان کی مرضی کے خلاف چھوئے جانا والا وقت کبھی نہیں گزرتا۔۔۔یہی تو ایک مسئلہ ہے۔۔۔میں چاہوں بھی تب بھی،اس میں کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ مجھے اتنی بار میری مرضی کے خلاف چھوا گیا ہے کہ ۔۔۔۔میں نے اپنی مجبوریوں کو ہی اپنی مرضی کا نام دے دیا۔’
صدر نے اسے اپنی طرف موڑا، اس کی آنکھوں میں پانی ٹمٹما رہا تھا۔صدر نے اس کی آنکھوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور اس پانی کو پی گیا۔پانی بہت نمکین تھا، بدن کے جس حصے میں بھی یہ پانی بنتا تھا، ضرور اس میں بلا کی تیزابیت ہوگی۔یہ صاف، سفید اور چھلکتا ہوا پانی، چاہے آنکھوں میں چھلک آئے یا بغل میں اتر آئے، گردن پربوندیں تراشے یا شرم گاہ کے پردوں سے باہر جھانکے۔اس کی تیزی اور کاٹ، اس کی روانی و رفتار کہیں متاثر نہیں ہوسکتی۔صدر نے کچ کے اوپری ہونٹ کو چوسنا شروع کر دیا۔ اس کے دونوں ہونٹ مل کر کچ کی اس ہلکی گلابی پرت کو کسی شریفے کے دانے کی طرح چوس رہے تھے۔ کچ کا ہاتھ بے ساختہ صدر کے بالوں میں تیر گیا، وہ اس پکڑ کو اور مضبوط بنانا چاہتی تھی۔
یہ تعلق کا ایک نامختتم کھیل تھا، جو روز صبح ان کے درمیان شروع ہوتا تھا،اور وہ اس میں رات گئے تک کسی نہ کسی بہانے سے ڈوبے رہنا چاہتے تھے۔اچانک کچ نے اچھل کر اپنی دونوں ٹانگیں صدر کی کمر میں ڈال دیں۔وہ ایک ذرا ڈگمگایا اور پھر اسے دیوار کا سہارا لینا پڑا۔لیکن یہ سہارا کام نہ آیا، وہ کچ کے ہونٹوں پر دھاریں لٹاتا ہوا، زمین پر گر گیا، اس کے منہ سے آہ نکلی، اس کی کمر میں ایک درد کی موج اچھل پڑی مگر کچ نے اس کا اثر نہ کیا۔ اس نے اپنی دونوں ٹانگیں صدر کے سینے پر رکھ دیں اور اب وہ جواباً صدر کی تھوڑی، اس کے گال، کان کی لو اور ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں داب رہی تھی، ان پر اپنے لعاب کی پھریریاں لٹارہی تھی اور اس کے بال صدر کے پورے چہرے پر گھنے درخت کی طرح چھائے ہوئے تھے، تھوڑی دیر میں صدر کا سینہ دفعتاًدکھنے لگا، مگر اس نے کچ کو بتانا مناسب نہ سمجھا، اسے اس درد کے باوجود کچ کا یہ جوابی حملہ ، یہ جنگلی پن بہت پسند آرہا تھا۔کچ کے پستان، اس کے گھٹنوں میں دبے ہوئے تھے اور ان میں ایک عجیب سخت گیر مہم چھڑ گئی تھی، کچ نے ان کی التجا پر کان دھرتے ہوئے، خود کو صدر کے بدن پر پھیلا لیا اور اس طرح، اس کی ننھی ننھی سوئیاں صدر کے سینے میں پیوست ہوگئیں۔صدر بار بار کوشش کررہا تھا کہ وہ کچ کے پستانوں تک کسی طور اپنے ہاتھوں کو پہنچا سکے، مگر کچ نے اس کے ہاتھ، اپنے گڑوئے ہوئے پنجوں کے نیچے سختی سے دبا رکھے تھے، ہونٹ گیلی ہواوں کے گھوڑے پر سوار تھے، ان پر اس وقت پوری طرح سے کچ کا شاہانہ بدن لدا ہوا تھا، اس لیے صدر نے بڑی مشکل سے اپنی خواہش کو لگام دی ہوئی تھی، وہ اس منظر سے نکل کر کچ کے پستانوں کی گرمی کو اپنے سینے میں اترتا ہوا محسوس کرنا چاہتا تھا۔
یہ تعلق کا ایک نامختتم کھیل تھا، جو روز صبح ان کے درمیان شروع ہوتا تھا،اور وہ اس میں رات گئے تک کسی نہ کسی بہانے سے ڈوبے رہنا چاہتے تھے۔اچانک کچ نے اچھل کر اپنی دونوں ٹانگیں صدر کی کمر میں ڈال دیں۔
ایک گہری خاموشی میں چلنے والے اس کھیل کی ساری داستان سانسیں لکھ رہی تھیں، سانسیں جو دو لوگوں کے نزدیک آنے کے خیال سے ہی وحشی ہونے لگتی ہیں۔جب طوفان تھما اور سانسیں مدھم پڑنے لگیں تو صدر نے کچ سے پوچھا۔
‘آخر ہم ایک دوسرے کا لعاب پی کر کیوں اچھا محسوس کرتے ہیں۔’
‘آخر ہم ایک دوسرے کا لعاب پی کر کیوں اچھا محسوس کرتے ہیں۔’
کچ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی تھی، اسے اس طرح کی باتوں سے الجھن ہوتی تھی۔وہ اس وقت اپنےتھکے ماندے بدن کی آغوش میں پڑی چھت سے جھولتے ہوئے ونڈ چائم کو دیکھنے لگی جو اس وقت ہلکی ہواوں میں موسیقی کی بڑی خوش کن لہریں پیدا کررہا تھا۔اس نے صدر کی طرف دیکھ کر کہا۔
‘کیوں کا کیا مطلب ہے۔ہم اچھا محسوس کرتے ہیں۔کیا یہ کافی نہیں ہے؟’
‘بالکل ہے۔۔میں تو بس ایسے ہی پوچھ رہا تھا۔اب بات کرنے کے لیے کوئی موضوع تو ہونا چاہیے۔۔’
‘ہمم۔۔لیکن خاموشی سے اچھا موضوع کیا ہوگا۔۔’
پھر دونوں واقعی خاموش ہوگئے۔اسی خاموشی میں نہ جانے کب انہوں نے کھانا بنایا اور کب کھانا وانا کھاکر فارغ ہونے کے بعد بستر پر اغل بغل لیٹ کر گہری نیند میں ڈوب گئے۔رات کا پتہ نہیں کون سا وقت ہوگا جب صدر کا موبائل بجنے لگا۔وائبریشن اس قدر تیز تھا کہ کچ کی آنکھ کھل گئی، لائٹ کو دیکھا تو ایسا لگا جیسے کوئی اس کی پتلی پتلی نرم اور سفید جھلیوں میں سیسہ انڈیل رہا ہو۔اس نے موبائل اٹھایا تو اسی نیت سے تھا کہ صدر کو دے گی، مگر اس کی جانب دیکھا تو وہ ہلکے کھلے منہ کے ساتھ اوندھا لیٹا نیند کی کسی اندھی کھائی میں پڑا ہوا تھا۔اس نے دھندلاہٹ میں موبائل سکرین پر پڑھا۔کسی ‘این’ کا فون تھا۔لیکن اس وقت؟ابھی شاید رات کے دس بجنے والے تھے، کچ وہاں سے اٹھی اور اس نے بالکنی کے پاس جاکر فون اٹینڈ کرلیا۔کسی لڑکی کی اس طرف سے آواز آئی۔
کچ کو اس وقت محسوس ہورہا تھا جیسے اس کے پستان پگھل کر زمین پر گررہے ہیں، کہیں سے کوئی دیوار اس پر کھل کر ہنس رہی ہے۔بہ
وہ دو تین بار ہیلو کرکے خاموش ہوگئی۔۔۔۔فون کٹ گیا۔تھوڑی دیر بعد صدر کے واٹس ایپ پر ایک وائس نوٹ آیا، ٹھیک اسی نمبر سے ڈائونلوڈ ہوتے ہی کچ نےفوراً پلے کے نشان پر انگوٹھا رکھ دیا، ایک کھنکھتی ہوئی آواز آرہی تھی۔
‘صدر! مجھے معاف کردو۔میں اس بار بھی تمہیں بتائے بغیر چلی گئی تھی۔۔۔لیکن میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا، میں نے خود کو بہت روکا، لیکن پتہ نہیں کیسے!مجھ سے ہو نہیں پایا۔۔۔۔اب میں جلد آرہی ہوں۔۔۔تمہیں سب کچھ ایکسپلین کردوں گی۔’
ایک عجیب جذبہ رقابت کچ کے سینے میں اچھل کر کھڑا ہوگیا اس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے وہ پیغام ڈیلیٹ کردیا۔کچ کو اس وقت محسوس ہورہا تھا جیسے اس کے پستان پگھل کر زمین پر گررہے ہیں، کہیں سے کوئی دیوار اس پر کھل کر ہنس رہی ہے۔بہت زیادہ ، وہ اس عجیب جذبے سے دوچار ہوتے ہی پریشان ہوگئی، اس نے بھاگتے ہوئے صدر کا فون ٹیبل پر رکھا اور زمین پر پڑی ہوئی اپنی بریئرزر اٹھا کر پہنی، اور دروزاہ کھول کر باہر نکل گئی، اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کہاں جائے۔وہ وہیں سیڑھیوں پر ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ اور اپنے بدن کو دیکھ دیکھ کر ہانپنے لگی، اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس نے وہ پیغام آخر کیوں ڈیلیٹ کیا، کیا اسے ایک دفعہ بھی صدر سے یہ پوچھنا نہیں تھا کہ وہ لڑکی، وہ ‘این’آخر ہے کون؟
مجھے یہ منظر تو دکھائی نہیں دے رہا تھا، مگر میں کچ کی سسکیوں کو سن سکتا تھا، باہر برسات شروع ہو گئی، پہلے ہلکی بوندا باندی ہوئی اور پھر اچانک دھاڑ پاڑ کی آوازیں آنے لگیں، کچ اپنے سینے کو دبائے شاید سیڑھیوں پر ہی سوگئی تھی، اس کا سمٹا سمٹایا بدن پتہ نہیں کیا سوچ رہا ہوگا۔صدر کی نیند کب ٹوٹے گی پتہ نہیں، مگر کچ کے اندر کچھ نہ کچھ ضرور ٹوٹ رہا تھا اور یہ موقع وہ تھا جب صدر اور کچ کو ساتھ ہونا چاہیے تھا، مگر رات گئے، شاید رات کے کسی ڈھلتے پہر صدر کی آنکھ کھلی تو کچ اس کے بغل میں نہیں تھی، باہر برسات ہوئے جارہی تھی، صدر نے بالکنی سے جھانکا، اپارٹمنٹ کی چاکلیٹی اور پیلی لادی اپنے کھیسوں میں پانی بھر رہی تھی۔ کچ؟ کہاں ہے وہ؟ صدر نے پورا گھر دیکھ ڈالا۔دروازہ کھولا؟
مجھے یہ منظر تو دکھائی نہیں دے رہا تھا، مگر میں کچ کی سسکیوں کو سن سکتا تھا، باہر برسات شروع ہو گئی، پہلے ہلکی بوندا باندی ہوئی اور پھر اچانک دھاڑ پاڑ کی آوازیں آنے لگیں، کچ اپنے سینے کو دبائے شاید سیڑھیوں پر ہی سوگئی تھی، اس کا سمٹا سمٹایا بدن پتہ نہیں کیا سوچ رہا ہوگا۔صدر کی نیند کب ٹوٹے گی پتہ نہیں، مگر کچ کے اندر کچھ نہ کچھ ضرور ٹوٹ رہا تھا اور یہ موقع وہ تھا جب صدر اور کچ کو ساتھ ہونا چاہیے تھا، مگر رات گئے، شاید رات کے کسی ڈھلتے پہر صدر کی آنکھ کھلی تو کچ اس کے بغل میں نہیں تھی، باہر برسات ہوئے جارہی تھی، صدر نے بالکنی سے جھانکا، اپارٹمنٹ کی چاکلیٹی اور پیلی لادی اپنے کھیسوں میں پانی بھر رہی تھی۔ کچ؟ کہاں ہے وہ؟ صدر نے پورا گھر دیکھ ڈالا۔دروازہ کھولا؟
وہاں دور دور تک، کہیں بھی کچ کا پتہ نہیں تھا۔آخر وہ اس شور میں کہاں غائب ہوگئی تھی۔صدر نے اسے ایک برسات میں پایا تھا اور دوسری میں کھودیا تھا۔
(جاری ہے)