Laaltain

استاد خبطی خیر آبادی (خیالی شخصی خاکہ)

27 نومبر، 2024
Picture of افتخار حیدر

افتخار حیدر

خبطی خیر آبادی ہمارے قریبی دوست اور کرم فرما ہیں، خبطی خیر آبادی کا خیر  سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا ریاض خیر آبادی کا شراب سے. ریاض کے بارے جوش ملیح آبادی نے یادوں کی برات میں جو کہا تھا وہ قابل بیان نہیں ہے البتہ استاد خبطی خیر آبادی کی شان یہ ہے کہ وہ رج کے سڑیل اور دل کے  تنگ ہیں. ڈیڑھ ہوشیار بنتے ہیں لیکن ہیں وہی جو ریاض کے بارے چوش نے کہا تھا.

فیس بک کی خواتین پہ رال ٹپکاتے ٹپکاتے گال پچک کر جبڑوں میں گھس چکے ہیں.

جس شاعر  سے ملیں بہت محبت سے ملتے ہیں اور اس کے اٹھتے ہی سامنے والے کو مخاطب کر کے کہتے ہیں

“ایہ وی پین…… کوئی شاعر اے ؟”

کسی شاعر  کو انٹرنیشنل مشاعرہ مل جائے یا کل پاکستان یا فیس‌بک پہ غزل پہ داد ان کا کام ہے جلنا جلنا مدام جلنا.

بات بات پہ کہیں گہ میں تو سرے سے شاعر ہی نہیں لیکن  یہی بات ایک دن میں نے کہہ دی تو سات آٹھ دن ان کے غضب کے خوف سے گھر سے نہیں نکل پایا .

ایک دن بوکھلائے ہوئے ملے کہنے لگے یار لوک پین…..  بڑے منافق نیں

عرض کی  ” کیہ ہویا استاد”

“یار میں غزل پوسٹ کیتی ٹوٹل ست کمنٹ تے یاراں لائیک ”

عرض کی خیر ہے استاد دنیا ہے چلتا ہے اور پھر ہوسکتا ہے آپ کی غزل میں ہی کوئی مسئلہ ہو.

کہنے لگے یار پھر کیا ہوا  میں بھی تو صبح سے شام تک ستر خراب  شاعرات اور تیس خراب شاعروں کو داد دے چکا ہوں.

ایک دن ایک شاعر کو نئے سوٹ میں دیکھ لیا چار پانچ دن پوچھتے رہے یار اس کا ذریعہ آمدن کیا ہے؟؟

کوئی نوجوان شاعر اچھی غزل سنادے تو  بگلے کی طرح گردن سے دستبردار ہوکر بیٹھے رہتے ہیں اور اس کے جانے کے بعد سانپ کی طرح پھن پھلا کر پھنکارنے لگتے ہیں

“ممکن ہی نہیں، اس کی یہ عمر ہی نہیں اس کو ضرور کوئی لکھ کے دیتا ہے، یار میری ساری عمر شاعری میں گزر گئی میں ابھی تک ایسے شعر نہیں لکھ پایا”

ڈرتے ڈرتے عرض کی استاد اس میں اس بچے کا کیا قصور ہے، ہتھے سے اکھڑ گئے، مزاج بگڑ گیا اور سانس بے ترتیب ہو گئی ازاں بعد یہ سب  گولڈ لیف کی پوری پانچ سو  والی ڈبی  اور ملائی مارکے دودھ پتی سے بحال کیا گیا.

عمر کے اس حصے میں بھی اتنے پکے ٹھرکی ہیں کہ گھر میں چائے ناشتہ صرف چھوٹی بہو کے ہاتھ کا قبولتے ہیں اگر کبھی غلطی سے بڑا بیٹا حصول سعادت کی غرض سے یہ فریضہ انجام دینے کی کوشش کرے تو اس کی مرحومہ ماں کو جی بھر کے یاد فرماتے ہیں.

یو ٹیوب کی وہ وڈیوز جن کے کیپشن میں لکھا ہوتا ہے

آخر تک لازمی دیکھیں

بندِ قباء کھلنے کی آس میں دیکھ دیکھ کر پھاوے ہوجاتے ہیں.

نوجوان بچیوں کی بھونڈی نثر کو نظم کا ارتقاء قرار دے کر ان میں سے حالات حاضرہ کے مسائل، گہرے سماجی شعور سے لیکر سیر و سلوک تک کی منزلیں دریافت کرلیتے ہیں.

بین السطور کے راستے  بین الستور تک جاتے جاتے نصف شب کب کی گزر چکی ہوتی ہے اور فجر کا تارا کہہ رہا ہوتا ہے

” بابا کچھ شرم کرلے”

عرق النساء سے کہیں زیادہ ٹھرک النساء کے درد میں مبتلا ہیں شنید ہے کہ سرائیکی علاقے کا کوئی گل محمد سپنا گل بن کے ایک زمانہ جذباتی اور مالی استحصال کرتا رہا ہے

لیکن یہ بات مانتے نہیں ہیں.

خواتین کے ساتھ ساتھ خوبرو لڑکوں پہ شفقت فرمانے کا بھی اچھا خاصا شوق ہے، کہنے لگے یہ ہمارے وطن مالوف خیرآباد سے ہمارے اسلاف کی روش ہے جو صلب در صلب ہم تک پہنچی ہے  اس کے  ہم امین ہیں اور اس میں مرتے دم تک خیانت یرگز نہ فرماویں گے گوکہ کراچی کی مرطوب آب و ہوا اس شوق کے لیے قطعی موزوں نہیں ہے.

تیسرا شوق جس کے لیے قتل ہوبھی سکتے ہیں اور کر بھی سکتے ہیں وہ زبان دانی کا ہے، اپنے علاوہ کسی کو اہل زبان کم ہی گردانتے ہیں لہذا بات بے بات پنجاب اور پنجاب کے اردو شعراء کو کوسنا مرغوب و محبوب مشغلہ ہے. ایک دن کہنے لگے فیض سے اچھی اردو تو کٹی پہاڑی کی چوٹی پہ رہنے والے پٹھان بول لیتے ہیں میں فیض اور مجید امجد جیسے درجنوں شاعر اورنگی ٹاؤن، لانڈھی اور ملیر کے گلی کوچوں سے درآمد کرسکتا ہوں، عرض کی استاد  خدارا انھیں کسی طرح در آمد کرکے کھوکھر اہار کے راستے انڈیا برآمد کرکے بدلے میں آلو لے لو.

بھڑک اٹھے گال  تمتمانے لگے بولے آگئے نا پنجابی پن پہ آلو لے لو، سالے آلو گوبھی، آلو مٹر، آلو پالک، آلو بینگن، آلو بھنڈی آلو دال، آلو گوشت کھا کھا کے رج نئیں ہوا کہ اب شعراء کرام کے بدلے بھی آلو ہی چاہئیں.

عرض کی استاد ہمارے پنجاب کا پانی ہاضم ہے لہذا آلو بکثرت استعمال ہوتے ہیں کہنے لگے آلو کا تو علم نہیں البتہ تمھارے پنجاب کا پانی واقعی ہاضم ہے اس لیے

پورا پاکستان کھا گئے ہو۔

شعر میں حروف علت کے گرانے سے اخلاقی گراوٹ کو بدرجہا بہتر سمجھتے ہیں، محسوس کیا جاسکتا ہے کہ بڑی ے کے گرنے کے دکھ کو یتیمی کے دکھ سے بڑا سمجھتے ہیں

ایطائے خفی پہ شور جلی تو اکثر ان کی پوری گلی سنتی ہے .

شعری نشستوں میں شرکت کو کسر شان سمجھتے ہیں البتہ اگر کسی نشست کا علم ہوجائے تو اس کے منتظم کی ماں بہن کے ناکردہ گناہوں  کو طشت ازبام کرکے  کم از  ہفتہ عشرہ سیاپا فرماتے ہیں کہ

سالے کو پورے شہر کے چپڑ قناتی یاد ہیں سوائے میرے.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *