وہ جو دور کھڑکی پہ لٹکی ہے دھوپ سے بچنے کو،
کسی نے بہت چاؤ سے کشمیر کی تنگ گلیوں سے
خریدی ہو گی
جانے خواہشوں کے کتنے چکور ،
انجان پہاڑوں سے اڑ کر،
اُس وادی میں آن بیٹھے ہوں گے
جہاں ایک نو بیاہتا بیوہ اپنے شہید شوہر کی یاد میں
لال پھول کاڑھتے کاڑھتے بوڑھی ہو گئی تھی
(وہ چکور دیواروں پر کبھی نہیں بیٹھتے
کیونکہ کشمیر کی دیواریں خاردار تاروں
اور کانچ کے ٹکڑوں سے گوندھی گئی ہیں
” لے کے رہیں گے آزادی” چیختے چیختے وہ بھی کبڑی ہو گئی ہیں)
جیسے کھڈیوں کی لَے کو شال کے دھاگے پہچانے ہیں،
پیچھا کرتی جیپ کی چنگھاڑ کو
بندوق کی گرم نالی سے نکلتی دھاڑ کو
اور اس آواز سے گونجتے پہاڑ کو
بھی شال کے دھاگے جانتے ہیں
اور اس آہ و بکا سے دور
جہلم کی مٹیالی سرگوشیوں سے پرے
اس شال کا تحفہ دیتے ہوئے اس نے سوچا ہو گا کہ شاید یوں یہ شال آزاد ہو جائے
اس کے ریشے، جاڑے کی ٹھنڈ میں، کسی سٹریٹ لائٹ کے نیچے ایک گداز جسم کو گرمائش پہنچائیں
پر وہ تو دور کھڑکی پر لٹک رہی ہے دھوپ سے پچنے کو
جیسے نئی نویلی دلہن ہو اور پہلے ہی دن
چپ چاپ رسوئی گھر میں چولھا جھونک رہی ہو

Leave a Reply