سلیم خوش تھا!
سلیم نے مصطفیٰ کے چہرے پہ ایک سگریٹ کا پف بکھیرا،
وہ کہہ رہا تھا “کہ زوبیہ مجھکو چھوڑ کر جا چکی ہے لیکن…”
تو مصطفیٰ نے یہ دل میں ہی مسکرا کے سوچا،
“خبیث وہ تیرے پاس کب تھی کہ چھوڑ جاتی..”
سلیم بولا ‘میں مانتا ہوں کہ میری پونجی سوائے الفت کے کچھ نہیں تھی مگر کہوں گا کہ اُس کے دامن میں جُز ندامت کے کچھ نہ ہو گا!
وہ کیسے خوش ہو کہ جس نے سرمایۂ محبت پہ زر کو ترجیح دی تھی آخر،
وہ کیسے خوش ہو کہ جس نے آسائشِ زمانہ کو جذبِ دل پہ رکھا مقدم
میں جانتا ہوں وہ خوش نہیں ہے!!
تمہیں پتہ ہے کہ اُس کو شاعر نے، تیرے بھائی نے ایسے چاہا کہ اُسکی آنکھوں پہ شعر لکھے اور اس کی زلفوں میں استعاروں کے، صنعتوں کے، ہزار شعری رعایتوں کے گُلاب ٹانکے!
کہ جس کے ہونٹوں نے شعرِ حافظ، کلامِ سعدی، رباعیاتِ جنابِ خیام کی سلامی سے داد پائی، مری زباں سے!
مرے قریباً سبھی فسانوں اور ایک ناول کی مرکزی لڑکیوں میں اُس کا ہی تو سراپا لکھا گیا تھا!
یہ تھوڑی عزت ملی تھی اُس کو؟ وہ کیسے خوش ہو کہ جس نے دولت کے واسطے یہ مقام کھویا؟؟
سُنو تو جانی! جو کیٹس شاعر کا دل نہ ہوتا، کسے پتہ تھا کہ کوئی فینی برون بھی تھی؟
جو حُسنِ سلمیٰ امر ہوا توکمال اختر کے شعر کا تھا جنابِ عالی!
یہ حُسن جو ہے یہ دستِ قدرت کا اک صدف تھا اور آدمی کو عطا ہوا تھا
مگر وہ کم عقل و بے بصیرت اس آبگینے کو بحرِ نسیاں میں پھینک بیٹھا
ہزار قرنوں کے بعد پھر ایک مردِ غوّاص ہی اسے جا کے ڈھونڈ لایا،
وہ کون تھا؟ مصطفیٰ! وہ شاعر تھا، شاعری تھی، قسم خُدا کی یہ حُسن اٹسیلف کچھ نہیں ہے!
اُسی کو لے لو، وہ میری ہوتی تو عشق مندر کی دیوی ہوتی
میں جانتا ہوں فرانس جا کر وہ ڈھل چُکی ہے، وہ کام کر کر کے تھک چکی ہے، وہ خوش نہیں ہے!
اور اُس کا شوہر، وہ جنرل احسان کا بھتیجا عدیل، ٹھگنا، حرامزادہ، فرنگیوں کی سی ڈاڑھی والا!
وہ شکل و صورت میں علم و دانش میں کیسے میرے مقابل آتا، وہ اُس حرامی سے خوش نہیں ہے!!
یقین مانو وہ میری ہوتی تو اب تلک نوجوان ہوتی،
مری محبت کی آبیاری پہ میرے شعروں کی کھاد پڑتی، قسم خدا کی کہ اُس سنہری بدن کی کھیتی میں طرب اُگتا، نشاط پھلتی، وہ تاقیامت حسیِن رہتی!
ادھر سے بیرے نے آ کے چائے کے پیسے مانگے،
سلیم نے مصطفیٰ کو دیکھا،
“قسم سے مُستے یہ میرا بٹوا بھی دیکھ لے تُو، پچاس پٹرول کے لگیں گے، پچاس ننھی کے پیمپروں کے لیے رکھے ہیں”
وہ جانتا تھا کہ پیسے تو مصطفیٰ ہی دے گا مگر یہ اپنی فلاکت و مفلسی کا رونا سناتے رہنے کی ایک عادت…
پر اس گھڑی تو سلیم خوش تھا.
(اور ایسے میں مصطفیٰ بھی خوش تھا کہ اُس کے جگری کا چار سالوں کا رانڈ رونا اب اک خوشی سے بدل رہا تھا)
سلیم خوش تھا، مزے میں تھا اور اپنی پنڈلی کھجا رہا تھا…
…………………..
اُسی گھڑی میں ہزاروں میلوں کے فاصلے پر، فرانس کے ساحلوں کا منظر…
کسی جگہ پر بغرضِ پکنک وہ ایک جوڑا جو سرخ چھت والی ہٹ کے پہلو میں ریت پر کینوس پہ لیٹا چمکتے سورج کی نرم کرنوں کو سینکتا تھا…
حسین لڑکی زرا سی کروٹ بدل کر اپنے میاں سے لپٹی ہوئی تھی، بولی؛ عدیل! کتنا کٹھن سفر تھا یہ تُم سے پہلے…
یہ زندگی کی تھکن تو میری ذلیل دشمن بنی ہوئی تھی… جو تُم نہ آتے تو میں اداسی سے مر چلی تھی…
اکیلے پن نے تو کیا کہوں میری شکل و صورت بگاڑ دی تھی،
جو تُم ملے ہو، نکھر گئی ہوں!
عدیل! دیکھو میں کتنی خوش اور شوخ چنچل سی ہو گئی ہوں.
جو تم نہ آتے تو میں تو چنیوٹ میں کہیں اک سکول ٹیچر کی موت مرتی… وہ دونوں بے اختیار ہنسے اور اس ہنسی نے، حسیِن لڑکی کی اس ہنسی نے دقیقے بھر کو تو اوقیانوس کی خموشی کو لمحے بھر کا شباب بخشا،
صدف کے خندہ لبوں نے لہروں کے مست پہلو میں گدگدی کی،
تمام یورپ دمک اُٹھا تھا!
عدیل! تم کتنے خوبصورت ہو، کتنے اچھے اور محبت کے دیوتا ہو کہ تم نے جنت بنا دیا میری زندگی کو!
حسیِن لڑکی مچل رہی تھی
“میں تم سے پہلے تو بس محبت سے بے خبر تھی…”
عدیل ہنسا،
“تمہارے شاعر سلیم راغب نے بھی محبت سے روشناسی نہیں کرائی؟”
وہ چھیڑ خانی کے موڈ میں تھا، حسین لڑکی بگڑ گئی پھر،
بہت بُرے ہو! تُم اُس کا طعنہ فقط ستانے کی غرض سے دے رہے ہو ورنہ تمہیں پتہ ہے کہ میرے جوتے کی نوک پر ہے!
کوئی مرے مجھ پہ مجھ کو کیا ہے،
ہزار لُچے لفنگے شاعر ہمارے کالج میں گھومتے تھے تو اس کا مطلب تو یہ نہیں ہے، عدیل چھوڑو! اُسے مرے نام سے نہ جوڑو!
بہت ہی بے کار آدمی تھا، خیالی دُنیا میں رہنے والا، کتابیں پڑھ پڑھ کے نیم پاگل سا ہو گیا تھا.
محبت اسکو کہاں تھی مجھ سے،
وہ بس محبت کا نام لے کر فضول باتوں میں یعنی شعروں میں مجھ کو رُسوا ہی کر رہا تھا،
عجیب بے شرم آدمی تھا!
جو مجھ سے پوچھو تو میں تو اُس کو ‘اِموشنل کَنٹ’ ہی کہوں گی،
وہ دونوں بے اختیار ہنسے اور ایک دوجے سے والہانہ لپٹ گئے اور اُن کے بوسوں نے سارے منظر میں اک گلیمر سا بھر دیا تھا…
حسین لڑکی بہت ہی خوش تھی،
عدیل خوش تھا،
سلیم خوش تھا…
… سلیم خوش تھا!
This is s masterpiece –
One Response
This is s masterpiece –