Laaltain

خالدہ حسین کے افسانے”ابنِ آدم” کا تاثراتی جائزہ

24 فروری، 2018
Picture of شین زاد

شین زاد

[blockquote style=”3″]

شین زاد نے لالٹین قارئین کو اس دور کے فکشن سے روشناس کرنے کے لیے ایک ادبی سلسلہ “کہانی میرے دور کی” شروع کیا ہے۔ اس سلسلے کی مزید تحاریر پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

[/blockquote]

ایک سوال پچھلے کچھ عرصے سے مستقل پوچھا جانے لگا ہے کہ نیا فکشن کیا ہے؟ یوں تو اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے کہ کسی بھی زمانے میں لکھا گیا اس زمانے سے جڑا ہوا فکشن اس زمانے کا نیا فکشن کہلاتا ہے۔ جیسے تقسیم اور فسادات کے زمانے میں لکھا گیا فکشن جو تقسیم اور فسادات سے جڑے موضوعات،اس وقت کے مصنفین کی ذہنی حالت اور اس زمانے کے سماجی و معاشرتی حالات کا آئنہ دار تھا وہی اس زمانے کا نیا فکشن تھا۔ آج کے سماجی اور معاشرتی حالات یکسر مختلف ہیں اس لیے آج کے نئے فکشن کو سمجھنے کے لیے آج کے عالمی منظر نامے اور فکشن نگار کے علاقائی منظر نامے کو سمجھنا بے حد ضروری ہے 11/9 کے بعد ایک اصطلاح سامنے آتی ہے دہشت گردی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالمی منظرنامے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور پورے عالمی سیاسی اور سماجی نظام کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیتی ہے جس سے عالمی ادبی منظرنامہ بھی یکسر بدل کر رہ جاتا ہے۔ جہاں مغرب کا ادیب نئے حسی تجربات سے کشید کیے گئے خارجی و داخلی احساس کو نئے تخلیقی جوہر میں پرو کر نئے سماج کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرتا دکھائی دیتا ہے وہاں اردو ادب سے وابسطہ پاک و ہند کے ادیب بھی نئی ادبی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالتے نظر آتے ہیں۔

پچھلے سترہ اٹھرہ سالوں میں دہشت گردی کے نام پر مسلط کی گئی جنگیں انسانیت کے لیے ایک گھمبیر مسئلہ رہی ہیں اور ان سے متعلقہ موضو عات پر ہر خطے کے ادیب نے قلم اٹھایا اور اپنا احتجاج قلم بند کروایا ہے اردو ادب میں بھی تقریباً ہرکہانی کار نے ان جنگوں سے متعلقہ موضوعات کو اپنا مشق ِ سخن بنایا ہے۔ ویسے تو ہر خطے کے قلم کاروں پر ان جنگوں کے اثرات بالواسطہ یا بلا واسطہ پڑے ہیں لیکن پاکستان کا ادب اور ادیب براہ ِ راست ان سے متاثر ہوا ہے کیوں کہ عراق اور افغان جنگ کے بعد دہشت گردی کا جیسے سیلاب ہی ہمارے ملک میں امڈ آیا ہے جس نے انفرادی اور اجتماعی قومی سوچ کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ کسی بھی علاقے کے ادب میں آنے والے بدلاؤ کو سمجھنے کے لیے اس علاقے کے ادب کو پڑھنا اور باریکی سے اس کا تجزیہ کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے ویسے تو یہ کام اُس ادب کے ناقدین کا ہے اور یہ انہیں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آج کے اردو ادب کا موازنہ عالمی ادب کے ساتھ پیش کریں اور تجزیات کے ذریعے ثابت کریں کہ اردو ادب اور خاص طور پر اردو فکشن آج کہاں کھڑا ہے۔

میں ایک عام قاری کی حیثیت سے کوئی تنقیدی مقالہ تو پیش نہیں کر سکتا لیکن یہ دعویٰ ضرور کر سکتا ہوں کہ ہمارا آج کا فکشن کسی بھی طرح نئے عالمی فکشن کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بس معاملہ اتنا سا ہے کہ اردو ادب کو دوسری زبانوں میں ترجمہ نہیں کیا جا رہا یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دوسری زبانوں کے ادب کو اردو زبان میں ترجمہ کرنے کے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ انفرادی سطح پر تو احباب کچھ کام کرتے ہی رہتے ہیں لیکن اس کام کے لیے سرکاری سطح پر نہ تو پاک میں اور نہ ہی ہند میں اقدامات کیے گئے ہیں۔

اب اگر مجھ سے کوئی کہے کہ اپنے دعوے کے ثبوت میں دلیل لاؤں تو میں اپنی دلیل کے لیے محترمہ خالدہ حسین کا افسانہ “ابنِ آدم” پیش کروں گا۔
(یوں تو یہاں میں بہت سے افسانوں کا ذکر کر سکتا ہوں جو میں آئندہ بہت سے افسانوں کے تاثراتی جائزوں میں کرتا بھی رہوں گا )

گو “ابنِ آدم ” امریکہ عراق جنگ کے تناظر میں لکھی گئی کہانی لگتی ہے لیکن مصنفہ نے اپنے کمالِ فن سے اسے ایسی آفاقیت عطا کر دی ہے کہ یہ کسی ایک فرد، کسی ایک خطے،کسی ایک ملک،یا کسی ایک براعظم کی کہانی نہیں رہی بلکہ یہ کل انسانیت اورکلی دنیا کی کہانی بن گئی ہے۔

افسانہ پُر اسرار انداز میں شروع ہوتا ہے اور قاری کو پہلی سطر سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے بالکل مکڑی کے جال جیسی گرفت جس میں قاری ہر آن تڑپتا پھڑکتا تو ہے لیکن اس گرفت سے آزاد ہونا اس کے بس میں نہیں رہتا۔ خالدہ حسین اپنے چھوٹے چھوٹے حسی تجربات سے کشید کیے گئے شدید احساسات کو اپنی کہانیوں میں یوں پرو دیتی ہیں کہ پڑھتے ہوئے قاری کو وہ اپنے ہی حسی تجربے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ تیزی سے گزرتے وقت میں پے در پے رو نما ہوتے حالات و واقعات سے پیدا ہونے والی یقین و بے یقینی کی کیفیت کو جس چابکدستی سے کہانی میں گوندھا گیا ہے پڑھ کر طبیعت عش عش کر اٹھتی ہے۔۔۔

“ہیلی کاپٹر کا جسیم پنکھا ابھی بند نہیں ہوا تھا اور چاروں سمت ریت اڑ رہی تھی اور شاید اس پنکھے کے بند ہونے کا کوئی ارادہ بھی نہ تھا۔ مگر نہیں، ہوسکتا ہے یہ رک چکا ہو اور وہ اسے چلتا ہوا دیکھ رہا ہو کیوں کہ اب واقعات مسلسل ہوتے رہتے تھے۔ جیسے آنکھ پر کسی شے کی منفی تصویر بہت دیر تک جمی رہ جائے۔”

بظاہر یہ کہانی ایک جہادی تنظیم کے گرفتار کیے گئے چند مجاہدوں کے گرد گھومتی ہے لیکن پس ِ متن قابض فوج اور اسکے پر آشوب رویے کا پردہ چاک کرتی چلی جاتی ہے۔ اس فوج کے اس علاقے میں ہونے اور اس کے پیچھے محر ک سوچ کو سمجھنے کے لیے صرف ایک جملہ کافی ہے جسے مصنفہ نے بڑی ہی سہولت سے کہانی میں جڑ دیا ہے اپنے احساسات پر لگنے والی اس کاری ضرب کو قاری اپنی روح تک محسوس کیے بنا نہیں رہ پاتا۔
“آخر یہاں پر ایسا کیا مسئلہ پیش آ گیا ہے”؟ ماہر نے سکریٹ منہ میں دبائے دبائے کہا۔”ہم اس کمبخت نحوست مارے ریگستان میں اس لیےتو خوار نہیں ہو رہے کہ یہ حشرات الارض ہمیں پاگل کر دیں۔ کچھ ہے کوئی بڑی پُر اسرار شیطانی قوت جو ان کے اندر مرتی ہی نہیں۔ ہم جو خواب دیکھتے ہیں نا کہ آدمی مر کے بھی نہیں مرتا، چند ثانیے مرنے کے بعد پھر اچھا بھلا اٹھ بیٹھتا ہے اور گلا دبانے کو ہمارا پیچھا کرتا ہے تو یہ اس ریگستان کا نائٹ میئر ہے”۔

یعنی وہ فوج جس زمین پر قابض ہے اس میں بسنے والے اس کے لیے حشرات الارض ہیں یہی وہ سوچ ہے جو ان بڑی عالمی قوتوں کے ذہن میں پنپ رہی ہے جس کے زیرے اثر بڑی عالمی قوتویں اپنے زیرِ تسلط آ جانے والوں کو انسان ہی نہیں سمجھتیں اگر دیکھا جائے تو حقیقتاً یہ عراق پر امریکہ کی بہیمانہ جنگی جارحیت تھی جس نے ایک پوری قوم اور اس کے تشخص کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا خالدہ حسین نے جنگ سے پیدا ہونے والے انسانی المیے کو افسانے کا موضوع بنایا ہے اور سماجی اور معاشرتی سطح پر جنگی جبر سے پیدا ہونے والی صورت ِ حال سے انسانوں کی زندگیوں میں آنے والے اتار چڑھاؤ کو جس خوبی سے کرداروں کا روپ دیا ہے اس کی داد کے لیے میرے الفاظ کم ہیں کرداروں کی تحلیل ِ نفسی کی جائے تو مختلف کرداروں پر اس جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کے اثرات کا مختلف ہونا بعید از قیاس نہیں آئیے یہ حالات کرداروں پر کیا کیا اثر ڈالتے ہیں اور ان کے رویوں میں کیا کیا تبدیلیاں رو نما ہوتی ہیں ان کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ امین کا کردار معاشرے میں لالچی، خود غرض دنیاوی ذلت بھری زندگی کو انسانی خودی پر فوقیت دینے والے انسانوں کا نمائندہ ہے جو اپنی نام نہاد محبت میں ناکامی اپنی سہل پسند طبیعت،اپنی حرص و ہوس اور اپنی جینے کی بےکار سی خواہش کے زیر ِ اثر دشمنوں سے مل جانے اور اپنوں کے خلاف کام کرنے اور دشمنوں کے آلہ ء کار بنے کو درست سمجھتا ہے اور اس کے لیے بھونڈے جواز خود ہی گھڑتا چلا جاتا ہے ایسے کردار عام زندگی میں بھی ہر معاشرے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔۔۔

“ابو حمزہ!مجھے تم پر حیرت ہوتی ہے۔ اس قدر توہم پرست ہو۔ ڈاکٹر ہو کر بھی تم ایسی باتوں پر یقین رکھتے ہو۔یہ کچھ بھی نہیں۔ ساری دنیا معصوم لوگوں کے خون سے لبریز ہے۔ انسانی تاریخ ہے ہی یہی کچھ۔کس کس نے بد دعا نہ دی ہو گی اور یہ دعا بد دعا آخر ہے ہی کیا؟”

“مگر ضروری نہیں، موت ضروری نہیں،ہر گز نہیں۔ زندہ رہنا زیادہ قرینِ قیاس ہے زیادہ فطری ہے۔ اس کے اندر کسی نے کہا تھا اور وہ بے حد شرمندہ ہو گیا تھا۔ اس نے پھر سوچا، یہ بزدلی اس میں کب اور کس طرح پیدا ہو گئی۔ شاید یہ موروثی ہے۔”

کیا بھونڈا جواز ہےیہ صرف جینے کی خواہش کی تکمیل کے لیے۔ اور جینا بھی کیا صرف جسمانی آسائش اور بھیک کے چند نوالے امین کے لیے درد اور تکلیف کے معنی بدل ڈالتے ہیں

“وہ لمحہ عجیب تھا۔یقیناً کھال کا ادھڑنا، ناخن کا اکھڑنااور نازک مقامات کوکچلا جانا بہت غیر ضروری ہے۔یقینا! تر و تازہ روٹی اور جسم کی آسائش بہت ضروری ہے۔ سب سے ضروری۔”

اس کی یہی سوچ اسے ذلت بھری زندگی کی کھائی میں اتار دیتی ہے جہاں زندگی کا آفاقی تصور کچھ نہیں رہتا زندگی سے جڑے سارے حقیقی تصورات ایک انسان کے لیے محض تصور ہی رہ جاتے ہیں۔

” جبریل الامین، کتنا غلط نام تھا اس کا۔” یہ بھی اس نے سوچا، مگر امانت اور خیانت۔۔۔۔یہ بھی محض تصورات ہیں جب کہ جسم اور حواس اور ان کی آسودگی حقیقت۔”

خالدہ حسین نے انسانی نفسیات کے علم سے مکمل آگہی اور اپنے فنی تجربے سے اس کردار کو یوں گھڑا ہے کہ یہ ذلت بھری زندگی اور گھٹیا انسانی سوچ کی علامت بن گیا ہے۔۔۔جب کہ اس کے بر عکس ایک کردار لیلٰہ کا ہے ریاستی جنگی جبر اور اپنے معصوم لوگوں کے ساتھ کیا گیا الم ناک سلوک اس کی سوچ کو یکسر بدل کر رکھ دیتا ہےاورحب الوطنی اور اپنوں کی خاطر جان نثاری کا جزبہ اس کے اندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔

” اس وقت لیلیٰ اپنی کمر کے گرد وہ بیلٹ باندھ رہی تھی۔ ’’مگر اس سے حاصل کیا ہو گا۔ تم خود اور کچھ وہ … اور یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کیسے اور کتنے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی دوسرے بے فائدہ قسم کے لوگ ہوں جو اس دھماکے کی لپیٹ میں آ جائیں اور سب سے بڑھ کر تمہاری بہن اور بابا کو اس کا کچھ فائدہ نہ ہو گا؟‘‘ اس نے لیلیٰ سے کہا تھا۔

’’ ان کو تو اب کسی بات سے کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ ‘‘ لیلیٰ نے جواب دیا تھا۔ ’’مجھے معلوم ہے اب سکینہ اگر زندہ ہے تو کس حال میں ہو گی اور میرا باپ…!‘‘ وہ خاموش ہو گئی۔

’’کیا تم چاہو گے کہ میرا بھی وہی حال ہو جو سکینہ کا ہوا؟‘‘
’’ نہیں نہیں !‘‘ اس نے فوراً کہا تھا اور پھر خود اٹھ کر اس کی ڈیوائس سیٹ کرنے لگا۔ لیلیٰ بالکل پرسکون تھی۔ اس نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔ اس وقت اس میں ایک نرم گرماہٹ تھی۔ اس کی بھوری آنکھیں اور بھی گہری نظر آ رہی تھیں۔”

یہ تو خالدہ حسین کا ہی خاصہ ہے کہ ایک ہی افسانے میں زندگی کے بارے مختلف کرداروں کے مختلف نظریات کو یک جا کر کے پیش کیا ہے اور بین المتن ایسا معنیاتی نظام ترتیب دیا ہے جس نے اس فنپارے کو آفاقیت عطا کر دی ہے۔ایسے فنپارے بے شک کسی بھی زبان میں تخلیق کیے گئے ہوں وہ ہیں در اصل کل انسانی سماجی رویوں کے آئنہ دار اور نمائندہ۔ اور یہ افسانہ تو ہے ہی مثال کی حد تک خالدہ حسین کی فنی مہارت، مشاہدے اور علم کا عکاس جسے صدیوں یاد رکھا جائے گا۔

یوں تو اس افسانے کا ہرکردار ہی اپنی جگہ طویل بحث کا متقاضی ہے کہ ہر کردار میں خالدہ حسین کا تخلیقی عنصر اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے لیکن اس کہانی کا وہ متحرک کردار جس نے مجھے اس شکست و ریخت سے گزارا جس نے خالدہ حسین کو ایسا شاہکار کردار تخلیق کرنے پر مجبور کیا ہو گا۔ ابو حمزہ جو کسی صورت سماجی جنگی جبر کے آگے جھکتا نہیں جو ہر صورت ان استبدادی قوتوں کے خلاف اپنا احتجاج درج کرواتا ہے پھر چاہے وہ احتجاج موت کی ہی صورت کیوں نہ ہو۔جس شخص کے لیے زندگی خودی اور وضعداری کا نام ہے لیکن بصورت ِ دیگر موت، زندگی سے زیادہ اعلٰی و عرفہ شے بن جاتی ہے۔جنگی جبر اور سماجی ادھیڑ بُن ایک انسان کے اندر ایسی گھٹن اور حبس پیدا کردیتے ہیں کہ پھر اس کے لیے زندگی کے مقابلے میں موت بہتر انتخاب بن جاتی ہے۔ خالدہ حسین نے اسے جس خوبصورتی سے نقش کیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل لگتا ہے۔۔۔۔

” ابو حمزہ اس روز اپنے آپ کو خودکش حملے کے لیے تیار کر رہا تھا۔ لیلیٰ اور قدوس بھی وہیں تھے۔ وہ اس تباہ شدہ عمارت کی چھوٹی سی کوٹھری میں تھے جو ملبے میں گھری نظروں سے اوجھل تھی۔ اس روز وہ بڑی مشکل سے روٹی کے چند پھپھوندی لگے ٹکڑے کوڑے کے ڈھیر پر سے چن کر لایا تھا۔ وہاں سب اپنے اپنے ٹکڑے ٹھونگنے کی کوشش کر رہے تھے۔

لیلیٰ کے رخسار پر ایک لمبا گہرا شگاف تھا۔ ایک بم دھماکے میں شیشے کا ٹکڑا پیوست ہو گیا تھا۔ ابو حمزہ نے اپنی ڈائی سیکشن کی چمٹی سے اسے نکالا تھا۔ لیلیٰ کے ہاتھ تکلیف کی شدت سے بالکل برف ہو رہے تھے اور پورا جسم کانپ رہا تھا۔ اس روز اس کے باپ اور چھوٹی بہن ہنکا کر لے جائے گئے تھے۔ حالانکہ وہ سب در اصل ابوحمزہ اور لیلیٰ کی تلاش میں تھے۔ دہشت گردی کے نام پر محلے کے محلے زندانوں میں ٹھونس دیے گئے تھے۔ اس سے پہلے انہیں کب خبر تھی کہ زندان آبادیوں سے زیادہ بڑے ہیں۔ یوں بھی ان کے نزدیک جانے کی کسی کو اجازت نہ تھی۔

ابو حمزہ نے پھپھوندی لگی روٹی کی ایک چٹکی منہ میں ڈالی اور اسے ابکائی آ گئی۔

’’ اس میں تمام بیکٹیریا بھرے ہیں۔ اس سے مرنے سے بہتر ہے کہ آدمی بہتر موت کا انتخاب کرے۔ ‘‘
“صدیوں سے قدرت یہ منصونہ بنا رہی تھی۔ صدیاں تو اس کی تقویم میں چند ایک ثانیوں سے زیادہ نہیں۔یہ زمین بے گناہوں کے خون سے سیراب ہوتی چلی آئی ہے۔ اس کو دی گئی بد دعا حرف ِ سچ ثابت ہو رہی ہے”

“میں بھی نہیں مانتا تھا مگر اس زمین کی ہوائیں بین کرتی ہیں اور کرتی چلی آئی ہیں۔ یہاں کی زمین سیال سونا اُگلتی رہے۔ اس سے کچھ نہیں ہوتا۔فاقہ اور جبر یہاں کی نسلوں پر لباس کی طرح منڈھ دیے گئے ہیں۔ اس وقت میرا مسئلہ صرف اپنے حصے کا احتجاج ہے۔ایک بہتر موت کا انتخاب کر کے۔”

یہ کردار ہر دو صورتوں میں آفاقی معنویت کا حامل ہے جب یہ آزاد ہے اپنے فیصلے کرنے میں اور اپنے قول و فعل کے لیے کلی طور پر ذمہ دار ہے تب بھی یہ اخلاق کی بلند سطح پر نظر آتا ہے حالات کا جبر اور سماج کی بدلتی صورت اس کی آدمیت اور آفاقی سوچ کو مسخ نہیں کر پاتی۔

“امین !جبریل الامین۔” اس نے پرانے وقتوں کی طرح بڑے دُلار سے کہا،”لو ہماری تصویر بناؤ اور ہمارے بعد اسے میڈیا پر پہنچانا کہ ہم اس وقت کتنے خوش تھے۔”
اس کا صبر واستقلال اور استقامت اس وقت بھی دیدنی ہوتا ہے جب وہ دشمن کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور ظلم اور تذلیل کی شدید آگ سے گزار دیا جاتا ہے۔

“اس کے ہاتھ میں ایک موٹا پٹّاتھا اور پٹّا ایک متحرک وجود کے گلے میں تھا اور وہ وجود معلوم نہیں کون تھا۔آدمی یا سنگ، معلوم نہیں مگر وہ چار ہاتھوں پاؤں پر چلتا تھا۔ کتے سے بڑی جسامت، بالکل برہنہ۔اس کی برہنگی چوپائے کی مانند عیاں تھی”

“اس کا منہ تھوتھنی کی طرح سامنے اٹھا تھا اور جھاڑ داڑھی لٹکی تھی (کیا کتوں کی راڑھی ہوتی ہے؟ اس نے یاد کرنا چاہا)۔” فوجن زور زور سے پٹّے کو جھٹکا مارتی تھی اور چوپائے کی گردن گھوم گھوم جاتی تھی۔پھر وہ ایک زور دار ٹھڈا اپنے ایڑی دار فوجی بوٹوں کا اس کے پچھلے دھڑ پر رسید کرتی اور فاتحانہ نظروں سے مجمعے کی طرف دیکھ کر دوسرا ہاتھ لہراتی۔”

“اب ماہر، افسروں کی قطار سے نکل کر باہر آیا۔ اس نے فوجن کی طرف ہاتھ کی دو انگلیوں سے وی کا نشان بنایا اور نعرہ لگایا۔
“براوو۔۔۔۔جاری رکھو۔”فوجن اپنی تعریف پر اور بھی مستعد ہوگئی۔ پھر ماہر نے سب کی طرف فخریہ دیکھا اور پکارا اور وہ جس کے گلے میں پٹّا تھا، اس کی طرف اشارہ کیا۔ پھر اپنا بھاری بوٹ اس کی تھوتھنی پر رسید کیا۔

“سگ،سگ،کلب،کلب،بھوں،بھوں۔”اور آدھا ہنسا جب کہ ادھا خاموش رہا۔پھر ماہر نے اشارہ کیا اور بہت سے فوٹوگرافر دوڑے دوڑے آئے ہر طرح کے کیمروں سے لندے پھندے۔پھر دو فوجی بیچ میدان کے آئے اور انہوں نے اپنی پینٹوں کی زپیں کھولیں اور اس چوپائے پر اپنا مثانہ خالی کرنے لگے اور وہ چوپایا اس متعفن سیال کے نیچے چاروں ہاتھوں پاؤں پر کھڑا تلملانے لگا۔اپنا سر، منہ، آنکھیں بچانے کے لیے۔

تشدد،رسوائی اور ذلت کی اس بد ترین سطح پر لے آنے کے باوجود دشمن نہ تو اس سے کوئی راز ہی اگلوا پاتا ہے اور نہ اپنے لیے رحم اور زندگی کی بھیک ہی منگوا پاتا ہے یوں یہ کردا ر انسانی عزم و ہمت کی آفاقی علامت بن جاتا ہے۔اور افسانے کے پورے ڈسکورس کو ایک بڑے تخلیقی تجربے میں ڈھال دیتا ہے۔ جس کی داد آنے والے زمانے دیتے ہی رہیں گے۔

“آدمیت ختم کرنا بھی ایک ہنر ہے اور جب تک تم آسمیت ختم نہ کر دو گے،کمزور سے کمزور بھی تمھیں تنگ کرتا رہے گا۔تمہارا جینا حرام کردے گا،دیوانہ کر دے گا۔”

ماہر کی گفتگو ٹکڑوے ٹکڑوے اس تک پہنچ رہی تھی۔وہ باقیوں کو بتا رہا تھا کہ تفتیش اور راز اگلوانے سے پہلے اب لوگوں کو کنڈیشن کرنا ضروری ہے۔ اور اس کے لیے ان کی آدمیت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔دراصل آدمی میں خود آدمیت ہی سب سے بڑا فساد ہے۔اور اس نسل میں تو خاص طور پر۔”

یہ وہ سوچ ہے جس پر شدیدضرب لگاتا ہے یہ افسانہ۔خالدہ حسین یہ جملے فوجی کے منہ سے کہلواتی ہیں اور پھر پورے ڈسکورس کو اس سوچ کے بر خلاف یوں بنتی ہیں کہ افسانے کے اختتام پر قاری سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہاں در حقیقت کس کی آدمیت ختم ہوئی ہے اور وہ اصلاً کُتا بن گیا ہے اور کون آدمیت کے اعلٰی ترین معیار پر قائم و دائم ہے بے شک ایسی تخلیقی کاریگری اور ہنرمندی سے ایسا شاہکار افسانہ تخلیق کرنا خود اپنی جگہ ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔میں محترمہ خالدہ حسین کے اس افسانے ” ابن ِ آدم” کو اکیسویں صدی میں لکھے گئے شاہکار افسانوں میں شمار کرتا ہوں اور اسے نئے فکشن کی دلیل کے طور پر پیش کرتا ہوں مصنفہ کے لیے مبارک باد کہ انہوں نے ایسا فن پارہ تخلیق کیا۔ میں اس فنپارے کو پڑھنے اس کے تخلیقی جوہر کو اپنے اندر اترتے ہوئے محسوس کرنے اور اس پر اپنے تاثرات پیش کرنے کو اپنا فخر سمجھتا ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *