گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
سب لیفٹیننٹ شہلاحسن کے سوا تمام خاتون افسروں نے سفید سکارف پہن رکھے تھے اور وہ ہمیشہ کی طرح پلاٹون کے سامنے کھڑی تھی۔
پیر کی صبح پریڈ گراونڈ میں معمول سے زیادہ رونق تھی۔ زیر تربیت کلاسیں بھی پلٹونوں کی صورت میں موجود تھیں ۔افسران کے کورس کی دو پلٹونیں تھیں، ایک مرد افسران کی اور دوسری خواتین افسران کی۔ سب لیفٹیننٹ شہلاحسن کے سوا تمام خاتون افسروں نے سفید سکارف پہن رکھے تھے اور وہ ہمیشہ کی طرح پلاٹون کے سامنے کھڑی تھی۔ افسران کی پلٹونیں آگے صف آراء تھیں اور خواتین افسران میں سے اکثر کو عقب میں کھڑے سیلرز کی نظریں اپنی پُشت میں پیوست ہوتی محسوس ہو رہی تھیں جس کی وجہ سے –یا کیا معلوم کسی اور وجہ سے- ان کی پلٹون میں حرکات و سکنات اور سرگوشیاں بھی ہو رہی تھیں۔ باقی گراونڈ میں خاموشی تھی اور آٹھ بجنے کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ جونہی آٹھ بجے، کوارٹر ماسٹر کی آواز گراونڈ میں گونجی “آٹھ بج گئے جناب۔۔۔” اسی کڑک لہجے میں عثمان نے جواب دیا “آٹھ بجا” اور پیتل کی وزنی گھنٹی کو آٹھ بار بجایا گیا۔
قومی پرچم کے چڑھتے ہی بینڈ نے قومی ترانہ بجایا اور ہفتہ وار پریڈ، جسے اصطلاحاً ‘کیپٹن ڈویژن’ کہا جاتا ہے، شروع ہو گئی۔ کمانڈنگ افسر ، کمانڈر حنیف احمد واہلہ اسی اثناء میں سلامی کے چبوترے پر آ چکے تھے۔ گنری انسٹرکٹر راو اکبر جو کہ فوجی میعار کے مطابق کم از کم، بمشکل قابلِ برداشت قد کا ہونے کی وجہ سے سپاہیوں میں ‘ٹھگنا’ کہلاتا تھا، ان کے ہمراہ کھڑا سلامی کے چبوترے کے سامنے سے گزرتی ہوئی پلٹونوں کی ڈرل پر نوٹ لے رہا تھا۔ انڈر کورس افسران کی پلٹون لیفٹیننٹ عثمان کی قیادت میں گُزری تو واہلہ صاحب نے انسٹرکٹر سے کچھ کہا جو بینڈ کی آواز، جو ایک پنجابی گانے “ساری رات تیرا تکیا میں راہ” کی دُھن پہ مبنی تھی، کی وجہ سے کسی کو سُنائی نہ دیا۔ اکبر نے چبوترہ سنبھال لیا اور کمانڈنگ افسر چلے گئے۔
پریڈ کے اختتام پر ایگزیکٹو افسر، جو کمانڈنگ افسر کے بعد اعلیٰ ترین افسر ہوتا ہے، آئے ۔ لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی نے جوانوں سے خطاب کیا جس میں اُنہوں نے نازک حالات کی وجہ سے چوکس، ڈسپلن پر کاربند اور بالخصوص اپنے افسرانِ بالا کا فرمانبردار رہنے پر زور دیا۔ عثمان اور لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی پیشہ ورانہ معاملات میں اس حد تک ہم خیال تھے کہ غازی صاحب کی تقریر کے الفاظ عثمان کو ہمیشہ اپنی سوچوں سے چُرائے ہوئے لگتے تھے۔
دفتر میں بیٹھتے ہی عثمان کو خیال آیا کہ حافظ ناصر کا چارج ٹرائل کروانا تھا۔
دفتر میں بیٹھتے ہی عثمان کو خیال آیا کہ حافظ ناصر کا چارج ٹرائل کروانا تھا۔
“سویلین لوگ جس بے رُخی سے ہمارے پاس سے گُزر رہے ہیں، انہیں کیا پتہ کہ شہر کے اس، بظاہر خاموش سے مقام پر ہم کس جنگ سے دوچار ہیں، ہمارے اندر کیا جنگ چھڑی ہے؟
“خان، اُس مولوی کو غازی صاحب کے پیش کرو اور مجھے بھی بتا دینا” اُس نے خان زمان کوفون پر ہدایت کی۔
خان زمان کو یونٹ کے ماسٹر ایٹ آرمز کی حیثیت سے ملٹری پولیس کے مقامی افسر کے فرائض بھی ملے تھے۔ عثمان کا دفتر عمارت کی تیسری منزل پر تھا۔ آج چونکہ کرنے کو کوئی خاص کام نہیں تھا لہٰذا وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور کھڑکی سے باہر کا نظارہ کرنے لگا۔ مختلف سوچوں میں گھنٹہ بھر غلطاں وہ یونہی کھڑا رہا۔ اپنے کالج کے پُرانے دوست میجر علمدار کھوسہ کی شہادت کے بعد عثمان زیادہ تر دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ اور اپنے سروں پر منڈلاتے موت کے سایوں کے بارے میں بہت سوچنے لگا تھا لیکن وہ اکثر ان سوچوں کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کرتا تھا کہ اس سے اُسے ہر کسی پہ، اپنے جرنیلوں اور کمانڈروں کی وفاداریوں پہ بھی شک ہونے لگتا تھا۔ سیاستدانوں کو وہ یونہی اوّل و آخر غدّار سمجھتا تھا اور اُن کے لئے اس کے دل میں تمام نفرت تھی۔ پھر وہ ان سوچوں سے اس لئے بھی کتراتا تھا کہ اُسے محسوس ہونے لگتا تھا کہ وہ بُزدل سا ہو گیا ہے اور موت سے ڈرنے لگا ہے۔ وہ اکثر اس بھیانک رات کو یاد کرتا جب اس نے چھٹیوں کے دوران میجر علمدار کے یونٹ میں ایک شہید سپاہی کی نمازِ جنازہ پڑھی تھی تو اس سے قبل وہ اس کی مسخ شدہ لاش کو دیکھ چکا تھا جسے طالبان نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سوات کی ایک سڑک پہ پھینک دیا تھا۔ اُس رات وہ خوف سے رات بھر سو نہیں سکا تھا۔ اب بھی جب وہ اپنے اندر کے خوف سے لڑنے کی کوشش کرتا تھا تو وہ بہانوں سے وردی پہن کر اپنے یونٹ کی عملداری میں آنے والی چیک پوسٹوں اور سیکیورٹی پوائنٹس پہ چلا جاتا تھا اور کافی دیر تک اُن سنتریوں کے ساتھ گپیں ہانکتا تھا جو اُس کے خیال میں ہر وقت موت کے مُنہ میں ہوتے ہیں۔
“سویلین لوگ جس بے رُخی سے ہمارے پاس سے گُزر رہے ہیں، انہیں کیا پتہ کہ شہر کے اس، بظاہر خاموش سے مقام پر ہم کس جنگ سے دوچار ہیں، ہمارے اندر کیا جنگ چھڑی ہے؟؟؟”وہ اکثر سوچتا تھا۔ اب بھی وہ اسی طرح کی کسی سوچ میں تھا جو ٹیلی فون کی گھنٹی کے ساتھ چھناکے سے ٹوٹ گئی۔ اُس نے مُڑ کر ٹیلی فون کی طرف دیکھا اور چند گھنٹیوں کے بجنے تک اسےگھورتا رہا، پھر آگے بڑھ کر اس نے فون اُٹھا لیا۔
“ہیلو۔۔۔” اُس نے اپنے مخصوص انداز میں کہا۔
“عُثمان”دوسری طرف سے لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی کی بارُعب آواز آئی۔
وہ بھانپ گیا کہ غازی صاحب نے،جو ایک حُسن پرست قسم کے افسر تھے، آج پھر کسی بہانے سے شہلا کو سامنے بٹھا رکھا ہے۔
“سر۔۔۔” اُس نے نیازمندی سے جواب دیا۔
“میرے آفس آ جاو” غازی صاحب نے سپاٹ سے لہجے میں کہا۔
“Aye Aye sir” اُس نے تیزی سے کہا لیکن دوسری طرف سے شائد یہ سُننے سے پہلے ہی فون رکھ دیا گیا تھا۔ عثمان نے آئینے کے سامنے آکر اپنی بیرٹ سر پر درست کی اور تیزی سے دفتر سے نکل گیا۔
لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی کے دفتر میں داخل ہوتے ہی جو منظر اُس نے دیکھا، وہ فوراً بھانپ گیا کہ صورتحال کیا ہے۔ حافظ ناصر درمیان میں باوردی سیدھا تن کے کھڑا تھا اور اس نے اپنی ٹوپی اتار کے بغل میں لے رکھی تھی اور پیچھے دائیں طرف خان زمان کھڑا تھا جس سے ظاہر ہو گیا کہ چارج ٹرائل کیا جا رہا ہے۔ کمانڈنگ آفیسر آج صبح ہی تین روز کی چھٹی پر چلے گئے تھے اور عدیل صاحب ہی آج یونٹ میں دونوں بڑی کمانڈ کی ذمہ داریاں لئے ہوئے تھے۔ لیکن اسی لمحے چیف خطیب صبور کو دیکھ کر اس کا ماتھا ٹھنکا۔ سب لیفٹیننٹ شہلا حسن دوسری طرف صوفے پہ بیٹھی کسی فائل کا مطالعہ کر رہی تھی۔ وہ بھانپ گیا کہ غازی صاحب نے،جو ایک حُسن پرست قسم کے افسر تھے، آج پھر کسی بہانے سے شہلا کو سامنے بٹھا رکھا ہے۔ لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی لمبی قامت کے ڈاڑھی مونچھ مونڈنے والے، سانولے اور پُر وقار شخصیت کے افسر تھے لیکن سب لیفٹیننٹ شہلا کے معاملے میں اُسے ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے ورنہ اسے بخوبی علم تھا کہ وہ اس کے واحد خیر خواہ سینئر تھے۔ “بھین چود” اُس نے زیرِ لب ہی لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل کو جذبہ ء رقابت کے زیرِ اثر، چیف صبور کو صورتحال کے پیشِ نظر اورسب لیفٹیننٹ شہلا کو یہاں بیٹھے ہونے پر ،ایک اجتماعی گالی دی اور آگے بڑھ گیا۔ وہ غازی صاحب کو سلیوٹ کر کے ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ غازی صاحب نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ چیف صبور سے مخالف سمت، شہلا کے قریب خالی کُرسی پر بیٹھ گیا۔
“عثمان، خطیب صاحب تُم سے ناراض ہیں، فرماتے ہیں کہ تُم ان کی گذارش تک نہیں سُنتے۔۔۔ یار عُلمائے دین کے ساتھ پنگا مت لیا کرو، ان کے پیچھے نماز پڑھتے ہو، اللہ میاں ناراض ہوں گے۔ لیفٹیننٹ کمانڈر غازی نے مسکراتے ہوئے ، اُسے آنکھ مار کر بات شروع کی توا س کے مزاج سے ناگواری ایک لمحے کو جھڑ گئی۔
“سر چیف صاحب نیک آدمی ہیں، میری مجال ہے ۔۔۔ کوئی خدمت ہے میرے لائق؟؟؟”عثمان نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے مصنوعی سی نیازمندی سے جواب دیا اور چیف خطیب کی طرف دیکھا۔ خطیب صاحب سفید شلوار قمیص میں ملبوس، سیاہ واسکٹ اور جناح کیپ بھی پہنے تھے جو کہ خطیب صاحبان کے عام طور پہ پہننے کا لباس ہے۔ ان کی ڈاڑھی کا سُرخ رنگ اور ماتھے کے زخم نما محراب کا سیاہ رنگ ان کے گورے رنگ پر بہت سج رہا تھا۔ خطیب صاحب نے ایک جھوٹی سی مسکراہٹ بکھیری جس سے ان کی طویل، سُرخ ڈاڑھی میں خفیف سی حرکت ہوئی۔
چیف صاحب، یہ ہمارے سپاہی اور جوان ہیں جنہوں نے کڑے وقت میں ہمارے حکم پر جانیں دینی ہیں، ان کا رویہ دیکھ کر ہمیں تکلیف نہیں ہو گی تو کیا ہوگا؟
“سر گذارش یہ تھی کہ عزیزم حافظ ناصر سے غلطی سی ہو گئی ہے، معاف کر دیجئے، بچہ اچھا ہے۔ مجھے نیک بچوں کا بڑا خیال رہتا ہے، کل بھی آپ سے عرض کی تھی کہ۔۔۔”چیف صاحب نے بات شروع کی لیکن عثمان نے بظاہر بڑے ادب سے، ان کی بات کاٹی۔
“چیف صاحب، یہ ہمارے سپاہی اور جوان ہیں جنہوں نے کڑے وقت میں ہمارے حکم پر جانیں دینی ہیں، ان کا رویہ دیکھ کر ہمیں تکلیف نہیں ہو گی تو کیا ہوگا؟ آپ کو پتہ ہے اس نیک بچے نے کل کس طرح بدتمیزی سے میری باتوں کے جواب دیئے تھے؟؟؟”عثمان کا لہجہ تلخ تھا لیکن اُس نے آواز بہرحال دھیمی رکھی۔
“سر غلطی ہو جاتی ہے کم سنی میں۔۔۔” چیف صبور نے کہا اور ساتھ ہی ناصر منمنایا “Sorry sir”لیکن عثمان نے سُنی ان سُنی کر دی۔
“عثمان” غازی صاحب نے گلا صاف کرتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا ۔
“I think let the chap go and don’t make storm in a teacup. You don’t know the ruddy chaplain.”
غازی صاحب نے انگریزی میں کہنا شروع کیا اور انہیں اندازہ تھا کہ ان کی انگریزی گفتگو صبور صاحب نہ سمجھ سکیں۔ وہ جانتے تھے کہ کمانڈنگ آفیسر اور صبور صاحب “تبلیغی بھائی” تھے اور ان کی باہم خوب دعا و سلام تھی۔ غازی صاحب نے حتمی لہجے میں اور بغیر کوئی تاثر دکھائے کہا۔ عثمان کو قطعی اندازہ نہ ہوا کہ غازی صاحب یہ سب کچھ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔
“Pardon me sir, there is a principle involved. Such men in the ranks and files who do the dick show to service discipline, later come out to be bastards like airman Adnan Rasheed who has just brought shame to our air force.”
عثمان نے سنجیدگی سے جواب دیا تو سب لیفٹیننٹ شہلا اس خالص مردانہ طرزِ گفتگو سے بدک سی گئی لیکن اس نے بظاہر اس طرف کوئی توجہ ہی نہ کی تھی۔
” This is my considered opinion that you are an asshole, Ottoman!”
غازی صاحب نے دانت پیستے ہوئے کہا ۔
عثمان نے سنجیدگی سے جواب دیا تو سب لیفٹیننٹ شہلا اس خالص مردانہ طرزِ گفتگو سے بدک سی گئی لیکن اس نے بظاہر اس طرف کوئی توجہ ہی نہ کی تھی۔
چیف صاحب نے باری باری دونوں افسروں کی طرف بے چینی سے دیکھا۔
“صبور صاحب، معاف کیجئے گا، سروس میں ڈیفالٹر کے دوران ایسے مکالمے نہیں ہوتے لیکن چونکہ آپ معزز آدمی ہیں، لہٰذا آپ کی بات ہم نے سُنی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں تو میں سزا میں نرمی کئے دیتا ہوں لیکن اسے کچھ تنبیہ تو ہو۔ میس کا معاملہ ہے اور بُری مثال نہیں چھوڑی جا سکتی ۔ تکلیف کے لئے بہت بہت معذرت”عدیل غازی صاحب نے چیف صبور کی طرف متوجہ ہو کر تیزی سے کہا اور ساتھ ہی چارج شیٹ پر انگریزی میں ایک تحریر لکھ دی۔ خان زمان آگے بڑھا اور چارج شیٹ اُٹھا لی۔
“Punishment number nine for zero seven days.”
خان زمان نے بآوازِ بلند وہ سطر پڑھ کر سُنائی جس سے مراد تھا کہ سات دن کی اضافی ڈرل اور ورکنگ کی صورت میں سزا دی گئی تھی۔
لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل نے کمال ڈھٹائی سے صبور صاحب کی طرف مصافحے کا ہاتھ بڑھایا۔
“چیف صاحب، بہت معذرت، آج کل مجھے ڈسپلن کے معاملات میں افسروں کی شکایات پر ایکشن لینا پڑتے ہیں” حافظ ناصر کے چلے جانے کے بعد غازی صاحب نے دوبارہ معذرت خواہانہ لہجے میں کہا ۔
“سر جو آپ کی مرضی”چیف صبور نے اُٹھ کر مصافحہ کیا اور شدید ناگوار موڈ میں ‘السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ،’ کہہ کر باہر نکل گئے۔
ساتھ ہی خان زمان نے سلیوٹ کیا اور کھسک گیا۔
غازی صاحب کو وہ اپنے کیرئیر کے کمانڈروں میں ڈرپوک ترین افسر سمجھتا تھا لیکن پھر بھی اُن کی باتوں پہ غور و فکر بھی کر ہی لیتا تھا۔
“عثمان، یہ بچی پاس نہ بیٹھی ہوتی تو میں تمہیں ایسا لقب دیتا جو تمہاری شان کے عین شایان ہے “عدیل صاحب نے ناگواری سے کہتے ہوئے شہلا کی طرف خفیف سا اشارہ کیا تو وہ شرما گئی۔
“عثمان بچے، تُم نہیں سمجھتے یہ چیف کتنا چغل خور آدمی ہے۔ اپنے سی او صاحب کے ساتھ سہ روزے لگا چکا ہے، اور ان سے بہت سے رازونیاز کرتا ہے۔ تمہارے یونٹ میں آنے سے سال بھر پہلے کی بات ہے کہ میں نے اسے کہا تھا کہ آپ عہدے کے لحاظ سے جیونئیر کمیشنڈ آفیسر ہیں، آپ کا پروٹوکول نہیں ہے کہ آپ سیلرز کی میسوں اور کمروں میں درس و تبلیغ کرتے پائے جائیں، آپ بیان یا تبلیغ کی بات مسجد میں کرلیا کریں، یونٹ میں اپنے عہدے کا ڈیکورم قائم رکھیں، یہ سروس کی روایات کا تقاضہ ہے۔ پتہ ہے ،میری شکائیت ایڈمرل سلیمی تک گئی تھی، خُدا خُدا کرکے جان چھوٹی تھی۔ کل کو تمہارے لئے بھی مسئلہ کھڑاکردے گا اس حوالےسے۔ اب تھوڑے پریکٹیکل ہو جاو اور یہ جذباتی قسم کے۔۔۔”عدیل صاحب نے بات کرتے ہوئے ڈکار کی تو اُن کی طرف سے آنے والی پنکھے کی ہوا میں سکاچ وہسکی کی ہلکی سی بُو عثمان نے محسوس کی تو زیرِ لب مسکرا دیا۔ غازی صاحب اپنی انہی حرکتوں کی وجہ سے سپرسیڈ ہو چکے تھے حتیٰ کہ ان کے کمانڈنگ افسر، کمانڈر حنیف واہلہ بھی ان سے سروس میں جیونیئر تھے۔
“تمہیں جوانوں کی وفاداری کے لیول سے کیا لینا دینا، تمہیں اس سے کیا کہ کوئی ائرفورس والے مولوی عدنان رشید جیسا چوتیا جنگ میں پیٹھ دکھا کے یا بھاگ کے طالبان یا دوسرے شدت پسندوں سے بھی جاملے۔۔۔ اور اگر صبور کی طرح کے مُلّا تمہارے ارد گرد ہیں، ایسے میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہو گی۔۔۔”غازی صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے۔
“Duce take them and you mind your job.”
اُنہوں نے ہاتھ بڑھا کر عثمان کا کاندھا تھپکا اور اسی لمحے شہلا نے فائل سے نظر اُٹھا کر اُن کی طرف دیکھا
“شہلا، میں ذرا کارساز تک جارہا ہوں سی او صاحب کا کوئی پیغام آئے تو بتا دینا”عدیل صاحب نے معمول سے تھوڑے ذیادہ مہربان لہجے میں سب لیفٹیننٹ شہلا کو ہدایات دیتے ہوئے دفتر سے باہر نکل گئے۔ عثمان بھی کچھ کُرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا کہ شہلا سے کیا بات کرے لیکن جب کچھ نہ سوجھی تو وہ دفتر سے نکل گیا۔ غازی صاحب کو وہ اپنے کیرئیر کے کمانڈروں میں ڈرپوک ترین افسر سمجھتا تھا لیکن پھر بھی اُن کی باتوں پہ غور و فکر بھی کر ہی لیتا تھا۔
“شہلا، میں ذرا کارساز تک جارہا ہوں سی او صاحب کا کوئی پیغام آئے تو بتا دینا”عدیل صاحب نے معمول سے تھوڑے ذیادہ مہربان لہجے میں سب لیفٹیننٹ شہلا کو ہدایات دیتے ہوئے دفتر سے باہر نکل گئے۔ عثمان بھی کچھ کُرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا کہ شہلا سے کیا بات کرے لیکن جب کچھ نہ سوجھی تو وہ دفتر سے نکل گیا۔ غازی صاحب کو وہ اپنے کیرئیر کے کمانڈروں میں ڈرپوک ترین افسر سمجھتا تھا لیکن پھر بھی اُن کی باتوں پہ غور و فکر بھی کر ہی لیتا تھا۔
“اوئے، میرے دفتر آو”اگلے روز عثمان دفتر پہنچا تو کچھ دیر میں غازی صاحب کا فون آگیا۔ اُن کےلہجے سے تو لگ رہا تھا کہ اُسے کوئی دلچسپ مووی دکھانے کے لئے بُلارہے تھے ۔ وہ بھاگم بھاگ غازی صاحب کے دفتر میں پہنچا تو وہاں حافظ ناصر کو اس کے ڈویژنل افسر کے ہمراہ پا کر اُس کا ماتھا ٹھنکا کہ پھر سے کیا بکھیڑا کھل گیا تھا؟؟
“آو بھئی” عدیل غازی صاحب نے اُس سے ہاتھ ملا کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
“آو بھئی” عدیل غازی صاحب نے اُس سے ہاتھ ملا کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
سر، میں اپنی طرف سے کلیئر ہوں، میں نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے مذہب کی توہین ہوتی ہو۔ میں نے اسے ڈسپلن توڑنے پر چارج پہ رکھا تھا اور باقی واقعات آپ کے سامنے ہیں
“عُثمان، حافظ صاحب نے تمہارے خلاف سروس افیئر کی درخواست دی ہے” اُنہوں نے مسکرا کر کہا تو عثمان نے زہر خند مسکراہٹ سے حافظ ناصر کی طرف دیکھا جو کہ پاس کھڑا تھا۔
“زہے نصیب حافظ صاحب۔۔۔ لیکن کیا گُستاخی ہو گئی ہم سے؟”عثمان نے کہا تو حافظ نے اپنے ڈویژنل افسر کی طرف دیکھا۔
ڈویژنل افسر نے ایک سفید کاغذ جس پہ اُردو میں کچھ لکھا تھا، عثمان کی طرف سرکا دیا۔
“اسلامی شعائر کی توہین اور مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے تم نے” عدیل صاحب نے ناگوار سے لہجے میں طنزیہ کہا۔
“جی حافظ صاحب، کیا یہ توہین مذہب ہے کہ تُمہیں میس میں بیٹھنے کے آداب سکھائے جائیں؟ تمہیں افسران سے بات کرنے کے آداب بتائے جائیں۔ تم سولجر ہو یار؟؟؟یا کسی محلے کے امام مسجد؟”عثمان نے سخت ناگواری سے حافظ کو ڈانٹنا شروع کردیا لیکن عدیل صاحب نے اسے ہاتھ کے اشارے سے خاموش کرا دیا۔
“جی حافظ صاحب، کیا یہ توہین مذہب ہے کہ تُمہیں میس میں بیٹھنے کے آداب سکھائے جائیں؟ تمہیں افسران سے بات کرنے کے آداب بتائے جائیں۔ تم سولجر ہو یار؟؟؟یا کسی محلے کے امام مسجد؟”عثمان نے سخت ناگواری سے حافظ کو ڈانٹنا شروع کردیا لیکن عدیل صاحب نے اسے ہاتھ کے اشارے سے خاموش کرا دیا۔
“عثمان، یہ میری بات کا جواب نہیں ہے، explain کرو تُم۔۔۔”غازی صاحب نے سگریٹ سلگا کر ہولے سے کہا۔
“سر، میں اپنی طرف سے کلیئر ہوں، میں نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے مذہب کی توہین ہوتی ہو۔ میں نے اسے ڈسپلن توڑنے پر چارج پہ رکھا تھا اور باقی واقعات آپ کے سامنے ہیں”عثمان نے کرسی کھینچ کر پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
“حافظ صاحب دیکھیں، افسران بالا کی فرمانبرداری آپ کا اخلاقی و دینی فریضہ بھی تو ہے ناں، اولی الامر اور امیر کی اطاعت والا حکم تو آپ نے پڑھ ہی رکھا ہو گا۔ دیکھیں آپ کو صاحب نے کوئی غلط بات تو نہیں کی۔ یہ فوجی ماحول کے کچھ رسوم و رواج ہیں جن کی وجہ سے قتل و غارت کا یہ پیشہ بظاہر خوبصورت اور باوقار لگتا ہے، عثمان نے اسی رسم و رواج کی بات سمجھائی ہے، کوئی غلط بات تو نہیں۔ دیکھو بیٹا، اکیڈمی میں ہمیں انسٹرکٹر اور سینئر نجانے کیا کیا گالیاں بک دیتے تھے لیکن یہ سب فوجی ماحول کا حصہ ہوتا ہے جس کا مقصد کسی کی توہین کرنا نہیں ہوتا۔ یہ غصے صرف حلق سے اوپر اوپر کے ہوتے ہیں” غازی صاحب نے ساتھ ہی اپنا سگریٹ والا ہاتھ حلق پہ رکھا تو سگریٹ ان کی ٹھوڑی سے لگی جس سے وہ بدک سے گئے۔
“تو دیکھو حافظ بچے، کبھی یہ مت سمجھنا کہ تمہارے افسر تمہارے لئے کوئی کینہ یا عناد رکھتے ہیں” اُنہوں نے سگریٹ کی راکھ اپنی وردی سے جھاڑتے ہوئے بات جاری رکھی۔
“دیکھو ، ہم نے روز محشرتمہاری ویلفیئر کے معاملات پر بھی جواب دینا ہے اور یہ ہمارا یقین ہے لہٰذا خدا شاہد ہے،کہ تمہیں ہمیشہ چھوٹے بھائیوں اور بیٹوں کی طرح سمجھا جاتا ہے، تمہاے مذہبی جذبات تو ہمارے لئے بہت محترم ہیں، آخر ہم بھی بحمداللہ مسلمان ہیں”غازی صاحب نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا تو عثمان نے سر جُھکا لیا اور مسکرا دیا۔ اُسے اندازہ تھا کہ غازی صاحب “بحمداللہ” کتنے مسلمان تھے جو کہ اپنی نجی گفتگو میں خُدا کے لئے empty place in the heavenجیسے ضمائر استعمال کرنے سے بھی باز نہیں آتے تھے اور اسی وجہ سے اپنی پابندِ مذہب اہلیہ سے بھی ان کی کبھی نہیں بن سکی تھی۔ اُس نے دل میں انہیں درمیانی شدت کی ایک گالی دی۔غازی صاحب کئی منٹوں تک حافظ کو سمجھاتے رہے۔
سر آپ کا فرمانا بالکل درست لیکن جہاں نوبت دین کے ارکان کی توہین تک آتی ہے تو، معاف کیجئے سر، میرے بس کی بات نہیں کہ میں برداشت کروں”حافظ ناصر کی آواز کمرے میں پہلی بار گونجی تو تینوں افسر چونک گئے۔
“سر آپ کا فرمانا بالکل درست لیکن جہاں نوبت دین کے ارکان کی توہین تک آتی ہے تو، معاف کیجئے سر، میرے بس کی بات نہیں کہ میں برداشت کروں”حافظ ناصر کی آواز کمرے میں پہلی بار گونجی تو تینوں افسر چونک گئے۔ ایک لمحے کو تو سکوت چھا گیا۔لیفٹیننٹ کمانڈر غازی اور عثمان تو سمجھ گئے کہ حافظ اس وقت چیف صبور کی شہہ پر یہ بول بولنے لگا تھا.
“اچھا، ٹھیک ہے، تُم جاو، ہم دیکھتے ہیں”غازی صاحب نے آہستہ سے کہا اور حافظ ناصر کو باہر جانے کا اشارہ کردیا ۔ اُس نے ایک چُست سا سلیوٹ کیا اور چلا گیا۔
“سر ایک سیلر کسی ‘پاوے’ کے بغیر اس طرح بات نہیں کرسکتا”عثمان نے حافظ کے جانے کے بعد آہستہ سے کہا۔’پاوے’ کی اصطلاح سب کو پتہ تھی کہ نیوی کے روزمرّہ میں کسی بڑے افسر کے ساتھ روابط کے سہارے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔
“یار پاوا وہ ایک چیف بھی تو نہیں ہے، اور بھی کچھ لوگ ہیں”غازی صاحب نے اس میں اضافہ کیا۔ وہ ڈویژنل افسر کے سامنے کھل کر بات نہیں کرنا چاہ رہے تھےکہ وہ معمولی عہدیدار سے لیفٹیننٹ کے عہدے تک پہنچا ہوا ایک افسر تھا جنہیں اصطلاحاً ڈیکر یا رینکر کہا جاتا ہے اور ان پر معمولی عہدیدار بھروسہ کرتے ہیں نہ ہی کمیشنڈ افسران۔
“ٹھیک ہے تنولی، تم اسے کل لے آنا”غازی صاحب نے اس افسر لیفٹیننٹ تنولی کو جانے کا حکم دیا اور وہ اُٹھ کر چلا گیا۔
“ٹھیک ہے تنولی، تم اسے کل لے آنا”غازی صاحب نے اس افسر لیفٹیننٹ تنولی کو جانے کا حکم دیا اور وہ اُٹھ کر چلا گیا۔