“پاپ کا کیا انجام ہے؟” اک بھکشو نے پوچھا
آنکھیں موندے
’دھیان‘ کی گہری حالت میں تھے لیِن تتھاگت
چونک گئے
اس بچوں جیسی
بھولی بھالی بات کو سُن کر
اک لمحہ خاموش رہے
پھر آنکھیں کھولیں
بولے، “بھکشو، اور بھی لاکھوں سیّارے ہیں
یہ دھرتی بھی ان جیسا سیّارہ ہی ہے
کیا تم نے سوچا ہے، شاید یہ سیّارہ
اور کسی سیارے کی پاپی روحوں کو
ایذا دینے کی خاطرہی
بنا بنایا اک دوزخ ہو؟
یعنی اُن روحوں نے اپنی دھرتی پر جو پاپ کیے ہیں
اُن کی سزا اِس دھرتی پر ہی اُن کا ایک جنم لینا ہو
بنے بنائے اس دوزخ میں
اپنی قید کی عمر کاٹ کر
ان میں کچھ روحیں تو شاید
یہ ثابت کر دیتی ہوں گی
وہ پاپوں سے چھوٹ چکی ہیں
اور اگر وہ چھوٹ نہیں پاتیں تو شاید
اس سے بھی منحوس دھرتیاں، بُری زمینیں
اگلے جنم میں دیکھ رہی ہوں اُن کا رستہ!
اس مفروضے کی گہرائی تک میرا جانا تو، بھکشو
اب بھی کچھ مشکوک ہے، دیکھو
میں خود اس دُبدھا میں اب تک پھنسا ہوا ہوں
“شاید‘۔۔۔”شاید”کہہ کر میں نے
کوئی حتمی بات نہیں کی!”
آنکھیں موندے، دھیان میں گم
جانے کس دور کی دنیا میں پھر لوٹ گئے
خاموش تتھا گت!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’دھیان ‘ : مراقبہ ۔۔۔ لِین‘ : مستغرق
دُبدھا : گو مگو کی کیفیت
Leave a Reply