[blockquote style=”3″]
عامر انصاری: 03003451649
[/blockquote]
انگریزی سے ترجمہ:عطا صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے پہل جن بچوں نے اس پراسرار ڈولتے اُبھار کو سمندر کی جانب سے اپنی طرف بہہ کر آتے دیکھا انھوں نے خیال کیا کہ دشمن کا کوئی جہاز ہوگا۔ پھر ان کو نظر آیا کہ اس پر نہ تو کوئی مستول ہے اور نہ کوئی پھریرا، تو اس کو ویل سمجھا۔ مگر جب وہ کنارے آ لگا اور جب انھوں نے اس پر سے سمندری جھاڑ جھنکار، جیلی فش کے پنجے، مچھلیوں کے بچے کھچے حصے اور تیرنے والا کباڑ صاف کرلیا، تب ہی ان کو معلوم ہوا کہ وہ کوئی ڈوب کر مر جانے والا ہے۔
ساری سہ پہر وہ اس سے کھیلتے رہے؛ کبھی اس کو بالُو میں دبا دیتے، کبھی اس کو نکال لیتے، کہ اتفاقاً کسی کی نظر ان پر پڑ گئی اور اس نے گاؤں میں خبر پھیلا دی۔ جو لوگ اس کو اٹھا کر قریب ترین گھر تک لائے، انھوں نے دیکھا کہ وہ ان تمام مُردوں سے کہیں زیادہ بھاری بھرکم ہے جن سے اب تک ان کا سابقہ پڑا تھا۔ وہ قریب قریب گھوڑے جتنا لدّھڑ تھا۔ انھوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ ہوسکتا ہے کافی عرصے تک پانی میں رہنے کی وجہ سے پانی اس کی ہڈیوں تک میں اتر گیا ہو۔ جب ان لوگوں نے اس کو فرش پر لٹا دیا تو بولے کہ یہ تو باقی سب لوگوں سے زیادہ دراز قد نکلا، کیونکہ گھر کے اندر اس کی سمائی کے لیے جگہ ناکافی تھی، مگر انھیں خیال آیا کہ شاید مر جانے کے بعد بھی بالیدگی کی صلاحیت بعض ڈوب مرنے والوں کی فطرت میں شامل ہو۔ اس میں سے سمندری بساند اٹھ رہی تھی اور صرف اس کی بناوٹ ہی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ کوئی انسانی لاش ہے کیونکہ اس کی جلد مٹی کی پپڑیوں اور مچھلیوں کے سفنوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔
اتنا معلوم کرنے کے لیے کہ مرنے والا کوئی اجنبی ہے، انھیں اس کا چہرہ صاف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ گاؤں میں کوئی بیس ایک پتھریلی انگنائیوں والے چوبی مکانات تھے جن میں پھول پودے نام کو نہیں تھے اور سب کے سب ایک ریتیلی راس کے کنارے کنارے پھیلے ہوے تھے۔ وہاں زمین اتنی کم تھی کہ مائیں ہر وقت ڈری سہمی رہتی تھیں کہ کوئی جھکّڑ کہیں ان کے بچوں کو اُڑا نہ لے جائے، اور وقتاً فوقتاً مر جانے والوں کو ساحلی چٹانوں کے کنارے لے جا کر سمندر میں ٹھنڈا کردیا جاتا تھا۔ مگر سمندر پُرسکون اور بڑا سخی داتا تھا اور گائوں کے کُل مرد سات کشتیوں میں سما جاتے تھے۔ اس لیے لاش ملنے کے بعد انھوں نے بس ایک نظر ایک دوسرے پر ڈال کر تسلی کرلی کہ وہ سب کے سب موجود ہیں۔
اس رات وہ اپنی روزی کی تلاش میں سمندر کی طرف نہیں گئے۔ مرد آس پاس کی بستیوں میں یہ معلوم کرنے نکل گئے کہ کہیں کوئی لا پتا تو نہیں، اور عورتیں ڈوب مرنے والے کی دیکھ بھال کے لیے پیچھے رہ گئیں۔ انھوں نے گھاس کی کوچیوں کی مدد سے اس کے بدن پر لگی ہوئی کیچڑ کو صاف کیا، اس کے بالوں میں پھنسی سمندری بالُو کو نکالا اور مٹی کے پپّڑوں کو مچھلیوں کے سفنے اتارنے والے اوزاروں سے کھرچا۔ یہ کام کرتے کرتے انھوں نے بھانپ لیا کہ جو جھاڑ جھنکاڑ اس کے جسم سے چمٹا ہوا ہے وہ دور دراز کے گہرے پانیوں سے آیا ہے اور اس کے بدن پر لبیریاں لگی ہوئی ہیں جیسے وہ مونگوں کی بھول بھلیوں میں سے ڈبکنیاں کھاتا ہوا آیا ہو۔ انھوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ وہ اپنی موت کو خودداری کے ساتھ سہہ رہا ہے؛ نہ تو اس کا منھ دوسرے ڈوب مرنے والوں کی مانند اُجاڑ اُجاڑ سا تھا اور نہ دریا میں غرق ہونے والوں کی طرح بھک منگوں کا سا اُترا اُترا تھا۔ اس کو پوری طرح پاک صاف کرلینے کے بعد ہی یہ عیاں ہوسکا کہ وہ کس قسم کا آدمی تھا، اور ان کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ نہ صرف یہ کہ وہ ان سب مردوں میں جو اب تک ان کی نظر سے گزرے تھے، سب سے زیادہ دراز قد، سب سے زیادہ توانا، سب سے زیادہ زور آور اور سب سے زیادہ خوش اندام تھا بلکہ اتنا تکے جانے کے باوجود وہ ان کے تصور میں سما نہیں پا رہا تھا۔
گاؤں بھر میں نہ تو اتنا بڑا پلنگ دستیاب تھا جس پر اس کو لٹایا جاسکتا اور نہ کوئی میز اتنی سخت تھی جو اس کی سوگ جاگ کے لیے استعمال کی جاسکتی۔ اس کے بدن پر نہ تو سب سے لانبے آدمی کا کوئی بڑھیا پتلون چڑھا، نہ سب سے موٹے آدمی کی اتوار کو پہنی جانے والی قمیص اور نہ سب سے بڑے پیر والے کے جوتے۔ اس کے پہاڑ سے تن و توش اور اس کے حسن سے مسحور ہوکر عورتوں نے طے کیا کہ وہ بادبان کے کسی بڑے ٹکڑے سے اس کے لیے پتلون بنائیں اور عروسی لنن سے قمیص تیار کریں، تاکہ وہ راہِ عدم کا سفر اپنی حیثیت کے مطابق طے کرسکے۔ جب وہ جھرمٹ مارے سلائی میں جٹی تھیں اور ٹانکے بھرتے بھرتے ٹکر ٹکر اس کو دیکھے جا رہی تھیں تو ان کو یوں لگا کہ نہ تو ہوا کبھی اتنی یکساں یکسا ں رفتار سے چلی اور نہ سمندر کبھی اس قدر بے چین بے چین سا رہا جس قدر وہ آج رات ہے، اور انھوں نے فرض کرلیا کہ ہو نہ ہو مرنے والے کا اس تبدیلی سے کوئی واسطہ ضرور ہے۔ انھیں خیال آیا کہ اگر وہ عظیم الشان انسان ان کے گاؤں میں رہتا ہوتا تو اس کے مسکن کے دروازے سب سے کشادہ، چھت سب سے بلند اور فرش سب سے مضبوط ہوتا؛ اس کی مسہری کسی جہازوں والی لکڑی کی پیٹیوں سے بنی ہوتی جن کو لوہے کے پیچوں سے کسا گیا ہوتا، اور اس کی بیوی خورسند ترین عورت رہی ہوتی۔ انھوں نے سوچا کہ اس کا اس قدر رعب و دبدبہ ہوتا کہ وہ مچھلیوں کو نام بہ نام پکار کر سمندر میں سے بلا لیا کرتا۔ اور اس نے اپنی زمینوں پر اس قدر محنت کی ہوتی کہ چٹانوں میں سے چشمے ابل پڑے ہوتے اور یوں اس نے سمندر کے ساحلی کراڑوں کو پھولوں کی تختہ بندی کے قابل بنا لیا ہوتا۔ دل ہی دل میں انھوں نے اس کا موازنہ اپنے اپنے مردوں سے کر ڈالا اور سوچا کہ وہ سب ساری عمر بھی کریں تو وہ سب کچھ نہیں کرسکتے جو وہ ایک رات میں کر گزرا ہوتا، اور انھوں نے اپنے اپنے دلوں کی گہرائیوں میں اپنے اپنوں کو زمانے بھر میں سب سے زیادہ بودا، سب سے زیادہ گھٹیا اور سب سے زیادہ نکما آدمی ٹھہرا کر دل سے نکال دیا۔ وہ اپنے تصورات کی بھول بھلیوں میں گم تھیں کہ اتنے میں ان میں سے سب سے بڑی عمر والی عورت، جو عمر رسیدہ ہونے کے باعث ڈوب مرنے والے کو محبت سے زیادہ شفقت بھری نظر سے دیکھ رہی تھی، بولی، ’’صورت تو اس کی ایستے بان نامی شخص کی سی ہے۔‘‘
بات پتے کی تھی۔ اس کا کوئی اور نام ہو ہی نہیں سکتا، اتنی بات مان لینے کے لیے ان میں سے اکثر کو اس پہ بس ایک نظر اور ڈالنی پڑی۔ وہ عورتیں جو عمر میں سب سے کم تھیں اور خود سر بھی، چند گھنٹے اس تصور میں مگن رہیں کہ جب وہ اس کو نئے کپڑے پہنا دیں گی اور وہ چمکدار جوتے ڈاٹے، پھولوں کے بیچ لیٹا ہوگا تو لاتارو نام شاید اُس پر زیادہ جچے، مگر یہ ایک خام خیال تھا۔ ان کے پاس کینوس خاطرخواہ نہیں تھا، پھر بُرابیونتا گیا اور خراب تُرپا گیا پتلون تنگ بھی بہت تھا، اور درونِ دل کسی دبی قوت سے اس کی قمیص کے بٹن بھی پٹ پٹ کھل گئے تھے۔ ہوا کی سائیں سائیں بند ہوچکی تھی اور سمندر کو بھی اپنی بدھ کے دن والی اونگھ آگئی تھی۔ اس سکوت نے گویا ان کے آخری شبہات بھی دور کردیے؛ وہ ایستے بان ہی تھا۔ جب ان کو اس کا فرش پر گھسیٹا جانا مجبوراً برداشت کرنا پڑا تو وہ عورتیں جنھوں نے اس کے کپڑے بدلائے تھے، بال سنوارے تھے، ناخن تراشے تھے اور حجامت بنائی تھی، ترس کے مارے کپکپانے سے باز نہ رہ سکیں۔ اس وقت کہیں جاکر ان کی سمجھ میں آیا کہ وہ اپنے اس جہاز کے جہاز ڈیل ڈول کے ہاتھوں کتنا تنگ رہتا ہوگا جبکہ مرنے کے بعد بھی اس قباحت نے اس کا پیچھا لے رکھا ہے۔ وہ اس کو جیتا جاگتا دیکھ سکتی تھیں؛ دروازوں میں سے ترچھا ہو کر گزرنے کی سزا بھگتتے ہوے، چھت کی کڑیوں سے سر ٹکراتے ہوے؛ کہیں ملنے گیا تو کھڑا رہنے پر مجبور، اس الجھن میں مبتلا کہ اپنے نرم گلابی سیل نما ہاتھوں کا کیا کرے، جبکہ خاتونِ خانہ گھر بھر کی سب سے مضبوط کرسی چن کر اپنا دم خشک کیے کیے اس کو پیش کرتی، لو ایستے بان اس پر بیٹھ جاؤ، اور وہ دیوار سے ٹیک لگائے لگائے مسکراتا، نہیں مادام تکلف کی ضرورت نہیں، میں ایسے ہی ٹھیک ہوں؛ ہر ملاقات پر بار بار یہی کرتے کرتے اس کے تلوے چھلنی اور پیٹھ سوختہ ہوچکی تھی مگر کرسی توڑ دینے کی شرمندگی سے بچنے کے لیے ہمیشہ وہی ایک بات: نہیں مادام، تکلف کی ضرورت نہیں، میں ایسے ہی ٹھیک ہوں، اور غالباً اس بات سے قطعی ناآشنا رہتے ہوے کہ جو ابھی ابھی یہ کہتیں کہ رُکو ایستے بان، کافی تیار ہونے تک تو رک جاؤ، وہی پیٹھ مڑتے ہی زیرِ لب بول اٹھتیں، آخرکار ٹل گیا دیوپیکر بوبک، اچھا ہوا خوبصورت بھوندو گیا۔ دن نکلنے سے ذرا پہلے لاش کے چاروں طرف بیٹھی ہوئی عورتیں یہی کچھ سوچ رہی تھیں۔ بعد میں جب انھوں نے رومال سے اس کا منھ اس لیے ڈھک دیا کہ دھوپ اس کو کہیں نہ ستائے، تو وہ ان کو جنم جنم کا مرا ہوا لگا، بے یار و مددگار، بالکل ان کے اپنے مردوں کا سا، اور رقت نے ان کے کلیجوں میں ابتدائی دراڑیں ڈال دیں۔ وہ کوئی نوجوان عورت تھی جس نے پہلے پہل رونا شروع کیا؛ دوسری عورتیں بھی اس کی دیکھا دیکھی ٹھنڈی آہوں سے لے کر بین تک کرنے لگیں، اور جتنی زیادہ وہ سسکیاں بھرتیں اتنا ہی زیادہ ان کا دل امنڈتا کہ ڈوب مرنے والا اب ان کی نظروں میں عین مین ایستے بان ہوتا جا رہا تھا؛ چنانچہ وہ خوب پھوٹ پھوٹ کر روئیں، کیونکہ وہی تو دنیا بھر میں سب سے زیادہ محروم، سب سے زیادہ صلح کل، سب سے زیادہ بامروت تھا، بے چارہ ایستے بان۔ اس لیے جب مرد لوگ یہ خبر لے کر لوٹے کہ مرنے والا آس پاس کی کسی بستی کا نہیں تو عورتوں کو اپنے آنسوئوں کی جھڑی میں مسرت پھوٹتی محسوس ہوئی۔
’’خداوند کی حمد ہو،‘‘ انھوں نے ٹھنڈی سانس بھری، ’’یہ اپنا ہے!‘‘
مردوں نے اس کہرام کو زنانہ خرافات جانا۔ رات بھر کی کٹھن پوچھ تاچھ سے بے حال ہوچکنے کے بعد وہ تو بس اتنا چاہتے تھے کہ کسی طرح اس خشک اور ہوا بند دن، دھوپ چڑھ جانے سے پہلے پہلے، اس نووارد کے جھنجھٹ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فارغ ہوجائیں۔ انھوں نے فالتو پڑے ہوے بادبانوں اور ماہی گیری کے نیزوں کو جوڑ جاڑ کر ایک ڈولا سا بنایا اور اس کو رسیوں سے خوب کس کس کر باندھا تاکہ وہ اس کا بوجھ اس وقت تک برداشت کر لے جائے جب تک وہ چٹانوں کے کنارے تک نہ پہنچ جائیں۔ وہ بار بردار جہاز کا لنگر بھی باندھنا چاہتے تھے تاکہ وہ بہ آسانی قعرِ دریا میں اتر جائے جہاں مچھلیوں کو بھی کچھ سجھائی نہیں دیتا اور جہاں غوطہ خور تک خشکی کی ہُڑک میں ختم ہوجاتے ہیں، اور پھر اس لیے بھی کہ تُند لہریں اس کو دوبارہ کنارے پر نہ لے آئیں، جیساکہ دوسری کئی لاشوں کے ساتھ ہوچکا تھا۔ مگر مرد جتنی جتنی عجلت کرتے، عورتیں وقت ٹالنے کی اُتنی اُتنی ترکیبیں نکالتیں؛ اپنے سینوں پر سمندری تعویذ جھلاتی وہ بے چین مرغیوں کی مانند کُڑکُڑاتی پھر رہی تھیں۔ کچھ ایک جانب سے مداخلت کرتیں کہ مرنے والے کو مبارک ہوا والا منّتی احرام پہنایا جائے تو چند دوسری جانب سے رائے دیتیں کہ اس کی کلائی پر قطب نما باندھا جائے؛ اور ’’ایک طرف ہوجا بی بی، راستے سے ہٹ، دیکھو دیکھو! مجھے مُردے پر گرا ہی دیا تھا‘‘ کی کافی سے زیادہ چِل پوں کے بعد آخرکار مردوں کے دلوں میں شکوک سر اٹھانے لگے اور انھوں نے بڑبڑانا شروع کردیا کہ ایک اجنبی کی خاطر بڑی قربان گاہ والے اتنے سارے چڑھاوے آخر کیوں، کیونکہ چاہے جتنی بھی میخیں چڑھائو اور متبرک پانی کے جتنے چاہو اتنے برتن چڑھادو، پر شارک بہرصورت اس کو چٹ کر جائیں گی۔ مگر عورتیں تھیں کہ لپک جھپک گرتی پڑتی اپنے تبرکات کا سارا کباڑ لا لا کر اس پر نچھاور کیے جا رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ جو کچھ اپنے آنسوئوں سے ظاہر نہیں کر پا رہی تھیں وہ ٹھنڈی آہوں کی صورت نکال رہی تھیں، یہاں تک کہ مرد لوگ آپے سے باہر ہوگئے۔ ’’ارے ایک بھٹکتی لاش، ایک انجانے بے حقیقت آدمی، ایک بُدھواری ٹھنڈے گوشت کی خاطر اتنے چونچلے کبھی کاہے کو ہوے تھے جو اَب ہونے لگے؟‘‘ احترام کی اس کمی سے دل برداشتہ ہوکر ان میں سے ایک عورت نے مرنے والے کے منھ پر سے رومال ہٹا دیا، اور پھر تو مردوں کی بھی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔
وہ ایستے بان تھا۔ اس کو پہچان لینے کے لیے ان کے سامنے اس کا نام دہرانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر کہا جاتا کہ سر والٹرریلے، تو وہ شاید اس کے فرنگی لہجے، اس کے کندھے پر بیٹھے طوطے، اس کی آدم خوروں کو مارنے والی توڑے دار بندوق کے رعب میں آگئے ہوتے، مگر ایستے بان تو سارے عالم میں بس ایک ہی تھا، اور وہ سامنے پڑا تھا، بالکل سفید ویل کی طرح، جوتے اتارے، کسی بونے کا پتلون چڑھائے، سخت سخت ناخونوں والا، جن کو چاقو سے تراشنا پڑا تھا۔ یہ جان لینے کے لیے بس اس کے چہرے سے رومال ہٹنے کی دیر تھی کہ وہ بہت نادم ہے،یوں کہ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں کہ وہ اتنا جہاز کا جہاز، اتنا بھاری بھرکم اور اتنا صورت دار ہے، اور جو کہیں اس کو یہ معلوم ہوجاتا کہ سب کچھ یوں ہوگا تو اس نے اپنی غرقابی کے لیے کوئی الگ تھلگ سی جگہ دیکھی ہوتی۔ مذاق نہیں، میں تو بلکہ حالات سے بیزار ہوجانے والے آدمی کی طرح اپنے گلے میں کسی جنگی جہاز کا لنگر باندھ بوندھ کر کسی کراڑ پر سے جا لڑھکتا تاکہ اب تو اس بدھواری لاش کی طرح لوگوں کو پریشان نہ کروں۔ بقول آپ لوگوں کے، ٹھنڈے گوشت کے اس غلیظ لوتھڑے سے کسی کا ناک میں دم کیوں کیا جائے جس سے اب میرا کوئی واسطہ بھی نہ ہو۔ اس کے انداز میں اس قدر کھری صداقت تھی کہ نہ صرف ان سب سے زیادہ وہمی لوگوں کے، جو کہ سمندر میں گزاری ہوئی ان بے انت راتوں کی تلخیوں کو محسوس کرسکتے تھے جن میں ان کو یہ خوف کھائے جاتا تھا کہ کہیں ان کی عورتیں ان کے خواب دیکھتے دیکھتے تھک ہار کر غرق ہوجانے والوں کے خواب نہ دیکھنے لگی ہوں، بلکہ دوسرے ان سے بھی بڑھ کر سخت لوگوں تک کے تن بدن کے رونگٹے ایستے بان کی بے ریائی پر کھڑے ہو گئے۔
اور یوں انھوں نے اپنی ذہنی اُڑان کے مطابق ایک لاوارث ڈوب مرنے والے کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے اٹھایا۔ جب کچھ عورتیں پھولوں کی تلاش میں قریب کے گاؤں میں گئیں تو وہاں سے ان عورتوں کو ساتھ لے آئیں جن کو سنی سنائی پر اعتبار نہ آیا تھا، اور جب انھوں نے مرنے والے کے دیدار کرلیے تو وہ مزید پھول لانے چل دیں اور پھر تو اور آتے گئے، اور آتے گئے، یہاں تک کہ وہاں اس قدر پھول اور اتنی زیادہ خلقت جمع ہوگئی کہ پیر سرکانے بھر کی جگہ نہ رہی۔ آخری لمحات میں ان کا دل اس بات پر دُکھا کہ اس کو یتیمی کی حالت میں پانی کے سپرد کردیا جائے، اور انھوں نے اپنے معتبرین میں سے اس کے باپ اور ماں کو منتخب کیا، اور خالائیں اور پھوپھیاں اور چچا اور ماموں اور خلیرے اور چچیرے اور ممیرے بھائی بند، یہاں تک کہ اس کے توسط گائوں کا گائوں ایک دوسرے کا قرابت دار بن گیا۔ چند ملاح جنھوں نے دور سے ان کے بین سنے، اپنے راستے سے بھٹک گئے؛ اور لوگوں نے ایک کے بارے میں یہاں تک سنا کہ اس نے قدیم داستانوں کی سائرن عورتوں کا گمان کرتے ہوے خود کو مرکزی مستول سے کس کر بندھوا لیا۔ جس وقت وہ سب چٹانو ں کی کھڑواں رپٹ پر اس کو اپنے اپنے کاندھوں پر اٹھانے کے شرف کے لیے ٹوٹے پڑ رہے تھے، اس وقت اپنے ڈوب مرنے والے کے کرّوفر اور حسن کا سامنا کرتے ہوے، کیا مرد اور کیا عورتیں، سب ہی کو پہلی بار اپنی گلیوں کی ویرانی، اپنی انگنائیوں کی بے برگ و باری اور اپنے خوابوں کی تنگ دامنی کا احساس ہوا۔ انھوں نے اس کو لنگر کے بغیر ہی جانے دیا تاکہ اگر وہ آنا چاہے تو واپس آ سکے، جب بھی وہ آنا چاہے۔ اور جُگوں کے اس مختصر ترین پل تک وہ سب دم سادھے رہے جب تک کہ لاش گہرائی میں نہ پہنچ گئی۔ یہ جان لینے کے لیے کہ وہ سب نہ اب وہاں موجود ہیں اور نہ کبھی ہوں گے، انھیں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مگر وہ اتنا ضرور جان گئے تھے کہ اس وقت کے بعد ہر چیز کی کایا پلٹ جائے گی؛ اب ان کے گھروں کے دروازے کشادہ، چھتیں بلند اور فرش مضبوط ہوا کریں گے، تاکہ ایستے بان کی یاد جہاں چاہے کڑیوں سے سر ٹکرائے بغیر آجا سکے اور آئندہ کسی کو بھی زیرِ لب یہ کہنے کی ہمت نہ ہو کہ دیوپیکر بوبک آخرکار مر گیا، بہت برا ہوا خوبصورت بھوندو انجام کار جاتا رہا، کیونکہ اب وہ ایستے بان کی یاد کو ہمیشہ ہمیشہ تازہ رکھنے کے لیے اپنے گھروں کو باہر سے چٹکیلے رنگوں سے رنگنے جا رہے تھے اور چٹانوں کے درمیان سے چشمے نکالنے اور کراڑوں پر پھولوں کی تختہ بندی کرنے کے لیے جی توڑ مشقت کرنے جا رہے تھے، تاکہ آنے والے زمانوں میںصبح سویرے بڑے بڑے جہازوں کے مسافر سمندر پر آتی ہوئی پھولوں کی مہکار سے گھٹ کر جاگ اٹھیں، اور کپتان کو اپنی پوری وردی، اپنے اسطرلاب، اپنے قطب تارے اور جنگ میں کمائے ہوے اپنے تمغوں سمیت عرشے پر اتر کر آنا پڑے، اور پھر سامنے افق پر گلابوں کی پٹی کی جانب اشارہ کرتے ہوے وہ چودہ زبانوں میں کہے: اُدھر دیکھو جہاں ہوا اتنی پُرسکون ہے جیسے کیاریوں میں پڑی نیند لے رہی ہو، اُدھر جہاں دھوپ اتنی روشن روشن ہے کہ سورج مکھی بھی حیران ہے کہ کدھر منھ کرے، وہاں اُس طرف، وہی ایستے بان کا گاؤں ہے۔