Laaltain

چرواہے کا خواب اور دیگر نظمیں (سعیدالدین)

7 مئی، 2020

چرواہے کا خواب

چرواہا خواب دیکھتا ہے
اس کی ایک بھیڑ گم ہو گئی
صرف انچاس بھیڑیں باقی ہیں
چرواہا خواب دیکھتا ہے
اس کی تین بھیڑیں زخمی ہیں
صرف چھیالس باقی ہیں
چرواہا خواب دیکھتا ہے
بھیڑیے نے اس کے گلے پر حملہ کر دیا
بھاگتی منتشر ہوتی بھیڑوں میں سے پیچھے رہ جانے والی ایک بھیڑ اور کم ہو گئی
پچاس خوف زدہ بھیڑیں دیکھتی ہیں
سوئے ہوئے چرواہے کو بھیڑیا گھسیٹ کر لے جا رہا ہے

محبت کرنے کے لیے

محبت کرنے کے لیے
عشق پیچاں
مہرباں دن
یا داستانوی پرندے کی ضرورت نہیں ہوتی
محبت کرنے کے لیے تو
محبت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی

محبت کسی کی بھی مقروض نہیں
یہ کاغذ پر بنی آنکھوں میں سو سکتی ہے
ستاروں کی دوریوں پر
انتظار کر سکتی ہے
سمندر کے بلاوے میں
گھر بنا سکتی ہے

محبت آدمی کی ہینڈ رائٹنگ ہے
سفر اور کتاب کا چناؤ
اور ہوا میں پھینکا ہوا بوسہ ہے
محبت فراموشی میں زندہ رہتی ہے
اور احساس کے کسی دام میں نہیں آتی
یہ وہ محل ہے
جس کا ہر دروازہ باہر کھلتا ہے
لیکن ہر راستا اندر ہی بھٹکاتا ہے

جسم محبت کا پیرہن ہوتا ہے
بعض لوگ صرف جسم چھُوتے ہیں
اور برہنہ ہو جاتے ہیں
ایک دن محبت
آدمی کو مکمل کرے گی
آدمی کی تکمیل
شاعری کی آخری لائن ہو گی
اس دن کے بعد
آدمی اور محبت دونوں نہیں ہوں گے

نظم

پہلے ایک روٹی تھی
جو ہمیں تھامے رکھتی تھی
جس کے لیے ہم پیٹ کے بل چلتے تھے
اب روٹی کہیں غائب ہو گئی ہے
اور روٹی کی بھوک بھی
پہلے مجھے معلوم تھا
روٹی کہاں اگتی ہے
کس ارے سے کاٹی جاتی ہے
اب وہ کھیت صفحہء ہستی سے مٹ گئے
اور وہ آری بھی ناپید ہو گئی
اب لوگ فاقہ نہیں کرتے
اب لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں
ہمارے کھیت کیا ہوئے
ہماری روٹی اور فاقہ کہاں گئے
پہلے جب ہم سے روٹی چھینی جاتی تھی
تو ہم سراپا احتجاج بن جاتے تھے
شاید ہمارے شکم چرا لیے گئے ہیں
ہم احتجاج کرنا تک بھول گئے ہیں
ہمیں ہمارے حصے کی روٹی چاہیے
یا کم ازکم
ہمیں ہمارا فاقہ لوٹا دو
روٹی
ہم خود تلاش کرلیں گے

درخت کی دہشت

مَیں کلہاڑے سے نہیں ڈرا
نہ کبھی آرے سے
مَیں تو خود کلہاڑے کے پھل اور آرے کے دستے سے جُڑا ہوں
میں چاہتا ہوں
کوئی آنکھ میرے بدن میں اُترے
میرے دل تک پہنچے
کوئی محتاط آری
کوئی مشتاق ہاتھ مجھے تراش کر
ملاحوں کے لیے کشتیاں
اور مکتب کے بچوں کے لیے تختیاں بنائیں
اس سے پہلے کہ میری جڑیں
بوڑھی داڑھ کی طرح ہلنے لگیں
یا میری خشک ٹہنیاں آپس میں رگڑ کھا کر جنگل کی آگ بن جائیں

رسی

میں نے ساری کمائی سے
روٹی خریدی
ایک اور شخص نے
اپنی سب کمائی سے
اپنی محبوبہ کے لیے انگوٹھی خریدی
کسی اور نے
اپنی ساری پونجی
جوۓ میں ہار دی
ایک اور آدمی نے
رسی خریدی
اور گلا گھونٹ کر مر گیا

اب ہم
اپنی روٹی، انگوٹھی
اور ہاری ہوئی رقم یک جا بھی کرلیں
تو بھی وہ رسی نہیں خرید سکتے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *