Laaltain

ایک شہر کلیساؤں کا (تحریر: ڈونلڈ بارتھلم، ترجمہ: اسد فاطمی)

19 اگست، 2020
Picture of لالٹین

لالٹین

“جی ہاں،” مسٹر فلپس نے کہا “ہمارا شہر کلیساؤں کا شہر ہے، خوب۔”

سسلیا اس کے اشارہ کرتے ہاتھ کی جانب کچھ جھکی، وہ معمارانہ اسالیب کے ایک تنوع کے بیچ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے تھے۔ بیتھل کے بیت الاصطباغ کے ساتھ ہی مسیح اقدس کی آزاد بپتسمہ گاہ تھی، اور اس کے آگے سینٹ پال کا راہب خانہ، اس سے آگے گریس انجیلی کانوینانت واقع تھا۔ اس کے بعد فرسٹ کرسچن سائنس، کلیسائے خداوندی، آل سولز، خاتونِ فتح و ظفر، سوسائٹی آف فرینڈز، اسمبلی آف گاڈ اور پیغمبرانِ اقدس کا گرجاگھر آتے تھے۔ اس سے آگے آنے والی “معاصر” طراحیوں کی وسیع تخیلاتی پرواز نے روایتی عمارتوں کے بلدار مناروں اور لاٹھوں کے آگے بند باندھ رکھا تھا۔

“یہاں ہر کوئی کلیسائی معاملات میں نہایت دلچسپی رکھتا ہے۔” فلپ صاحب نے کہا۔

کیا میں اس کے ساتھ ڈھل پاؤں گی؟ سسلیا نے استفسار کیا۔ وہ کاریں کرایہ پر اٹھانے کے کام کا ایک شاخیہ دفتر کھولنے کے لیے پریسٹر میں آئی تھی۔

“میں کچھ خاص مذہبی نہیں ہوں،” اس نے فلپ صاحب سے کہا جس کا تعلق رہائشی اراضی کے دھندے سے تھا۔

“ابھی تو نہیں،” اس نے جواب دیا۔ “ابھی نہیں۔ لیکن ادھر ہمارے یہاں بڑے عمدہ نوجوان لوگ موجود ہیں۔ آپ کچھ وقت میں اس برادری میں رچ بس جائیں گی۔ فوری مسئلہ یہ ہے، آپ کہاں رہنے والی ہیں؟ زیادہ تر لوگ۔۔۔” اس نے کہا “اپنی مرضی کے کلیسا میں رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں سبھی کلیساؤں میں بہت سے اضافی کمرے ہیں۔ میرے پاس آپ کو دکھانے کے لیے کچھ بلفری اپارتمان ہیں۔ آپ کے ذہن میں قیمتوں کی حد کیا ہے؟”

وہ ایک کونے کی طرف مڑے جہاں ان کے سامنے کچھ مزید گرجاگھر تھے۔ وہ حضرتِ لوقا کے کلیسا، کلیسائے تجلّی، آل سینٹس یوکرینی راسخین، حضرتِ اقلیمس کی فونٹین بپتسمہ گاہ، یونین جماعت خانہ، سینٹ انارغری، معبد امانویل، کرائسٹ ریفارمڈ کے کلیسائے اول کے سامنے سے گزرتے گئے۔ سبھی گرجاگھروں کے منہ چوپٹ کھلے تھے۔ اندر سے مدھم روشنیاں نظر آ رہی تھیں۔

“میں ایک سو دس تک کی متحمل ہو سکتی ہوں،” سسلیا نے کہا۔ “کیا آپ کے ہاں کوئی ایسی عمارتیں بھی ہیں جو گرجا گھر نہ ہوں؟”

“کوئی نہیں” فلپ صاحب نے کہا۔ “البتہ ایسا ضرور ہے کہ ہمارے کئی عمدہ ترین کلیسائی ڈھانچے کسی دیگر مقصد کے لیے دوہرے فرائض پیش کرتے ہیں۔” اس نے ایک دیدہ زیب جارجئین چھجے کی طرف اشارہ کیا۔ “اسے دیکھیے” اس نے کہا “یہ یونائیٹڈ منہاجیوں اور تعلیمی بورڈ کی رہائش گاہ ہے۔ اس سے آگے جو ہے، انطاکی پنتی‌خوستیہ ہے، اس میں حجامت کی دکان ہے۔”

اس نے ٹھیک کہا تھا۔ ایک سرخ و سفید پٹیوں والا حجامت کا کھمبا واضح طور پر انطاکی پنتی‌خوستیہ کے سامنے ایستادہ تھا۔

“کیا یہاں کافی لوگ کار کرائے پر لیتے ہیں؟” سسلیا نے پوچھا۔ “یا پھر، کیا ان کے پاس انہیں کرائے پہ لینے کے لیے کوئی مناسب جگہ ہے؟”

“او، مجھے کچھ معلوم نہیں۔” فلپ صاحب نے کہا۔ “کار کرائے پر لینے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو کہیں جانا ہو۔ بیشتر لوگ یہاں کافی پرسکون و مطمئن ہیں۔ ہمارے ہاں کافی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اگر میں پریسٹر میں کام کی شروعات کروں تو میں کاریں کرائے پر دینے کا دھندا چنوں گا۔ لیکن آپ کے لیے ٹھیک رہے گا۔” اس نے ایک چھوٹی سی، ازحد جدید عمارت دکھائی، جس کا رخ سخت کھردری اینٹوں، اسٹیل اور شیشے کا بنا تھا۔”یہ سینٹ برنابس ہے۔ کافی اچھے لوگ رہتے ہیں یہاں۔ سپاگٹی کا شاندار کھانا۔”

سسلیا کھڑکی سے متعدد لوگوں کے سر دیکھ سکتی تھی۔ لیکن جب انہیں لگا کہ وہ انہیں تاڑ رہی ہے، وہ سر غائب ہو گئے۔

“کیا آپ کو لگتا ہے کہ بہت سے کلیساؤں کا ایک جگہ اکٹھے واقع ہونا کوئی خوشگوار بات ہے؟” اس نے اپنے بدرقے سے پوچھا۔ “اس میں توازن تو نہیں لگتا، اگر آپ میری بات سمجھ پائیں۔”

“ہم اپنے کلیساؤں کی وجہ سے مشہور ہیں،” فلپ صاحب نے جواب دیا۔ “وہ بالکل بے ضرر ہیں۔ لیجیے ہم پہنچ گئے۔”

اس نے ایک دروازہ کھولا اور وہ گرد آلود سیڑھیوں کی منازل چڑھنے لگے۔ سیڑھیوں کے آخر پر وہ ایک معقول طور پر کشادہ، چوکور، چاروں طرف کھڑکی والے ایک کمرے تک پہنچ آئے۔ اس میں ایک پلنگ، ایک میز، دو کرسیاں، چراغ، اور ایک کمبل تھے۔ چار بہت ہی بڑی گھنٹیاں کمرے کے عین کے وسط میں لٹک رہی تھیں۔

“کیا ہی نظّارہ ہے!” فلپ صاحب پکار اٹھے۔ “ادھر آئیے اور دیکھیے۔” “کیا واقعی گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں؟” سسلیا نے پوچھا۔

“دن میں تین بار،” فلپ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ “صبح، دوپہر، اور رات۔ اور ظاہر ہے، جب انہیں بجایا جاتا ہے، آپ کو ذرا تیزی سے راستہ چھوڑ دینا ہوتا ہے۔ ان معصوموں میں سے کوئی ایک آپ کے سر میں جا لگے گا اور یہی کچھ بتایا گیا ہے۔”

“خدائے واحد،” سسلیا نے نہ چاہتے ہوئے کہا۔ پھر اس نے کہا، “ان بلفری اپارتمانوں میں کوئی نہیں رہتا۔ اسی لیے یہ خالی پڑے ہیں۔”

“کیا آپ کو ایسا لگتا ہے؟” فلپ صاحب نے کہا۔

“آپ انہیں صرف شہر میں نئے لوگوں کے ہاتھ کرائے پر اٹھا سکتے ہیں،” اس نے الزام دھرتے ہوئے پوچھا۔

“میں ایسا نہیں کروں گا” فلپ صاحب نے کہا۔ “یہ مسیحی مؤاخات کی روح کے خلاف جائے گا۔”

“یہ شہر کچھ اچھا بھی نہیں ہے، آپ کو پتہ ہے؟”

“ایسا ہو سکتا ہے، لیکن کہنے کو آپ کے لیے ایسا نہیں ہے، ہیں ناں؟ میرا مطلب ہے کہ، آپ یہاں نئی ہیں۔ آپ کو کچھ دیر، احتیاط سے چلنا چاہیے۔ اگر آپ ایک اوپری اپارتمان نہیں چاہتیں، میرے پاس مرکزی پریسبٹرین میں ایک زیریں منزل ہے۔ آپ کو وہاں کسی سے بانٹ کے رہنا پڑے گا۔ وہاں آج کل دو عورتیں رہتی ہیں۔”

“میں کسی سے بانٹ کے نہیں رہنا چاہتی،” سسلیا نے کہا۔ “مجھے اپنی جگہ چاہیے۔”

“کیوں؟” رہائشی اراضی والے بندے نے تجسس کے ساتھ پوچھا۔ “اس کی کیا وجہ ہے؟”

“وجہ؟” سسلیا نے پوچھا۔ “اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ مجھے بس ایسا چاہیے۔”

“ایسا یہاں عام معمول میں نہیں ہوتا۔ یہاں زیادہ تر لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ شوہر اور بیویاں۔ بیٹے اپنی ماؤں کے ساتھ۔ لوگوں کے ہم کمرہ ساتھی ہیں۔ یہی معمول کا قرینہ ہے۔”

“جو بھی ہو، مجھے اپنی جگہ چاہیے۔”

“یہ بالکل خلافِ معمول ہے۔”

“کیا آپ کے پاس ایسی کوئی جگہیں ہیں؟ میرا مطلب، گھڑیال والی لاٹھ کے علاوہ؟”

“میرے خیال سے کچھ تو ہیں،” فلپ صاحب نے واضح تذبذب کے ساتھ کہا۔ “میں آپ کو کوئی ایک یا دو دکھا سکتا ہوں، شاید۔”

وہ ایک لمحہ کے لیے رک گیا۔

“ایسا فقط اس لیے ہے کہ ہمارے پاس مختلف قیمتیں ہیں، شاید، کچھ آس پاس کی آبادیوں میں،” اس نے وضاحت کی۔ “ہم نے بہت کچھ لکھ رکھا ہے۔ ایک وقت میں سی‌بی‌ایس کی شام کی خبروں میں چار منٹ ہمارے پاس ہوتے تھے۔ تین چار سال پہلے۔ کلیساؤں کا شہر، اس کا نام تھا۔”

“جی ہاں، میرے لیے اپنی الگ جگہ ضروری ہے،” سسلیا نے کہا، “اگر مجھے یہاں زندہ رہنا ہے۔”

“یہ ایک طرح سے بڑا پر تفنن رویہ ہے،” فلپ صاحب نے کہا، “آپ کا تعلق لوگوں کی کس قبیل سے ہے؟”

سسلیا خاموش رہی۔ سچ تو یہ تھا، وہ کسی قبیل سے نہیں تھی۔

“میں نے کہا، آپ لوگوں کی کس قبیل سے ہیں؟” فلپ صاحب نے دوہرایا۔

“میں اپنے خوابوں کو ارادے کا رنگ دے سکتی ہوں،” سسلیا نے کہا۔ “میں جو چاہوں، خواب دیکھ سکتی ہوں۔ اگر میں چاہوں کہ میں پیرس، یا کسی دوسرے شہر میں اچھا وقت گزاروں، میں بس یہ کرتی ہوں کہ گہری نیند سو جاؤں اور اس خواب کو بُننے لگوں۔ میں جو چاہوں خواب دیکھ سکتی ہوں۔”

“تو پھر، آپ زیادہ تر کیا خواب دیکھتی ہیں؟” فلپ صاحب نے اس کی طرف قریب سے دیکھتے ہوئے کہا۔

“زیادہ تر جنسی چیزیں،” وہ بولی۔ وہ اس سے خوفزدہ نہیں تھی۔

“پریسٹر اس قسم کا شہر نہیں ہے،” فلپ صاحب نے دور کہیں دیکھتے ہوئے کہا۔

وہ سیڑھیوں سے واپس نیچے اتر گئے۔

گلی کے دونوں اطراف پر، کلیساؤں کے دروازے کھل رہے تھے۔ لوگوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں باہر آ کر وہاں کھڑی ہو گئیں، گرجاگھروں کے سامنے، اور سسلیا اور فلپ صاحب کو تاکنے لگیں۔

ایک نوجوان آگے آیا اور پکارنے لگا، “اس شہر میں ہر شخص کے پاس اپنی کار ہے! اس شہر میں ایسا کوئی نہیں ہے جس کے پاس اپنی کار نہ ہو!”

“کیا یہ سچ ہے؟” سسلیا نے فلپ صاحب سے پوچھا۔

“جی ہاں،” اس نے کہا۔ “یہ درست ہے۔ یہاں کوئی کار کرائے پر نہیں لے گا۔ اگلے سو سالوں تک بھی نہیں۔”

“پھر تو میں یہاں نہیں ٹھہروں گی،” وہ بولی۔ “میں کہیں اور چلی جاتی ہوں۔”

“آپ کو رہ جانا چاہیے،” وہ بولا۔ “یہاں آپ کے لیے پہلے ہی ایک کار کرائے پہ دینے والا دفتر موجود ہے۔ ماؤنٹ موریا بپتسمہ گاہ میں، لابی والی منزل پر۔ وہاں ایک کاؤنٹر اور ایک ٹیلیفون ہے اور کار کی چابیوں کا ایک آویختہ ہے۔ اور ایک کیلنڈر ہے۔”

“میں نہیں رہوں گی،” وہ بولی۔ “اگر یہاں رہنے کے لیے کام دھندے کی کوئی معقول وجہ نہ ہو۔”

“ہمیں آپ کی ضرورت ہے،” فلپ صاحب نے کہا۔ “ہم کام کے باقاعدہ اوقات میں، کار کرائے پر دینے والی ایجنسی کے کاؤنٹر کے پیچھے آپ کو کھڑے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس سے شہر مکمل سا ہو جائے گا۔”

“میں ایسا نہیں کرنے والی۔” وہ بولی “میں تو نہیں۔”

“آپ کو ایسا کرنا چاہیے۔ یہ ضروری ہے۔”

“میں ان چیزوں کا خواب دیکھوں گی،” وہ بولی۔ “جو آپ کو پسند نہیں آئیں گی۔”

“ہم نامطمئن ہیں،” فلپ صاحب نے کہا۔ “بہت گھمبیر حد تک غیر مطمئن۔ کچھ ایسا ہے جو ٹھیک نہیں ہے۔”
“میں ایک راز کا خواب دیکھوں گی،” اس نے کہا۔ “جو آپ کو اس سے خوش نہیں ہوں گے۔”

“ہم دوسرے شہروں کی طرح ہی ہیں، ماسوائے اس کے کہ ہم کامل ہیں،” وہ بولا۔ “صرف کاملیت ہی ہمارے عدم اطمینان کو جواب دہ بناتی ہے۔ ہمیں کاریں کرائے پر اٹھانے والی ایک لڑکی درکار ہے۔ اس کاؤنٹر کے پیچھے کسی نہ کسی کو کھڑا ہونا چاہیے۔”

“میں اس زندگی کا خواب دیکھوں گی جس سے آپ سب سے زیادہ ڈرتے ہیں،” سسلیا نے اسے دھمکایا۔ “آپ اب ہماری ہیں،” وہ اس کا بازو پکڑتے ہوئے بولا۔ “ہماری کار کرائے پر اٹھانے والی لڑکی۔ خوش مزاجی سے کام لیں۔ یہاں آپ کو کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔”

“دیکھیے اور انتظار کریں،” سسلیا بولی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *