Laaltain

نجمِ اسود اور ننھی کائناتیں: قسط نمبر دو (بچپن)

7 اپریل, 2021
Picture of طارق عباس

طارق عباس

قسط نمبر ایک یہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ (ٹیب نئی ونڈو میں اوپن ہو گا)

میں 8 جنوری 1942 کو ، گلیلیو کی وفات کے عین 300 برس بعد پیدا ہوا۔ تاہم، میرا اندازہ ہے کہ اسی روز قریباً دو لاکھ بچے اور بھی پیدا ہوئے ہوں گے۔ میں نہیں جانتا کہ بعد ازاں ان میں سے کسی کو علمِ فلکیات میں دلچسپی پیدا ہوئی یا نہیں ۔ اگرچہ میرے والدین لندن میں رہائش پذیر تھے لیکن میری پیدائش آکسفورڈ میں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنگِ عظیم دوم کے دوران آکسفورڈ (بچے کی) پیدائش کیلئے ایک موزوں مقام تھا: چونکہ (برطانیہ اور ) جرمنی کا باہمی معاہدہ تھا کہ وہ آکسفورڈ اور کیمبرج اور اس کے عوض برطانوی  ہائیڈل (Heidelberg) برگ اور گوٹن جین (Göttingen) پر بمباری نہیں کریں گے۔ ۔افسوس اس امر کا ہے کہ اس پر امن معاہدے کو مزید شہروں تک وسعت نہ دی جا سکی۔

میرے والد یارک شائر سے تھے۔ اُن کے دادا، یعنی میرے پڑدادا اپنے وقت کے ایک متمول کسان تھے ۔ انھوں نے بہت سے فارم خریدے لیکن بیسویں صدی کے آغاز تک شعبہ زراعت کی زبوں حالی  کے باعث دیوالیہ ہو چکے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہوئے لیکن جیسے تیسے اپنے بیٹے (یعنی میرے والد) کو آکسفورڈ بھیجنے میں کامیاب ہو گئے، آکسفورڈ منتقل ہونے کے بعد میرے والد نے میڈیسن میں تعلیم حاصل کی۔ اور بعد ازاں انھوں نے گرم خطوں کی ادویات (tropical medicine) کے شعبہ میں بطور محقق (researcher) کام کیا۔ 1937  میں وہ مشرقی افریقہ گئے ۔ اور جب جنگِ عظیم دوم کا آغاز ہوا تو برطانیہ جانے والے بحری جہاز کو پہنچنے کی خاطر انھوں نے افریقہ کے زمینی راستے کا سفر کیا۔  ۔برطانیہ پہنچ کر انھوں نے رضاکارانہ طور پرفوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ تاہم میرے والد کو یہ مشورہ دیا  گیا کہ وہ طبی تحقیقات کے شعبہ میں زیادہ مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔

میری والدہ محترمہ گلاسگو (Glasgow) سکاٹ لینڈ میں پیدا ہوئیں، اور ایک فیملی ڈاکٹر کے سات بچوں میں دوسرے نمبر پر تھیں۔ جب وہ بارہ برس کی ہوئیں تو ان کی فیملی سکاٹ لینڈ کے جنوبی شہر دیوون (Devon) منتقل ہو گئی۔ میرے والد کے گھرانے کے طرح والدہ کی فیملی کے مالی حالات بھی زیادہ اچھے نہ تھے۔ تاہم اس قدر ضرور تھے کہ وہ میری والدہ کو آکسفورڈ (یونی ورسٹی)بھیجنے میں کامیاب ہو پائے۔ آکسفورڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد میری والدہ نے بہت سی ملازمتیں کیں، جن میں سے ایک ٹیکس انسپکٹر کی ملازمت بھی تھی، جو میری والدہ کو ناپسند تھی۔ انھوں نے ٹیکس انسپکٹر کی ملازمت چھوڑ کر سیکریٹری کی ملازمت اختیار کر لی اور یہی ملازمت تھی جو اُن کی میرے والد سے جنگ کے ابتدائی ایام میں ملاقات کا باعث بنی۔

ہم ہائی گیٹ (Highgate) نارتھ لندن میں رہتے تھے۔ میری بہن مَیری (Mary) میری پیدائش کے اٹھارہ ماہ بعد پیدا ہوئی۔ مجھے یہ بتایا جاتا ہے کہ میں اپنی بہن کی پیدائش پر خوش نہیں تھا۔ ہمارا بچپن کا تعلق مسلسل تناؤ کا شکار رہا، اور ہماری عمر کے معمولی سے فرق نے اس تناؤ کو مزید بڑھاوا دیا۔ تاہم بلوغت کو پہنچنے کے بعد یہ باہمی تناؤ ختم ہو چکا ہے اور اب ہم جدا جدا راستوں کے مسافر ہیں۔ اُس کے ڈاکٹر بن جانے نے میرے والد کو بہت خوشی پہنچائی ۔ ۔ میری چھوٹی بہن فلیپا (Philippa) تب پیدا ہوئی جب میں پانچ برس کا تھااور میرے ارد گرد جو کچھ بھی ہوتا تھا، اس کا شعور رکھتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں اس کی پیدائش کا منتظر تھا  کیونکہ پھر ہم تین بہن بھائی آپس میں کھیل سکتے تھے۔ مَیری بہت ذکی الحس اور ذی فہم تھی۔ میں نے اس کے مشاہدے اور آراء کو ہمیشہ وقعت دی۔ میرا بھائی ایڈورڈ (Edward) بہت دیر بعد پیدا ہوا،تب جب میں چودہ برس کا تھا، اور یوں میرے بچپن میں اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ایڈورڈ اپنے تین بہن بھائیوں سے بہت مختلف تھا، مکمل غیر علمی اور عقل و خرد سے عاری۔ اور یہ شاید یہی ہمارے حق میں اچھا تھا۔ اگرچہ اس کے ساتھ نباہ آسان نہ تھا لیکن آپ اسے پسند کئے بغیر بھی نہ رہ سکتے تھے۔

میری بچپن کی اولین یادداشت  کچھ یوں ہے کہ میں  Highgateمیں Byron House کی نرسری میں کھڑا زور زور سے چیخ رہا ہوں۔ میرے ارد گرد بچے کھلونوں سے لطف اندوز ہو رہےتھےمیں بھی ان کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا، لیکن میں صرف اڑھائی سال کا تھا،  اس پہ مستزاد ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ مجھے ان لوگوں کے ساتھ چھوڑ دیا گیا جو میرے لئے بالکل اجنبی تھے۔ میرا خیال ہے میر ے یوں چیخ چیخ کر رونے پہ میرے والدین محوِ حیرت تھے کیونکہ میں ان کی پہلی اولاد تھا اور وہ بچوں کا تربیتی نصاب بھی پڑھ رہے تھے جس کے مطابق دو برس کا بچہ معاشرتی تعلقات بنانا شروع کر دیتا تھا۔ ۔ لیکن اس افسوس ناک صبح کے بعد وہ مجھے وہاں سے لے گئے اور مجھے مزید ڈیڑھ سال تک دوبارہ Byron House نہیں بھیجا۔

جنگ اور جنگ کے معاً بعد، Highgate بہت سے سائنسی اور علمی لوگوں کی آماجگا بن چکا تھا دوسرے ممالک میں انھیں دانشورکے نام سے پکارا جاتا تھا، لیکن انگریزوں نے کبھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ اُن کے ہاں بھی کبھی دانشور رہے ہیں۔۔ یہ تمام لوگ (یعنی سائنسی اور علمی شخصیات) اپنے بچوں کو Byron ہائی سکول بھیجتے تھے، جو اپنے وقت کا ایک ترقی پذیر ادارہ تھا۔ مجھے یاد ہے میں اپنے والدین سے شکایت کیا کرتا تھا کہ سکول والے مجھے کچھ نہیں پڑھاتے۔ وہ  آپ کو درست طریق پر تعلیم دینے کے نظریے پر یقین نہیں رکھتے تھے، اور یہی (غلط طریقہ کار) اس وقت کا م معروف طریق تھا۔  تعلیم دینے کی بجائے وہ آپ کو پڑھنا سکھاتے تھے، یہ احساس دلائے بغیر کہ آپ کو پڑھایا جا رہا ہے۔ میری بہن Philippa کو زیادہ روایتی طریقوں سے پڑھنا سکھایا گیا اور وہ چار پرس کی عمر میں پڑھنا سیکھ چکی تھی ۔ اور اس وقت، وہ یقیناً مجھ سے زیادہ لائق تھی۔

ہم ایک طویل القامت لیکن تنگ وکٹورین طرز کے گھر میں رہتے تھے، یہ گھر میرے والدین نے جنگ کے دوران نہایت سستے داموں خریدا تھا،(اس کے سستے داموں فروخت ہونے کی وجہ یہ تھی کہ)  لوگوں کو دورانِ جنگ ہی لندن کے (بمباری کی وجہ سے) تباہ ہو جانے کا خدشہ تھا۔ درحقیقت ایک V-2 راکٹ ہمارے گھر سے چند گھروں کے فاصلے پر آ کر گرا بھی تھا۔ اس وقت میں اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ گھر سے باہر گیا ہوا تھا لیکن میرے والد گھر پر تھے۔ خوش قسمتی سے، وہ زخمی نہیں ہوئے، اور گھر کا بھی زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ لیکن اس بم کےگرنے سے کئی سالوں تک سڑک پر ایک بہت بڑی bomb site بنی رہی جہاں میں اپنے دوست Howard ، جو ہمارے گھر سے صرف تین گھروں کی دوری پر رہتا تھا، کے ساتھ کھیلا کرتا تھا، Howard میرے لئے ایک حیران کن  انسان تھا کیونکہ اس کے والدین میرے تمام جاننے والے بچوں کے والدین کی طرح دانشور (intellectual) نہیں تھے۔ وہ Byron کی بجائے کونسل سکول جاتا تھا، فٹ بال اور باکسنگ کے بارے میں جانتا تھا، ایسے کھیل جنھیں کھیلنے کا میرے والدین نے کبھی خواب بھی نہ دیکھا ہو گا۔

میری ایک اور ابتدائی یادداشت مجھے پہلاٹرین سیٹ (train set toy)ملنے کی ہے۔ جنگ کے دوران(برطانیہ میں) کھلونے تیار نہیں ہو رہے تھے، کم از کم لوکل مارکیٹ کے لئے تو بالکل نہیں۔ ماڈل ٹرینز (Model Trains) میں میری دلچسپی جنون کی حد تک تھی۔ میرے والد نے مجھے لکڑی کی ٹرین بنا کر دینے کی کوشش کی، لیکن میں مطمئن نہیں ہوا، اور ایک ایسی ٹرین چاہتا تھا جو چلتی ہو۔لہذاٰ میرے والد نے مجھے دائرے میں چلنے والی سیکنڈ ہینڈ  ٹرین خرید کر دی، ٹانکا لگانے کے اوزار سے اس کی مرمت کی، اور کرسمس سے پہلے ہی اس کی مرمت کر کے مجھے کھیلنے کے لئے دے دی۔ تب میں قریب تین برس کا تھا۔ (اگرچہ میرے والد نے اپنے طور پر اسے مرمت تو کیا تھا لیکن) ٹرین ٹھیک سے نہیں چل سکین اور میرے والد جنگ کے فوراً بعد امریکہ چلے گئے ، لیکن جب وہ Queen Mary پر واپس آئے، تو میری والدہ کیلئے نائلون لائے جو تب برطانیہ میں نہیں ملتی تھی، میری بہن Mary کے لئے ایک گڑیا لائے جو لٹانے پر اپنی آنکھیں موند لیتی تھی۔ اور میرے لئے وہ ایک امریکی ٹرین لائے، جس میں انجن کے آگے لگی ہوئی لوہے کی جالی بھی تھی اور ٹکر روک چھاج بھی تھی جو لائن پر پڑی رکاوٹوں کو پرےہٹانے کے لئے ہوتی ہے، اور آٹھ کے ہندسے کی شکل کا (figure-eight) ٹریک بھی تھا۔ مجھے آج بھی اپنی خوشی کی وہ کیفیت یاد ہے جو ٹرین کا ڈبہ کھولتے وقت مجھے محسوس ہو رہی تھی۔

خود کار اور دائرے میں چلنے والی ٹرین اچھی تو تھی لیکن در حقیقت مجھے الیکٹرک ٹرین چاہیے تھی۔ میں Crouch End میں ماڈل ریلوے کلب کا نقشہ دیکھنے میں گھنٹوں صرف کرتا تھا، اور Highgate کے قریب میں الیکٹرک ٹرین کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ بالآخر جب میرے ماں باپ دونوں شہر سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے، میں نے پوسٹ آفس بنک سے وہ تمام رقم نکلوائی جو لوگوں نے مجھے مختلف مواقع جیسے بپتسمہ وغیرہ پر دی تھی، میں نے اس رقم سے الیکٹرک ٹرین کا ایک سیٹ ٖخریدا، لیکن مجھے مایوسی ہوئی کیونکہ اس نے ٹھیک سے کام نہیں کیا۔ آج کل ہم خریدار کے حقوق سے آگاہ ہیں۔ مجھے چاہئے تھا کہ میں سیٹ واپس لے کر جاتا اور تقاضا کرتا کہ دکاندار یا ٹرین بنانے والے اس تبدیل کر کے دیں، لیکن ان دنوں میں عمومی رویہ یہ تھا کہ کسی بھی شے کی خریداری ایک اعزاز تھا، اور یہ آپ کی بدقسمتی تھی اگر وہ شے خراب نکل آتی۔ لہذاٰ میں نے انجن کی الیکٹرک موٹر ٹھیک کرانے کے پیسے ادا کئے، لیکن اس کے باوصف ٹرین نے کبھی بھی ٹھیک سے کام نہیں کیا۔

بعد ازاں، میری نوجوانی کے دنوں میں، میں نے ماڈل ہوائی جہاز اور کشتیاں بنائیں۔ مجھے اپنے ہاتھوں کو کبھی بھی اچھے سے استعمال کرنا نہیں آیا، لیکن یہ کام میں نے اپنے سکول کے دوست John Mclenahen کے ساتھ کئے جو ان کاموں میں بہت بہتر تھا اور اس کے والد کی اپنے گھر میں ایک ورکشاپ بھی تھی۔ میرا مقصد ہمیشہ سے یہ رہا تھا کہ میں ایسے عملی ماڈل تیار کروں جو مکمل طور پر میرے کنٹرول میں ہوں۔ مجھے اس کی قطعاً پروا نہیں تھی کہ وہ (ماڈل) دِکھنے میں کیسے ہوں گے ۔ میرا خیال ہے یہی وہ جذبہ تھا جس کے تحت میں نے سکول کے ایک اور دوست Roger Ferneyhough کے ساتھ مل کر چند نہایت پیچیدہ گیمز بنائیں۔ ایک گیم ایسی تھی جس میں تعمیر کا کام ہوتا تھا، اس گیم میں فیکٹریاں تھیں جس میں مختلف رنگوں کے یونٹ تیار کئے جاتے تھے، سڑکیں اور ریلوے لائنیں تھیں جن پر انہیں لے جایا جاتا تھا، اور ایک سٹاک مارکیٹ تھی۔

1950 میں میرے والد کا دفتر Highgate کے نزدیک Hampster سے Mill Hill منتقل ہو گیا جہاں پر نو تعمیر شدہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ریسرچ تھا۔ Highgate سے سفر کر کے روزانہ نئے دفتر جانے سے بہتر یہ تھا کہ ہم لندن منتقل ہو جائیں۔ لہذاٰ میرے والدین نے کیتھیڈرل سٹی آف St. Albans میں ایک گھر خریدا ، جو Mill Hill سے جنوبی رخ پر دس میل کے فاصلے پر تھا اور جنوبی رخ پر لندن سے اس کا فاصلہ بیس میل تھا۔ ہمارا نیا گھر ایک شاندار وکٹورین طرز کا گھر تھا۔ میرے والدین نے جب یہ گھر خریدا تب وہ بہت متمول نہ تھے، اور گھر میں شفٹ ہونے سے قبل اس کی تعمیر اورمرمت پر بہت سا کام ہونا بھی باقی تھا۔ بعد ازاں میرے والد نے یارک شائر کے لوگوں کی طرح، مرمت کی خاطر مزید ادائیگی سے انکار کر دیا۔ تاہم انھوں نے پوری کوشش کی کہ وہ تعمیر اور مرمت کا کام جاری رکھیں لیکن یہ ایک بہت بڑا گھر تھا اور وہ ان معاملات میں زیادہ ماہر بھی نہ تھے۔ گھر کی بنیادیں مضبوطی سے تعمیر کی گئی تھیں اس وجہ سے تعمیری معاملات میں نظر اندازی کو بھی برداشت کر گیا۔ بعد ازاں 1985 میں میرے والدین نے اسے گروخت کر دیا تب میرے والد بہت زیادہ بیمار تھے (ان کی وفات 1986 میں ہوئی)۔ میں نے حال ہی میں اس گھر کو دوبارہ دیکھا۔ بظاہر یہی لگتا تھا کہ اس گھر کی آرائش و زیبائش پر مزید کوئی محنت نہیں کی گئی، اور یہ اب بھی پہلے جیسا ہی دِکھتا تھا۔

گھر کا نقشہ ایک فیملی اور ملازمین کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیا گیا تھا۔ اور نعمت خانے (pantry) میں ایک تختہ لگا ہوا تھا جو یہ بتاتا تھا کہ کس کمرے سے گھنٹی بجائی گئی ہے۔ظاہر ہے ہمارے پاس ملازمین تو نہ تھے لیکن میرا کمرہ ایک چھوٹا سا L کی شکل کا کمرہ تھا جو یقیناً کسی ملازمہ کا کمرہ رہا ہو گا۔ میں نے یہ کمرہ اپنی کزن سارہ کی تجویز پر لیا، جو مجھ سے عمر میں تھوڑی ہی بڑی تھی۔ میں سارہ کا بہت معترف تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم اس کمرے میں بہت لطف اندوز ہو سکیں گے ۔ اس کمرے کی ایک خاصیت یہ تھی کہ اس کی کھڑکی سے ہم باہر بائی سائیکل شیڈ (bicycle shed) کی چھت پر چڑھ سکتے تھے اور وہاں سے زمین پر اتر سکتے تھے۔

سارہ میری والدہ کی سب سے بڑی بہن جنت (Janet)کی بیٹی تھی، جو خود ڈاکٹر تھیں اور اُن کی شادی ایک ماہر نفسیات سے ہوئی تھی۔وہ ہمارے گھر سے مماثل گھر میں ہی رہتے تھے جو Harpenden نامی گاؤں میں تھا اور ہمارے گھر سے پانچ میل کے فاصلے پر جنوب کی جانب تھا۔ St. Albans میں ہمارے منتقل ہونے کی ایک وجہ یہ لوگ بھی تھے۔ سارہ کی قربت میرے لئے ایک بہت بڑا اضافی فائدہ تھا، اور میں بس کے ذریعے اکثر Harpenden جایا کرتا تھا۔ ہمارا شہر St. Albans بھی روم کے قدیم شہر Verulamium کے باقیات کے قریب واقع تھا، جو لندن کے بعد برطانیہ میں روم کی سب سے اہم آباد کاری تھی۔ قرونِ وسطیٰ میں روم کی سب سے بڑی خانقاہ بھی برطانیہ میں تھی اور S. Alban کے گرجا کے گرد تعمیر کی گئی تھی، جو روم کی فوج میں سو آدمیوں کا کمان دار تھا اور عیسائی عقیدے کی بنیاد پر برطانیہ میں پھانسی پر لٹکائے جانے والا پہلاشخص تھا۔ راہبوں کی اس اعمار ت کا جو کچھ بچا کھچا تھا وہ ایک دیو ہیکل اور بد شکل چرچ اور ایک  پرانی عمارت تھی، جو اب St. Albans سکول کا حصہ تھے، اور یہیں میں نے بعد ازاں داخلہ لیا۔

Highgate اور Harpenden کے مقابلے میں St. Albans ایک بے لطف اور ثقیل سی جگہ تھی۔ میرے والدین نے شاذ ہی وہاں کوئی دوست بنائے ہوں گے۔ ضمناً یہ اُن کی اپنی غلطی بھی تھی کیونکہ وہ طبعاً تنہائی پسند تھے ، بالخصوص میرے والد۔ مگر یہاں کی آبادی کا مزاج بھی مختلف تھا؛ یقیناً، میرے St. Albans کے تمام دوستوں کے والدین کو دانشور نہیں کہا جا سکتا تھا۔

ہمارا گھرانہ Highgate میں ایک نارمل گھرانہ دِکھتا تھا لیکن St. Albans میں ہم یقیناً انوکھے اور غیر معمولی سمجھے جاتے تھے۔ اور یہ احساس میرے والد کے رویے سے مزید تقویت پکڑ گیا، جو اس امر کی قطعاً پروا نہیں کرتے تھے کہ وہ کیسے نظر آ رہے ہیں اگر ایسا اس وضعقطع کو اختیار کرنے سے وہ کچھ پیسے بچا پاتے۔ جب وہ بچے تھے تو اُن کا گھرانہ بہت غریب تھا، اور اس نے اُن پر ایک دائمی اثر چھوڑا تھا۔ وہ اپنے آرام پر پیسہ خرچ کرنا برداشت نہیں کر سکتے تھے، تب بھی جب، بعد کے برسوں میں اُن کے لئے رقم خرچ کرنا ممکن بھی تھا۔ انہوں نے پورے گھر کو گرم رکھنے کا نظام انسٹال کرنے سے منع کر دیا،حالانکہ انہیں سردی بہت زیادہ محسوس ہوتی تھی۔ اس کی بجائے وہ اپنے کپڑوں کے اوپر بہت سی جرسیاں اور گاؤن پہن لیتے تھے۔ تاہم وہ لوگوں کیلئے بے انتہا فیاض تھے۔

1950 کی دہائی میں انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ نئی کار خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، تو انھوں نے قبل از جنگ کی ایک لندن ٹیکسی خرید لی۔ اور ہم دونوں نےمل کر Nissen hut بطور گیراج تعمیر کیا۔ ہمارے ہمسائے اس پر بہت غصہ ہوئے لیکن وہ ہمیں روک نہیں سکتے تھے۔ عام لڑکوں کی طرح مجھے بھی خود کو معاشرے کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ میں اپنے والدین کی وجہ سے شرمندہ ہوتا تھا، لیکن والدین کو اس کی قطعاً پروا نہ تھی۔

جب شروع شروع میں ہم St. Albans آئے تو مجھے لڑکیوں کے ہائی سکول بھیج دیا گیا، جو اپنے نام (High School for Girls) کے باوجود دس برس کی عمر تک کے لڑکوں کو داخلہ دے دیتا تھا۔تاہم،  جب میری اس سکول میں ایک ٹرم (term) مکمل ہو چکی تھی، میرے والد نے افریقہ کا دورہ کیا، جو وہ کم و بیش ہر سال کرتے تھے، لیکن اس مرتبہ ان کا دورہ نسبتاً طویل اور چار ماہ پر محیط تھا۔ میری والدہ کو اس تمام مدت کیلئے اکیلا رہنا اچھا نہ لگا اور وہ مجھے اور میری دو بہنوں کو لے کر اپنی سکول کے زمانے کی دوست Beryl سے ملنے چلی آئیں، جن کی شادی Robert Graves نامی شاعر سے ہوئی تھی۔ وہ اسپین کے جزیرے Majorca میں  Deya نامی گاؤں میں رہتے تھے۔ یہ جنگ کے محض پانچ برس بعد کی بات ہے اور اسپین کا آمر فرانسسکو فرانکو، جو ہٹلر اور مسولینی کا اتحادی تھا، اب بھی اقتدار میں تھا (درحقیقت وہ مزید دو دہائیوں تک اقتدار میں رہا تھا)۔ تاہم میری والدہ، جو جنگ سے قبل Young Communist League کی ممبر رہ چکی تھیں، تین چھوٹے بچوں کے ساتھ بذریعہ ریل اور کشتی کے، Majorca روانہ ہو گئیں۔ ہم نے Deya میں ایک گھر کرائے پر لیا اور وہاں ہمارا بہت شاندار وقت گزرا۔ میں نے رابرٹ کے بیٹے ولیم کے ساتھ ایک ٹیوٹر سے پڑھا۔ یہ ٹیوٹر رابرٹ کے زیرِ اثر تھا اور اس کی دلچسپی ہمیں پڑھانے سے زیادہ Edinburgh فیسٹیول کے لئے ایک ناٹک لکھنے میں تھی۔ اسی وجہ سے وہ ہمیں روزانہ بائبل کا ایک باب پڑھنے کو بھیجتا اور اس پر ایک مضمون لکھنے کا کہتا۔ اس سرگرمی کا مقصد ہمیں انگریزی زبان کی خوبصورتی سے آشنا کرانا تھا۔ ہمارے برطانیہ واپس لوٹنے سے قبل میں Genesis کو مکمل اور Exodus کا کچھ حصہ پڑھ چکا تھا۔ جو بنیادی سبق مجھے اس سرگرمی سے حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ کسی بھی فقرے کو And سے شروع نہیں کرتے۔ میں نے اپنے ٹیوٹر کو جب بتایا کہ بائبل کے بہت سے فقرات And سے شروع ہوتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ King James کے وقت سے اب بائبل تبدیل ہو چکی ہے۔ اس پر میں نے یہ سوال کیا کہ پھر بائبل پڑھنے کا کیا مقصد ہے؟ لیکن مجھے اس کا جواب نہ دیا گیا۔ اس وقت Robert Graves بائبل کی علامتیت (symbolism) اور تصوف (mysticism) میں بہت دلچسپی رکھتا تھا۔

Majorca سے واپس آنے پر مجھے ایک برس کے لئے ایک نئے سکول میں بھیج دیا گیا، اور تب میں نے Eleven-plus امتحان دیا۔ یہ اس وقت کا ذہانت کا امتحان تھا جو ان سب بچوں کو دینا پڑتا تھا جو ریاستی سطح پر تعلیم (state education) حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اب یہ امتحان ختم کر دیا گیا ہے کیونکہ بہت سے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بچے اس امتحان میں فیل ہو جاتے تھے اور بعد ازاں غیر نصابی سکولوں میں بھیج دئے جاتے تھے۔ لیکن میری کارکردگی ٹسٹ اور امتحانات میں کورس ورک کی نسبت بہت بہتر ہوتی تھی۔ لہذاٰ میں نے eleven-plus کا امتحان پاس کر لیا اور  مقامی St. Albans سکول میں مفت داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

جب میں تیرہ برس کا تھا تو میرے والد چاہتے تھے کہ میں Westminster سکول میں داخلہ لوں جو نامور پرائیویٹ اداروں میں سے ایک تھا۔ اس وقت تعلیم بھی طبقاتی تقسیم رکھتی تھی۔ میرے والد نے یہ محسوس کیا کہ ان کی خوش وضعی اور روابط کی کمی کی وجہ سے ان سے کم صلاحیت لیکن بہتر معاشرتی روابط والے لوگوں کو ان پر ترجیح دی گئی تھی۔ اور چونکہ میرےوالدین متمول نہ تھے، اس وجہ سے مجھے سکالر شپ حاصل کرنا تھا۔ تاہم میں سکالر شپ کے امتحان کے وقت بیمار تھا اور یوں امتحان میں شریک نہ ہو سکا اور St. Albans سکول ہی میں رہا۔  میں نے St. Albans میں جو تعلیم حاصل کی وہ، اگر زیادہ بہتر نہیں تو Westminster جتنی ہی اچھی تھی۔ مجھے ایسا کبھی محسوس نہیں ہوا کہ میرے معاشرتی manners کی کمی کبھی کہیں رکاوٹ بنی ہو۔

اس دور میں انگریزی تعلیم کی بہت درجہ بندی تھی۔ نہ صرف سکول نصابی اور غیر نصابی میں تقسیم تھے بلکہ ان کی مزید درجہ بندی A, B, اور C کی کیٹیگری میں تھی۔ یہ تقسیم ان کے لئے تو بہت اچھی تھی جو درجہ A میں تھے، لیکن درجہ B والوں کے لئے زیادہ اچھی نہیں تھی اور درجہ C والوں کے لئے تو باقاعدہ حوصلہ شکن تھی۔ مجھے eleven-plus کے اچھے رزلٹ کی وجہ سے دجہ A میں رکھا گیا لیکن پہلے سال کے بعد جو بچہ کارکردگی کے اعتبار سے شروع کے بیس بچوں میں نہیں تھا اسے درجہ B میں ڈال دیا جاتا۔ اس سے اُن کی خود اعتمادی کو شدید ضرب پہنچتی تھی، جس ضرب سے کچھ تو تمام عمر بازیاب نہ ہوپاتے تھے۔ St Albans کی پہلے دوامتحانات میں میری چوبیسویں اور تئیسویں پوزیشن آئی جبکہ تیسریے امتحان میں میری اٹھارہویں پوزیشن آئی اور میں بال بال بچ گیا۔

میں کبھی بھی کلاس میں درمیانے درجے سے اوپر کا طالبعلم نہیں رہا (اور یہ کلاس بہت لائق بچوں پر مشتمل تھی)۔ میرا کلاس ورک بہت بے ترتیب ہوتا تھا اور میری لکھائی  کو سمجھنا میرے اساتذہ کیلئے ایک امتحان ہوتا تھا۔ لیکن میرے ہم جماعت لڑکے مجھے آئن سٹائن کے عرف سے پکارتے تھے، اس کا مطلب یہ تھا کہ انہیں مبینہ طور پر کچھ بہتری کے آثار نظر آ تے تھے۔ جب میں بارہ برس کا تھا تو میرے ایک دوست نے دوسرے دوست کے ساتھ ٹافیوں کے ایک پیکٹ کی شرط لگائی کہ میں زندگی میں کبھی کچھ نہ بن پاؤں گا۔ میں نہیں جانتا کہ آیا یہ شرط اپنے انجام کو پہنچی یا نہیں اور اس میں کون فاتح قرار پایا۔

میرے چھ یا سات قریبی دوست تھے، جن میں سے زیادہ تر کے ساتھ میں اب بھی رابطے میں ہوں۔ ہمارے مابین ریڈیو کنٹرولر کے ماڈلز سے لے کر مذہب، پیرا سائیکالوجی سے طبیعیات کے موضوعات پر، طویل بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک موضوع جس پر ہم بحث کیا کرتے تھے وہ کائنات کا نکتۂ آغاز تھا اور یہ کہ آیا اس کو پیدا ہونے کیلئے اور جاری و ساری رہنےکے لئے ایک خدا کی ضرورت تھی یا نہیں۔ میں نے یہ سن رکھا تھا کہ دوز دراز کی کہکشاؤں سے آنے والی روشنی سرخ طیف کی جانب شفٹ ہو جاتی تھی ، جو اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ کائنات پھیل رہی ہے* (نیلے طیف کی جانب شفٹ کا مطلب یہ ہوتا کہ یہ سکڑ رہی ہے)۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ سرخ طیف کی جانب جھکاؤ کی کوئی اور وجہ بھی تھی۔ شاید روشنی ہمارے تک پہنچتے پہنچتے تھک جاتی تھی، اور یوں زیادہ سرخ روشنی ہم تک پہنچتی تھی۔ ایک مکمل طور پر غیر مبتدل اور ہمیشہ قائم رہنے والی کائنات بہت زیادہ قدرتی معلوم ہوتی تھی  لیکن پی ایچ ڈی کے دو برس بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ میں غلط تھا۔

جب میں اسکول کے آخری دو سالوں میں پہنچا، تو میں ریاضی اور فزکس میں تخصص کرنا چاہتا تھا۔ میرے یاضی کے استاد Mr. Tahta ایک inspirational استاد تھے، سکول نے حال ہی میں ایک کمرہ ریاضی کیلئے مختص کیا تھا اور وہ ریاضی کا کلاس روم بھی بن گیا تھا۔ لیکن میرے والد میری اس دلچسپی کے سخت مخالف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ریاضی دانوں کے لئے سوائے تدریس کے اور کوئی ملازمت اختیار کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ انھیں بہت خوشی ہوتی اگر میں میڈیسن کا انتخاب کرتا، لیکن میں نے حیاتیات میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی، جو مجھے بہت زیادہ توضیحی اور بیانی معلوم تی تھی ئی۔ اور سکول میں اس مضمون کا مرتبہ بھی کچھ زیادہ نہ تھا۔ لائق ترین بچے ریاضی اور حیاتیات کے مضامین پڑھتے تھے؛ اور کم لائق طالبعلم حیاتیات کا انتخاب کرتے تھے۔ میرے والد جانتے تھے کہ میں حیاتیات نہیں پڑھوں گا، لیکن پھر بھی انہوں نے مجھے کیمسٹری اور تھوڑا سا ریاضی پڑھنے کی اجازت دی۔ انہوں نے یہ محسوس کیا کہ اس سے میرے لئے تمام راستے کھلے رہیں گے۔ اب میں ریاضی کا پروفیسر ہوں، لیکن میں نے St. Albans سکول چھوڑنے کے بعد سے ریاضی کی کوئی بھی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی، وہ سکول جو میں سترہ سال کی عمر میں چھوڑ چکا تھا۔ جیسے جیسے میں آگے بڑھا، مجھے ۔ میں کیمبرج میں انڈر گریجویٹ بچوں کو سپروائز کرتا تھا اور ان سے کورس میں ایک ہفتہ آگے رہا کرتا تھا۔

میرے والد منطقۂ حارہ کے امراض کی تحقیق میں مصروف تھے، اور وہ مجھے Mill Hill میں اپنی لیبارٹری میں لے جایاکرتے تھے۔ میں اس سے لطف اندوز ہوتا تھا، بالخصوص خردبین سے دیکھنا مجھے بہت پسند تھا۔ وہ مجھے insect house بھی لے جایا کرتے تھے جہاں وہ منطقہ حارہ کی بیماریوں سے آلودہ مچھروں کو رکھاکرتے تھے۔ میں اس سے پرشان ہو جاتا تھا کیونکہ وہاں ہمیشہ کچھ نہ کچھ مچھر آزادانہ اڑ رہے ہوتے تھے۔ میرے والد بہت محنتی اور اپنی تحقیق کے ساتھ بہت مخلص تھے۔ وہ معاشرے سے کچھ عناد رکھتے تھے کیونکہ ان کا احساس تھا کہ جن لوگوں کا بیگ گراونڈ اچھا تھا اور روابط بہتر تھے وہ اُن سے آگے نکل چُکے تھے۔ وہ مجھے ایسے لوگوں کے خلاف ہوشیار کیا کرتے تھے۔ لیکن میرا خیال ہے طبیعیات میڈیسن سے کچھ مختلف مضمون ہے۔ اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے کس سکول سے تعلیم حاصل کی یا آپ کے کس سے مراسم ہیں ۔ فرق اس سے پڑتا ہے کہ آپ کرتے کیا ہیں۔

میں ہمیشہ اس امر میں دلچسپی لیتا تھا کہ اشیاء کام کیسے کرتی ہیں اور انہیں کھول کھول کر دیکھتا تھا کہ ان کے پرزے کیسے باہم مربوط ہیں ۔ لیکن میں ان پرزوں کو واپس جوڑنے میں اچھا نہیں تھا۔ میری عملی صلاحتیں کبھی بھی میری نظری صلاحیتوں کا مقابلہ نہ کر پائیں۔ میرے والد نے سائنس میں میری دل چسپی کی حوصلہ افزائی کی اور انہوں نے خود مجھے ریاضی تب تک پڑھائی جب تک کہ میں اس سطح تک آ گیا جو ان کی پہنچ سے باہر تھی۔ اس پس منظر کے ساتھ، اور میرے والد کی ملازمت کی نوعیت کی بناء پر، مجھے یہ قدرتی امر لگا کہ میں سائنسی تحقیق میں داخل ہو جاؤں گا۔ اپنے ابتدائی ایام میں میں ایک طرز کی سائنس کا دوسری طرز کی سائنس سے فرق نہیں کر تا تھا۔ لیکن تیرہ یا چودہ برس کی عمر سے، میں جانتا تھا کہ میں فزکس میں تحقیق کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ بنیادی ترین سائنس تھی۔ اور یہ سب اس کے باوصف تھا کہ سکول میں فزکس سب سے زیادہ بوریت والا مضمون تھا کیونکہ یہ بہت آسان اور بدیہی تھا۔ کیمسٹری زیادہ دلچسپ تھی کیونکہ غیر متوقع امور، جیسے (تجربہ گاہ میں) دھماکہ وغیرہ، ہوتے رہتے تھے۔ لیکن طبیعیات اور فلکیات یہ سمجھنے کی امید دلاتے تھے کہ ہم یہ جان سکیں کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور یہاں (یعنی اس زمین پر) کیوں آئے ہیں۔ میں کائنات میں پنہاں گہرائیوں کا ادراک چاہتا تھا۔ شاید میں کچھ حد تک کامیاب بھی ہوا ہوں، لیکن ابھی بہت کچھ ایسا ہے جو میں جاننا چاہتا ہوں۔

یہ مضمون اور زیریں مضمون اس گفتگو پر مبنی ہیں جو میں نے ستمبر 1987 میں International Motor Neurone Disease Society کے زیرِ اہتمام Zurich میں کی تھی۔ اور اس میں اگست 1991 کا لکھا ہوا مواد بھی شامل کیا گیا ہے۔

 

ہمارے لیے لکھیں۔