کہانی:مرگ/مصنف:منوچہر خسرو شاہی:
آج کے پانچویں شمارے کی پہلی کہانی ہے۔ جس کا فارسی زبان سے اردو میں نیر مسعود نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ کہانی بھی نیر مسعود کی کہانیوں کی طرح علامتی ہے۔ جس میں ایک بوڑھا درخت جو کیڑوں سے اٹا پڑا ہے۔ اس کو بنیادی کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ایک بچہ جو اپنے گھرمیں پھیلے کیڑوں اور اور کیڑوں کو چباتی چینٹیوں کا بغور مشاہدہ کرتا رہتا ہےاس کے اعصاب پر وہ کیڑے اور چینٹیاں کس طرح سوار ہوتے چلے جاتے ہیں اس کو اشاراتی زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ ایک بوڑھا درخت اور ایک بوڑھا باپ ان دونوں کی زندگیوں میں موت کے گہرے ہوتے آثار کو مصنف نے بیانیے کی شکل میں ظاہر کیا ہے۔ ایک بوڑھا شخص بھی ان کرداروں کے درمیان ہے جو اپنے بڑھاپے اور تجربے کے ساتھ موت کے اندیکھے غار کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بچہ ان سب کو کیڑوں کی کی شالوں میں لپٹا ہوا دیکھتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے یہ سب خود کیڑے بن جاتے ہیں اور اسے چاروں طرف چیزوں کو نگلنے والے اور موت کے سائے کو گہرا کرنے والے کیڑے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ کہانی میں ماں کا کردار بھی خاصہ دلچسپ ہے جس کی سسکیوں اور بین میں جوان شوہر کے گھلتے چلے جانے کا کرب ہے۔کیڑا اس کہانی میں موت کی علامت ہےاور چینٹیاں مرگ کے آثار کو مزید گہرا کرنے کا کام کرتی ہیں۔ منوچہر خسرو شاہی کی اس کہانی میں موت اپنی حقیقت کے ساتھ چاروں جانب کس طرح موجود ہے اس کا دلچسپ منظر پیش کیا گیا ہے۔
کہانی: بارش اور آنسو/مصنف: بابا مقدم:
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ آج کی کہانیوں کا انتخاب کمال کا ہوتا ہے اور طرفہ تماشا یہ کہ نیر مسعود کی زبان اس کی کہانی کی ترجمانی کرے۔ غالباً اسی کو سونے پر سہاگا کہتے ہیں۔اس شمارے کی دوسری کہانی بابا مقدم کی ہے۔ بابا مقدم فارسی زبان کے افسانہ نگار ہیں،جن کہانی بارش اور آنسو کا ترجمہ نیر مسعود نے کیا ہے۔ کہانی میں تین سے چار مناظر ہیں، یا یوں سمجھا جائے کہ تین مکمل اور چھوتا ادھورا منظر۔ سمندر کی فضا، اپنے جانور سے انسیت اور آنکھوں کی نمی یہ ان چار مناظر کی مختصر تفصیل ہے، کہانی چھوٹی سی ہے، مگر نہایت دلچسپ۔ عام حالات اور واقعات سے الگ ایک خاص ذہنی حالت سے متعلق۔ حالاں کہ اس میں دو نہایت عمدہ گھوڑوں کو موضوع بنایا گیا ہے جس سے کہانی میں ایک الم ناک فضا قائم ہو گئی ہے، لیکن یہ ان تمام جانوروں سے متعلق ہے جو انسانی معاشرے میں پائے جاتے ہیں اور ان سے انسانوں کا گہرا رشتہ بن جاتا ہے۔ جانور کیسا ہی بے عقل کیوں نہ ہو اس میں وفاداری کا جذبہ بہت ہوتا ہے۔ ایسی وفاداری جو انسان کے حصے میں کبھی نہیں آ سکتی۔ حالاں کہ جانور سے انسان کی محبت بھی ایک نوع کی خود غرضی کا ثبوت دیتی ہے جس کی مثال بھی محمود کی محبت سے ملتی ہے، کیوں کہ انسان اسی جانور سے پیار کرتا ہے جو اس کا تابع فرمان ہوتا ہے، مگر جانور کا لگاو بے لوث ہوتا ہے۔ بابا مقدم نے اس کیفیت کی مختصر تصویر کشی کی ہے۔ جن لوگوں نے سمندر کی فضا کو دیکھا ہے انہیں بابا مقدم کا پیش کردہ یہ منظر بھی خوب بھائے گا۔ آخر میں انسان کی کمزوری کا ایک ادھورا عکس بھی اس کہانی میں ہے، وہ کمزوری جو انسان اپنے ہمسائے پر بھی ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتا۔ کہانی کے ترجمے میں بعض الفاظ و تراکیب میرے لیے بالکل نئی تھیں۔ مثلاً گردن باندھنا،بارک،مان گون،ملائی دلائی،کوتل،کمیت،کنوتیاں،چھل بل،کھریرا،پویا اورفٹن۔ اس کے علاوہ ایک محاورہ “معاملہ کس کروٹ بیٹھے گا” بھی پہلی بار پڑھا۔ اونٹ کا کس کروٹ بیٹھنا تو پڑھا تھا، مگر یہ معاملہ کیسے کروٹ بیٹھتا ہے اس کا علم نہ تھا۔
کہانی:ہوا کی ہوک/مصنف:جمال میر صادقی:
عام طور پر ایسی کہانیاں پڑھنے کو نہیں ملتیں، جن میں کوئی تحدید نہ ہو۔ جمال میر صادقی کی کہانی “ہوا کی ہوک” پڑھ کر اس کی تلافی ہو گئی۔ اس کہانی میں انہوں نے پانچ کردار تراشے ہیں،ایک بوڑھا شخص، دو اجنبی آدمی، ایک لڑکی اور ایک نہر(سڑک)۔ پوری کہانی میں ہوا کی ہوک کا منظر سب سے زیادہ دلکش ہے۔ ایک بوڑھا جو ایک لڑکی کو بچا رہا ہے اور پھر اسی کو مار رہا ہے۔ کہانی میں کسی کا کسی سے کوئی رشتہ بیان نہیں کیا گیا ہے اور یہ ہی کہانی کا حسن ہے۔ پڑھنے والا خود قیاس کرتا رہ جاتا ہے کہ آخر کس کے کردار کو اچھا سمجھے اور کس کے کردار کو برا۔ یہ کہانی ہماری زندگی کے ان لمحات کا بہترین عکس ہے جن میں ہم کوئی انجان واقعہ بلا ابتدا دیکھتے ہیں اور اسے بھی اختتام سے پہلے پہل تک دیکھ کر اپنا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ فیصلوں کی جلد بازی کے عہد میں اس کہانی کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ کہانی کا اصل متن فارسی زبان میں ہے، جس کا ترجمہ نیر مسعود صاحب نے کیا ہے۔ ایک لفظ خرافاتی غلط استعمال ہوا ہے، عام بول چال میں بھی یہ لفظ کسی بڑ بولے یا جھوٹے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جب کہ اس کہانی میں ایک انجانے عمل سے گزرنے والے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ایک گالی قرمساق بھی بہت کم پڑھنے کو ملتی ہے، جس کا استعمال اس کہانی میں کیا گیا ہے۔ قرم ساق کو عام زبان میں بھڑوا یا اس سے کچھ بہتر زبان میں دیوث کا جا تا ہے جو اپنی عورت سے پیشہ کرواتا ہے۔
نظمیں/ ثروت حسین:
ثروت حسین کی گیارہ مختصر نظمیں اس شمارے میں شامل ہیں۔ سب کی تاثیر جدا ہے، ایک مشترک پہلو یہ ہے کہ وہ آپ کو مختلف خیالات کی تہہ میں لے جاتی ہیں، بنا لفاظی کے۔ سامنے کی باتیں جن میں گہرے معنی چھپے ہوئے ہیں۔ آپ انہیں پڑھیے، پہلے لطف اندوز ہویئے، پھر ان کے معنی کی تہوں پر غور کیجیے، پھر مزید لطف اندوز ہویئے۔ اچھا ادب ایسا ہی ہوتا ہے۔ معنی بہت ہیں، مگر اسلوب بھی دلکش ہے۔ ان کی نظم منہ زور گھوڑے اس کی بہترین مثال ہے۔ ایک ایک سطر میں صرف ایک ایک لفظ کا اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ قاری ہر سطر پہ خوش ہوتا ہے، چونکتا ہے اور نظم ختم کر کے مسکرا دیتا ہے۔ سچی اور سامنے کی باتیں۔ جن سے زندگی کی نئی حقیقتوں کا تانا بانا بنا گیا ہے۔ ان کی نظموں کی یہ خصوصیت ہے کہ ان میں ایسا کرب ہے جس میں حسن کی جھلکیاں شامل ہیں، ماضی کا حسین خواب ہے، منظر کشی ہے، حقیقت میں سراب کا بھکرا ہوا رنگ ہے اور تازہ کاری ہے۔ ان کی مختصر نظموں میں حمد، بنفشئی دھنداور منہ زور گھوڑے مجھے خاص طور پر پسند آئیں۔
نظمیں /ذیشان ساحل:
اس شمارے میں ذیشان ساحل کی چھ نظمیں شاعر اور مسخرے، کشتی، ہیر نگ ایڈ، پتھر، نظم بعنوان نظم اور ایک گیت جو کبھی پرانا نہیں ہوتا شامل ہیں۔ ذیشان ساحل کی نظمیں خواب اور حقیقت کے ملے جلے اثرات سے مزین ہوتی ہیں، جن میں سادہ الفاظ اور مشکل استعاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ کسی جذبے یا احساس کو بیان کرنے کے لیے پیچیدہ اور غیر مانوس الفاظ کو لغت کے مردہ گھروں سے کھود کھود کر نہیں لاتے، بلکہ روز مرہ کی محاوراتی زبان میں خواب آلود عناصر شامل کر دیتے ہیں۔ ان کی یہ چھ نظمیں بھی اسی نوعیت کی ہیں جن میں بصیرتوں کا المیہ، فنکار کی ناقدری کا نوحہ،لطیف طنز کی جھلکیاں،تلخ تجربات کے مرثیے،معصوم شکایتیں، امیجری، استعاراتی زبان اور ماضی اور مستقبل کے حسین خواب پروئے گئے ہیں۔نظمیں زیادہ طویل نہیں ہیں، مگر معنی خیز ہیں۔ اردو میں ایسی نظمیں کہنے کا ملکہ کم ہی شعرا کو حاصل ہے۔ ایک خاص بات ان نظموں میں یہ بھی ہے کہ آزاد نظموں کے نام پر جھوٹی اور بے ترتیب جذباتیت کا اظہار ان میں نہیں کیا گیا ہے اور صنف کی تذلیل کرنے سے شاعر نے سر مو انحراف کیا ہے۔
کہانی :نیلی آنکھوں کا گلدستہ /مصنف:اوکتایو پاز:
چھوٹی سی کہانی جسے آپ، افسانچہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک واقعہ مکمل یا ادھورا کچھ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ جس کی کوئی واضح ابتدا نہیں اور نہ ہی انتہا۔ بس ایک تجسس۔ جس میں ایک شخص ہاتھوں میں چھرا لیے سڑک پر اسے روک لیتا ہے جو رات کے اندھیرے میں ماحول کے سناٹے اور خاموشی سے بیزار ہو کر چہل قدمی کے لیے نکلا ہے۔ گپ اندھیرے میں۔ اچانک مدبھیڑ ہوئی۔اجنبی کے ہاتھ میں چھرا ہے اور وہ ماحول سے بیزار شخص سےا س کی نیلی آنکھیں طلب کر رہا ہے۔ دونوں پریشان، دونوں ڈرے ہوئے، دونوں کی الجھنیں ان کی آوازوں سے عیاں۔ نیلی آنکھوں والے کا مطالبہ بھی عجیب کہ اسے اپنی محبوبہ کے لیے ایک گلدستہ بنانا ہے جو نیلی آنکھوں کا ہو۔ بیزار شخص بھی پریشان کہ اس کی آنکھیں تو بھوری ہیں۔ پھر ماچس کی تیلی رات کے اندھیرے کا کلیجہ چاک کرتی ہے،بیزار شخص کی آنکھوں کو چمکتا خنجر چھوتا ہے اور نیلی آنکھوں کا طالب اسے اپنے شکنجے میں لے لیتا ہے۔ پھر خود اس پر اپنی گرفت ڈھلی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جاو تمہاری آنکھیں نیلی نہیں ہیں۔ کہانی ختم ہو جاتی ہے اور قاری پر سکوت چھا جاتا ہے۔ زندگی کا ہر وہ اتفاقی واقعہ اور وہ مشکل گھڑی اس کی آنکھوں میں روشن ہو جاتی ہے جب ا س کی آنکھوں کا نور وقت کے ہاتھوں چھنتے چھنتے رہ گیا۔اس کہانی کا ترجمہ آصف فرخی نے کیا ہے۔
کہانی:لہر کے ساتھ میری زندگی/مصنف: اوکتایو پاز:
کسی ادبی فن پارے سے خواہ وہ کہانی ہو یا شاعری اس وقت تک آپ کچھ حاصل نہیں کر سکتے جب تک آپ میں زندگی کو نئے زاویے سے دیکھنے کی خواہش نہ ہو۔اگر آپ لکیر کے فقیر ہیں، تو یقیناً آپ کے لیے ادب ایک بے کار چیز ہے۔ اوکتایوپاز کی کہانی لہر کے ساتھ میری زندگی کو عام قاری مجھ جیسا،پہلی قرات میں الجھی ہوئی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ اس کے معنی کی تہوں میں بکھری ہوئی صورت حال میں یکسانیت تلاش کرتا ہے۔ پھر دوبارہ اور سہ بارہ اس کہانی کو پڑھتا ہے اور ششدر رہ جاتا ہے کہ ایک ایسا قصہ جس میں زندگی کو بالکل ایک نئے زاویہ سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے اس میں مصنف نے کتنی چابکدستی سے حیرتوں کے چراغ روشن کر دیئے ہیں۔ ہم اس طرح نہیں سوچتے، زیادہ تر لوگ یا یوں کہا جائے کے بے شمار تخلیق کار اس طرح نہیں سوچتے،بس سوچتے ہیں جس میں روایت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ اس کہانی میں لہر کا کردار ایک جاندار استعارہ ہے، زندگی کے بدلتے رنگوں کا، عشق کی تازہ کار دنیاوں کا، الجھنوں کا اور نئے المیوں کا۔ میں اس کہانی کو عشق کی جدید الف لیلہ کہہ سکتا ہوں، جس میں ایک ہزار واقعات نہیں ہیں، صرف ایک واقعہ ہے، مگر اتنا پر پیچ کہ اس میں جذبوں کی اتھل پتھل کو دیکھا جا سکتا ہے۔ نئے تجربوں کی حیرانی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔آپ اس کہانی کو پڑھتے ہوئے ایک بالکل ہی انوکھی افسانوی دنیا میں چلے جائیں گے۔ مختلف حقیقتوں کی بوقلمونی سے لطف اندوز ہوں گے اور زندگی کے نئے استعاروں سے روشناس ہوں گے۔ اس کہانی کا ترجمہ آصف فرخی نے کیا ہے اور یقیناً انہوں نے اپنی سحر بیانی سے اسے مزید آتش بار بنا دیا ہے۔ جملوں میں اتنی روانی بھر دی ہے کہ ترجمے کا گمان ہی نہیں ہوتا۔ اگر اوکتایو پاز نے اس فن پارے کو پہلی مرتبہ تخلیق کیا ہے تو اس کے ترجمے کی صورت میں آصف فرخی نے اسے کہانی کے تخلیق نو کے فرائض انجام دیئے ہیں۔
نظمیں/یہودا امیحائی:
Yehuda Amichaiایک مشہور فلسطینی شاعر ہیں، جن کی بیس نظموں کا ایک انتخاب اس شمارے میں شامل کیا گیا ہے۔ جن میں آٹھ نظموں کا ترجمہ افضال احمد سید نے کیا ہے اور بقیہ کا اجمل کمال ہے۔ ان کے عناوین بم کا قطر، میری سابقہ طالب علم ذینس بہت بیمار تھا، پرچم کیسے بنا، وہ مکان جس میں میں نے کئی خواب دیکھے، جو لوگ اپنا گھر چھوڑتے ہیں، زندگی میں بعد از وقت، تم سیب کے اندر مجھ سے ملنے آتی ہو(ترجمہ : ا۔ا۔ س)،ہماری محبت کے عرصے بعد،ہمارے جسموں کے نشان کی طرح، بہت دنوں سے کوئی نہیں پوچھتا، بیل گھر لوٹتا ہے،اونچی ایڑی کے جوتے، میدان جنگ پر بارش، خدا کی تقدیر، ایک بار،جاسوس،وہ مجھے بلاتے ہیں، میں جس شہر میں پیدا ہوا اور میرے پاس جنگ کے بارے میں کہنے کو کچھ نہیں(ترجمہ:ا۔ک) ہیں۔ ان کی زیادہ تر نظمیں مختصر ہیں، دو چار طویل بھی ہیں۔ ان نظموں کے ترجمے میں سادہ لہجہ اختیار کیا گیا ہے۔ نظموں کا اصل متن عبرانی میں ہے، جس کا انگریزی زبان سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ نظموں کی فنی حیثیت اردو شاعری سے بہت مختلف ہے۔شاعرانہ تاثیر سے بھری ہوئی،لیکن مختلف المزاج۔ کچھ نظموں میں بلا کی جاذبیت ہے۔آپ پڑھیں گے تو یوں محسوس ہوگا کہ گویا یہ موجودہ حالات کی سچی تصویریں ہیں۔ مثلاًبم کا قُطر۔ کچھ نظمیں علامتی ہیں، مگر ان کی علامتیں بہت زیادہ پیچیدہ نہیں، مثلاًایک بار،تم سیب کے اندر مجھ سے ملنے آتی ہو اور وہ مجھے بلاتی ہے۔ مجھے ان نظموں میں جن دو نظموں نے سب زیادہ متاثر کیا وہ پرچم کیسے بنا اورمیرے پاس جنگ کے بارے میں کہنے کو کچھ نہیں، ہیں۔
کہانی: ایما بوواری کی آنکھیں/مصنف: جولین بارنز:
Julien Barnesکی تحریر” ایمابوواری کی آنکھیں” ان کے مشہور ناول Flaubert’s Parrotکا چھٹا باب ہے۔ جس کا ترجمہ محمد عمر میمن نے کیا ہے۔ مدیر نے اس تحریر کے اختتام میں Julien Barnesکا مختصر اً تعارف بھی کروایا ہے، لیکن یہ بات اس میں شامل نہیں ہے کہ اس ناول کو بوکر انعام سے نوازا گیا تھا۔ پورے ناول کا مطالعہ قاری پر کیا تاثر مرتب کرتا ہے اس سے قطع نظر اگر ہم اس تحریر کو صرف ایک مختلف مکمل تحریر کی صورت میں پڑھیں تو اس کا اثر تنقید کی کارگزاریوں سےدلچسپ بحث کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ پورے ناول کی فضا کیسی ہے، لیکن اس تحریر کی نمایاں خصوصیت کے پیش نظر محسوس ہوتا ہے کہ پورے ناول میں یہ ہی انداز روا رکھا گیا ہوگا۔ میں اس تحریر پر کوئی تنقیدی گفتگو نہیں کروں گا، اسے اچھا برا بھی نہیں کہوں گا، بس ایک جملے میں مضمون کی منجملہ فضا کو ظاہر کرنے کی کوشش کروں گا کہ اگر میں اس تحریر کو نہ پڑھتا تو ایسی بہت سی باتوں اور مثالوں سے نا آشنا رہتا کہ مجھےنقادوں سے نفرت کیوں ہے؟آپ خود اس تحریر کو پڑھیے اور جانیے کہ مصنف نےایک ناول میں فلوبیر اور بالزاک کے موازنے کا بخیہ کس طرح ادھیڑا ہے۔ ساڑے آٹھ صفحات کا جدید مقدمہ جو حالی کے مقدمے سے بہت مختلف ہے۔اس تحریر کا انتساب مترجم نے مظہر علی جید کے نام کیا ہے۔
ناول:اپنی دعاؤں کے اسیر-2/مصنف : فاروق خالد:
کہانیاں ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہیں، سب سے اہم چیز یہ کہ زندگی کتنے بدلتے رنگوں کی داستان ہے۔ اسے کہنے سے زیادہ محسوس کرنے کےعمل سے ہم کہانیوں کے مطالعے کے درمیان گزرتے ہیں۔ اجمل صاحب نے اسے اور قریب الفہم بنا دیا ہے، کیوں کہ وہ تکمیل اوتاثیر کو کہانیوں کے قالب میں اوروں کی طرح نہیں دیکھتے۔اس کے معنی یہ نہیں کہ وہ کہانیاں جن کو آج نے شائع کیا ہے ان کا کوئی سر پیر نہیں، بس آپ انہیں دوسری کہانیوں کے سر پیر سے جدا ظاہری حسن سے مزین کہہ سکتے ہیں۔ فاروق خالد کے ایسے ہی ایک ناول ” اپنی دعاؤں کے اسیر-2″کے ایک باب کو شامل کر کے اجمل صاحب نے اس کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ناول کی کہانی کے مختلف حصے ہیں،جن میں ظاہری یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ کچھ کردار ہیں جن میں بشیر، کلثوم، سیما، ساجھی، ظفر احمد،امتیاز علی، افتخار حمید، روشی، بونا عبدالرحمن،کریم، ڈاکٹر، انڈے والا اور کنڈکٹر وغیرہ شامل ہیں۔ مختلف حالتیں، مختلف نفسیاتی مسائل۔ کہانی کا ایک تار ایک سرے سے دوسرے سرے تک جڑا ہواہے، اس کے باوجود ایک دم سے منظر کا تبدیل ہوجانا اور خیالات کے بہاو کو نیا رخ مل جانا، یہ اس کہانی کی خاصیت ہے۔ جن لوگوں کو کہانی کے بے ترتیبی سے محظوظ ہونا نہیں آتا وہ یقیناً کہیں کہیں اکتا جائیں گے۔ مگر مجھے اس میں نہایت دلچسپ نفیساتی حالتوں کا بیان نظر آیا ہے۔ ایسے لوگ اور حالات ہمیں اصل زندگی میں کم نصیب ہوتے ہیں، انہیں خواب کی مانند کہا جا سکتا ہے۔ آپ کہانی کے باطن میں اترتے چلے جاتے ہیں اور مختلف احساسات سے دو چار ہوتے ہیں۔ کبھی ساجھی کی حالت پر مچل جاتے ہیں، کبھی ظفر کے معاملات پر حیران ہوتے ہیں، کبھی روشی کی حرکتوں میں دلچسپی لینے لگتے ہیں اور کبھی بونے کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ بشیر سے لے کر کنڈکٹرتک ہر شخص کا جادو جدا ہے اور کہانی کے مختلف منظر ناموں کا سحر الگ۔ دلچسپ ناول کا دلچسپ باب۔
زبان کہیں کہیں مشکل ہے۔ کچھ الفاظ سمجھ میں نہیں آتے، مثلاًپنگوڑا،دسمالی،مندریاں،مرام اورمالٹوں وغیرہ۔ یہ غالباً علاقائی زبان کے الفاظ ہیں اس لیے عام فہم نہیں ہیں۔ایک، دو جگہ پروف کی اغلاط بھی راہ پا گئی ہیں۔ مثلاً:
• گتے کا بڑا ڈبا اٹھا کر رکھا تھاٹ(ٹ اضافی ہے۔ ص:67)
• رات کا شو شروع ہوا تھا۔(شور میں ر چھوٹ گیا ہے۔ص:69)
کہانی : میراث/مصنف: علی امام نقوی:
علی امام نقوی کی کہانی میراث آج کےپانچویں شمارے کی دوسری سب سے اچھی کہانی ہے۔مجھے اس کہانی نے بے حد متاثر کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مصنف نے جس ماحول اور معاملات کا کہانی میں ذکر کیا ہے، میں نے اسے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اس کے علاوہ وہ عورت جو کہانی کا مرکزی کردار ہے اس میں دیہی اور شہری دونوں طرح کی زندگی میں سانس لینے والی غریب اورعام عورت کے مسائل نظر آتے ہیں۔ کہانی کا اختتام نہایت متاثر کن ہے۔جس سے کہانی معنویت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے:
“بڑی کی موت کی خبر دیواریں پھلانکتی گڑھی کے ہر گھر میں پہنچ چکی تھی۔ برادری کے ہی کسی آدمی نے منٹوں میں یہ خبر گھر کے مردوں تک پہنچا دی، تینوں بھائی اپنی اپنی رکشائیں ساتھ ہی لائے تھے۔ بڑا سر جھکائے بچوں کو سنبھال کر مردانے میں بیٹھ گیا۔ برادری والے کفن دفن کے انتظام میں جٹ گئے۔ گھر میں عورتوں نے رورو کر برا حال کر لیا تھا اور صابرہ باورچی خانے میں بیٹھی اپنی بھیگی آنکھوں سے چاول، سالن کی دیگچیوں اور روٹی کی چنگیری کو غور سے دیکھ رہی تھی۔”
(ص:105، کہانی : میراث،مصنف:علی امام نقوی، شمارہ :5، آج)
انتخاب :خوخے لوئس بورخیس: (Jorge Luis Borges)
کہانی:رخم کا ہلال:
چونکا دینے والی لا جواب کہانی۔میں اس جملے سے اپنی بات اس لیے شروع کر رہا ہوں کیوں کہ اس کہانی کے لیے اس سے زیادہ موزوں الفاظ نہیں ہو سکتے۔ ایک زخم کی چھوٹی سی داستان۔ جس میں خونی جنگوں کی گاتھائیں ہیں، فوجیوں کی دلیری ہے، موت کے بھیانک سائے ہیں، انقلابی نعرے ہیں، آزادی کے خواب اور سب سے بڑھ کر انسانی دغابازی اور چالاکی کا گہرا رنگ ہے۔ غالباً یہ بات کہانی پڑھنے والوں کو عجیب لگے کہ میں اس کہانی کا ہیرو لاکورا دا کے انگریز کے بجائے جون ونسنٹ مون کو سمجھتا ہوں۔ اس لیے نہیں کہ وہ حقائق کا اظہار کرتا ہے، نہ اس لیے کہ وہ ہی ہمیں چونکاتا ہے، بلکہ اس لیے کیوں کہ وہ زندہ ہے۔ ذہین ہے اور مشکل حالات میں زندگی سے بھر پور فیصلے لینے کا مہتو جانتا ہے۔ ہر وہ فیصلہ جو انسان کو زندہ رکھے وہ میرے نزدیک مشکل گھڑی کا سب سے زیادہ ذہانت آمیز فیصلہ ہے۔ بورخیس اگر اس کہانی کا اختتام اس انداز میں نہ کر تا جس انداز میں اس نے کیا ہے اور جسے میں چاہ کر بھی بیان نہیں کر سکتا کیوں کہ کہانی کے رازوں تک پہنچنے کا چور دروازہ وہیں ہے تو اس میں غالباً ایسی چونکا دینے والی صفت نہ پیدا ہوتی۔ یقیناً مجھے اس کے ایسے اختتام کی قطعاً امید نہ تھا۔ کہانی کا اصل متن ہسپانوی زبان میں ہے اور انگریزی سے اس کا ترجمہ ممتاز شیریں نے کیا ہے۔ ترجمہ نہایت سلیس ہے۔ کہیں کہیں ملکوں اور علاقوں کے نام سمجھ میں نہیں آتے اور انسانی ناموں کی درست ادائیگی بھی مشرقی لوگوں کے لیے ذرا مشکل ہے۔دو مقامات پر پروف کی اغلاط بھی ہیں۔مثلاً:
• لہذا مجھ رات بھر۔(مجھ کی جگہ مجھے ہوگا۔ص: 109)
• خواب دیکھے عادی تھے۔( دیکھے عادی کی جگہ دیکھنے کے عادی ہوگا۔ ص: 109)
یہ کہانی اولین لاہور کے رسالے ادب لطیف میں شائع ہوئی تھی اور مدیر نے اس رسالے کے شکریے کے ساتھ اسے آج میں شامل کیا ہے۔
کہانی: المعتصم تک رسائی:
میں اس بات سے ناواقف ہوں کہ میر بہادر علی واقعی کوئی ناول نگار تھا، جس نے The Approach to Al-Mu’tasimنام کا کوئی ناول لکھا تھا یا نہیں یا یہ خود بوخیس کی ایجاد ہے یا کسی دوسرے فکشن نگار کی اختراع۔ کچھ بھی ہو اس تحریر سے میں نے کہانی کہنے اور تخلیقی پیرایے کو سنوارنے کا ایک اور ہنر سیکھا۔ یہ کہانی ایک تبصرہ ہے۔ جو میر بہادر علی کے ناول المعتصم کی واپسی پر کیا گیا ہے۔ مصنف نے فلپ گیڈالا کے ایک تنقیدی بیان سے اپنی بات کا آغاز کیا ہے، جس کے بعد جان –ایچ-واٹس، برائٹن، مسٹر سیسل رابرٹس اور فرید الدین عطار وغیرہ کا تذکرہ آتا ہے۔ ناول کے مزاج، موضوع اس کی تکنیک اور معیار پر گفتگو ہوتی ہے۔اس کی تقابلی تنقید کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ منطق الطیر سے اس کا رشتہ جوڑا جاتا ہے۔ اسے بمبئی میں لکھا گیا سراغ رسانی کا پہلا ناول بتاتے ہوئے اس کی شہرت کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس کے ریویوز کی یادیں تازہ کرتے ہوئے یہ معلومات بہم پہنچائی جاتی ہیں کہ بومبے کوارٹرلی ریویو، بومبے گزٹ، کلکتا ریویو، ہندوستان ریویو (الہ آباد) اور کلکتا انگلش ریویو وغیرہ میں کتاب پر توصیفی تبصرے کیے گئے۔ اس ناول کے مصور ایڈیشن کا ذکر ہوتا ہے۔ اس کے مختلف ایڈیشنس پہ بات ہوتی ہے اور پھر اس ناول کی کہانی کو مختصراً بیان کیا جاتا ہے۔
کہانی بھی کچھ اس طرح کی ہے کہ ایک نوجوان طالب علم جو مسلم گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، لیکن زیادہ مذہبی نہیں ہے۔ وہ کس طرح ایک فسادی صورت حال میں پھنس کر ایک ہندو کا خون کر دیتا ہے اور اس کے بعد ایک خاص نفسیاتی حالت کا شکار ہو کر کسی روحانی وسیلے کی تلاش میں سفر شروع کر دیتا ہے۔ ناول میں غالباً بیس ابواب ہیں۔اس کے پلاٹ پر بھی مصنف نے بہت دلچسپ گفتگو کی ہے۔ اگر ایسا کوئی ناول واقعتاً موجود نہیں ہے تو یہ بورخیس کی تخلیق کا انوکھا کارنامہ ہے۔ بورخیس اس ناول کے قصے کو بیان کر کے اس کے بنیادی خیال وغیرہ پر گفتگو کرتا ہے اور پھر اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے تنقیدی جملوں میں عامیانہ پن نہیں ہے اور نہ ہی کسی طرح کی مبہم گفتگو ہے۔ سادی اور سیدھی باتیں ہیں جو کسی ناول کے مطالعے کا لب لباب بیان کرتے ہوئے اس کی معنویت اور اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ اپنی تنقیدی بحث میں بورخیس نے دلچسپ نکات بیان کئے ہیں،مثلاً یہ دونکتے نہایت معنی خیز ہے کہ:
• یہ بڑی معزز بات سمجھی جاتی ہے کہ آج کی لکھی ہوئی کوئی کتاب کسی قدیم کتاب سے مشتق ہو۔
• یہ انتہائی غیر فطری بات ہوگی کہ محرم کی دسویں رات پر بنائی گئی دو تصویروں میں کچھ مطابقت نہ ہو۔
تبصرے کے آخر میں مصنف نے ایک نوٹ دیا ہے جس میں اس نے ایرانی صوفی فرید الدین عطار کی طویل نظم منطق الطیر کا خلاصہ پیش کیا ہے۔
مختصر تحریریں(The Book of Imaginary Beings):
مختصر تحریریں میں پیراڈائزو،گواہ،تغیرات،خنجر،الوداع، یونانی انتھو لوجی کے ایک چھوٹے شاعر سے،شطرنج،متیXXV اور دو مابعد الطبیعیاتی پیکر ان نو عناوین سے مختلف موضوعات پر نثریہ اور نظمیہ تحریریں شامل ہیں۔ جن سے بوخیس کے تخلیقی رجحانات کا علم ہوتا ہے ساتھ ہی اس کی اس کی فکر سے شناسائی حاصل ہوتی ہے۔ ان تمام تحریروں میں ایک مشترک چیز ابہام ہے۔ معنی خیز تحریریں جن سے کسی تاریخی واقعے یا کسی اعتقادی صورت حال کی طرف ذہن جاتا ہے۔ ان کا طرز فلسفیانہ ہے اور ان زندگی کے غیر معلوم حقائق پر سوالات قائم کیے گئے ہیں۔ تحریریں دلچسپ ہیں۔ ان کا مختصر تعارف فرداً فرداً مندرجہ ذیل ہے۔یہ اصلاً ہسپانوی زبان میں ہیں اور ان کا ترجمہ انگریزی سے اجمل کمال نے کیا ہے۔
پیراڈائزو:اس میں ایک مسخ خدا کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ جو پتھر کا بنا ہوا یک مجسمہ ہے۔ جس کی شبیہ مسخ ہو چکی ہے۔ مصنف نے عیسائی اعتقاد کے زیر اثر خدا کے وجود پر سوال قائم کیا ہے اور اسے خود کی ذات میں ضم بتایا ہے۔
گواہ:اس نثریے میں موت کے تصور پر اظہار خیال کیا گیا ہے جس میں ایک مرتا ہوا شخص ہے جو اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور مصنف اس کے وجود کو استعارہ بنا کر موت کے فلسفے کا اظہار کر رہا ہے۔نثریے کے آخری اقتباس میں دلچسپ استفسارات قائم کیے گئے ہیں۔
تغیرات:سچے خیالات پر منحصر معنی خیز نثریہ۔ انسانی زندگی کے بدلتے حالات سے عبارت جس میں اشیاء کی تبدیل شدہ ہئیتوں سے انسانی زندگی کے تغیرات کو ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
خنجر: انسانی جبلت سے آراستہ پر مغز نثریہ۔
الوداع:بورخیس اور ڈیلیا کی چھوٹی سی کہانی جس میں انسانی وجود کے دائمی اور غیر دائمی احساس کی کشمکش کو پرویا گیا ہے۔ استعاراتی اور علامتی نثریہ۔روح اور بدن کے افتراق کے مباحث سے نبر د آزما۔
یونانی انتھو لوجی کے ایک چھوٹے شاعر سے،شطرنج،متیXXV : تین علامتی نظمیں۔
دو مابعد الطبیعیاتی پیکر: انسانی شعور، حسیات، تصورات، اوصاف، ادراکات اورانکشافات وغیرہ سے متعلق فلسفیانہ اور جمالیاتی تحریر، جس میں دو مخلوقات کی تلمیحاتی اور استعاراتی گفتگو ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس تحریر کا کوئی ثقافتی یا تاریخی سیاق ہو، جس سے میں ناواقف ہوں۔