آخر ایک دن وہ بھی آیا که ہندوستان سے لٹے پٹے مسلمانوں کو لے کر نکلی ٹرینوں کو پنجاب میں لگاتار بگڑتے حالات کے مدِنظر لاہور کے بجاے کراچی کی طرف موڑ دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بدحالی اور بدحواسی سے اُپجے کرودھ [غصے] سے بھری یہ بھیڑ کراچی سے سندھ کے باقی شہروں میں بھی پھیلنے لگی۔ اور اسی کے ساتھ اب تک شانتی کا ٹاپو [امن کا جزیرہ] بنا ہوا یہ علاقہ بھی باقی ہندوستان میں پھیلی ہِنسا کی چپیٹ میں آتا ہوا دکھائی دینے لگا۔
ہندوستان سے آنے والے مسلمان یہاں کے مسلمانوں کے لیے مسلمان نہیں مہاجر تھے۔ سو جب جب کسی ہندو سندھی کے گھر پر ان مہاجروں کی طرف سے کوئی حملہ ہوتا تو سندھی مسلمان بیچ میں آ کھڑے ہوتے۔ نتیجہ یہ ہوا که سارا جھگڑا مہاجروں اور مقامی مسلمانوں کے بیچ کا ہو گیا۔
جلد ہی یہ منظر بھی بدلنے والا تھا۔ مہاجروں کی تعداد اور طاقت لگاتار بڑھتی جا رہی تھی اور ان کے لیے یہاں ہمدردی کا جذبہ بھی زور پکڑنے لگا تھا۔ سو آخر اتہاس کا وہ لمحہ بھی آیا کہ ہندوؤں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ان سارے بگڑتے حالات کے بیچ بھی میرے پتا، جو اس وقت "سندھ آبزرور” نام کے انگریزی اخبار کے رپورٹر تھے، اپنے پورے پریوار کو یقین دلاتے رہے که چاہے جو ہو جائے وہ یہیں رہیں گے۔ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ لیکن اس بھروسے نے بھی اس دن دم توڑ دیا جب جوانی کے جوش میں انھوں نے اخبار میں مسلم لیگ کے خلاف ایک خبر لکھ کر نوکری گنوا دی۔
خیر، جب اپنے آبائی وطن کو چھوڑنے کا فیصلہ لیا گیا تو کہتے ہیں اس دن گھر کے سب لوگ رو رہے تھے۔ خاص کر عورتیں۔ یہ لاچاری اور بےبسی کا رونا تھا۔ حالانکہ اس رونے کے بیچ بھی میرے دادا شیام داس اور نانا آسودامل کی دہاڑتی ہوئی آوازیں بھی تھیں۔ وہ دونوں تب بھی لڑ مرنے کو تیار تھے۔ پتاجی بھی ان دونوں سے سہمت تھے۔ لیکن خاندان کے کچھ بزرگ رشتےداروں کی سمجھائش کے بعد حقیقت ماننے کو تیار ہو گئے۔
پھر ستمبر 1948 کا وہ دن بھی آیا که جس دن یہ پورا کنبہ اپنے آبائی گھر اور ان میں رکھا ڈھیر سارا سامان چھوڑ کر سمندر کے راستے بمبئی جانے کے لیے نکل پڑا۔ ماں سے سنا تھا که گھر چھوڑنے سے پہلے داداجی نے گھر کے سارے کمروں میں باقاعدہ تالے لگا دیے تھے۔ نقدی، زیور اور بھاری سمان ساتھ لے جانے کی محدود چھوٹ کی وجہ سے سب کچھ لے جانا ممکن نہ تھا۔ پھر کہیں نہ کہیں یہ ڈھکی چھپی آس کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور گھر واپس آئیں گے۔ سو سب کچھ سنبھال کر رکھنا ضروری سمجھا گیا۔
گھر کی عورتوں نے ملکر اپنی ساری چیزیں شیشم کی لکڑی کی ایک مضبوط سی الماری میں بھر کر اس پر تالا لگا دیا۔ اتنا ہی کافی نہ تھا تو اس تالے کے ٹھیک اوپر، دونوں دروازوں کے بیچوں بیچ لئی سے شِوجی کی تصویر بھی چپکا دی۔ ماں نے ایک صاف ستھرے سفید کاغذ پر سندھی بھاشا میں، بڑے بڑے حروف میں لکھا اور اس تصویر کے نیچے چپکا دیا۔ اس کاغذ پر لکھا تھا 
"ہی الماری منھجی آ۔ ہِن الماری کھے ہتھ لاہن وارے کھے پاپ پوندو۔”
(یہ الماری میری ہے۔ اگر کوئی غیر اس الماری کو ہاتھ لگائے گا تو اسے پاپ لگے گا۔)
بھارت سرکار کی طرف سے کراچی سے اُجڑ کر آنے والے پریواروں کے لیے برٹش انڈیا سٹیم نیویگیشن کمپنی کی پہلے سے جاری پرشین گلف لائن سٹیمر سروس کے علاوہ 9 اور سٹیمر کرائے پر لے کر لگا دیے گئے تھے، جو ایک آدمی، ایک روپیہ کی سوِدھا [سہولت] کے ساتھ بمبئی پہنچاتے تھے۔ اسی طرح سپیشل ٹرین اور ہوائی جہاز بھی اس کام میں لگائے گئے تھے۔ ٹرانسپورٹ سروس میں لگی ان ساری سواریوں کو ایک ہی نام دیا گیا تھا: "رفیوجی سپیشل۔”
بٹوارے کے ایک سیاسی فیصلے نے دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں کروڑوں انسانوں سے ان کی صدیوں کی پہچان چھین کر ایک کو "مہاجر” یا دوسرے کو "ریفیوجی” بنا دیا تھا۔ اس ایک اکیلی چوٹ نے لاکھوں پریواروں کے سینے پر ایک ایسا داغ لگا دیا، جو مٹ مٹ کر بھی اَمِٹ ہے۔
کراچی سے روانہ ہوا یہ سٹیمر جہاز چار دن بعد جب بمبئی پہنچا تو وہاں کے ادھیکاریوں نے ان ’بن بلائے مہمانوں‘ کو شہر میں داخلہ دینے سے انکار کرتے ہوے انھیں پوربندر کی طرف لے جانے کا حکم جاری کر دیا۔ تازہ تازہ بےگھر ہوے سینکڑوں لوگوں کے کرودھ کا پارہ چڑھ گیا۔ حالات کی گمبھیرتا کو دیکھتے ہوے پرانا آدیش واپس لیتے ہوے جہاز کو لنگر ڈالنے کی اجاز ت دے دی گئی۔
جہاز کو آگے بھیجنے کے پیچھے بھی ایک بڑی واجب سی وجہ تھی۔ بندر کے آس پاس اور شہر کے دوسرے کئی ٹھکانوں پر بنائے گئے تمبو والے کیمپ پوری طرح بھر چکے تھے۔ لوگ کھلے میں پڑے ہوے تھے۔ نہ کھانے کا پورا انتظام تھا اور نہ ہی نہانے اور دھونے کا۔ نتیجے میں بیماریاں پھیل رہی تھیں اور اتنی بڑی تعداد میں علاج کی سہولت مہیا کرانا ایک ناممکن سی بات تھی۔
بدحالی سے بھرے ان حالات میں جب جینا مشکل ہوا تو یہ پورا کنبہ اُدے پور کی طرف نکل پڑا، جہاں پہلے سے کچھ رشتےدار پہنچے ہوے تھے۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا که ہندو مسلم دنگے شروع ہو گئے ہیں۔ پھر رخ کیا بھوپال کا۔

٭٭٭٭٭

بٹوارے نے چاروں طرف عجب سے حالات پیدا کر دیے تھے۔ چند روزہ جشنِ آزادی کے ترانوں کی گونج میں نئے اور پرانے ہندوستان میں جاری فرقہ وارانہ تشدد کے شکار لوگوں کی ماتمی چیخیں بھلے ڈوب گئی ہوں لیکن اگلے دنوں میں انھیں چیخوں نے منظر پر قابض ہونا تھا۔
پیڑھیوں سے ز مانے کے سامنے گنگاجمنی تہذیب کی مثال بنا ہوا بیگموں اور نوابوں کا شہر بھوپال بھی اس اتھل پتھل سے اچھوتا نہیں رہ پایا تھا۔ جس دن آزادی نے دیش میں پہلا قدم رکھا، اس دن بھی یہ شہر اس آزاد ہندوستان میں شامل نہیں ہوا تھا۔ 1946 میں ہوے ہندو مسلم دنگے سے سلگے ہوے شہر میں دہکن کی باس ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ دعا سلام کے ہنستے مسکراتے رشتے ہمیشہ کی طرح پھر سے قائم بھلے ہو چکے تھے لیکن دونوں قومیں اب تک ایک دوسرے کو بڑی چوکنی اور شک بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
نوابی حکومت اب تک قائم ضرور تھی لیکن کب تک؟ یہ سوال دونوں طرف ہی زیرِ بحث تھا۔ ہندو لیڈران اس یقین کے ساتھ مسکراتے نظر آتے تھے که 80 فیصد آبادی انھی کی ہے۔ اسی بنا پر ہر فیصلہ انھی کے پکش میں ہو گا۔ مسلمانوں کو بھی اسی بات کا اندیشہ تھا۔ اس پر شہر سے مسلم پریواروں کا پاکستان کی اور لگاتار جاری پلائن بھی ان کی فکر کی ایک بڑی وجہ بنتا جا رہا تھا۔ پاکستان سے پلائن کر کے بھوپال آنے والے ہندو پریواروں کی بڑھتی رفتار نے اس فکر میں اور اضافہ کر دیا تھا۔
اکتوبر 1947 میں ایک سرکاری آرڈیننس کے ذریعے پاکستان سے آنے والے شرنارتھیوں کے بھوپال داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ سرکار کی دلیل تھی که ان شرنارتھیوں کے اچانک اتنی بڑی تعداد میں آنے کی وجہ سے یہاں کھانے پینے اور دوسری ضروری چیزوں کی قلت ہو رہی ہے۔ لہذا شہر میں امن و امان قائم رکھنے اور بھک مری کے حالات سے بچنے کے لیے یہ احتیاطی قدم اٹھانا بےحد ضروری ہے۔ اس پابندی پر عمل کے لیے سرکاری عملے کے ساتھ ہی والنٹیئروں کی ایک فوج کھڑی کر لی گئی۔
سرکار کے اس حکم کے نتیجے میں سٹیشن اور بس سٹینڈ سے ہی کئی سارے شرنارتھی پریواروں کو اگلے کسی سٹیشن کی طرف جانے کے لیے مجبور کیا گیا۔ قانون اور پولیس کی طاقت کے آگے بےبس لوگ روتے بلکتے کسی ایسی جگہ کے لیے روانہ ہو گئے جس کے بارے میں انھیں کسی طرح کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔
اس طرح کی پابندی لگانے والا بھوپال اکیلا نہیں تھا۔ مدراس، حیدرآباد، پٹنہ اور نہ جانے کتنے شہروں میں مقامی انتظامیہ نے اسی طرح کی پابندی لاگو کر دی تھی۔ اس پابندی کے نتیجے میں بگڑتے حالات پر جب دہلی کے اخباروں میں خبریں چھپیں تو دہلی سرکار حرکت میں آئی۔ بھوپال میں سب سے پہلے پابندی میں ڈھیل دے دی گئی۔
پرانی آبادی میں نئے چہروں کو ہمیشہ شک اور سوالوں بھری نظروں سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس بار اس میں ایک اور چیز شامل ہو گئی تھی – فکر۔ اتنی بڑی تعداد میں آنے والے یہ انجانے لوگ آخر کریں گے کیا؟ ان سوالوں کا جواب دینے والا کوئی نہیں تھا۔ کیونکہ یہ سوال پوچھے ہی نہیں گئے تھے۔ پوچھے بھی جاتے تو بھی جواب نہ ملتے، کیونکہ ان سوالوں کے جواب کسی کے پاس تھے بھی نہیں۔ نہ آنے والوں کے پاس اور نہ ہی انھیں لانے والی سرکار کے پاس۔ نتیجہ یہ که سوالوں سے گھرے شہر کے لوگ اسی دھندلکے میں ایک دوسرے کی شکلیں پڑھنے کی کوشش کرتے تھے جن پر صرف سوال ہی سوال لکھے ہوے تھے۔
شہر میں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو ان سوالوں سے الجھے لوگوں کے بیچ اور نئے سوال پیدا کر رہا تھا۔ یہ تھیں یہاں کی سیاسی پارٹیاں۔ ایک طرف تھی ہندوؤں کی پیروکار پارٹی ہندو مہاسبھا، تو دوسری طرف تھی کسی مداری کی طرح ہندو مسلم توازن کو سادھنے کی کوشش کرتی کانگریس پارٹی۔ اسی کانگریس پارٹی سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکلتے لوگوں نے بعد کو کمیونسٹ پارٹی اور پھر پرجا سوشلسٹ پارٹی کی نیو ڈالی۔ یہ سب کے سب بدلے حالات کو اپنے موافق بنانے کی کوشش میں جٹے تھے۔
انھی پیچیدہ حالات کے بیچ ہی سب سے بڑا پیچیدہ مسئلہ پیدا ہو گیا تھا بھوپال سٹیٹ کے ہندوستان میں انضمام کا۔ نواب بھوپال حمیداللہ خاں کو ہمیشہ سے عوام دشمن مانا جاتا تھا اور مانا جاتا تھا که وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہیں گے۔ لیکن جغرافیائی حقائق اور عوام کی رائے کے چلتے یوں کر پانا بہت مشکل تھا۔ ایسے میں نواب نے بھوپال کو ہندوستان پاکستان کے بجاے آزاد ریاست بنائے رکھنا چاہا۔ جوناگڑھ، کشمیر، حیدرآباد اور جودھپور کے حکمرانوں کے اسی طرح کے ارادوں سے ان کے حوصلے مضبوط ہوے۔ انھوں نے خودمختار حکومت قائم کرنے کا فیصلہ لے لیا۔
اس فیصلے کی وجہ سے بھی شہر دو حصوں میں بٹ گیا۔ ایک بہت بڑا طبقہ ہندوستان میں شامل ہو کر رہنا چاہتا تھا، لیکن ایک نہایت چھوٹا سا جھنڈ اس کے خلاف تھا۔ اس جھنڈ میں زیادہ تر نواب کے وفادار اور پیروکار تھے۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کا ایک ایسا طبقہ بھی اس میں شامل تھا جو پاکستان نہیں جانا چاہتا تھا لیکن ہندوستان کے نئے نظام میں اسے اپنی خیریت کا بھروسا نہیں تھا۔ نواب صاحب کی صورت میں انھیں اپنی حفاظت کا ضامن نظر آتا تھا۔
انھی حالات میں بھوپال میں نومبر 1948 میں انضمام کے حق میں آندولن [تحریک] شروع ہو گیا۔ اس آندولن کی وجہ سے شہر میں آئے دن ہونے والے جلسے جلوسوں کی ہلچل سے شہر کا معمول پوری طرح بگڑ چکا تھا۔ فروری 1949 کے آتے آتے حالات کافی گمبھیر ہو گئے اور چالیس دن تک لگاتار بھوپال بند رہا، جس نے غریب عوام کی زندگی کو بےاندازہ مشکلوں سے بھر دیا۔
آخر ایک لمبی جدوجہد کے بعد 30 اپریل 1949 کو نواب حمیداللہ خاں کو اپنے ارادوں کو چھوڑ کر حقیقت کو ماننا پڑا۔ انھوں نے بھوپال کو ہندوستان میں شامل کرنے کے سمجھوتے پر دستخط کر دیے۔ 
عدم استحکام اور غیریقینی سے بھرے اس ماحول میں کسی کی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر ہو کیا رہا ہے اور جو ہو رہا ہے اس کا انجام کیا ہو گا؟ بھوپال کا فیصلہ بھلے ہی ہو گیا ہو، لیکن ہندوستان پاکستان کے بیچ جاری لوگوں کی ادلابدلی کے کھیل کے نتیجے میں شہر کے کئی سارے جانے پہچانے چہرے منظر سے آہستہ آہستہ گم ہوتے جاتے تھے تو دیکھتے دیکھتے ہی ان کی جگہ کچھ عجیب اور انجانے سے چہرے ہر جگہ دکھائی دینے لگے تھے۔ اِدھر اُدھر بھٹکتے، بدحواس، انجانے، ان دیکھے چہروں نے شہر کے لوگوں میں ایک کِھیج کا سا ماحول پیدا کر دیا تھا۔
50-60 ہزار کے آس پاس کی آبادی والے ایک چھوٹے سے شہر میں اچانک، ایک ساتھ پانچ چھ ہزار اجنبی لوگوں کے آ دھمکنے نے شہر کی ساری شکل صورت میں ایک عجب سا بدلاؤ لا دیا تھا۔ ایک ایسا شہر جہاں برسوں ساتھ رہتے رہتے ہر نام نہ سہی لیکن کم سے کم ہر چہرہ ایک دوسرے کا جانا پہچانا سا ہو، وہاں ایک ساتھ اتنے سارے اجنبی چہروں کا ایک شہر کے ہر روز کے معمول میں اِس اُس جگہ شامل ہو جانا، دال میں کنکر کی طرح ہو جاتا ہے۔
ایک اور بات جس نے چیزوں کو اور بھی اَسہج بنا دیا وہ تھا ان پانچ ہزار لوگوں کا پہناوا۔ اس شہر کے عام لوگوں کے پہناوے سے ایک دم ہی الگ ڈھیلے ڈھالے کرتے اور پھیلے ہوے چوڑے پاجامے، یا پھر لگ بھگ کسی ہوئی دھوتی۔ کچھ معاملوں میں دونوں کاندھوں سے گزر کر گھٹنوں تک آتا ہوا سفید گمچھا اور سر پر پونچھ نکلی سفید پگڑی، جسے وہ پٹکا کہتے تھے۔
گو اتنا ہی کافی نہ تھا۔ ان لوگوں کی ایک دم سمجھ میں نہ آنے والی اَن سنی بھاشا اور ان سنے اور اٹ پٹے لہجے میں قدم قدم پر انجانے شہر میں اگلے موڑ، اگلی گلی کا راستہ پوچھتے، کسی گریک ٹریجڈی کے کرداروں کے سے فکرمند اور بدحواس چہرے والے انسانوں کو یکایک کوئی کس طرح قبول کر سکتا تھا؟ سو یہ تناؤ بنا رہا۔    (جاری ہے) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

Leave a Reply