اس موضوع کا یہ تقاضہ ہے کہ اولین صورت میں یہ جان لیا جائے کہ لفظ ترسیل ، عوامی ذرائع ترسیل اور ابلاغ ان تینوں میں بنیادی طور پر کیا فرق ہے۔ سب سے پہلے ترسیل کیا ہے ؟یہ جان لینا ضروری ہے ۔اس کی تعریف اشفاق محمد خان نے اپنی کتاب عوامی ذرائع ترسیل کے ص نمبر 12 پر کچھ یوں پیش کی ہے:

"بنی نوع انسان کی دو بنیادی جسمانی ضرورتوں یعنی خوراک اور مکان کے علاوہ ایک تیسری بنیادی ضرورت آپس میں ایک دوسرے سے ربط قائم کرنا بھی ہے اور یہ ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے جو ہماری عصری تہذیب میں زندہ رہنے کے لیے اشد ضروری ہے ۔ اس ضرورت کے لحاظ سے اطلاعات ، خیالات اور رجحانات کو ایک فرد سے دوسرے فرد تک پہنچانے کے عمل کو ترسیل کہتے ہیں ۔”
(ص: 12 عوامی ذرائع ترسیل ، اشفاق احمد ،مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،نئی دہلی)

اس کے بعد عوامی ذرائع تر سیل کی باری آتی ہے ، لہذا اشفاق صاحب کی اسی کتاب میں ص :13 پر اس کی وضاحت کر دی گئی ہے :
"لوگوں تک خبریں پہنچانے کے لیے عوامی ترسیلات کے متعدد ذرائع ہیں ۔ ان میں سب سے قدیم ذریعہ ترسیل چھپے ہوئے الفاظ اور تصاویر ہیں جن کے مطالعہ سے پیغام رسانی کی جاتی رہی ہے ۔ ان میں اخبار ، رسائل ، کتب ، پمفلٹ، وغیرہ شمار کیے جاتے ہیں ۔ ریڈیو ہمارا سماعی ذریعہ ترسیل ہے جب کہ ٹیلی ویژن اور بولتی فلموں کے ذریعہ لوگ خبروں کے علاوہ تفریحی اور متنوع معلومات ، مضامین اشتہارات اور اسپورٹس وغیرہ کی اطلاعات سے آگاہ رہتے ہیں اور ان سب ذرائع ترسیل کی بدولت عوام قومی اور بین الاقوامی واقعات ، حالات نیز ان کے سماجی ، سیاسی ، معاشی اور تہذیبی معاملات و مسائل سے بھی باخبر رہتے ہیں ۔”
(ص: 12 عوامی ذرائع ترسیل ، اشفاق احمد ،مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،نئی دہلی)

ان دونوں اصطلاحوں کی تشریح سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آجاتی ہے کہ لفظ ترسیل جب اکیلا استعمال میں آتا ہے تو اس کے معنی کیا ہوتے ہیں لیکن جب عوامی، ذرائع ان دو لفظو ں کے ساتھ مل کر ایک ترکیب کی صورت میں آتا ہے تو اس کے کیا معنی ہو جاتے ہیں ۔ اب ا سی طرح ابلاغ کے متعلق بھی جان لینا ضروری ہے کہ اس کا تصور ترسیل سے یک گنا جڑا ہوا ہے۔

"(جس طرح ) ترسیل کسی بات کو پہنچانے کا عمل ہے ، (اسی طرح )ابلاغ کا عمل اس کا نتیجہ ہوتا ہے اور اس میں سامعین ،ناظرین اور قارئین کا رد عمل بھی شامل ہوتا ہے جو اپنی جگہ ایک پہلو ہے اور جس کے اپنے الگ مسائل ہیں ۔ترسیل اور ابلاغ کے گہرے تعلق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ مگر اس فرق کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے ۔”
(ص: 12 عوامی ذرائع ترسیل ، اشفاق احمد ،مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،نئی دہلی)

ابلاغ اور ترسیل کی اس مختلف المزاجی کو زیادہ تر لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ جب وہ ترسیل کے متعلق بیان دے رہے ہوتے ہیں تو وہاں لفظ ابلاغ استعمال ہوتا ہے اور ابلاغ کے مقام پر تر سیل ۔ اس واضح تشریح سے ان دونوں الفاظ کی معنوی جہت میں کس نوع کی تفریق پائی جاتی ہے اس سے بخوبی واقفیت حاصل ہو جاتی ہے۔

اب جب کہ ان تینوں کی متعین تعریف کو ہم نے جان ہی لیا ہے تو یہ بھی جان لینا بہت ضروری ہے کہ ادب کیا ہے ؟کیوں کہ جب تک ہمیں اس کا علم ہی نہیں ہوگا کہ ادب آخر ہے کیا بلا ؟تو اس کے ارسال و ترسیل پر کیوں کر کوئی بحث چھیڑی جا سکتی ہے ۔ ادب کی حالاں کہ کوئی متعینہ تعریف تو نہیں ہے کیوں کہ اس کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ادب کی تعریف کسی جامد تصور کا نام نہیں ہے ۔ مثلا ً یہ کوئی ایسا موضوع نہیں جس کے تعلق سے کوئی حتمی فیصلہ سنا دیا جائے ۔ اس کی واضح مثال ایسے پیش کی جا سکتی ہے کہ جس طرح لوہے کی یا چاندی کی جو تعریف ہے وہ بالکل متعین ہے ، کیوں کہ وہ مادہ کی صورت میں ہیں، جبکہ ادب غیر مادی ہے ۔ اس لیے اس کی تعریفات میں انجماد پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہ fluctuateکرتی ہے ۔ کبھی ادب کچھ ہوتا ہے تو کبھی کچھ ،اس کا کوئی کلیہ نہیں سوائے اس کے کہ جب تک کسی فن پارے میں اتنی energyموجود ہے کہ وہ اپنے اطراف کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور اسی کی مدد سے خود زندہ ہے ،اس وقت تک وہ ادب کے کسی ایک خاص درجے پر ادبی فن پارہ کہلائے گا۔ اس کے برعکس اگر کوئی فن پارہ مر گیا تو اس کو ادب نہیں کہا جا سکتا۔ ان معنی میں اولین صورت میں ہر وہ چیز ادب کے دائرے میں آتی ہے جو خواہ محظوظ کرےخواہ مکدر ۔ دوسری صورت میں اس کا تعلق براہ راست زبان سے ہے ۔ حالاں کہ پینٹنگ اور موسیقی کو بھی اس ضمن میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

اب اپنے اس اصل مقدمہ کی جانب رجوع کرنا درست ہوگا کہ ادب کے فروغ میں عوامی ذرائع ترسیل کا حصہ سے ہم کیا مراد لیتے ہیں ۔ اس سے سیدھے طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہر وہ ذریعہ ترسیل جس سے کوئی پیغام عوام تک پہنچتا ہے وہ اپنے تمام تر پیغامات سے قطع نظر ادب کو کس طرح فروغ پہنچا رہا ہے یا پہنچا چکا ہے یا مستقبل میں پہنچائے گا۔ اس نکتے پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ذرائع ترسیل سے ادب کو کوئی فروغ اس صورت میں نہیں پہنچتا جس صورت میں ہم عام طور پر اس تصور کو ڈھوتے ہیں ۔

ہم جب اس سلسلے میں عمومی طور پر سوچتے ہیں تو ہمارا خیال یہ ہوتا ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ذریعہ ترسیل ادب کےکسی ٹکڑے کی تشہیر میں اگر کار آمد ثابت ہو رہا ہے تو اس سے ادب کو ذریعہ ترسیل کا شکر گزار ہونا چاہیئے ۔ جب کہ اگر ہم اس صورت حال کو الٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی تحریر ، تصویر یا آواز جو ادب ہے، اس کو ذریعہ ترسیل کی اتنی حاجت نہیں جتنی ذریعہ ترسیل کو اپنی تشہیر کے لیے اس کی ضرورت ہے۔ کوئی ذریعہ جو اپنے ابتدائی مراحل میں ادب کے بجائے کسی پیغام کی ترسیل کا ذریعہ ہوتا ہے، جسے ہم سادہ پیغامات سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال سامنے رکھ لیجیے ۔ مثلاً ایک بیٹے نے باپ کو یہ خط لکھا کہ والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے وہ والد صاحب فلاں شہر سے جلد گھر لوٹ آئیں ۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب یہ پیغام ذریعہ ترسیل کا محتاج ہے اور ایسے تمام سادہ پیغامات کی تشہیر میں جتنے ترسیل کے ذرائع استعمال ہوتے ہیں وہ پیغام رسانی کے عمل کو فروغ دیتے ہیں ۔ اس کے برعکس جب ہم ادب کی بات کرتے ہیں تو اس میں ذریعہ ترسیل Secondaryچیز ہو جاتا ہے اور ادب priorityاس سے ذریعہ ترسیل کو یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ اس میں Charmپیدا ہو جاتا ہے ۔ جس کی بنا پر نہ صرف یہ کہ ادب کے اس عمل سے ترسیل کا وہ ذریعہ امر ہوجاتا ہے بلکہ اس کو فروغ بھی نصیب ہوتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال میں خطوط غالب سے دینا بہتر سمجھتا ہوں ۔ یہ بات اپنی اولین صورت میں ہمیں جان لینی چاہیئے کہ خطوط غالب اس لیے کوئی نابغہ نہیں ہے کیوں کہ غالب کی وہ تحریریں خط کے پیرائے میں ہیں یا وہ اس لیے زندہ نہیں ہیں کیوں کہ اس کو ترسیل کا ایک اہم ذریعہ زندہ رکھے ہوئے ہے ،بلکہ وہ اس لیے زندہ ہیں کیوں کہ اس ذریعہ ترسیل میں ادب کا Charmسما گیا ہے۔ غالب کے خطوط نے خط کو نہ صرف یہ کہ زندگی بخشی ہے بلکہ اس طریقہ ترسیل کو بھی فروغ پہنچایا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ غالب کے خطوط میں جس بلا کی ادبیت موجود ہے اس نے ان کے بعد والوں کو خطوط نگاری کی طرف مائل کیا اور نہ صرف یہ کہ مائل کیا بلکہ اس میں نئے اسالیب قائم کرنے کاشوق جگایا۔

اسی طرح آج کے جو بڑے ذرائع ترسیل ہیں ان پر بھی ایک نگاہ ڈال لیجیے اصل صورت حال خود سامنے آجائے گی۔ مثلا ً پہلے ہم آج کے چند ایک اہم اور بڑے ذرائع ترسیل کو گن لیتے ہیں ۔ ان میں انٹر نیٹ، سوشل ویب سائڈس، ڈش، سیٹیلائیٹ سے متعلق تمام ذریعہ ترسیل جس میں موبائل ، ٹی وی اور ریڈیو وغیرہ تمام چیزیں آگئیں ۔ اس کے علاوہ خط و کتابت یا ماس لیول کے پروگرامس۔ ان سب پر اگر ہم یکبار گی نظر ڈالیں تو ہمیں موٹے طور پر صرف یہ ہی دو منقسم حالتیں نظر آتی ہیں کہ یا تو کوئی پیغام ادبی ہوگا یا غیر ادبی۔ غیر ادبی پیغامات سے ہمیں کچھ بحث نہیں ، اگر کوئی پیغام ادبی ہے تو اس کو پیش کرنا ترسیل کے متعلقین کی مجبوری ہوگی ، کیوں کہ عوام میں اس ذریعہ ترسیل کی مقبولیت کا اگر کوئی ضامن ہو سکتا ہے تو وہ ادب ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی ٹی وی چینل کو لے لیں ۔اگر کوئی ٹی وی چینل صحیح طور پر نہیں چل رہا ہو یا ان کے ناظرین کی تعداد میں کمی ہو یا اس پر دکھائے جانے والے ڈراموں کی ٹی آر پی کم ہو تو اس کے لیے چینل کا پروڈیوسر زیادہ تر یہ کرتا ہے کہ کسی بڑے ادیب یا فن کار کو اس پر مدعو کرتا ہے۔ اس کی تشہیر کرتا ہے اور اس کے ذریعہ اپنے ذریعہ ترسیل کو فروغ پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ ایساصرف ایک ٹی وی چینل پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ذریعہ ترسیل کے جتنے رائج طریقہ کار ہیں ان میں زیادہ تر کا یہ ہی طریق ہے۔

ادب کو اگر عوامی ذرائع ترسیل سے کسی طرح کی شہرت نصیب ہوتی تو یہ بات بالکل حتمی ہے کہ یہ ادیب کے لیے نہ کوئی واقعہ ہے اور نہ کوئی انعام اور ادب کے کیے یہ ثانوی درجے میں سود مند ہے۔ کیوں کہ اگر عوامی ذریعہ ترسیل سے ادب کو 50 فی صد فروغ نصیب ہو رہا ہے تو ادب سے عوامی ذرئع ترسیل کو 100 فی صد اس کے نعم البدل کے طور پر مل رہا ہے۔

Leave a Reply