اس طویل کہانی کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔
اس کے پڑوسیوں نے اسے بتایا تھا کہ زمین کی تعمیر سات روز میں ہوئی تھی۔ جب زمین بنی تو اس کے پڑوسی وہاں تھے اور وہ بھی تھا۔ ہوا یہ تھا کہ جب زمین کا نام و نشان نہ تھا تو انسان اور دیو خلا میں رہا کرتے تھے، انسان اور دیو ایک دوسرے کے رشتے دار تھے، یہاں کی عورتیں وہاں اور وہاں کی عورتیں یہاں بیاہی جاتیں، دیو نیوں کے بچوں کو انسانی عورتیں دودھ پلاتیں اور پالتیں۔ انسانوں کے بچوں کو دیو خلا کی سیر کراتے۔ سب خوش حالی سے ساتھ میں رہتے تھے، پھر ایک روز دیو زاد مردوں نے دیکھا کے ان کے بچے غائب ہو رہے ہیں، پہلے ایک غائب ہوا پھر دوسرا ہوا پھر تیسرا ہوا۔ انہوں نے خلا میں دور دور تک انہیں ڈھونڈا مگر وہ کہیں نہ ملے۔ انہوں نے انسانوں سے اس بات کا تذکرہ کیا تو وہ بھی پریشان ہو گئے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا اور اپنے بچوں کی حفاظت مستعدی سے کرنے لگے۔
کچھ دنوں بعد جب یہ سلسلہ بہت بڑھ گیا تو دیو زادوں کے بڑے بڑے سرداروں نے انسانوں سے چند انسانی سراغ رساں خلا کے مغرب میں جہاں سورج کی حکومت تھی اور جہاں دیو زاد جاتے ہوئے گھبراتے تھے کیوں کہ انہیں روشنی سے بیر تھا بھیجنے کی خواہش ظاہر کی۔ انسانوں نے ادھر کا سفر کبھی نہیں کیا تھا، مگر دیو زادوں کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے حامی بھر لی۔ چند انسانی سراغ رساں چھ ماہ کی مسافت طے کر کے جب سورج کی بستی میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں ایک بہت بڑا روشن آگ کا گولا ہے جس کے ارد گرد بے شمار سونے،چاندی، ہیرے، موتی کے پہاڑ ہیں جو خلا میں تیر رہے ہیں۔
جب وہ ذرا نزدیک گئے تو انہیں شیطانوں کی بستی نظر آئی۔ جہاں لاکھوں شیطان اور ان کی بیویاں اور بچے خلا میں سورج کی تپش میں دیو زاد بچوں کی لاشیں پکا رہے ہیں اور مزے لے لے کر کھا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ منظر دیکھا تو بہت حیران ہوئے۔ ابھی وہ یہ منظر دیکھ ہی رہے تھے کہ ایک شیطان کی ان پہ نگاہ پڑ گئی۔ وہ دوڑے مگر شیطانوں نے انہیں جا لیا۔ فوراً انہیں قید کر کے شیطانوں کے سردار کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے انسانوں کو دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ ان کی بیڑیاں کھلوائیں اور ان کی تعظیم میں جھک گیا۔ انسان یہ منظر دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ اس نے ان سراغ رساں انسانوں کی دعوت کی جس میں خلائی میوے، پھل، سبزیاں اور دیوزاد بچوں کا پکا ہوا گوشت ان کے سامنے سجا دیا۔ انہوں نے سارے کھانے قبول کر لیے اور بچوں کا گوشت لینے سے انکار کر دیا۔ تب شیطان کے سردار نے ان سے کہا کہ کیا تم دیوزاد بچوں کی خاطر یہاں آئے ہو۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ سردار بولا۔ تمہیں دیو زاد کیا دیتے ہیں جو تم ان کے دوست ہو اور اس خبر کوحاصل کرنے یہاں تک آ گئے ہو۔ انہوں نے بتایا کہ دیو زاد اور ہم ہزاروں سال سے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کے بچے ہمارے بچے ہیں۔ تمہیں ان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کر نا چاہیے۔ اس پر شیطانوں کے سردار نے ان سے کہا کہ تم کیا جانو کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں۔ انسان بولے اپنی بھوک اور مزے کی خاطر۔ شیطان نے کہا ایسا ہرگز نہیں ہے۔ پھر وہ انہیں اپنے ساتھ ایک جگہ لے گیا جہاں سورج کی تپش بھی معتدل تھی اور خلا کی ٹھنڈ بھی۔ اس مقام کو دیکھ کر انسان حیران رہ گئے۔ پھر شیطان کے سرداروں نے ایک دیو زاد کا بچہ منگوایا اور کی گردن دھڑ سے الگ کر دی۔ یہ دیکھ کر انسان کانپ گئے۔ شیطان نے کہا کہ ڈرو نہیں اب جو میں دکھاتا ہوں وہ دیکھو۔ اس نے دیوزاد بچے کا پیٹ پھاڑا اور اس کا معدہ نکال کر سورج کےاس معتدل مقام پر اچھال دیا۔ جو آن واحد میں سوکھ کر اتنا سخت ہو گیا کہ انسان اسے ہلا نہ سکے پھر اس کے بیچ سے ایک ترل بہہ کر اس کے چاروں طرف پھیل گیا۔
شیطان کے سردار نے ایک اور بچہ منگوایا اور اس کابھی سر ڈھر سے الگ کر دیا اور اس کا پیٹ پھاڑ کے جوں ہی اس کا معدہ نکال کر اس معتدل مقام پر اچھالا تو انسان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ معدہ دوسرے معدے سے چپک گیا اور اسی طرح ٹھوس ہو گیااور پھر اس میں سے بھی ویسا ہی ترل بہہ کر اس کے چاروں طرف پھیل گیا۔ تب شیطان کے سرداروں نے کہا کہ اسے پتھر اور پانی کہتے ہیں جو صرف پوری کائنات میں دیوزاد کے پیٹ میں پایا جاتا ہے۔ اگر ہم کسی طرح تمام دیو زادوں کے پیٹ پھاڑ کر ان کے معدے اس معتدل مقام پر اچھال دیں تو ہمیں کبھی خلا کی ٹھنڈ میں نہیں رہنا پڑے گا۔ انہوں نے انسانوں سے کہا کہ دیو بہت طاقت ور ہیں اگر وہ کسی طرح انہیں یہاں تک لے آئیں اور شیطانوں کے ساتھ مل کر ان کا قتل کر دیں تو وہ اور شیطان ہمیشہ خوشی سے زمین کے مالک بن کر رہیں گے۔
انسانوں کے سراغ رساں اس پر فوراًراضی ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے سرداروں کو بھی اس پہ راضی کر لیں گے۔ پھر شیطانوں نے انسانوں کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ بنایا اور انسان وہاں سے روانہ ہو گئے۔ ایک رات جب تمام دیو زاد گہری نیند سو رہے تھے اور انسانی سراغ رسانوں نے انسانوں کے بڑے بڑے سرداوں کو بلا کر اس معتدل مقام، زمین اور پانی کے متعلق بتایا تو سارے سردار خوشی سے جھوم اٹھے پھر شیطانوں کا منصوبہ بتایا جس پہ عمل کرنے کے لیے انہیں دیو زادوں سے یہ کہنا تھا کہ ان کے بچے کس طرح کی پریشانیوں کا شکار ہو رہے ہیں اور انہیں یہ یقین دلانا تھا کہ وہ روشنی کی طرف چلیں جہاں ان کے بچے بھی ہیں۔ بنا ڈرے وہ اور انسان مل کر شیطانوں کا مقابلہ کریں گے اور انہیں ختم کر کے ان کے بچوں کو چھڑا لائیں گے۔سارے سرداروں نے ایسا ہی کرنے کی قسم کھائی۔ پھر دوسرے روز تمام انسانوں تک یہ خبر پہنچا دی گئی۔ دیو زادوں کو صورت حال سے آگاہ کیا گیا اور انہیں غیرت دلائی گئی کہ وہ اپنے بچوں کی خاطر وہاں چلیں اور انسان ان کے کندھے سے کندھا ملا کر چلیں گے۔ جب دیو زاد اور ان کی عورتیں سب اس پہ راضی ہو گئے تو انسانوں اور دیو زادوں کا ایک لشکر روشن نگری تک پہنچا۔
دیو زادوں کی مدد سے چھ ماہ کا راستہ دو دن میں طے ہو گیا۔ مگر جوں ہی وہ شیطانوں کی بستی تک پہنچے تمام انسانوں نے دیو زادوں سے بغاوت کر دی اور شیطانوں سے جا ملے۔ دیو زاد یہ صورت حال دیکھ کر بوکھلا گئے۔ انہوں نے انسانوں کے اور اپنے تعلقات کے ہزاروں برسوں کے واسطے دیے، رو ئے گڑ گڑائے مگر انسانوں نے ان کی ایک نہ سنی اور شیطانوں کے ساتھ مل کر ان کے سر دھڑ سے الگ کر کے ان کے پیٹ چا ک کیے اور ان کے معدے نکال کر اس معتدل مقام پر اڑا دیے۔ یہ قتل و غارت گری چھے روز تک چلتی رہی اور پھر ساتویں روز جب سارے دیو ختم ہو گئے تو خلا کا وہ معتدل مقام ایک شاندار زمین سے سج گیا۔
سارے انسان اور شیطان یہ منظر دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور باری باری زمین پر آنے لگے۔ جوں ہی ایک انسان یا شیطان زمین پہ قدم رکھتا تو ایک دھماکے کی آواز خلا میں بلند ہوتی جو دیو زاد کی چیخوں کی طرح ہوتی۔ دھیرے دھیرے انسان اور شیطان زمین تک پہنچتے رہے اور یہ چیخیں خلا میں گونجتی رہیں۔ پھر اچانک ان چیخوں نے ایک ساتھ اٹھنا شروع کر دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ساری خلا چیخوں سے پھٹ جائے گی۔ آواز کی شدت جب بہت بڑھ گئی تو اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ اس کے ماتھے پہ پسینے کی بوندیں ابھر آئی تھیں۔ کچھ دیر کے لیے ان چیخوں کی آوازیں کم ہوئی اور پھر دوبارہ بڑھتی چلی گئیں۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے دیو زادوں کی چیخوں سے اس کا دماغ پھٹ جائے گا۔
(13)
بڑی مذہبی طاقت والوں کا جلوس پیتل منڈی سے نکلناشروع ہوا،ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہاتھوں میں جھنڈے اور اپنا مذہبی ہتھیار لیے لال چوک کی طرف بڑھ رہے تھے۔ نعرے لگاتے، چیختے چلاتے۔ اپنے دشموں کو للکارتے۔ آج ان پہ ایسا جنون طاری تھا کہ اگر وردی والے بھی انہیں روکنے کی کوشش کرتے تو وہ انہیں بھی ختم کر دیتے۔ ان کا نشانہ دو سری مذہبی طاقت تھی، وہ اپنے نعروں میں انہیں گالیاں دیتے، ڈرپوک اور بزدل کہتے ہوئےآگے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اس جلوس میں ہر عمر کی مرد اور عورتیں شامل تھیں۔ عورتوں کے نعروں کی آواز سے محسوس ہوتا تھا جیسے وہ اپنی مد مقابل پارٹی والوں کا کلیجہ نوچ لیں گی۔ آج ان کا کوئی باپ،بھائی اور شوہر نہ تھا۔ سب ایک شدید غصے کی لہر میں شہر سے چھوٹی مذہبی طاقت کو ختم کر دینا چاہتے تھے۔
جلوس جوں جوں آگے بڑھتا گلیوں، کوچوں اور بازاروں سے لوگ اپنے مذہبی ہتھیاروں سمیت ا س میں شامل ہو تےجاتے۔ وردی والے اس جلوس کے آگے پیچھے بندوقیں لیے چل رہے تھے۔ نعرے بازوں کی آواز جلوس میں موجود لوگوں میں جوش پیدا کر رہی تھی۔وہ آگے، پیچھے اور درمیان میں بکھرے ہوئے تھے۔ پہلے آگے والا نعرہ لگاتا، پھر اس کے پیچھے والا اور پھر سب سے پیچھے والا۔ ابھی یہ جلوس شہر کی گلیوں سے گزر ہی رہا تھا کہ چھوٹی طاقت والوں نے دھیر ےدھیرے جنوبی علاقے میں ایک جگہ جمع ہونا شروع کر دیا۔ وردی والوں کو اس بات کا علم نہ تھا کہ چھوٹی طاقت والے اس جلوس کے دن شہر کے ہر حصے میں جمع ہو کر ایک جگہ آ کر ملیں گے۔ ان کا بھی رخ لال چوک کی طرف تھا۔ شہر کی چاروں سمتوں میں ایک اوربھیڑ اکھٹا ہونے لگی۔ وردی والوں نے جب مختلف علاقوں میں چھوٹی طاقت والوں کو اکھٹا ہوتے دیکھا تو دھیرے دھیرے پیچھے کی طرف کھسکنے لگے۔کیوں کہ چھوٹی طاقتیں ہاتھوں میں اپنے مذہبی جھنڈوں اور ہتھیاروں کے علاوہ بندوقیں بھی لیے ہوئے تھے۔ وردی والے وائر لیس پہ ہر علاقے کے ذمہ داروں کو اطلاع دیتے اور لال چوک کی طرف بڑھتے چلے جاتے۔
چھوٹی مذہبی طاقتیں جنوبی اور مغربی علاقوں سے نکل کردائرہ شاہراہ پہ مل گئیں۔ دونوں جماعتوں نے جب دیکھا کہ اتنی تعداد میں لوگ اسلحہ کے ساتھ ہیں تو ان کے حوصلے بلند ہو گئے۔ اب وہ بھی بڑی مذہبی طاقت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ دوسری جانب یہ بڑی طاقتوں کا جلوس بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ انہیں جلد ہی یہ خبر مل گئی کہ چھوٹی طاقتیں بھی لال چوک کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ یہ خبر سنے ہی وہ اس طرح آگ بگولا ہوئے جیسے ایک آٹھ برس کے بچے نے کسی پہلوان کو گالی دے کرللکار دیا ہو۔ ان کا مجمع تیزی سے آگے کی طرف بڑھ نے لگا۔ وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے اور وردی والے کہیں دور دور تک نظر نہیں آ رہے تھے، جیسے آج انہوں نے شہر کو اپنے حال پہ چھوڑ دیا ہو۔ بڑی مذہبی طاقتوں کا جلوس جب لال چوک سے ایک میل کے فاصلے پہ پہنچ گیا تو تمام وردی والے انہیں لال چوک پہ اکھٹا نظر آئے۔ وہ مائک ہاتھوں میں سنبھالے عوام سے چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے۔
” آپ لال چوک تک پہنچ گئے ہیں اس کے آگے مزدوروں کی جماعت کا علاقہ شروع ہوتا ہے، آپ یہاں سے لوٹ جائیں۔”
مگر بڑی مذہبی طاقتیں ٹس سے مس نہ ہوئیں اور مستقل آگے بڑھتی رہیں۔ دوسری جانب چھوٹی مذہبی طاقتوں کا جھنڈ بھی وہاں پہنچ گیا تھا۔ وہ شہر کی دوسری طرف سے آئے تھےاس لیے بڑی مذہبی طاقتیں اور مزدوروں کا جھنڈ ان کے بالکل سامنے تھا جن کے درمیان وردی والے گھڑے تھے۔ انہوں نے چھوٹی مذہبی طاقتوں کی طرف رخ کر کے بھی وہی اعلان کیا۔ مگر ان کے بھی سر پہ جیسے جنون سوار تھا۔ دونوں گروہ نعرے بازیوں کے ساتھ آگے بڑھتے رہے اور مزدور اس طرح کسمسا کر وردی والوں کے پیچھے دبک رہے تھے جیسے دونوں طاقتیں انہیں پیس کے رکھ دیں گے۔ ایسا لگتا تھا جیسے سارا شہر سڑکوں پہ اتر آیا ہے۔
وردی والوں نے حالات کو سنبھالنے کے لیے ایک آخری وارننگ دی کہ اگر اب کوئی آگے آیا تو وہ گولی چلا دیں گے۔ انہوں نے اتنا کہا ہی تھا کہ چھوٹی مذہبی طاقت والوں میں سے کسی نے ان پہ گولی داغ دی۔ وردی والے بلڈ پروف جیکٹ میں تھے، ہاتھوں میں ڈھالیں اور سر وں پہ ہیلمٹ پہنے۔وہ گولی کسی وردی والے کو لگی تو نہیں مگر اس حرکت نے ہر طرف ایک ہلچل مچا دی۔ وردی والوں نے بھی چھوٹی مذہبی طاقتوں پہ فائرنگ شروع کر دی۔ کئی لوگوں کی فلک شگاف چیخیں اٹھیں اور وہ وہیں ڈھیر ہو گئے۔ چاروں طرف بھگدڑ مچ گئی۔ چھوٹی مذہبی طاقت والوں میں جن کے پاس بندوقیں تھیں وہ وردی والوں پہ گولیاں برسا رہے تھے اور بقیہ ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔
بڑی مذہبی طاقت والوں میں سے بہت سے لوگ چیخ چیخ کر اپنے لوگوں کو آگاہ کر رہے تھے کہ چھوٹی مذہبی طاقت والوں کے پاس بندوقیں ہیں۔ وہ اپنے ہتھیار لے کر آگے بڑھ رہے تھے، جب بعض وردی والوں نے انہیں آگے کی طرف بڑھتے دیکھا تو فائرنگ کا رخ ان کی طرف بھی مڑ گیا۔ کچھ لوگ رخمی ہوئے اور کئی سو وردی والوں پہ ٹوٹ پڑے، اس ریلے نے کئی وردی والوں کی بندوقیں چھینیں اور ان پہ گولی چلا دی۔ ان کی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے۔ جب وردی والوں نے یہ ہنگامہ مزید بڑھتے دیکھا تو چاروں جانب سے گیس کے گولے برسانا شروع کر دیے۔ وہ بڑی مذہبی طاقتوں اور چھوٹی مذہبی طاقتوں کے درمیان کھڑے تھے مگر دونوں طاقتیں ا س کوشش میں تھیں کہ کسی طرح وہ ان دونوں کے اور مزدوروں کے منہ پر سے ہٹ جائیں۔ آنسو گیس کے گولے۔ پانی کے ٹینکر اور بندوقیں، مشین گنیں، یہ سب آزمایا گیا۔ جگہ جگہ لوگوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ مگر دونوں جانب مرنے مارنے کا جنون سوار تھا۔ وہ کسی طرح ایک دوسرے میں گتھ جانا چاہتے تھے۔ ایسے جیسے کبھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہ رہے ہوں۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے عرصے سےبے انتہا نفرت کرتے رہے ہوں۔ جیسے یہ واقعہ ایک بہانہ ہو جس نے ان دونوں کے اندر کی ساری مروت اور برداشت کو بالکل ختم کر دیا ہو۔ وہ ایک دوسرے سے لڑنا چاہتے تھے۔ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنا چاہتے تھے تاکہ اپنے مذہبی جذبات کو سچا ثابت کر سکیں۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ہی ایک موقع ہے جب وہ شہر کو دوسری گندگی سے صاف کر سکتے ہیں۔ اس وقت جب وہ دونوں ظاقتیں آمنے سامنے ہیں جب شہر ان کے لیے میدان جنگ بن گیا ہے۔
بڑی مذہبی طاقت اب اپنے مقدس جانور کی موت کے غم میں گرفتار نہ تھی، نہ اس کی عقیدت اور محبت اس کے دل میں باقی رہ گئی تھی۔ اس وقت وہ صرف ایک جذبے سے سرشار تھے اور وہ تھا اپنے مد مقابل سے نفرت کا جذبہ۔ اگر انہیں کسی سے عقیدت ہوتی تو وہ لوگوں کے خون کے پیاسے نہ ہوتے، یہ ہی حال چھوٹی مذہبی طاقتوں کا تھا جو اپنے اصلی رنگ پہ اتر آئے تھے۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ ویسے نہیں جیسے ان کے مد مقابل انہیں سمجھتے ہیں وہ ظلم کر کے ظلم کی شناخت کو مٹانے پر کمر بستہ تھے۔ بڑی طاقت والے ان کی جس خونی تاریخ سے نالاں تھے، جس الزام کو وہ یہ کہہ کر ایک عرصے سے ٹال رہے تھے کہ یہ جھوٹی تاریخوں کاپروپگنڈا ہے انہوں نے کبھی اپنے حریفوں پہ ظلم نہیں کیا ان کے گلے نہیں کاٹے۔ اس بات کا یقین دلانے کے لیے آج وہ شہر کے چاروں کونوں سے ایک جگہ جمع ہو کر سب کی گردنیں کاٹ دینا چاہتے تھے۔ ہر وہ شخص جو انہیں ظالم کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا وہ اس کی آنکھیں نوچ کر یہ ثابت کر نا چاہ رہے تھے کہ وہ ظالم نہیں ہیں انہیں ان نظروں سے نہ دیکھا جائے۔
مزدور اور غریب عوام جو نہ اس دل میں شامل تھے اور نہ اس دل میں وہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان ان وردی والوں کے سائے میں زندہ تھے جن کے حکام نے ان کی حفاظت کا ڈھونگ رچانے اور دونوں جماعتوں کی نفرت کو ابھارنے کے لیے مقدس جانور کے ٹکڑے کروا کر سارے شہر میں پھیلوائے تھے۔ یہ ہنگامہ اسی طرح اس وقت تک جاری رہا جب تک ہزاروں کی تعداد میں مزید وردی والے لال چوک پہ نہ پہنچ گئے اور انہوں نے دونوں جماعتوں کے لوگوں کو وہاں سے کھدیڑ کر شہر بھر میں کرفیو نہ لگا دیا۔
(14)
آج پورا ایک ہفتہ گزر چکا تھا کہ وہ کار خانے نہیں گیا تھا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اب اس علاقے کے تمام کار خانوں کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ مگر وہ ان باتوں پہ دھیان دیے بنا تین دن سے روز ادھر جا رہا تھا اور روز اسے سارے کار خانے بند نظر آتے تھے۔ وہ اس دوران اکتا گیا تھا۔ دن بھر گھر میں پڑا رہتا۔ نہ کہیں جا سکتا تھا اور نہ کوئی ایسا تھا جسے بلا سکتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ دوو قت کے کھانے کے علاوہ دن میں تین مرتبہ چائے خانے تک کا چکر لگا لیتا۔ وہ گھر میں دیر دیر تک بیٹھا سگر ٹوں کا دھواں اڑاتا رہتا اور کبھی اس لڑکی کے متعلق سوچتا جو حکومتی عمارتوں کی فٹ پاتھ پہ نظر آئی تھی اور کبھی ان لڑکیوں کے بارے میں جنہیں وہ ان دنوں گھور گھور کے دیکھا کرتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ حکومتی عمارتوں کی فٹ پاتھ پہ جا کر روز شام کو وہاں کے چکر لگائے۔ مگر شہر ابھی تک معمول پہ نہ آیا تھا۔
جنگی صورت حال کے بعد وردی والوں نے شہر میں سخت ناکہ بندی کر دی تھی۔ کوئی شہر کےایک حصے سے دوسرے حصے میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ شہر کا سارا نظام ٹھپ پڑا تھا۔ ایک ہفتے سے نہ کوئی حکومتی ادارہ کھلا تھا اور نہ کوئی پرائیوٹ کمپنی۔ وردی والوں کے بڑے حکام شہر کے دونوں گروہوں کے سیاسی لیڈوں سے میٹنگیں کر رہے تھے اور شہر کے حالات کو معمول پہ لانے میں کوشاں تھے۔ لال چوک پہ اب تک خون کے دھبے جگہ جگہ چمک رہے تھے۔ مزدوروں کو شہر سے متصل شاہراہ کے کنارے ایک زمین کا ٹکڑا دے دیا گیا تھا، جہاں حکومت نے انہیں جھونپڑے بنانے کا ساز و سامان مہیاکر وا کے انہیں ان کی ذمہ داری پہ چھوڑ دیا تھا کہ وہ خود اپنے معاشی معاملات سنبھالیں۔ سیاسی لیڈروں کے بیانات لگاتار عوام کے غصے کو کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جس کے لیے دونوں جماعتوں کے لیڈر کبھی ایک دوسرے سے گلے ملتے اور ایک دوسرے کو پھولوں کی مالا پہناتے ہوئے تصویریں جاری کرتے۔ کبھی ایک دوسرے کو کچھ میٹھا اور نمکین کھلاتے ہوئے۔ شہر والوں کا غصہ بھی اب دھیرے دھیرے کم ہو رہا تھا اور ان کو اپنے نقصان کا احساس ہو چلا تھا جو انہیں فساد کے حاصل کے طور پر مل رہا تھا۔