Laaltain

آوازوں والا کردار (پانچواں حصہ) – تالیف حیدر

20 اپریل، 2020
Picture of تالیف حیدر

تالیف حیدر

اس طویل کہانی کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

شہر کے اس علاقے کو وردی والوں کے آقاوں نے ایک عرصے سے اپنے منصوبوں کی ابتدا کہ لیے چن رکھا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہاں سے شروعات کرنا سب سے آ سان ہوگا۔ اس شہر میں دو بڑی طاقتوں کو ایک دوسرے سے لڑوانے کے لیے انہوں نے جنوبی علاقے میں فساد کا ماحول پیدا کر دیا۔ وہ لوگ جو ٹیلے کی بستی میں رہتے تھے ان کے گھروں کو جلا کر وردی والوں نے ان کے دلوں میں ایسی آگ لگا دی تھی جس کا بجھنا اب ممکن نہ تھا۔ اس ہنگامے کے بعد ٹیلے کی طرف کر فیو لگ گیا۔ مگر بستی سے بھاگے ہوئے لوگ جنوبی علاقے کے مختلف گھروں کے سامنے آ بیٹھے۔ وہاں سیاسی لیڈروں نے یہ افراتفری دیکھی۔ تو ہنگامہ مچانا شروع کر دیا۔ وہ اس بات پر شہر کے انتظامیہ سے ناراض سے تھے کہ انہیں کسی قسم کی اطلاع دیئے بغیر اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا گیا۔ وہ وردی والوں کے خلاف کچھ نہیں کہہ سکتے تھے اس لیے اپنی انتظامیہ کو گالیاں دے رہے تھے۔

شہر کے جنوبی حصے میں جگہ جگہ جلوس نکلنے لگے۔ لوگ اپنے اپنے سیاسی دلوں کی بیٹھک بلاتے۔ ان کے ساتھ میٹنگ کر کے بکھری اور بد حال عوام کو اپنے دل میں شامل کرنے کی کوششیں کرتے۔ نعرے لگاتے اور پر زور تقریریں کرتے۔ کچھ مقررین انتظامیہ سے مانگ کر رہے تھے کہ بے گھروں کو چھت دی جائے اور مصبت زدہ بیمار اور زخمیوں کا مفت علاج کیا جائے۔ ایک مقرر نے اپنی تقریر کے دوران اپنی مد مقابل طاقت کے لیڈوں کو گالی دیتے ہوئے انہیں وردی والوں کا دلال کہا شہر کی جنوبی حالت کا ذمہ دار انہیں بتایا تو ہنگامے نے مزید آگ پکڑ لی۔ اب دوسری طاقت ور پارٹیاں اپنا زور دکھانے کے لیے پہلی کو اس کا ذمہ دار بتا رہی تھیں۔ جس کی معقول وجہ انہوں نے مذہبی بنیاد کو بنایا۔ سب جانتے تھے کہ ٹیلے کے قریب جس مذہب کے ماننے والے آباد تھے شہر کا زیادہ تر حصہ انہیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا۔ اولاً تووہ شہر کی اقلیت تھی اور دوسری وجہ ان کی مذہبی تاریخ تھی جس نے دیگر مذہبی عقائد کے ماننے والوں کے ساتھ کئی سو سال تک ظالمانہ سلوک روا رکھا تھا۔

مقررین کی تقریریں روز صورت حال کو ایک نیا رنگ دیتی تھیں اور بد حال بے گھر مزدور شہر کی سڑکوں پہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ وہ سیاست داں جو عوام کے غم کو سمجھنے کی بات کر تے تھے ان کے گھروں میں ایک کمرہ بھی ان بے گھروں کے لیے نہ نکلا تھا۔ انتظامیہ سے کچھ لوگ آئے تھے جنہوں نے صورت حال کا جائزہ لے کر جلد ہی سب کچھ ٹھیک ہو جانے کا یقین دلایا تھا۔ بے گھر عوام انہیں امید کی نگاہ سے دیکھتی، مگر وہ دن پہ دن بڑھائے جاتے۔ وردی والوں نے ایک ماہ کے بعد وہ علاقہ خالی کر دیا مگر ایک بورڈ وہاں چسپاں ہو چکا تھا۔ جس میں یہ اپیل کی گئی تھی کہ یہاں سے لنک روڈ سے الفسٹن روڈ تک جانے کی سیدھی شاہراہ بنے گی۔یہ رہائشی علاقہ نہیں ہے، اگر یہاں کسی نے رہائشی مکانات بنائے تو انتظامیہ اس کے خلاف سخت قدم اٹھائے گا۔ مزدور عوام نے اپنے جتنے ساتھیوں کو اس ہنگامے میں کھویا تھا اس کے بعد یوں بھی ان کی ہمت نہ تھی کہ ٹیلے کی طرف دوبارہ مڑ کر دیکھتے۔

ان میں سے زیادہ تر لوگ جنوبی علاقوں کے کار خانے میں مزدور تھے جہاں وہ بھ کام کیا کرتا تھا۔ اسے ٹیلے کے حشر پہ افسوس ہوا تھا، مگر اس سے زیادہ افسوس اس بات پہ تھا کہ مزدور بے گھر ہیں اور حکومت ان کے لیے گھروں کا انتظام نہیں کر رہی ہے۔ اس نے سوچا کہ ٹیلے پہ جو شاہراہ بنے گی کیا وہ ان ہزاروں لوگوں کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے۔ یہ لوگ جو دن بھر مزدوری کرتے ہیں اور شام کو کار خانوں سے نکل کر شہر کی فٹ پاتھوں پہ بکھر جاتے ہیں۔ ان دنوں کئی سیاسی مقررین کی تقریروں نے اس کی ڈھارس بندھوائی تھی۔ مگر آخر آخر وہی ڈھاک کے تین پات۔ نہ انہیں کوئی گھر ملتا اور نہ انتظامیہ کی طرف سے کچھ امداد آتی۔ مزدوروں نے اپنا جو یونین قائم کیا تھا اس کی میٹنگیں روز شام کو لال چوک کے پرانے کنویں والی عمارت میں ہوا کرتی۔ جہاں کار خانے کے تمام مزدور بھی جمع ہوتے تھے۔ وہ بھی گزشتہ تین روز سے ان میٹنگوں میں حصہ لے رہا تھا۔ یہاں نوجوان مزدور لیڈروں کی باتیں سن کر اور ان کا دکھ جان کر اس کا دل بھر آتا۔ وہ سوچتا کہ وہ جتنے لوگوں کو اپنے گھر لے جا سکتا ہے لے جائے۔ مگر پھر اسے اپنے گھر کی تنگی یاد آتی تو اس خیال پہ عمل نہ کر پاتا۔ آج اس میٹنگ میں اس کا چوتھا دن تھا۔ وہ نوجوان لیڈر جو کل تقریر کر رہا تھا آج خاموش ایک کونے میں کھڑا تھا اور اس کی جگہ ایک ادھیڑ عمر شخص مزدوروں سے مخاطب تھا۔

“یہ ہمارا غم نہیں سمجھ سکتے، اگر کبھی ان کا اپنا کوئی جلا یا مرا ہوتا۔ ان کا اپنا گھر توڑا یا ڈھایا گیا ہوتا تب یہ جانتے کہ ہم پہ کیا گزر رہی ہے۔ ہم نے انتظامیہ سے کھانے پینے کو نہیں مانگا۔ ان کے آگے ہاتھ پھیلا کے روپیہ یا دولت نہیں مانگی۔ ہم ایک جگہ اپنا سر چھپانے کے لیے زمین کا مختصر ٹکڑا مانگ رہے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ شہر میں زمین کی کمی ہے۔ جن زمینوں پہ ان انتظامہ کے دلالوں کی کوٹھیاں بنی ہوئی ہیں، ان کے لیے زمین کی کمی نہیں۔ ان کے رہنے، سونے، کھانے اور لوگوں سے ملنے، کھیلنے کودنے اور نہانے دھونے کے الگ الگ کمرے ہیں۔ ان کی حویلیوں میں جانوروں کے لیے اتنی زمین محفوظ کی جاتی ہے جس میں ہم جیسے لوگوں کے دس گھر بن جائیں گے۔ پھر ان وردی والوں کے رہنے کے لیے حکومت نے جو عالی شان کمرے تعمیر کیے ہیں، کیا یہ ہمارے اپنے ہیں۔

میں اس شہر میں پچپن برس سے رہ رہا ہوں اور اب سوچتا ہوں کہ بڑھاپے میں ایک فٹ پاتھ پہ لیٹ کر مروں گا۔ مجھے اس کا غم نہیں، مگر ہمارے بچے اور نوجوان لڑکے جنہوں نے ابھی اپنی زندگی کی شروعات کی ہے کیا وہ اسی طرح سڑکوں پہ زندگی گزاریں گے۔ ہم انتظامیہ سے روز ملنے کی کوشش کر تے ہیں، مگر انتظامیہ کے ذمہ دار ہمیں وقت نہیں دیتے۔ ہم پہ کیے جانے والے ظلم کو وہ انصاف سمجھتے ہیں کہ شہر سے نشے کی کالا بازاری ختم ہو گئی۔ کیا انتظامیہ اس بات کے لیے ذمہ دار نہیں کہ ہمیں پڑھنے اور بڑھنے کے مواقع نہیں ملتے۔ ہمارے بچوں کو ترقی کرنے کا راستہ ہی نظر نہیں آتا۔ہم نشے میں دھت ہیں تو وہ بھی نشے میں دھت ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ہم اپنے غموں کو بھلانے کے لیے نشہ کرتے ہیں اور یہ اپنی خوشیاں منانے کے لیے۔ بھائیوں! یہ ایک بڑا ظلم میں ہمارے ساتھ اور ہم جب تک اس کا احساس انتظامیہ کو نہیں دلاتے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہمارے کچھ نوجوان شہر کی ایک بڑی مذہبی طاقت کے خلاف غصے سے بھرے بیٹھے ہیں۔ میں ان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ جوش میں کوئی غلط قدم نہ اٹھائیں۔ ہم جانتے ہیں کہ نوجوانوں کا غصہ ٹھیک ہے، مگر سوجھ بوجھ سے کام لے کر ہم ایک ہو کر اس انتظامیہ کے فیصلے کے خلاف لڑیں گے۔ جو سیاسی لیڈر ہماری طرف داریاں کرتے ہیں ہم نے ان کے حوصلے دیکھ لیے ہیں۔ اس سے کچھ نہیں ہوگا۔وہ ہمیں مذہبی بنیادوں پہ بانٹتے ہیں اور ہمارے نوجوانوں کو بھڑکاتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا قدم اٹھائیں جس سے ہم اور ذلیل ہو ں اور انہیں چمکنے کا موقع ملے۔ ہم شہر کی سڑکوں پہ زندگی گزار لیں گے، مگر اس شہر کو جس نے ہمیں اتنے برسوں تک اپنے دامن میں محبت سے رکھا کبھی جلائیں گے نہیں۔ یہ کام وردی والوں اور ان کے ملک کے حکمرانوں کا ہے، ہمارا نہیں۔ مجھے امید ہے آپ سب میرا ساتھ دیں گے۔ کل ہم پھر کار خانوں سے آدھے دن میں لوٹ کر انتظامیہ کی عمارت تک جائیں گے۔ ان کے ذمہ داروں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کریں گے کہ ہماری مجبوریوں اور پریشانیوں کو سمجھیں۔”

ادھیڑ عمر شخص کی تقریرجاری رہی اس نے سوچا کہ یہ کس مٹی کہ بنے لوگ ہیں کہ اس حالت میں بھی امن کی بات کر رہے ہیں۔ وہ جانتا تھا کہ اگر یہ دس برس بھی اسی طرح حکومت سے اپیل کرتے رہے تو بھی کچھ نہ ہوگا اور شائد اس کی عمر کے تمام لوگوں کا یہ ہی خیال تھا۔ مگر اس ادھیڑ عمر شخص کی باتوں سے اس کی عمر کے تمام لوگ متفق معلوم ہوتے تھے، کیوں کہ انہیں علم تھا کہ وہ اس وقت کتنے دبے کچلے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر انہوں نے کوئی غلط قدم اٹھا یا تو ممکن ہے کہ انہیں شہر کی سرحد سے ہی باہر پھنکوا دیا جائے۔ جو کام وردی والوں کے لیے نہایت آسان تھا۔

(10)

رات کے تین بج رہے تھے۔ایک گاڑی شہر کے مختلف علاقوں میں سفر کرتی ہوئی انتظامیہ کی سرکاری عمارت کے پاس رکی۔ اس میں سے دو لوگ باہر آئے اورایک جانور کی لاش عمارت کی سیڑھیو ں پہ پھینک کر دوبارہ گاڑی میں سوار ہو گئے۔ گاڑی تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے شہر کی اس شاہراہ پہ آ گئی جہاں سے گاڑیاں شہر کے باہر جاتی تھیں۔ گاڑی کے اندر تین لوگ سوار تھے۔ اپنی اپنی جگہ پہ خاموشی سے بیٹھے ہوئے تینوں سوار باری باری اس طرح ایک دوسرے کو دیکھتے جیسے انہوں نے کسی سے بدلا لے کر اطمینان کا سانس لیا ہو۔ایک جگہ سڑک کے کنارے گاڑی رکی اوردو لوگ اس میں سے اتر گئے، ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا ہوا شخص گاڑی لے کر آگے نکل گیا۔

(11)

پچھلی رات وہ دیر تک جاگتا رہا تھا، مزدوروں کی پریشانیوں کو نزدیک سے جاننے کے بعد اسے یوں بھی دیر رات تک نیند نہ آتی تھی۔ اس نے سوچا کہ آج کار خانے نہ جائے، مگر دن بھر گھر میں پڑے پڑے اکتا جانے کے خیال سے اس نے یہ ارادہ ملتوی کر دیا۔ وہ کارخانے جانے کے لیے تیار ہو کر نیچے اترا تو اسے جگہ جگہ لڑکوں کے گروہ جمع نظر آئے۔وہ کسی بات پہ چہ مگویاں کر رہے تھے۔ اس نے ان کی باتوں پہ کان دھرے بنا چائے خانے کا رخ کیا۔ جہاں آج معمول سے زیادہ لوگ تھے۔ چائے خانے میں مزدور طبقے کے وہ دو چار نوجوان بھی بیٹھے ہوئے تھے جنہیں اس نے اکثر میٹنگوں میں دیکھا تھا۔ وہ خاموشی سےان کی طرف بڑھ گیا۔ ان میں سے ایک لڑکا دوسرے سے کہہ رہا تھا:

“یہ ہم کو کرنا ہوتا تو بہت پہلے کر چکے ہوتے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ ہم میں سے کسی کا بھی کام ہے۔”اس نے جملہ مکمل کر کے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔

“تو ہمارے پاس کو ن سی دولت دھری ہے جو اتنے جانور خرید کے انہیں قربان کرتے پھریں۔”
تیسرا بولا”اور خریدیں گے کہاں سے۔ کیا کہیں بک رہے ہیں۔”
اسے لگا جیسے کوئی حادثہ ہوا ہے۔

“کیا یہ جانور ہمارے لیے مقدس نہیں۔بستی میں ہر طرح کے لوگ رہتے تھے۔یہ بات لیڈر بھی جانتے ہیں۔ وہ تو خود دن رات کہتے رہتے ہیں کہ کوئی غلط قدم نہ اٹھایا جائے۔”

“یہ ساری باتیں ایک طرف، مگر اس کا یقین عوام اور حکومت کیوں کرے گی۔ وہ تو یوں بھی ہمیں شہر سے نکال کر باہر پھینک دینا چاہتے ہیں۔”

“ہو نہ ہو یہ کام وردی والوں کا ہی ہے۔”

وہ اپنا ناشتا اور چائے ختم کر چکا تھا۔ اس نے سوچا کہ اگر شہر پہ کوئی نئی مصیبت آئی تو ان غریبوں کی کمر پھر توڑی جائے گی۔اس نے انہیں باتیں کرتا چھوڑ کار خانے کی راہ لی۔ وہ کار خانے کی گلی میں پہنچا تو اسے سارے مزدور اپنے اپنے کار خانوں سے باہر کھڑے نظر آئے۔ لوگ مجمع لگائے اسی واقعے کا تذکرہ کر رہے تھے۔ وہ بھیڑ میں سے جگہ بناتا ہوا اپنے کار خانے تک پہنچا تو اس کے تمام ساتھی بھی باہر کھڑے دکھائی دیے۔اس نے سوچا ان میں سے تو کوئی بھی ٹیلے والی بستی کا نہیں ہے پھر یہ کیوں باہر ہیں۔ تھوڑی دیر میں ان کا مالک بھی آ گیا۔ وہ دو لڑکوں سے کہہ رہا تھا کہ کار خانے کو تالا لگا دو اور پھر اس نے سارے لڑکوں سے مخاطب ہو کر کہا:”دو روز تک کار خانہ بند رہے گا۔ یہاں کے حالات ٹھیک نہیں کسی بھی وقت وردی والے آ سکتے ہیں۔ بہتر یہ ہی ہے کہ تمام لوگ اپنے اپنے گھر لوٹ جائیں۔” یہ کہہ کر اس نے ایک لڑکے سے تالے کی چابی لی اور وہاں سے رخصت ہو گیا۔

مزدور اب زور زور سے نعرے لگا نے لگے تھے۔ وہ چیخ چیخ کرکہہ رہے تھی کہ اپنے خلاف انتظامیہ کی یہ سازش ہم برداشت نہیں کریں گے۔آج ہم پھر سب مل کر انتظامیہ کی عمارت کی طرف جائیں گے اور وہاں بھوکے، پیاسے بیٹھ کر انہیں اپنی پریشانی کا احساس دلائیں گے۔ اس نے سو چا کہ وہ یہاں رک کر کیا کرے گا۔وہ دن بھر گھر میں بھی پڑا رہنا نہیں چاہتا تھا اس لیے شہر کے وسطی علاقے کی طرف نکل جائے جہاں دریا کے قریب شہر کی انتظامیہ عمارتوں کے پاس اسے صحیح حالات کا علم بھی ہو جا ئے گا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اب تک شہر میں وردی والوں نے اپنے دستوں کو اتنا پھیلا دیا تھا کہ جگہ جگہ روک کر لوگوں کی تلاشی لی جارہی تھی۔ انہیں گھروں میں بند رہنے کی اپیل کی جا رہی تھی اور شہر کے وسطی علاقے میں کرفیو لگ گیا تھا۔ وردی والے مقدس جانوروں کی لاشوں کو ہٹوا چکے تھے، مگر اس کی خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ مقدس جانور کی موت کا غم شہر کے طاقتور گروہ کی برداشت سے باہر تھا۔ انہیں اس بات سے قطعی لینا دینا نہ تھا کہ یہ کسی کی سازش ہے یا بے گھر مزدور کی حرکت۔ وہ تو اس کا ذمہ دار اپنے مذہبی حریفوں کو سمجھتے تھے۔ اس گروہ میں انتظامیہ کے بڑے افسران بھی شامل تھے۔ جن کی پہنچ وردی والوں کے آقاوں تک تھی۔ انہوں نے شہر میں ایک زور دار جلوس نکالنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ وہ اپنی مقدس ماں کی موت کا تماشا نہیں دیکھ سکتے تھے۔

اس نے جوں ہی کار خانے کے علاقے سے شاہراہ کی جانب جانے والی سواری کی اسی وقت وردی والوں کا ایک دستہ اسے کار خانے کی گلیوں کی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا۔ جلد ہی اس دستے نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ وردی والے مائک پر لوگوں کے لیے حکم جاری کر رہے تھے کہ وہ اپنے گھروں کی طرف لوٹ جائیں۔ دو وردی والے جوا س کے قریب تھے انہوں نے اسے روک کر اس کی تلاشی لی اور ڈانٹ کر اسےگھر لوٹنے کا حکم دیا۔ وہ مزدور جن کا کوئی گھر نہ تھا وردی والے انہیں لال چوک پر جمع ہونے کا حکم دے رہے تھے۔ لال چوک کے قریب انتظامیہ نے ایک نیلی پلاسٹک کی چارد جس پر ہزاروں لوگ بیٹھ سکتے تھے بچھوا دی تھی۔ شہر کے حالات بگڑنے سے پہلے بے گھر مزدوروں کو ایک جگہ اکھٹا کیا جا رہا تھا، تاکہ وہ بڑی مذہبی طاقت کے غصے کا شکار نہ ہو جائیں۔ مزدوروں کو لال چوک کی طرف لے جانے لے لیے پورے جنوبی علاقے میں وردی والوں کو تعینات کر دیا گیا تھا۔اس مرتبہ وردی والوں کو یہ تاکید کی گئی تھی کہ کسی مزدور پہ ہاتھ نہ اٹھا ئیں۔ لاٹھی کے استعمال کے بنا انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ یہ قدم ان کی بھلائی کے لیے اٹھایا جا رہا ہے۔

مزدوروں کے گروہ کو وردی والوں نے جب لال چوک کا رخ کرنے حکم سنایا تو کئی نوجوانوں نے اس کی مخالفت کی۔ ان کی خواہش تھی کہ انتظامیہ کی عمارتوں کے درمیان وہ بھوکے پیاسے مظاہرہ کریں خواہ اس میں ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ مگر گروہ کے بعض بزرگ لیڈروں نے ان کی یہ تجویز مانتے ہوئے نوجوانوں کو ان کی بیویوں اور بچوں کی زندگیوں کے خطرے میں ہونے کا احساس دلایا۔ انہیں معلوم تھا کہ جس مقدس جانور کو کاٹ کر شہر کی مختلف عمارتوں کے باہر پھنکا گیا ہے اس سے شہر کی بڑی مذہبی طاقتیں کس درجہ ناراض ہیں۔ ایسے میں وہ مزدور جو خود کو اس کا ذمہ دار نہیں سمجھتے تھے، بلاوجہ شہر کی بڑی طاقت سے ٹکرانا غیر ضروری تصور کر رہے تھے۔ یوں بھی انہیں اگر شہر سے نکال بھی دیا جاتا تب بھی وہ حالت ان کی موت سے بہتر ہوتی۔ انہوں نے سوچا کہ اگر انتظامیہ اور شہر کی بڑی مذہبی طاقتوں کو وہ یہ یقین دلانے میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں کہ اس حرکت میں ان کا ہاتھ نہیں ہے تو فی الحال انہیں وردی والوں کی حفاظت میں ہی رہنا چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *