اس طویل کہانی کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔
(1)
کہانی کی ابتدا ہو چکی تھی۔ سارے کردار ایک دوسرے میں گندھے ہوئے زور زور سے چیخ رہے تھے، ایسا لگتا تھا کہ سب کو اپنے ہونے کا احساس دلانا ہے، کبھی گاڑی کے گزرنے کی آواز پس منظر سے ابھرتی تو کبھی ہوا میں جہازوں کے تیرنے کا شور سنا ئی دیتا۔ اچانک انسانی آوازوں کے درمیان سے گولی چلنے کی صدا بلند ہوئی۔ منظر میں لوگ تتر بتر ہونے لگے۔ جن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں وہ زیادہ تیز ی سےدوڑ رہے تھے۔ شائد سبھی کوخود کوچھپنانے کے لیے ایک محفوظ مقام کی تلاش تھی۔ پھر اچانک دوبارہ گولی چلی اور چیخ و پکار اور تیز ہو گئی۔ اب آوازوں کا شور اتنا بڑھ گیا تھا کہ کان پڑے آواز نہیں ٹھہرتی تھی،اس بھگدڑ میں ٹین کے پتروں،لکڑی کے دروازوں، مرغیوں کی چیخوں اور کووں کی کائیں کائیں کہاں سے شامل ہو رہی تھی اس پہ غور کرنا مشکل تھا۔ بہت سے لوگوں نے اب خود کو پھوس کے ڈھیروں، مٹی کے تودوں، آدھی ٹوٹی ہوئی دیواروں، بیل گاڑی کے زنگ آلود چکروں کے پیچھے چھپا لیا تھا،پھر بھی وہ چیخے جا رہے تھے۔ گولی جب تیسری مرتبہ چلی تو لوگوں کی آواز اچانک رک گئی اور ہوا میں کسی کے پر پھڑ پھڑانے کی آواز تیز ہو نے لگی۔ کووں یا بازوں یا گدھوں کے پر یا کچھ ان سے بھی بڑے یعنی مور اور شتر مرغ کے پروں کی۔ اب منظر بھی بدل چکا تھا،لوگوں کی جگہ پرندوں سے بھرے آسمان نے لے لی تھی۔ یہ آوازیں انسانوں کی آواز سے زیادہ اکتا دینے اور ڈرانے والی تھی۔ پھر پرندے گرنے لگے اور ان کی آوازوں کے شور میں ایسی دھبدھباہٹ بڑھی کے اسے چونک کر چاروں طرف دیکھنا پڑا۔زمیں سمتل تھی، ہوامعتدل۔سورج کی تپش نے ہر شئے کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ دور دور تک نہ کوئی انسان تھا، نہ پرندہ۔ آسمان بالکل صاف تھا مگر پرندوں کے گرنے کی دھبددھباہٹ اب تک جارہی تھی۔ لمحے بھر کے لیے اس کا شور کچھ کم ہوا اور پھر بڑھتا چلا گیا۔ اس نے لاکھ چاہا کہ یہ آوازیں بند ہو جائیں مگر وہ جانتا تھا کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی ایک منظر ابھرا اس منظر میں کچھ چہرے نمایاں ہوئے۔ کچھ دلکش تصویریں جن کی کشش نے اسے محو کر دیا۔ جیسے یہ منظر اور تصویریں ایک جال ہوں جو اسے آہستہ آہستہ اپنے پھندے میں پھانس رہی ہوں۔ پھر وہ ان میں کھوتا چلا گیا۔”نا عاقبت اندیش۔”
کسی نے گالی دی تو اسے لطف ملا، کسی نے منہ چڑایا تووہ مسکرا دیا اور پھر اسی طرح کبھی زمین پر الٹی رکابی کےرگڑنے کی آواز، کبھی شادیانوں کے بجنے کی صدا۔ کبھی بارش کی بوندوں کا شور اور کبھی بجلی کے تاروں میں دوڑتے ہوئے کرنٹ کا نغمہ۔ اس پر ایک رعشہ سا طاری ہو جاتا۔ وہ ان آوازوں سے اتنا خوف زدہ تھا کہ اب کسی بھی نئی آواز کو اپنے تجربے میں شامل کرنے سے بچنا چاہتا تھا۔ اس کے کانوں میں پڑنے والی ہر چھوٹی بڑی آواز اس کے لیے صدائے صور ثابت ہوتی تھی۔ اسے بچپن کی حکایت یاد آتی جو صور کے متعلق اس نے اپنے پڑوسیوں سے سنی تھی۔ وہ چاہتا کہ ہر طرف سے کان موڑ کر بیٹھ جائے۔ مگر پھر اچانک سب خود ہی ٹھیک ہو جاتا۔ ایسا کسی بھی وقت ہو سکتا تھا۔ کسی طے شدہ لمحے میں وہ آوازیں نہیں آتی تھی۔ بس وہ اٹھتیں، بڑھتیں اس کے خوف کو بڑھاتیں اس کی دل کی دھڑکنوں کو تیز کرتیں۔پھر اسے نڈھال کرتی ہوئی خود ہی ختم ہونے لگیں۔ وہ چاہے دیواروں سے سر مارے چاہے ان آوازوں کے پیداہونے اور بڑھتے چلے جانے پر غور کر ے، دونوں حالتوں میں اس کا انجام نڈھال ہوتابدن اور تھکادینے والا احساس ہی ہوتا۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ وہ اب ان آوازوں کا عادی ہو جائے، مگر ایسا ہر گز نہ ہوااور اس کی وجہ ہر بار آوازوں میں پیدا ہونے والی تبدیلی ثابت ہوئی۔ اس مرتبہ جب اسے ہوش آیاتو اس نے سوچا کہ نہ جانے اگلی مرتبہ کون سا شور اس کے گلے پر چھری پھیرے گا۔
(2)
حفاظتی دستے شہر کے چاروں جانب پھیلے ہوئے تھے، ہر شئے اور ہر انسان کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے کے لیے انہیں حکومت ایک موٹی تنخواہ دیتی تھی۔ انہیں یہ حق حاصل تھا کہ وہ کسی بھی شخص کو روک کر اس کے کپڑے اتروائیں اس کے بدن کے سوراخوں کی جانچ کریں،جس کے لیے حکومت نے انہیں تربیت دی تھی، کچھ پائیں تو وہیں گولی مار دیں۔ شہر میں چتکبری وردی پہنے، چوڑے کندھوں والے بندوق لٹکائے سفاک چہروں کا زور اتنا بڑھ گیا تھا کہ اس کی آبادی متاثر ہونے لگی تھی۔ کہیں کوئی سیدھے منہ بات کرنے والا نوجوان وردی پوش کسی شہری سے ٹکرا جاتا تو شہر کے چند لوگوں پر ظاہرہوتا کہ یہ عہد ہی دہشت گردی کا ہے۔ ہر طرف ایک خوف ہے کہ لوگوں کو ایک ساتھ راکھ کا ڈھیر بنا دینے والی جماعتیں اپنے منصوبوں کو انجام تک پہنچانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ ان دنوں شہر میں کئی حادثے بھی ہوئے تھے، مگر شہر والوں کو ایسا لگتا تھا کہ آگ کی لپٹوں میں ایک ساتھ بھسم ہو جانے والے لوگ ان سے زیادہ خوش نصیب تھے۔ انہیں جن نگاہوں کا سامنا کرنا تھا وہ ان کی روح میں ارتعاش پیدا کر دیتی تھیں۔ ہر شہری کو ایسا محسوس ہوتا کہ شائد وہ ہی اس دہشت گردی کے ماحول کو پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ وردی والے شہر کی گلیوں میں چکر لگاتے ہوئے کسی کے بھی گھر میں داخل ہو جاتے۔ ان گھروں کی بنا کسی کاغذ پتر دکھا ئے تلاشی لیتے اور اسی تلاشی کے دوران اپنے اندر چھپی حکومت کے خلاف نفرت کو گھر کے مکینوں پر انڈیل دیتے۔ اس آگ سے وہ ایک بار میں جل کر بھسم تو نہیں ہوتے تھے، مگر ان کے ہاتھ، پاوں ضرور جھلس جاتے۔ کسی بھی گھر میں برتنوں کے بجنے کی آواز بھی وردی والوں کو اس گھر میں داخل ہونے کا پرمٹ عطا کر دیتی تھی۔
آخری مرتبہ پچھلے مہینے ایک دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا جس نے شہر کی تین عمارتوں کو مٹی کے ڈھیر میں بدل دیا تھا۔ شہر کے حفاظتی دستوں کو اس حادثے کی خبر اس وقت ملی جب دھواں آسمان میں تحلیل ہونے لگا۔ شہر کی خوبصورتی کی ذمہ داری اب ہاتھوں میں بندوق تھامے جمالیاتی حس سے نابلد انسانوں کے ہاتھوں میں تھی۔ وہ مجبور تھے، انہیں حکومت کا سونپا ہوا فرض پورا کرنا تھا اور حکومت کو عالمی منڈی میں اپنے جلتے ہوئے شہر کی جھولی پھیلا کر سرمایہ داروں سے رقم وصول کرنا تھی۔ اس لیے کبھی شہر بد نیتوں کی کار گزاریوں سے جلتا اور کبھی ہمدردوں کے بھوکے پیٹوں میں لگی ہوئی آگ سے۔یہ روز کا قصہ تھا۔ صبح سے شام تک شہر چھاونی بنا رہتا۔ اوپر سے لی ہوئی تصویروں میں یہ انجان وردی والے شہر کی حفاظت کرتے ہوئے معلوم ہوتے۔ مگر اس کے درمیان میں پلنے والے آٹھ، دس برس کے بچے انہیں دبے منہ گالیاں دیتے جو انہوں نے اپنے خاموش کمروں میں آدھی رات کو اپنے بڑوں کے منہ سے سنی تھیں۔
یہ زمانہ 9\11کے بعد کا تھا۔ وہ بھی اسی شہر میں رہتا تھا۔ شہر کے مغربی کونے میں جہاں تک خوش حالی کا سورج سب سے آخر میں پہنچتا تھا۔ شہر کا یہ حصہ بقیہ شہر سے مختلف تھا۔ یہاں خوبصورت عمارتیں کم نظر آتی تھیں۔ مگر چکنے اور چوڑے راستوں کی بھر مار تھی۔ جگہ جگہ مٹی کی کھچی چار دیواریوں پر کچی انیٹوں کی کھپریلیں پڑی تھیں۔ضرورت کی اشیا کے نیم تاریک کارخانے تھے۔ گھنی آبادی کے درمیان سلائی مشینوں کا بازار تھا اور کارچوبی کے اڈے جگہ جگہ لگے ہوئے تھے۔ شہر کا سب سے زیادہ تمباکو یہیں کھایا، چبایا اور اڑیاجاتا تھا۔ مختلف قسم کی نشہ آور چیزیں پان کے کھوکھوں اور پرچون کی دکانوں پر بکتی تھیں۔ جو زیادہ نظر میں آنے والی اشیا تھیں ان کا بازار ریت کے ٹیلے کی جانب تھا جہاں کا دریا اب بدبو دار نالا بن چکا تھا جس میں کوڑے کی مقدار اتنی بڑھ گئی تھی کہ دریا کی زمین کالی اور دلدلی ہوچکی تھی۔ اس دریا کے اطرف کی زمین جہاں بنجر کھیت نما مربعےابھرے ہوئے تھے ان میں نشے کا قیمتی کاروبار ہوتا تھا۔ اس کا گھر اس دریا سے تین کوس شمال کی جانب تھا۔ وہ بھی کبھی کبھی شہر کے وردی والوں سے اکتا کر ادھر چلا آتا جہاں کی دنیا اسے ملبے میں دبے سامان کی مانند لگتی تھی۔ جس پر اتنی گرد جم گئی تھی کہ اسے چھونے کا خیال بھی صاف اور دھلی ہوئی وردیوں میں ملبوس سپاہیوں کو نہیں آتا تھا۔ وہ یہاں اکثر ایک کونے میں بیٹھے دس، بارہ برس کے بچوں کو دیکھتا جو مہنگے نشے کا لطف لینے سے محروم دروازوں پہ کی جانے والی پالش کے رنگوں کو مٹھی بھر کپڑوں میں بھگو کر سونگھتے تھے۔جس سے انہیں ویسا ہی نشہ ملتا جیسا افیم اور چرس کے نشے میں ڈوبے جوان امیر زادوں کوحاصل ہوتا۔ انہیں میں کچھ کچرے کے ڈبوں میں پڑی ہوئی خالی وکس اور آیو ڈیکس کی شیشیوں کو جمع کر کے ان کو سونگھتے دکھائی دیتے اور کچھ کھانسی کے ایکسپائر سیرپوں سے اپنے نشے کی طلب کو بجھاتے ہوئے۔ وہ کبھی کبھی اسی بنجر زمین کے ٹکڑے پر بیٹھ کر ایک آدھا سگریٹ پیتا یا وہ دستیاب نہ ہوتی تو دو تین بیڑیاں پی کر شہر کےاس چوڑے راستے پر اپنی نظریں جما دیتا جہاں سے بڑی بڑی گاڑیاں ان بستیوں کو منہ چڑھاتے ہوئے تیزی سے گزر جاتیں۔
اسے بعض مرتبہ پورا شہر ایک بڑے کوڑے دان کی مانند لگتا تھا۔ جہاں گندگی اور غلاظت کا دھیر ہے اور طرح طرح کی بد بوئیں اٹھ رہی ہیں۔ وہ جانتا تھا کہ شہر اصل میں ویسا نہیں ہے جیسا اس کے جنوبی علاقے کے بعض حصے ہیں، مگر اس کے باوجودوہ اپنے اس خیال سے فرار حاصل نہیں کرپاتا تھا۔بس وہ یہ سوچ کر خوش ہو جاتا تھا کہ اس کا جواز اسے انسانوں کے اندر پلنےوالے خوف اور ڈر کی شکل میں بھی مل جاتا ہے۔ یہ شہر جہاں عالی شان کوٹھیاں بھی تھی اور فلک بوس عمارتیں بھی، صاف اور شفاف جھیلیں بھی تھیں اور خو ش فضا پہاڑی علاقے بھی وہ اسے اپنی طرح بنا نے کے لیے قدر مشترک کے طور پر ڈر کا استعمال کرتا۔ اسے معلوم تھا کہ گزشتہ برس اس ملک کی ایمبسی میں جس کا بہت سا قرض اس شہر پہ چڑھا ہوا تھا ایک دھماکے کے بعد یہ شہر خوف کی چپیٹ میں آ گیا تھا۔ عمدہ قالینوں اور صاف ستھر ےخوشبو دار کمروں میں رہنے والے نرم و نازک لوگ اب عام وردی والوں سے ویسے ہی ڈرتے تھے جیسے اس کے علاقے والے ان دکان داروں سے خوف کھاتے تھے جہاں سے ان کے گھروں میں ادھار اناج آتا تھا،وہ دکان دار اپنی موٹی توند لیے ہڈیوں سے بھری ہوئی شکلوں والے جوان، بوڑھے اور ادھیڑ عمر کے لوگوں کو موٹی گالیاں دیتے، ان سے اپنے قرض کی وصولیابی کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے اور پھر اگلا ادھار دیتے تاکہ ان کی حکومت قائم رہے۔ تھیلی بھر اناج اور ایک بوتل تیل کی بدبو میں لپٹے ہوئے اپنے اطراف کے لوگ اسے ان سیٹھوں کی طرح لگتے جن کا چہرہ بندوق کی نالیوں کو دیکھ کر پیلا پڑجاتا تھا۔ وہ امیر زادے اپنی گاڑیوں سے شہر کی صاف سڑکوں سے یوں گزرتے جیسے انہوں نے گاڑیاں خرید کر غلطی کی ہو۔ وردی والے انہیں کہیں بھی روک سکتے تھے۔
شہر کی حالت اب اپنے ماضی سے بالکل مختلف تھی، اس نے سوچا کہ یہ جنوبی علاقہ جس کے متعلق اس کے پڑوسیوں نے اسے بتایا تھا کہ کبھی یہ شہر کا دل ہوا کرتا تھا، مگر اب یہاں کچرے کا راج ہے اور وہ علاقہ جہاں تم اب لمبی اور چکنی عمارتیں دیکھتے ہو کبھی خاک کا ڈھیر تھا۔ وہ سوچتا کہ ایسا ہی ہوگا۔ کیوں کہ اس نے اکثر شہر میں داخل ہوتے ہوئے صاف ستھرے علاقوں کی سر حد پہ بھر بھرے لال مٹی کے میدان دیکھے تھے۔ اسے لگتا کہ یہ مٹی نئے شہر نے پرانے شہر کے گلی کوچوں سے چرائی ہے۔ وہ اسی مٹی سے نیا شہر تعمیر کر رہے ہیں اور جتنا شہراسے بد نما نظر آتا ہے وہ اس مٹی سے محروم ہونے کی وجہ سے ہی بد نما ہوا ہے۔ اس نے سوچا کہ اسی لیے ہم شہر کے جنوب میں آباد ہیں کیوں کہ شہر والوں نے انہیں نیچے کی طرف دھکیل دیا ہے جہاں مٹی نکلنے کی وجہ سے گڑھا بن گیا تھا۔ اسے اپنا علاقہ گڑھا نما لگتا اور پھر وہ جس سواری سے شہر میں داخل ہو رہا ہوتا وہ اچانک اسے نیچے کی طرف گرتی ہوئی معلوم ہونے لگتی۔ وردی والوں کے آنے سے پہلے اور بہت پہلے اس جنوبی علاقے میں ایک نہر تھی جس میں شفاف پانی بہتا تھا۔ پرانی طرز کی رنگین عمارتیں تھیں۔ چھوٹی گلیاں ایسے شہر کو سجائے ہوئے تھیں جیسے کسی مصور نے اپنے کینوس پر درخت کی پتلی شاخیں بنائی ہوں۔ گلیوں کے تنگ ہونے کا جواز یہ تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے قریب رہنا چاہتے تھے۔ ان میں محبت تھی وہ صبح کے ناشتے سے رات کے کھانے تک کھڑکیوں سے منہ نکال کر ایک دوسرے سے باتیں کیا کرتے۔ رنگوں اور خوشیوں کے تہواروں میں گھر سے لگی کھڑکیوں سے ایک دوسرے کے گھروں میں داخل ہوتے۔ کسی کے گھر میں شادی بیاہ ہوتی تو پورا علاقہ اس گھر کو اپنی بانہوں میں لے لیتا۔ باہر مسجدیں تھیں، مندر تھے گرودوارے تھےاور بھی مختلف قسم کے عبادت گھر جو قطار اندر قطار آبادتھے۔ فقیرو ں کی ٹولیاں ان عبادت گھروں کے باہر جمع رہتی تھی، مگر لوگ انہیں حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے، بلکہ انہیں عبادت گھروں کا محافظ تصور کیا جاتا تھا۔ بازار اور چوراہوں پر قندیلیں اتنے سلیقے سے لٹکی ہوئی تھیں کہ پورا شہر رات میں نگار خانہ معلوم ہوتا تھا۔ لڑنے کے مواقع اور موضوعات کم تھے۔ جن کا پیشہ سپاہ گری تھا وہ بھی عوام کے گلوں میں ہاتھ ڈال کر گھومتے تھے۔
مگر اب شہر کا منظر تبدیل ہو چکا تھا لوگ کہتے تھے کہ نیا زمانہ آ گیا ہے۔ اسے اپنے بدبو دار علاقے میں نیا زمانہ کہیں نظر نہیں آتا تھا۔ نیا زمانہ ہی اس کے کانوں میں شور گھولتا تھا اس نئے زمانے کی ہیبت سے اس کا دل گھبرانے لگتا اور وہ اسی ٹیلے پر چلا جاتا جہاں سے صاف شفاف سڑک اور اس پر دوڑتی ہوئی رنگ برنگی کاریں نظر آتیں۔ وہ جب شاہراہ کے اس منظر کا لطف لے رہا ہوتا تو آسمان اسے پس منظر میں رقص کرتا نظر آتا جیسے سب کچھ ٹھیک ہے، ہر طرف امن ہے اور وردی والے یہاں سے کوسوں دور دور تک کہیں نہیں ہیں۔
(3)
آج صبح جب آنکھ کھلی تو اس کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا، اس نے خواب میں پھر ایک نئی قسم کی آوازوں کا شور سنا تھا، چمنی کے ٹوٹنے کی آوازیں۔ ان آوازوں نے اس کے کان میں ایسی قیامت برپا کی کہ اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے اپنے ماتھے پہ ابھرا ہوا پسینہ پوچھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ آواز اس کے تجربے کا حصہ کیسے بنی تھی۔ ابھی دو روز پہلے اس نے ایک چمنی کے کار خانے میں نوکری حاصل کی تھی جہاں چمنی بننے کے علاوہ کانچ کی مختلف چیزیں بنتی تھیں۔ یہ کا ر خانہ اس کے گھر سے اتنی ہی دور تھا جتنا وہ ٹیلا جہاں نشے کی دکانیں آباد تھیں۔ بس فرق یہ تھا کہ یہ ایک گھنے اور کاروباری علاقے میں تھا، جہاں شراب کی بوتلیں، کاغذ کے رنگین صفحے، پلاسٹک کے برتن اور لوہے کے اوزار بنتے تھے۔ اس نے یہ نوکری خود حاصل کی تھی۔ دو، چار روز قبل وہ اپنے گھر سے ٹہلتا ہوا ادھر آ نکلا تھا اور مختلف کارخانوں میں پوچھ تاچھ کرتے ہوئے اس کارخانے تک رسائی حاصل کر لی تھی جہاں سینٹ کی بوتلوں کو چمنی سے کھینچ کر نکالنے کے لیے ایک آدمی کی ضرورت تھی۔ جب چمنی کے مالک نے اسے کام کی نوعیت بتائی تو وہ نوٹ گن رہا تھا۔ اس نے کام بتایا، ایک لڑکے کو آواز دے کر اسے چمنی دکھوائی اور نوٹوں پر نظر یں جمائے ہوئے پوچھا کہ اس کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نے جھٹ سے اثبات میں سر ہلا دیا یہ جانے بنا کہ چمنی سے بوتلیں نکالنے اور انہیں لوہے کی کھپچیوں سے کھینچ کر گتے کے ڈبوں میں بند کرنے میں اسے کتنی مشقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس کے عوض میں اسے ساٹھ روپیہ دن کا ملے گا۔ اس کی نگاہ چمنی کے مالک کے ہاتھوں میں پھنسے نوٹوں اور اپنے ساٹھ روپیوں پر تھی۔ یہ سوچنا بھی اس کے لیے غیر ضروری تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ وہ کئی طرح کے ایسی ہی کام اس سے پہلے بھی کر چکا تھا لہذا اس کے لیے یہ کوئی بڑا مشکل مرحلہ نہ تھا۔
دوسرے روز سے اس نے کار خانے جانا شروع کر دیا تھا۔ دن بھر وہ کئی سو ڈگری سیلسیس گرم بھٹی کے منہ پر کھڑا رہتا ایک لوہے کے لمبے سریے سے جس کے منہ پر کسی مضبوط دھات کا کنڈہ جڑا ہوا تھا ان ریکوں کو باہر کھینچتا جن میں کانچ کی پکی ہوئی سینٹ کی بوتلیں لوہے کی کھپچیوں میں پھنسی ہوئی ہوتیں۔ ایک موٹے کپڑے کا جس کے منہ پر چمڑے نما تھیلی کا تلا بنا ہوا تھا دستانہ پہن کر اس ریک سے بوتلوں کو کھینچ کر دفتیوں کے ڈبوں میں ڈالتا اور انہیں بند کر کے آگے سرکا دیتا۔ صبح سے دو پہر اور دو پہر کے کھانے کے بعدسے شام تک وہ اسی کام میں جٹا رہتا تو شام کو چھے بجے اس چمنی کا مالک اس کی ہتھیلی پر ساٹھ روپیہ رکھتا۔ وہ ساٹھ روپیہ اسے اپنی اوقات سے زیادہ معلوم ہوتے۔ جب وہ مالک سے پیسے وصول کرتا تو اسے لگتا کہ چمنی کا مالک کتنا احمق ہے کہ اتنے ہلکے کام کے اسے ساٹھ روپیے روز دیتا ہے جب کہ یہ کام وہ اس سے آدھی رقم میں بھی کر سکتا ہے۔ چمنی کا مالک اسے روز پیسے دیتے وقت یہ پوچھنا نہیں بھولتا تھا کہ کل وہ کس وقت آئے گا۔ اسے یوں لگتا جیسے وہ ہر مرتبہ پوچھ کر یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ کل سے وہ کام پر آئے گا بھی یا نہیں۔ وہ دوسرے دن آنے کا وقت بتاتا اور مالک اگلے لڑکے کی طرف متوجہ ہو جاتا۔
(جاری ہے)
Leave a Reply