قانون کے رکھوالوں کا سیاسی انتقام لینے کے لیے عوام کو ہراساں کرنے کا یہ سلسلہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہاں تو گاوں گاوں، قریہ قریہ پولیس کا سپاہی خود کو محلے کا حکمران سمجھتا ہے۔
کرنل مرزا حسن خان کی سربراہی میں ان سکاوٹس اور مقامی مزاحمت کاروں نے ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا اور یکم نومبر 1947 کو بونجی چھاونی پر حملہ کر کے ڈوگروں کو گلگت سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
تقسیم گلگت بلتستان کسی بھی طرح نہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی یہاں کے سیاسی مسائل کا درست آئینی حل۔ ایسے ہی غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے پاکستان ماضی میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے بیج بو چکا ہے، کیا اب مقامی آبادی کو بھی بلوچوں کی طرح مسلح مزاحمت کے ذریعے اپنی بات وفاق تک پہنچانا ہو گی؟
اقوام متحدہ نے قرار داد منظور کی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک پاکستان گلگت اور مظفر آباد میں خود مختار حکومت قائم کرے اور انتظامی معاملات مقامی حکومت کے حوالے کرے لیکن اس قرارداد پر پوری طرح عمل نہیں ہوسکا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق سینیٹر رحمان ملک نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اقتصادی راہداری کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور یہاں کے عوام میں بڑھتی ہوئی احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے وٖفاق کو چاہئے کہ ریفرنڈم کے ذریعے گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کرنے کی کوشش کرے۔
اپریل کے مہینے میں جب وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے گلگت دورے کا عندیہ دیا تو مقامی ذرائع ابلاغ اور مسلم لیگ نواز کے ذمہ داروں نے اُن کی آمد سے پہلے ہی یہ افواہ پھیلانا شروع کردی کہ وزیراعظم اپنے دورے میں گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے اہم اعلان کریں گے۔
وفاقی حکومت ایک بار پھر گھر والوں سے پوچھے بغیر گھر کے نیچے سے کوہل بنانے (ندی) بنانےجارہی ہے، کہا جارہا ہے کہ اس کوہل کی تعمیر کے نتیجے میں ملک کے"آئینی صوبے" سیراب ہوں گے مگراس کی تعمیر سے گلگت بلتستان کی معاشی اور اقتصادی ترقی پر کیامنفی یا مثبت اثر پڑے گا اس حوالے سے کوئی بحث نہیں کی گئی۔