Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

وفاق سے ایک مطالبہ

test-ghori

test-ghori

17 نومبر, 2015
جیو ٹی وی کے پروگرام جرگہ میں مولانا فضل الرحمان نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر تنازعہ کا حصہ ہے اور کشمیر کو متنازعہ علاقہ قراردینا پاکستان کا اصولی موقف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان نے کشمیر پر اپنا تسلط قائم کیا ہے جس کی وجہ سےپاکستان نہ آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ پیچھے ہٹ سکتا ہے کیوں کہ ایسا کرنا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق انڈیا اور پاکستان کسی بھی متنازعہ خطے کو اپنا آئینی حصہ نہیں بناسکتے۔ حق خودارادیت کشمیر اور اس تنازعہ کے شکار لوگوں کا حق ہے جس کی بنیاد پر ہی یہ فیصلہ ہو سکتا ہے کہ وہ کس ملک کا ساتھ دیتے ہیں۔ جغرافیائی مطابقت اور سماجی عوامل کی بناء پر ہمیں اطمینان ہے کہ جب بھی حق خودارادیت استعمال ہوگا تو کشمیر کے لوگ مملکت پاکستان کے حق میں فیصلہ دیں گے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی بھی ملک متنازعہ علاقے کو اپنا آئینی صوبہ نہیں بناسکتا اور اسی وجہ سے پاکستان نے اپنے اصولی موقف کی بنیاد پر کشمیر کو آزاد حکومت اور گلگت بلتستان کو صوبے کی حیثیت دی ہے صوبہ ‘ہونے’ اور ‘حیثیت دینے’ میں بڑافرق ہے۔

مولانا ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور کشمیر کمیٹی کی سربراہی بھی کرتے رہے ہیں۔ ان کے اس بیان کے جواب میں بس اتنا ہی عرض کرنا چاہوں گا کہ شاید گلگت بلتستان کی تاریخی حیثیت کے حوالے سے ان کا علم محدود ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی سیاست میں مولانا کی جماعت کا سیاسی وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ تو علامہ راجہ ناصر جعفری اور علامہ ساجد نقوی صاحب کا آپ پر احسان ہے کہ اُن کے درمیان اختلافات کی وجہ سے آپ کی جماعت کو قانون ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی نشست مل گئی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ گلگت بلتستان کی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کریں۔ یکم نومبر گلگت بلتستان کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے اور گلگت بلتستان کے عوام نے ہر برس کی طرح اس مرتبہ بھی اپنا یوم آزادی منایا ہے جو مولانا کے اس بیان کا موثر ترین جواب ہے۔

اقوام متحدہ نے قرار داد منظور کی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک پاکستان گلگت اور مظفر آباد میں خود مختار حکومت قائم کرے اور انتظامی معاملات مقامی حکومت کے حوالے کرے لیکن اس قرارداد پر پوری طرح عمل نہیں ہوسکا۔
مولانا کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اپنی آزادی کی جنگ گلگت بلتستان کے مقامی لوگوں نے بغیر کسی غیر ریاستی امداد کے جیتی تھی لیکن آزاد کشمیر ‘فتح’ کرنے کے لیے مقامی کشمیریوں کی بجائے پاکستان کے قبائلی علاقوں کے لشکر بھیجے گئےتھے۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ اُس جنگ کے بعد فاتح گلگت کرنل مرزا حسن خان نے ایک عبوری کابینہ تشکیل دی تھی تاکہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے آئندہ لائحہ عمل طے کیا جا سکے ۔ مولانا اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں تو انہیں بھی شائد معلوم ہوجائے کہ اُس وقت چونکہ کئی علاقے ایسے تھے جہاں ‘باغی’ فوج نے رِٹ قائم کرنا تھی یہی وجہ تھی کہ کرنل حسن خان نے انتظامی معاملات عبوری کابینہ کے سپرد کرتے ہوئے اگلے محاذ پر فوج کی کمان سنبھال لی۔ بدقسمتی سے اُس وقت گلگت میں مقیم برطانوی میجر براون جو کرنل حسن خان سے ذاتی اختلافات رکھتے تھے، نے اپنے حواریوں سے مل کر آزادریاست گلگت بلتستان کے مستقبل کا سودا کیا۔ گلگت کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے ایک بیوروکریٹ سردار ابراہیم تشریف لائے اور انہوں نے آتے ہی ریاستی ذمہ داران سے صلاح مشورہ کیے بغیرایف سی آر نافذ کردیا۔ ان صاحب نے تحریری معاہدے کے بغیر ریاست کا نظم و نسق سنبھال لیا اور بعد میں اس عارضی بندوبست کو الحاق کا نام دے دیا۔

معاہدہ کراچی میں گلگت بلتستان کا آئینی مستقبل مقامی عوام کی بجائے وفاق کے ہاتھ میں دے دیا گیا اور عوام سے رائے لیے بغیر اس معاہدے کے ذریعے ریاست کے باشندوں کو پاکستان کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔ اس تمام صورت حال کو دیکھ کر بھارت نے جب قوام متحدہ سے رجوع کیا تو اقوام متحدہ نے قرار داد منظور کی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک پاکستان گلگت اور مظفر آباد میں خود مختار حکومت قائم کرے اور انتظامی معاملات مقامی حکومت کے حوالے کرے لیکن اس قرارداد پر پوری طرح عمل نہیں ہوسکا۔ پاکستان گلگت بلتستان کے معاملے میں دوہرا موقف رکھتا ہے، اپنے مفادات کی خاطر اس علاقے کی اپنی مرضی کی آئینی حیثیت مقرر کرتا ہے۔ آگے چل کر گلگت بلتستان سے سٹیٹ سبجیکٹ رول بھی ختم کر دیا گیا۔ اسی طرح ضیاء الحق کے دور میں آزاد کشمیر کے برعکس یہاں مارشل لاء نافذ کیا گیا لیکن اُس وقت کسی نے گلگت بلتستان کو متازعہ کشمیر کا حصہ قرار نہیں دیا۔ آج پاکستان نہ تو گلگت بلتستان کو خودمختار علاقہ قرار دیتا ہے اور نہ ہی یہاں کے بیس لاکھ عوام کے اندر بڑھتے ہوئے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ آخر آپ کا ایجنڈا کیا ہے؟

ہم وفاق پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل تک اس خطے کو یکم نومبر 1947کی خود مختار حیثیت پر بحال کر دے اور یہاں کے عوام کو مکمل داخلی خود مختاری دے
گلگت بلتستان کے عوام سیاسی شناخت کے بغیر اپنا وجود نامکمل سمجھتے ہیں۔ گلگت بلتستان آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں اور اسے آئینی بندوبست کا حصہ بنانے میں اقوام متحدہ کی قراداد اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف حائل ہیں۔ لیکن یہاں کے عوام کے مسائل حل کرنے، اوران کا احساس محرومی ختم کرنے میں ایسی کوئی روکاوٹ نہیں۔ یہاں کے عوام کا احساس محرومی ختم کرنے کے لیے گلگت بلتستان کی تاریخی، قانونی حیثیت اور انقلابِ گلگت بلتستان کی حقیقت اور اُس وقت کے غلط فیصلوں کو سامنے رکھتے ہوئے مثبت فیصلے کرنے ہوں گے۔ جغرافیائی اور سماجی رشتوں کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تواس خطے کو پاکستان سے الگ کرنا گلگت بلتستان اور پاکستان دونوں کے مفاد میں نہیں، لیکن افسوس پاکستانی ریاست اور مولانا فضل ارحمان یہاں کے لوگوں پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ مولانا ایک صاحب بصیرت اور دور اندیش سیاست دان کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر خاصا غیر دانشمندانہ ہے۔ یہاں کے عوام آپ سے توقع رکھتے تھے کہ آپ وفاق سے گلگت بلتستان کے عوام کا احساس محرومی ختم کرنے کا مطالبہ کریں گے، ہمیں امید تھی کہ آپ گلگت بلتستان کو مکمل سیاسی شناخت کی ضمانت فراہم کریں گے لیکن آپ کا حالیہ انٹرویو مایوس کن ہے۔ ہم وفاق پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل تک اس خطے کو یکم نومبر 1947 کی خود مختار حیثیت پر بحال کر دے اور یہاں کے عوام کو مکمل داخلی خود مختاری دے کر یہاں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی یقینی بنائیں۔ اب یہ ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کے تمام تجارتی راستے کھول دیئے جائیں خاص طور پر سکردو کارگل روڈ کو آمدورفت کے لیے کھول کر منقسم خاندانوں کو ایک دوسرے ملنے کی اجازت دی جائے۔