Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

تھری جی ،فور جی اور ایس سی او

test-ghori

test-ghori

22 ستمبر, 2015
عصر حاضر میں انٹرنیٹ ایک بنیادی ضرورت اورانسانی زندگی کا ایک اہم جزو بن چکا ہے۔ پہلے رابطے کے لیے خط لکھے جاتے تھے مگر زمانے کی ترقی کے باعث قلم کی جگہ کی بورڈ، کتاب کی جگہ ای بُک اورخط کی جگہ ای میل نے لے لی ہے۔ انہی ضروریات کے پیش نظر گزشتہ سال پاکستان میں بھی تھری جی اورفور جی ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی۔ یوں تو ترقی یافتہ ممالک اس ٹیکنالوجی سے بھی آگے نکل کرفور جی ایڈوانس تک پہنچ چکے ہیں لیکن ریاست گلگت بلتستان کو ہمیشہ کی طرح کے اس سہولت سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ ارباب اختیار کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا جانا ضروری ہے کیوں کہ جس طرح ملک کے دوسرے شہروں میں رہنے والےموبائل انٹرنیٹ کی سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں بالکل اسی طرح سرزمین ِبے آئین کے عوام کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ جدید دنیا سے منسلک ہوں۔
گلگت بلتستان میں ٹیلی کام نظام ابھی تک بیسویں صدی کے اواخر کے ذرائع مواصلات تک محدود ہے۔ متنازعہ حیثیت کی وجہ سے اس خطے میں ٹیلی کام سیکٹر براہ راست پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے دائرہ کار میں نہیں آتا یہی وجہ ہے کہ ٹیلی کام کے شعبے میں پاکستان میں ہونے والی ترقی کے اثرات اس خطے کے عوام تک نہیں پہنچ پائے۔ اس خطے میں ٹیلی کام کا ادارہ افواج پاکستان کے ماتحت ہے جسے اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کہا جاتا ہے یہ ادارہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی سطح پر عسکری مواصلاتی ضروریات پورا کرنے کیلئے 1976میں قائم کیا گیاتھا، بعد ازاں اس ادارے کے ذریعے سول آبادی کو بھی مواصلات کی سہولیات فراہم کر دی گئیں۔ اب یہ ادارہ مقامی آبادی کو ‘ایس کام’ کے نام سے موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی فراہم کررہا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ ادارہ اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے پولو میچ کرانے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔
گلگت بلتستان میں ٹیلی کام نظام ابھی تک بیسویں صدی کے اواخر کے ذرائع مواصلات تک محدود ہے۔
گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے یہاں کسی بھی قسم کاٹیکس عائد نہیں کیا جا سکتایہی وجہ ہے کہ ایس کام اورایس سی او اس وقت یہاں کے باشندوں کو بلا محصول خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن اس نظام میں جہاں اچھائیاں ہے وہاں اس نظام کو بہتر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ آج دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہو چکی ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے کئی مراحل طےکیے جا چکے ہیں لیکن گلگت بلتستان کے باشندے تاحال تیزرفتار انٹرنیٹ اور ذرائع مواصلات سے محروم ہیں۔آج جہاں ایک طرف جہاں پاکستان کے باقی علاقوں کے عوام تھری جی اور فور جی کی سہولت سے لطف اندوز ہورہے ہیں تو دوسری طرف گلگت بلتستان کے باشندے آج بھی انٹرنیٹ اور موبائل فون جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن کی جانب سے فراہم کردہ انٹرنیٹ کی سہولت ابھی تک صرف شہری آبادیوںمیں دستیاب ہے اور رفتار کے اعتبار سے بے حد غیر معیاری ہے۔
نجی موبائل فون کمپنیاں موبائل سروس کے نام پر کڑوروں روپے غیر قانونی طور پر ٹیکس کی مد میں وصول کر رہی ہیں اورمقامی حکومت اس معاملے سے بالکل لاتعلق ہے جس کی واضح مثال اس خطے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کا نہ ہونا ہے۔ جس طرح دوسرے شہروں کے عوام کو مواصلات کے جدید ذرائع استعمال کرنے کا حق ہے بالکل اسی طرح گلگت بلتستان کے عوام کو بھی ان سہولیات کے حصول کا حق حاصل ہے۔ اس خطے کے لوگ بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات سرانجام دے کر غیر ملکی زردمبالہ کے ذریعے ملکی معاشی ترقی میں اپناکردار ادا کر رہے ہیں اس لیے یہاں کے عوام کو بھی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
آج جہاں ایک طرف جہاں پاکستان کے باقی علاقوں کے عوام تھری جی اور فور جی کی سہولت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو دوسری طرف گلگت بلتستان کے باشندے آج بھی انٹرنیٹ اور موبائل فون جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں
ایس سی او کی موبائل اور انٹرنیٹ سہولیات شہری علاقوں کے ساتھ دیہی اور بالائی علاقوں تک پہنچانے کی بھی ضرورت ہے۔ اسی طرح نجی موبائل کمپنیوں کو بھی یہاں کی متازعہ حیثیت کے پیش نظر ٹیکس فری تھری جی سروس مہیا کرنی چاہیئے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت خطے میں پچاس کے قریب ایس سی او فرنچائیز موجود ہیں جن میں سے صرف بیس کے قریب مراکز پر انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے جو آبادی کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ سی ایس او کو چاہیئے کہ ترجیحی بنیادوں پر اپنے تمام مراکز پر ڈی ایس ایل کی سہولت فراہم کرے۔ یہاں کے عوام پہلے ہی ہر شعبے میں نظراندازکیے جانے کے سبب احساس محرومی کا شکار ہیں۔ دفاع، سیاحت، کوہ پیمائی سمیت ہر شعبے میں یہاں کے عوام پاکستان کی خدمت کررہے ہیں لیکن بدقسمتی سے جب یہاں کے مسائل اور سہولیات کی عدم دستیابی کی بات اٹھائی جاتی ہے تو متنازعہ خطہ ہونے کا بہانہ بنا کر یہاں کے باشندوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ اس روش کوترک کرنا اب ضروری ہو گیا ہے۔ تمام تر قربانیوں کے باوجود گلگت کے عوام کو کو دیوار سے لگائے رکھنا ناانصافی ہے۔ یہاں کے عوام نے مملکت پاکستان کے خلاف کبھی کوئی نعرہ بلند نہیں کیا حالانکہ پاکستان کے خود مختار صوبوں میں تمام تر سہولیات کے باوجود آج بھی کہیں سندھو دیش، تو کہیں آزاد بلوچستان کے نعرے لگ رہے ہیں۔لہذا اس خطے کی دفاعی اورجعرافیائی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے کشمیر کے قضیے سے علیحدہ کر کے قومی دھارے میں شامل کرنے کے راستے ڈھوندنے چاہیئں کیونکہ یہاں کے عوام جب باہر کی دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں کئی سولات جنم لیتے ہیں ۔ حاکم وقت کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ان کی ذمہ داریاں صرف سرحدوں کی حفاظت تک محدودنہیں بلکہ یہاں بسنے والوں کی معاشی ضروریات پوری کرنا بھی وفاق کے فرائض میں شامل ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو ان کی تمام تر قربانیوں کے باوجود اقتصادی راہداری منصوبے میں شرکت ، تعلیم ،سائنس اور ٹیکنالوجی اورانٹرنیٹ کی جدید سہولیات سے محروم رکھنا اس خطے کے عوام کے ساتھ کھلی زیادتی ہے لہٰذا امید کرتے ہیں کہ ارباب اختیار اس خطے کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات کریں گے۔