فرصتِ شوق کہاں
رشید امجد: روشنی کی کرنیں غائب ہوگئی تھیں، بارش کی کنیوں نے جھیل کی سطح پر رقص شروع کر دیا تھا، بیٹے نے اُس کے کندھے کو ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔’’ کن خیالوں میں گم ہیں ہم آپ کو کتنی دیر سے ڈھونڈ رہے ہیں اور آپ یہاں بیٹھے بھیگ رہے ہیں۔‘‘
مہر منگ کی کہانی
زاہد حسن: سورج غروب ہوتے ہی دیوان سنگھ ٹھیکے دار کے گھر مہر منگ بڑی شان کے ساتھ آیا۔ باہر کے دروازے پر ٹھہر کے اونچی آواز سے کلام پڑھا۔ سارا خاندان، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کلام سننے لگا۔
ساتواں سبق
زیف سید: دس میں سے نو ایسے لوگ مخبر ہوتے ہیں اور سگریٹ کی ایک ڈبیاکے عوض آپ کے راز پولیس تک پہنچانے میں ذرا بھر دریغ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں سے بچ کے رہیں کریں۔
من کی ملکہ
شہناز شورو: ملکہ کا ذِکر اب شہر بھرکا موضوع تھا۔۔۔ ہر شخص کے پاس اپنا ہی ترازو تھا۔۔۔ اور ملکہ کے گناہوں کا پلڑا۔۔۔ بلاشبہ ہر جا، بھاری تھا